خود شناسی کا جوہر…

شبنم گل انسان کو فطرت سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور اسے فطرت سے جڑے رہنے کا مشورہ دیتی ہیں۔

معروف تخلیق کار شبنم گل نے اپنے فکری اور سماجی نفسیات کی مختلف جہتوں کو ''خودشناسی کے جوہر'' میں نہایت خوبصورتی سے سمویا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر لگتا ہے جیسے مصنفہ نفسیات کی پروفیسر ہوں اور انھوں نے انسانی رویوں اور رجحانات کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ و مطالعہ کیا ہو۔

اس منفرد تخلیق میں انھوں نے اپنے تمام تر مشاہدات اور تجربات کو سمونے کی کوشش،کمال مہارت اور علمی قابلیت سے کی ہے جس میں وہ سو فیصد سے بھی بڑھ کر کامیاب رہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ مسائل چھوٹے ہوں یا بڑے انسانی ذہن اور رویوں پر اپنے منفی یا مثبت اثرات ضرور چھوڑتے ہیں البتہ ان مسائل سے بہ خوبی نبرد آزما ہونا ہی انسانی ذہن کی صلاحیت کا امتحان ہوتا ہے اور جو لوگ خودشناسی کے جوہر سے آراستہ ہوں وہ زندگی میں پیش آنے والے امتحانات، امکانات اور مشکلات سے باآسانی نبرد آزما ہو کر کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی نگاہ میں دشواریاں راہ میں حائل نہیں ہوتیں بلکہ ہر دشواری سے وہ ہنستے کھیلتے گزر جاتے ہیں، دماغی صلاحیت جسمانی استعداد اور خودشناسی ان کے مددگار بن جاتے ہیں، بقول شاعر:

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

شبنم گل اپنے مضامین کے ذریعے بتانا چاہتی ہیں کہ خود شناس بنو کہ اس کے بعد زندگی بامقصد اور بے مثال گزرے گی۔ انسان جب خود کو سمجھ جاتا ہے تب ہی تو اس کو دوسروں کی سمجھ آتی ہے، زندگی کا فہم آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جس کی حس کی جگہ حواس ہے کی تعداد پانچ ہے جنھیں عرف عام میں حواس خمسہ کہا جاتا ہے ان میں چھونا، چکھنا، سننا، دیکھنا اور سونگھنا شامل ہیں، لیکن اگر ان حواس کی کارکردگی بہتر ہو تو پھر فہم، فراست، ادراک اور آگہی مل کر انسان کو ایک اور حس بخشتے ہیں جسے ہم چھٹی حس کہتے ہیں جو انسانی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

یہ چھٹی حس انسان کو فیصلہ کرنے کی قوت، حکمت عملی مرتب کرنے کی تربیت اپنے پرائے کا احساس اچھے برے کی تمیز غرض یہ کہ بہت کچھ سکھاتی ہے لیکن شرط وہی کہ پہلے خود کو سمجھا جائے خود کو دریافت کیا جائے اپنے آپ کو پہچانا جائے شاید اسی بات کو سامنے رکھ کر مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

تُو میرا نہیں بنتا نہ بن' اپنا تو بن

اور انسان اپنا جب ہی بنتا ہے جب وہ خود کو پہچانتا ہے خود میں چھپے ہوئے جوہر سے آشنا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کو فی زمانہ دولت سے بے پناہ عشق، معاشرتی نا ہم واریوں اور سماجی لاپرواہیوں اور بے جا نام و نمود سے پیار ہو گیا ہے جس نے منفی راہ پر ڈال دیا ہے، چناں چہ معاشرے میں منفی طرز حیات پوری طرح سے حاوی ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے بے چینی اور بے سکونی نے اپنی جڑیں پھیلا دی ہیں۔

حساس دل رکھنے والے لوگ معاشرے کے ان رویوں اور سماج کے ان بھونڈے پہلوؤں کو دیکھ کر بہت کڑھتے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ ہمارا سماج منفی طرزِ حیات کا دل دادہ ہو گیا ہے۔ مصنفہ اس طرزِ حیات سے پیچھا چھڑانے کی ترکیب بتاتے ہوئے لکھتی ہیں کہ شیزو فرینیا اور ہسٹیریا کے امراض اس بگاڑ کا سبب ہیں یا پھر وائزورسا (Vise Versa)۔ وہ اپنے مضامین میں ان تمام عوامل اور امراض کا ذکر کرتی ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ یا بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔


ایسے معاشرے کے لوگ جسے نفسیاتی طور پر صحت مند نہ کہا جاسکے وہاں درج بالا بیماریوں کے علاوہ دیوانگی (Insanity)، ہذیان بکنا (Delorecum)، مالیخولیا (Malaucholia) اور دن کے خواب یا سراب کا پیچھا جیسے عوامل سامنے آتے ہیں، جو معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ یہاں انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان تمام بیماریوں کا تعلق دماغ سے ہے اور دماغ ہمارے حواس کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر ہمارے حواس صحیح کام کرتے ہیں تو ہم میں خوشی، امنگ، سکون اور جولانی نظر آتی ہے بصورت دیگر انسان کی واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے بقول شاعر:

