غیر یقینی پڑوس

بے شک قسمت بدلتی ہے، آج کے حکمران کل کی اپوزیشن میں ہوں گے لیکن بنگلا دیش میں صرف انتقام کی سیاست ہی نظر آتی ہے

NüRBURGRING:
یہ آدھی رات کی دستک نہیں تھی بلکہ دن دیہاڑے بڑی دیدہ دلیری سے سابق وزیراعظم مودود احمد کو پولیس نے اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ ڈھاکہ کے ایک ہوٹل سے باہر نکلے۔ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے چوٹی کے اپوزیشن لیڈر ہیں جب کہ عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ دونوں سے ہی نفرت کرتی ہیں۔ پچھلی مرتبہ جب مودود کو حراست میں لیا گیا تھا تو یہ جنرل ارشاد کی فوجی حکومت تھی جو خود بھی اس وقت گرفتار ہیں اور دونوں کو ایک ہی جیل میں رکھا گیا ہے۔ انھوں نے اور ان کی پارٹی جاتیو سنگشاد نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

بے شک قسمت بدلتی ہے۔ آج کے حکمران کل کی اپوزیشن میں ہوں گے۔ لیکن بنگلہ دیش میں صرف انتقام کی سیاست ہی نظر آتی ہے۔ خالدہ نے حسینہ کو' جب وہ اقتدار سے باہر تھی' صفحہ ہستی سے ہی مٹا دینے کی کوشش کی تھی۔ مودود اور دیگر زیر حراست لوگوں نے وزیر اعظم کی مطلق العنانی کی مخالفت کی جرات کی ہے۔ لامحدود اختیارات کا مالک حکمران اچھا نہیں ہوتا لیکن جب وہ اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دے تو پھر اور بھی بُرا ہو جاتا ہے۔ یہی بنگلہ دیشی سیاست کا مخمصہ ہے۔

بنگلہ دیش کی اپوزیشن پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ ایک غیر جانبدار اتھارٹی کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں۔ اس کے بجائے حسینہ نے اپنی حکومت کے تحت انتخابات کرائے ہیں او اس آئینی تقاضے کا کوئی خیال نہیں رکھا کہ انتخابات ایک نگران حکومت کے تحت ہونگے جس کی سربراہی سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے پاس ہو گی۔ جہاں تک موجودہ انتخابات کا تعلق ہے تو 154 اراکین ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی متفقہ طور پر منتخب ہو گئے جب کہ 103ارکان چند دن قبل یکطرفہ ووٹ سے کامیاب ہو گئے تھے۔ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کی مجموعی نشستیں 300 ہیں۔ حسینہ کی کامیابی اس صورت میں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے جب بی این پی اور بہت سی دیگر جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور انھوں نے نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ ایک روزنامے کے ذریعے کرائے جانے والے سروے سے ظاہر ہوتا ہے 77 فیصد عوام نے انتخابی نتائج کو قبول نہیں کیا۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو ملک میں نہ ختم ہونے والا تشدد ہے۔ الیکشن بائیکاٹ اور ہڑتالوں میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ اس کا لازماً اثر اقتصادیات پر پڑے گا جس میں کہ گزشتہ پانچ برس سے چھ فیصد کے حساب سے شرح نمو ہو رہی ہے۔

اب ملک میں مزید بیروز گاری، مزید غربت اور مزید کساد بازاری اور افراط زر پھیلے گا۔ لیکن اس صورت حال پر، جو دن بدن مزید بگڑ رہی ہے، نہ حسینہ کو اور نہ ہی خالدہ کو کوئی تشویش دکھائی دیتی ہے۔ اس صورت حال کا تمام تر فائدہ جماعت اسلامی کو پہنچ رہا ہے جو بلاشبہ خالدہ کی طرف ہے مگر بنیاد پرستی پھیلا کر معاشرے کو تقسیم در تقسیم کا شکار بنا رہی ہے۔ اور چونکہ جماعت خاصی منظم ہے اس نے اصحاب دانش کا ذہن بھی مسموم کر دیا ہے۔ جماعت اپنے کارکنوں کے ذریعے تشدد میں بھی ملوث ہے۔ ادھر بدقسمتی سے بھارت نے کھلم کھلا حسینہ واجد کی طرفداری شروع کر دی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حسینہ بھی اپنے والد اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی طرح سیکولر ہیں۔ وہ آزاد خیالی کی زبردست حامی ہیں لیکن ان کا ہر قیمت پر اقتدار میں رہنے کے عزم نے تمام اخلاقی روایات کو دریا برد کر دیا ہے۔ نئی دہلی کو مصالحتی کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ شروع میں یہ کوشش نظر آئی تھی مگر اب ادھر سے مکمل جانبداری کا مظاہرہ ہے۔


بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات بھڑک رہے ہیں، جس کی حدت ہندو آبادی کو محسوس ہورہی ہے، جس کی تعداد اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اگر بھارت کو کوئی ترجیح دکھانا ہی ہے تو اسے بنگلہ دیش کے اولین وزیر خارجہ کمال حسین یا نوبل انعام یافتہ پروفیسر یونس جیسے کسی شخص کی حمایت کرنی چاہیے تا کہ وہاں تیسرا محاذ بن سکے۔ خالدہ اگرچہ عمومی طور پر آزاد خیال ہیں لیکن عبدالقادر مُلا کی پھانسی کے خلاف اس کے ردعمل نے ان کے لیے ایک سوالیہ نشان پیدا کر دیا ہے۔ عبدالقادر نے 1971ء میں اپنے ملک کے عوام کے خلاف زیادتیاں کی تھیں تاہم اس کے باوجود ایک بوڑھے شخص کو پھانسی دینے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے مُلا کو شہید قرار دینے کی متفقہ قرار داد منظور کی جس سے ایک جانبدار ذہن کی نشاندہی ہوئی ہے۔ بجائے اس کے کہ اس پر افسوس ظاہر کیا جاتا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایسے طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ جیسے جو کچھ بھی ہوا اسے کوئی ندامت نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے حوالے سے پاکستان ایک غلط پالیسی پر کاربند ہے۔

پاکستان کی حکومتیں قائداعظم کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکیں جنہوں نے نصیحت کی تھی کہ سیاست کے ساتھ مذہب کو شامل نہ کیا جائے۔ لیکن اسلام آباد نے پہلے تو طالبان کی تربیت کی کہ وہ افغانستان میں لڑیں۔ اب وہی طالبان پاکستان کے استحکام کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔پاکستان میں بنیاد پرستی بڑھ رہی ہے اور آزاد خیالی کی آواز شاذ و نادر ہی سنائی دیتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہیں۔ انھیں ایک طرف دائیں بازو کی قوتوں کا سامنا ہے جو کہ ان کی اپنی جماعت میں بھی کافی ہیں اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ہے اس کے باوجود انھوں نے اپنے بھائی شہباز شریف کو جو پنجاب کے وزیر اعلی ہیں وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کے لیے بھارت بھیجا۔ اگرچہ اس ملاقات کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ نئی دہلی جامع مذاکرات بحال کرنے پر تیار نہیں جو کہ دونوں ملکوں میں خلیج کم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے۔ نواز شریف ممبئی پر 26/11 کے حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو سزا دلوا کر تعلقات کی بحالی کے عمل میں تیزی پیدا کر سکتے تھے۔

حکومت نے پرویز مشرف کے اس بیان کی تشہیر سے گریز کیا ہے کہ فوج ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے خوش نہیں' اس بیان کی تردید بھی نہیں کی گئی ہے۔ اس سے غداری کا مقدمہ ایک مذاق بن گیا ہے۔ فوج بدستور پاکستان کا تیسرا ستون ہے۔ اور یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کشمیر کے ایک حل پر رضا مند ہو گئی جو دونوں ملکوں کے مابین تنازعے کی اصل جڑ ہے اور یہ حیرت کی بات تھی۔فوج اپنے سابق سربراہ کو سزائے موت یا عمر قید ملنے کو برداشت نہیں کر سکتی۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں خرابی صحت کی بنا پر بیرون ملک بھیجنے کا باعزت طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ پاکستان اور بھارت میں تعلقات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ کشمیر پر ایک قابل قبول سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا ایک حل نکل آیا ہے لیکن اس کو حتمی شکل دینے کی راہ میں بعض دیگر چیزیں حائل ہو گئی ہیں۔ آخر اس معاملے پر نظرثانی کیوں نہیں کر لی جاتی۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story