معاشی استحکام کے فیصلے

پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ کشمیرپاک بھارت مسائل کے درمیان بنیادی تنازع ہے۔

پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ کشمیرپاک بھارت مسائل کے درمیان بنیادی تنازع ہے۔ (فوٹو : فائل)

وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پرندیم بابر نے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم کا قلمدان چھوڑ دیا، قبل ازیں وفاقی وزراء اسد عمر ،شفقت محمود اور شیریں مزاری نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھاکہ گزشتہ سال ملک میں پیدا ہونیوالے پیٹرولیم بحران کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کو عہدہ چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔

سیکریٹری پیٹرولیم کو بھی عہدے سے ہٹا کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیج دیا گیاہے، وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس بحران کی تحقیقات کی جائیں جو ایف آئی اے نے کیں، 90 دنوں میں ایف آئی اے فرانزک تحقیقات مکمل کرے گی۔ اگرچہ معاونِ خصوصی اور سیکریٹری پٹرولیم پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوالیکن جو بھی ذمے دار نکلا ان کو ہتھکڑیاں لگیں گی 'جو بھی مجرم ہوگا جیل جائے گا' دیکھنا ہے ذخیرہ اندوزی کس نے کی' کیا آئل کمپنیوں نے کم از کم پیٹرولیم مصنوعات کی مطلوبہ مقدار رکھی'جو سیلز رپورٹ کی گئیں، کیا واقعی وہ ہوئیں؟

پوری پٹرولیم چین کی تحقیقات کی جائیں گی' وزیراعظم کا مافیا کو پیغام ہے کہ بچ نہیں سکو گے' معیشت کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے بہت ہی کم سزائیں ہیں'جو مافیا عوام کا پیسہ نکال رہا ہے وزیراعظم ان کو بالکل نہیں جانے دیں گے۔ پریس کانفرنس میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ پٹرولیم بحران سے متعلق ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ چند ماہ قبل کابینہ کو پیش کی گئی تھی لیکن عوام شفاف تحقیقات کے نتائج کے منتظر ہیں، ذمے داروں کو پس دیوار زنداں دیکھنا چاہتے ہیں۔ مافیا تاحال کیفرکردار کو نہیں پہنچے۔بقول شاعر

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

پیٹر ولیم بحران درحقیقت ملکی توانائی مسئلہ میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے، عوامی سائیکی یہ ہے کہ جتنی مہنگائی ہوتی ہے اس کے ڈانڈے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے ملتے ہیں، اور مہنگائی کی روک تھام غالباً اقتصادی ماہرین اور معاشی مسیحاؤں کے بس کی بات نظر نہیں آتی،پٹرولیم ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی بحران سیاسی شریانوں میں داخل ہوچکا ہے، معیشت کے اضمحلال اور عوام کی مجبوری اور اقتصادی عدم استحام کا اصل سبب اور ماخذ ہی پٹرولیم بحران ہے۔

دوسری طرف معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت جن ناتواں ستونوں پر کھڑی ہے، اس کی عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدوں کی ناگزیر مجبوری ہے کہ حکومت توانائی بحران کا ایک ہی حل نکالے اور وہ ہے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جائیں۔

ملک بھر میں کورونا وائرس سے ایک دن میں مزید 61 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ ریکارڈ 4 ہزار 541 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو 8 ماہ بعد ایک روز میں رپورٹ ہونے والے سب سے زیادہ کیسز ہیں۔مجموعی اموات 14 ہزار 108 اور مصدقہ متاثرین کی تعداد چھ لاکھ 46 ہزار 776 تک جا پہنچی ہے۔ پانچ لاکھ 91 ہزار 892 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ فعال مریض 40 ہزار 776 ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق ابتک سندھ میں دو لاکھ64 ہزار 353، پنجاب میں دو لاکھ سات ہزار 765 کورونا مریض ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 83 ہزار630، اسلام آباد54347، بلوچستان 19453، آزادکشمیر 12245 اور گلگت بلتستان میں 4983 افراد متاثر ہوچکے۔

ترجمان پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے مطابق پنجاب میں کوروناکے2451 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ لاہور 1566،فیصل آباد 190، راولپنڈی میں 126نئے مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا متاثرین بارہ کروڑ اٹھاون لاکھ سے تجاوز کرگئے، وائرس سے اب تک اموات ستائیس لاکھ اکسٹھ ہزار سے زائد ہوگئیں، کورونا کی ہلاکتوں کے تاریخ ساز ریکارڈ کی تیاریوں کے لیے عالمی ادارہ صحت ایک جامع رپورٹ مرتب کرنے کا عندیہ دے چکا ہے، لیکن ملکی سطح پر کورونا پالیسی تاحال الجھاوے سے باہر نہیں نکل سکی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے حوالہ سے ایک اطلاع عوامی حلقوں میں گردش کررہی ہے کہ قرنطینہ میں وزیراعظم نے اجلاس بلایا جب کہ پوری قوم کو بتایا جارہا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر خطرناک ہے جس کے پیش نظر عوام کو ایس اوپیز کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے اور اسے غیر سنجیدگی کی نذر نہیں کرنا چاہیے،بحث اس بات پر ہورہی ہے کہ وزیراعظم کو قرنطینہ میں سیاسی اجلاس سے گریز کرنا چاہیے تھا، عوام کا کورونا کی لہر سے پیدا ہونے والے جذباتی اور اعصابی ہیجان سے نکلنا ناگزیر ہے کیونکہ انھیں ایسے واقعات اور اقدامات غیر معمولی اضطراب میں ڈال سکتے ہیں۔


سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ حکومت کو سیاسی ایشوز پر محتاط طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی حلقے بھی حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ کورونا کی لہر پر قوم محض پند ونصائح سے مطمئن نہیں ہوگی، اسے ارباب اختیار کے رویوں اور طرز عمل پر گہری تشویش ہے، وائرس کی روک تھام کے لیے ٹھوس حکمت عمل وقت کی ضرورت ہے، حکومت ان چیلنجوں پر توجہ دے جن سے نمٹنے میں پوری قوم ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے بشرطیکہ ریاستی وحکومتی ادارے مکمل سنجیدگی کے ساتھ اس موذی وبا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لائیں۔

میڈیا کے مطابق کورونا سے مزید43جاںبحق، کل اموات6140 ہوچکی ہیں۔ ایک بیان میں وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ کورونا سے مزید ایک مریض نے دم توڑ دیا، کل اموات 4487 ہوگئی ہیں۔ 293 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کوبزرگ شہری کی حیثیت سے کوٹ لکھپت جیل میں ویکسین کی پہلی ڈوز لگا دی گئی۔ جناح اسپتال کی میڈیکل ٹیم نے ویکسین لگائی۔ شہباز شریف چند ماہ پہلے کورونا وائرس سے متاثر بھی ہوئے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر مملکت دانیال عزیز کا کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آگیا۔ وفاقی وزیر اور سربراہ این سی او سی اسد عمر کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا اجلاس ہوا۔ جس میں کورونا مثبت کیسز کی بڑھتی شرح کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

کورونا ایک عالمی چیلنج ہے ۔ اس کے سدبابب کے لیے قوم جو ہوشمندی اور سنجیدگی سے اس وائرس کو کنٹرول کرنے کی ضرورت کا احساس دلارہی ہے ، اس پر حکومت کو بھی اپنی کوششوں میں ادارہ جاتی شفافیت اور ذمے دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، کورونا نے ثابت کیا ہے کہ یہ کمبل آسانی سے دنیا کی جان نہیں چھوڑے گا۔

ادھر بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج مکند نراونے ،نے منطق پیش کی ہے کہ ایک ہی حکمت عملی بار بار دہرا کر مختلف نتائج کی توقع کرنا درست نہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان گزشتہ چند برسوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تناؤ کے بعد تعلقات میں سردمہری کی برف پگھلنے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔

اسی تناظر میں جنرل منوج مکند نراونے کا بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی چیز کے نتائج نہیں مل رہے تو ایسا نہیں ہے کہ ایک ہی کام یا حکمت عملی بار بار دہراتے رہیں،یہ بات انھوں نے انڈیا کے ایک مشہور میڈیا ہاؤس کے زیر اہتمام ہونے والے انڈیا اکنامک کانکلیو کے ایک سیشن میں بات کرتے ہوئے کہی۔ جنرل منوج نے نئی بات نہیں کی ہے لیکن ان کے لیے سیکیورٹی کے حوالہ سے کچھ کہنا اس لیے ان کی داخلی ضرورت ہے کہ انھیں بھارت کی دفاعی ترجیحات کے گرد اپنا بیانیہ دینا ہے۔

خیال رہے کہ دونوں ملکوں کی فوج کے ڈی جی ایم اوز کی جانب سے 25 فروری کو سیز فائر کے مشترکہ اعلامیہ جس کے مطابق 2003 کے سیز فائر کے معاہدے کی تحت جنگ بندی ہو گئی ہے اور اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے بعد گزشتہ پانچ چھ برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ لائن آف کنٹرول پر خاموشی ہے۔انھیں یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اس معاہدے کے بعد سے ابتک لائن آف کنٹرول پر ایک گولی بھی نہیں چلی ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایک حالیہ بیان، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کو ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنا ہو گا۔ جنرل منوج نے کہا کہ کافی عرصے سے سرحد پار سے کوئی فائرنگ نہیں ہوئی نہ ہی سرحد پر دخل اندازی کی کوئی کوشش کی گئی ہے اور یہی مستقبل میں اس معاہدے کی پاسداری پر پرامید رہنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

بہر حال جنرل منوج کو خطے کی صورتحال اورپاک بھارت سیکیورٹی صورتحال پر گفتگو میں معاملات کا حقیقت پسندانہ تزویراتی پہلو سامنے رکھنا چاہیے، پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خاتمہ اور دو طرفہ تعلقات میں مسائل کے پرامن حل پر زور دیتا آیا ہے، گیند بھارتی کورٹ میں ہے ، اس سوال پر کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کا کوئی معاہدہ ہے کیا؟

جنرل منوج مکند نراونے کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ایک طویل عرصے سے سرحد کے پار اس سلسلے میں بات چیت کر رہے تھے لیکن بدقسمتی سے اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔ اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ معاہدہ قائم رہے گا۔ اس کے لیے ہمیں تحمل سے جائزہ لینا ہو گا۔

جب برف پگھلے گی اور راستے کھلیں گے، بہر کیف بھارتی جنرل کو خطے کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے تاریخی تسلسل اور حالات کی تفصیل پر حقائق کو درست تناظر میں دیکھنا ہوگا، اگر تعلقات کو بہتری کا راستہ دیکھنے کی کوئی صورت انھیں نظر آتی ہے تو انھیں خطے کی ڈائنامکس کو حقائق اور زمینی صورتحال کے آئینہ میں دیکھنا ہوگا، پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ کشمیرپاک بھارت مسائل کے درمیان بنیادی تنازع ہے۔ بھارت جتنی جلد اس حقیقت کو مان لے ، اسی میں خطے کا مفاد ہے۔
Load Next Story