ہوش و حواس' تاب و تواں داغ جا چکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

گویا اس عالم رنگ و بو میں، رنگ و روپ، دلکشی و رعنائی، حسن صوت و سماعت، لذت و بصارت سب ہی کا تعلق حواس سے ہے۔ مصنفہ نے اپنے مضامین میں عوام الناس کی بڑی جہالت کو آشکار کیا ہے ۔ اپنے ایک مضمون میں وہ والدین اور بچوں کی نفسیات پر بھی گفتگو کرتی ہیں اور مشورہ دیتی ہیں کہ والدین نہ تو بچوں کو بے جا لاڈ پیار دیں تاکہ وہ بگڑ جائیں اور نہ ہی بلاوجہ ہدف تنقید بنا کر لعنت ملامت یا مارپیٹ کہ بچہ باغی ہو جائے اس طرح وہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔

اسی کتاب میں (Fantasy) یعنی تصوراتی احساسات کا ذکر بھی کمال مہارت سے کرتے ہوئے کہتی ہیں انسان احساساتی طور پر کسی ایسی جگہ جہاں کوئی نہ ہو رہتے ہوئے بھی تمام کائنات سے رابطہ میں رہ سکتا ہے گویا بقول شاعر یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ فاصلوں اور قربتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے:

نہ ملے ہو نہ فاصلہ رکھا

تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا

شبنم گل انسان کو فطرت سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور اسے فطرت سے جڑے رہنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں اگر انسان خود کو واقعی پا لے تو پھر تمام قسم کی بدیاں اور بدعات اس سے پرے ہو جاتی ہیں، پھر وہ نیک راہوں کا راہی بن کر اپنا سفرِ حیات طے کرتا ہے۔ ان ہی کا اصرار ہے کہ ایک انسان اپنی دھرتی، اپنی جنم بھومی سے بے انتہا پیار کرتا ہے اس لیے کہ وہاں اسے جینے اور زندگی گزارنے کی تمام تر سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ ان کے خیال میں ماحول کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے مشاہدہ ایک ضروری لوازمہ ہے اور اس کے لیے فطرت کا سہارا لینا لازم ہوتا ہے۔ فطرت ہر جانچ، ہر پڑتال، ہر تخمینے کا محور جو ہوتی ہے۔

اپنے ایک مضمون میں پروفیسر صاحبہ نے خودکشی جیسے حساس موضوع پر بہت سیر حاصل تبصرہ کیا ہے، ان کے خیال میں جب کوئی شخص ان دیکھے راستوں اور ان دیکھی مشکلات میں گھر جاتا ہے اور بچؤ کی صورت نہیں پاتا تو وہ انتہائی قدم اٹھانے کی طرف راغب ہوتا ہے۔ خود کو فنا کرنے میں ہی عافیت تلاش کرتا ہے اور یہ کام ایک حساس اور جذباتی انسان ہی انجام دیتا ہے کہ حساس اور ذہین انسانوں کے لیے اس بے ثباتی دنیا میں لاتعداد کٹھنائیاں ہیں بے شمار عذاب ہیں۔

اس خوبصورت اور ذہنی وسعت کو بڑھاوا دینے والی کتاب میں جہاں بہت ہی شاندار اور فکری گہرائی والے مضامین ہیں وہیں حقیقت کو حقانیت سے نتھی کر دینے والے مضامین بھی شامل ہیں مثلاً تخلیقی میدان کی ناقابل بیان سچائی کو اپنے ایک مضمون ''ذہنی دکھ تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہیں'' میں بیان کیا ہے کسی بڑے فرانسیسی ادیب نے کہا تھا کہ ''نہایت اچھا تخلیقی ادب نہایت برے سماجی دور میں جنم لیتا ہے۔''اس مضمون میں مصنفہ نے کمال مہارت سے اس بات کو بیان کیا ہے اور اس کے تمام نفسیاتی معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ زیادہ تر ذہنی بیماریاں نا ہم وار معاشرے میں جنم لیتی ہیں ان میں شیزوفرینیا، ڈپریشن وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ ''جاگتے میں خواب دیکھنا'' اور ''احساسِ برتری'' بھی ذہنی بیماریاں ہیں لیکن یہ بات بالکل طے ہے کہ ان ہی بیماریوں میں مبتلا اشخاص بہترین تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔

مصنفہ نے کمال تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم علم کو دو حصوں میں بانٹتے ہیں ایک عقل اور دوسرا شعور، عقل والے علم میں فلسفہ اور سائنس آتا ہے جب کہ شعوری علم میں آرٹس۔ انھوں نے شعور کے عوامل بتاتے ہوئے کہا کہ داخلیت، خودشناسی، حساسیت، دانائی اور ادراک شامل ہیں اور ان میں خودشناسی، خود کو سمجھنے اور کھوجنے کے لیے سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہے اور اسی خودشناسی کو سامنے رکھ کر یہ خوبصورت علمی اور تحقیقی کاوش آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
Load Next Story