دو بیانیے

پاکستان میں 2 طرح کے مکتبۂ فکرہیں اور ان کے کئی ایک ملے جلے نظریات۔ پاکستان کیا ہو،ایک مذہبی ریاست یا پھرایک جمہوریہ؟


امتیاز عالم January 09, 2014

پاکستان میں دو طرح کے مکتبۂ فکر ہیں اور ان کے کئی ایک ملے جلے نظریات۔ پاکستان کیا ہو، ایک مذہبی ریاست یا پھر ایک جمہوریہ؟ زندگی و علم، حقوق و آزادی، ثقافت و وطنیت، روایت پسندی و جدیدیت پر ان کی علیحدہ علیحدہ رائے ہے۔ آج شدت پسندی اور انسانی معاملات و ریاستی امور کے بارے میں ان نظریات میں خلیج بڑھ گئی ہے۔ ذیل میں ہر دو مکاتبِ فکر یعنی مذہبی و روایت پسند اور جمہوری و روشن خیال بیانیوں کا ایک عمومی جائزہ پیشِ خدمت ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر دو مکاتبِ فکر کی ویسی ہی ترجمانی کی گئی ہو جیسے کہ ان کے مختلف النوع مقلدین شاید سمجھتے ہوں۔ اس کے لیے معذرت۔

مذہبی و روایت پسند بیانیہ
1۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ اسلام نہیں تو پاکستان کیوں؟ وطنیت غیراسلامی بنیاد ہے۔ اسلامی ریاست کی تشکیل ہی 'دوقومی نظریہ' یا پھر 'نظریۂ پاکستان' کا منتہائے مقصود ہے۔ اسلامی شناخت، شہریت اور قومیت سے بالاتر ہے۔ جدید قومی ریاست اور شہریت کے دُنیاوی تصور، اُمہ کے آفاقی تصور سے متصادم ہیں۔ مختصراً، عقیدہ افضل، وطنیت اور حب الوطنی باطل۔

جمہوری و روشن خیال بیانیہ
1۔ قبل از تقسیم ہند مسلمان کی تحریک بنیادی طور پر اقلیتوں کے حقوق کے لیے تھی اور ''دو قومی نظریہ'' اُسی کا مظہر تھا۔ پاکستان 1940ء کی قرار دادِ لاہور کی روشنی میں مسلم اکثریتی علاقوں میں قائم ہوا، برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لیے نہیں۔ پاکستان میں بسنے والی قومیتوں اور لوگوں کی اپنی تاریخ اور منفرد ثقافتی جڑیں ہیں۔ مسلم اکثریتی مملکت کے باوجود اس کی ایک مضبوط علاقائی (Territorial) بنیاد ہے جو کثیر الاقومیتی ورثوں کے رضاکارانہ اختلاط سے پاکستانی قوم کی تشکیل کرتی ہے۔ نظریہ اتنا ہی فیصلہ کن ہوتا تو مشرقی پاکستان کیوں علیحدہ ہوتا؟ یا پھر بھارت کے سارے مسلمان کیوں نہ ہجرت کرتے؟

مذہبی و روایت پسند بیانیہ
2۔ مقامی ثقافتوں اور قومیتی ورثوں کی بات عصبیت پسندی ہے اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ قوم، قومیت، وطنیت اور علاقائیت کے تصورات، اسلامی اُمہ کی آفاقی ایکتا سے متصادم ہیں اور اسلامی نظریہ کی بنیاد پر ہی ملکی نظام کو استوار کیا جا سکتا ہے جو شریعت کے نفاذ اور خلافت کے قیام سے ممکن ہے۔ ایک اسلامی ریاست بذاتِ خود اُمہ کا حصہ ہے جب کہ ریاست کی قومی دائرے میں تشکیل اُمہ کے آفاقی تصور سے متصادم ہے۔ (ریاست کو مانتے بھی نہیں اور اسے اسلامی بھی بناتے ہیں!)

جمہوری و روشن خیال بیانیہ
2۔ سیاسی طور پر اسلام کے مقدس نام کو بطور نظریاتی ڈھال کے محروم قومیتوں اور مظلوم لوگوں کے استحصال اور قومی اکائیوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسلام اور ''قومی زبان'' کے نام پرعلاقائی زبانوں، ثقافتوں اور حقوق کو پامال کیا گیا۔ نظریۂ پاکستان یا پھر قبل از تقسیمِ ہند دو قومی نظریہ کی آڑ میں ریاست کی تعمیر سے قومی یکجہتی پیدا ہونے کے بجائے منتشر ہوتی گئی اور اب مذہبی فرقہ واریت کے فروغ سے مذہبی بنیاد پر قومی ریاست کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں رہی۔ مسلم و غیر مسلم اقلیتوں کو تحقیر و تفریق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو قومی ایکتا کی راہ میں مانع ہے۔

مذہبی و روایت پسند بیانیہ
3۔ ریاست، قومیت، شہریوں کا رہن سہن، ثقافت، کاروبارِ زندگی، شہریوں کے حقوق و فرائض، غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق، بنیادی انسانی حقوق، خواتین کی حیثیت، سب کا تعین اسلامی نظریہ کی بنیاد پر ہو گا، جس کی تشریح علمائے کرام کریں گے، نہ کہ پارلیمنٹ۔ مغربی طرزِ جمہوریت یا تو غیراسلامی ہے یا پھر ایک عبوری امر مجبوری جسے وقتی اور تدبیری طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلام کو رائج کرنے کی کوشش کی جائے گی اور بالآخر اسلامی خلافت قائم کی جائے گی۔ جب کہ خلافت کا نظریہ اُمہ کے آفاقی تصور سے بندھا ہے۔

جمہوری و روشن خیال بیانیہ
3۔ پاکستان کی قومی ریاست، وفاقی اکائیوں کے اتحاد کی بنیاد پر ایک جمہوریہ ہو جہاں سب شہری بلا رنگ و نسل و جنس اور مذہب یکساں حقوق کے حامل ہوں۔ جمہوریت، وفاقیت، آئین و قانون کی حکمرانی اور جدید نظامِ حکومت جس میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور عوام کی اعلیٰ حاکمیت منتخب نمایندوں کے ذریعہ بروئے کار لائی جائے۔ جمہوری ریاست کا تصور ملائیت سے متصادم ہے اور علمائے کرام کو آئین و قانون کی تشریح کا حقِ ربانی عطا نہیں کرتا، ویسے بھی اسلام میں پاپائیت کا تصور نہیں۔ اور مذہب و عقیدے کا معاملہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے، جن کا ریاست اور اس کے امور سے کوئی تعلق نہیں۔

مذہبی و روایت پسند بیانیہ
4۔ فنونِ لطیفہ، مقامی یا غیرملکی ثقافتیں، خواتین کی آزادی، حقِ اظہار، تحقیق کی آزادی، بنیادی حقوق، عالمی قوانین، جدیدئیت، عقلیت، محبت پیار، خاندانی منصوبہ بندی، عالمی منڈی کے قوائد، زمینی ملکیت پر حد، اسمگلنگ پر بندش، کثیر الزوجگی پر کسی طرح کی قدغن، انصاف کے قانونی تقاضے بشمول حق صفائی و دفاع، ریاست کی جانب سے قتل مقاتلے کی بندش، پدر شاہی بربریت کا خاتمہ، ذاتی اور نجی معاملات میں مداخلت کی ممانعت کم و بیش خلافِ اسلام ہیں۔ علم کا واحد ذریعہ صرف اور صرف دینی علم ہے، باقی سب عمرانیاتی و مادی علوم، عقل و تحقیق انسانی ہیں اور قابلِ انحصار نہیں۔ بدی و اچھائی کے معیار ابدی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔

جمہوری و روشن خیال بیانیہ
4۔ انسانی راحت، آرٹس، موسیقی، فنونِ لطیفہ، ثقافتی ورثے، حقِ تخلیق و تحقیق، حقِ اظہار، انسانی حقوق کا آفاقی اعلان نامہ، جدیدیت، عقلیت، محبت، پیار، انسانیت دوستی، ہر عقیدہ کے ماننے والوں کا اپنے عقیدہ پر رہنے کا بلاریاستی مداخلت حق، ذوقِ جمال و آرائش، عالمی دُنیا کی ایجادات اور ترقی سے استفادہ، سائنسی و عمرانی علوم کا فروغ، خاندانی منصوبہ بندی، خواتین کی آزادی اور پدرشاہی مظالم کا خاتمہ، قانون کی حکمرانی، بلاتفریق رنگ و نسل و عقیدہ اور جنس ریاست و معاشرے کی نظر میں مساوی سلوک، نجی زندگی کی پردہ داری، جمہوری اقدار جہاں اقلیت کو بھی وہی حقوق ہوں جو اکثریت کو حاصل ہوتے ہیں۔ سماجی و اخلاقی اقدار، زمانے کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ 'ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں'

مذہبی و روایت پسند بیانیہ
5۔ سوائے اسلام کے باقی تمام ادیان باطل ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے گمراہ ہیں۔ دیگر ادیان کے ماننے والے کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ حتیٰ کہ ایک مسلک کو ماننے والے مسلمان دوسرے مسلک کے مسلمانوں کو کافر گردانتے ہیں اور اُن کے قتال پر مصر ہیں۔ شریعت اور اللہ اور رسول کے احکام کی بجاآوری کے لیے مسلمانوں کی جمعیئتیں کوئی بھی راہ اختیار کر سکتی ہیں، بھلے ملکی اور عالمی قوانین اس کی اجازت نہ دیتے ہوں۔ ایک راسخ العقیدہ مسلمان کو حق ہے کہ لوگوں کو برائی سے روکے اور اچھائی کی طرف راغب کرے، بھلے ریاستی قوانین اس کی اجازت نہ دیں۔

جمہوری و روشن خیال بیانیہ
5۔ بلاتمیز مذہب و عقیدہ، سب انسان برابر اور لائقِ عزت ہیں۔ مذہبی بنیاد پر تفریق غیر منصفانہ ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں میں اچھے لوگ بھی ہیں اور بُرے بھی۔ کسی بھی مذہب کو ماننے والا دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا ازلی دشمن نہیں۔ انسان ہونے کے ناطے سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ مسلمانوں کا رب، رب العالمین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں۔ مذہب یا مسلک کی بنیاد پر تفریق، قتل مقاتلہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ اور ریاست و قانون اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ جہاں ایسے روا رکھا جائے گا، وہاں جنگل کا قانون تو ہو گا، انسانی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔

مذہبی و روایت پسند بیانیہ
6۔ عالمی برادری اور جدید دُنیا اسلام اور مسلم دُنیا کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، مسلم دُنیا کے ذرایع پر قابض ہیں یا اپنا قبضہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ہنود، یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں اور مسلمانوں کی تمام تر پسماندگیوں، محرومیوں اور کج رویوں کے ذمے دار ہیں۔ مسلمانوں میں تفرقے کے بیج بو رہے ہیں اور مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا رہے ہیں۔ 9/11 کا واقعہ بھی یہود و نصاریٰ کی سازش ہے تا کہ مسلمانوں کو بدنام اور مغلوب کیا جا سکے۔ بیماری، کمزوری، پسماندگی، جہالت، تعصب، فرقہ پرستی، انتشار اور نفرت انگیزی کے مسلمان خود ذمے دار نہیں بلکہ ان کے پیچھے بیرونی ہاتھ کارفرما ہیں۔

جمہوری و روشن خیال بیانیہ
6۔ یقینا نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی ادوار میں مشرق، جہاں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں، مغرب کے زیرِ نگیں ہے جو بربریت و استحصال سے عبارت ہے۔ لیکن یہ بنیادی حقیقت اپنی جگہ ہے کہ مسلم دُنیا نے کئی صدیوں سے علم و تحقیق، فکری جستجو اور تخلیق و ایجاد کو خیرباد کیے رکھا ہے۔ یہاں تک کہ عقلیت کا دور جو مشرق سے شروع ہو کر مغرب میں جا بسا، مسلم دُنیا اس سے صدیوں دُور ہے۔ مسلم دُنیا کے 56 ممالک،چند استثناؤں کو چھوڑ کر، دُنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شامل ہیں۔ جہاں صنعت ہے نہ ٹیکنالوجی۔ سماجی و مادی، سائنسی علوم ہیں نہ فنونِ لطیفہ۔ جہاں یا تو بادشاہتیں ہیں یا پھر مختلف النوع آمریتیں، جہالت پسماندگی، غربت اور دقیانوسیت اور توہمات کا چلن ہے۔ مستقبل کی جانب زقند لینے کے بجائے، مسلم دُنیا ماضی میں مراجعت کرنے پر مصر ہے۔ اور خود مسلمان علماء اور مسلم ممالک کے حکمران طبقے اس کے ذمے دار ہیں۔

(یہ مقالہ سیفما کی چھٹی قومی کانفرنس میں پڑھا گیا۔ اس میں بیان کیے گئے نقطہ نظر کے حوالے سے قارئین اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔قارئین کی رائے کو انھی صفحات پر شایع کیا جا سکتا ہے۔)
(ادارہ)

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں