قوم پرستی بلوچستان اور سامراج دوسرا حصہ

عوام اپنی جان کے کھو جانے کے خوف سے علیحدگی پسند بلوچ سرداروں کی ہاں میں ہاں ملانے پر زیادہ مجبور ہیں۔۔۔

BARCELONA:
میں اس سے اتفاق کرتی ہوں کہ قوم کا سوال اور قوم پرستی دو الگ الگ معاملات ہیں اور انتہائی مبہم بھی، نیشنل ازم کو کسی ایک تعریف کے تحت بیان نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ قوم سرحدی حدود پر بھی منحصر ہوسکتی ہے، رنگ و نسل کی بنیاد پر بھی، مشترک زبان و ثقافت کی بنیاد پر بھی اور مذہبی بنیادوں پر بھی، قوم کی کوئی ایک حتمی تعریف نہیں ہوسکتی ۔ لہذا اس سے متعلق معاملات بھی اتنے سیدھے سادے نہیں ہوتے۔ نیشنل ازم کا آئیڈیا تاریخی حوالوں سے ہمیشہ دو صورتوں میں اپنا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے منفی یا مثبت یعنی یہ ایسا آئیڈیا ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے بر سرِ اقتدار طبقات نے لوگوں کو کبھی متحد کیا تو کبھی عوامی قوت کو منتشر کیا ہے۔بلوچستان کے حوالے سے ایک بحث فیس بک کے ان باکس میں چل رہی ہے اوپر والا اقتباس اسی بحث کا حصہ ہے میں کچھ اور اقتباسات بھی فیس بک کی وال پر شیئر کروں گی، اگرچہ ان لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ اس بحث کو اوپن کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوسکیں۔ اس اقتباس میں بھی میں نے بلوچ عوام کو نہیں بلوچ سرداوںکے کردار کو موضوع بنایا ہے۔

رہی فیڈرل گورنمنٹ کے کردار کی بات تو اس بات کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کسی نہ کسی حد تک ریاستی جبر کا شکار ہے، اگرچہ اس وقت ریاستی اداروں یا سیاستدانوں کے کردار کو دیکھا جائے تو پاکستان کا ہر فرد ریاستی جبر کا کسی نہ کسی طرح شکار ہے، مگر بلوچ عوام کا استحصال جتنا ان کے اپنے بلوچی بر سرِ اقتدار طبقات نے کیا ہے اتنا ریاست نے نہیں کیا، کیونکہ صوبائی حکومت اور صوبائی اسمبلی میں یہی بلوچ سردار بر سراقتدا ر ہوتے ہیں۔ بہت بڑے پیمانے پر نہ سہی مگر صوبائی سطح پر تو ان کے اختیارات سے انکارنہیں کیا جا سکتا ، تو کیا وجہ ہے کہ بلوچستان پسماندہ ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ بلوچستان میں ابھی جاگیردارانہ اور سردارانہ جبر ہی ختم نہیں ہوا، جاگیرداروں کا یہ نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنے مقابل برابری کی سطح پر برداشت نہیں کر سکتے جن پر نسل در نسل حکمرانی کرتے آئے ہوں۔بنیادی وجہ بلوچستان کی پسماندگی کی ریاستی جبر سے کہیں زیادہ ان کے سردار ہیں جو ہر بار اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں مگر صوبے کی

سطح پر بھی کوئی خاطر خواہ عوامی فلاح کے لیے کام نہیں کرتے، میں جانتی ہوں کہ صوبائی حکومت کا فیڈرل کے زیر اثر بہت سے معاملات میں فیصلے کرنا دشوار ہوتا ہے ، مگر جس حد تک ہو سکتا ہے دوسرے صوبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلوچی سیاستدانوں نے اپنے عوام کے لیے یا اس صوبے کے لیے اتنا کام بھی نہیں کیا جو کر سکتے تھے۔ بلوچ سرداروں کو مسئلہ یہ ہے کہ ریاست بلا واسطہ بین الاقوامی سامراجیوں یا سرمایہ داروں سے اگر ڈیل کر رہی ہے تو کیوں نہ وہ خود ڈیل کریں، فیڈرل گورنمنٹ ہے یا بلوچ سردار سب استحصالی ہیں ، میں نہیں سمجھتی کہ بلوچستان کے اختیارات سرداروں کے پاس جانے سے عوام کی بہتری ہوگی۔ اس سے صرف یہ ہوگا کہ مذید لوگوں کو بلوچ عوام پر حکومت کرنے کے مواقع میسر ہونگے اور وہ مزید لوگ بلوچ سرداروں ہی کی نسل ہوگی۔ بین الاقوامی سامراج بھی چاہتا ہے کہ بلوچستان کے سرداروں سے من مرضی کی ڈیل کر سکے کیونکہ کمزور طاقت سے اپنی مرضی کی ڈیل کرنا ان کے لیے کہیں زیادہ آسان ہے بہ نسبت ایک ریاست سے ڈیل کرنے کے۔ نیشنل ازم کی یہ تحریک حقیقی سے زیادہ مصنوعی ہے، یعنی بلوچستان کے اندر پائی جانے والی ایک فطری محرومی کے حقیقی احساس کو بیرونی طاقتیں بلوچستان کے غاصب طبقات سے مل کر ہوا دے رہی ہیں۔


اس کی شدت کو بڑھانے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں سے کا م لیا جا رہا ہے۔ قوم کا سوال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا نہ ہی کسی قوم کے حقِ خود ارادیت سے میں انکار کر رہی ہوں مگر بلوچستان کا معاملہ بین الاقوامی سازش کا زیادہ شکار ہے، اور بیرونی طاقتوں کی دخل اندازی امریکہ میں پاس ہونے والی ریزولیشن سے ثابت ہوتی ہے۔در اصل بین الاقوامی سامراجی طاقتوں کے لیے بلوچستان کو تنہا کر کے اپنے مفادات کو حاصل کرنا بہت آسان ہے خصوصاََ ان سرداروں کے ذریعے جو تاریخی طور پر ان سے رائلٹی لینے کے عادی رہے ہیں۔رہی ترقی پسندانہ عناصر کی بات اور ورکنگ کلاس کی بات تو میں سمجھتی ہوں کہ بلوچستان کی مادی حالت ایسی ہے جس میںورکنگ کلاس ابھی پیدا نہیں ہوئی، کیونکہ کسی بھی سماج میں مزدور طبقہ اسی وقت جنم لیتا ہے جب صنعت کا فروغ ہو چکا ہوتا ہے اس حوالے سے بلوچستان نے ابھی صنعتی ترقی کی منازل طے نہیں کیں کہ مزدور طبقہ اس میں پنپ سکتا اور کسی بھی معاشرے میں انقلابی تبدیلی مزدور طبقے ہی سے ممکن ہے اور اسی بات کا خوف روایتی بلوچ سرداروں کو ہے کہ اگر بلوچستان میں گوادر پورٹ سمیت کسی بھی قسم کی صنعت کو بڑے پیمانے پر فروغ ملا تو ان کی طاقت سب سے پہلے اس لیے کمزور پڑے گی کہ عام انسانوں کے پاس روزگارکے حصول کے، سرداروں کے زیرِ دست ہونے کے علاوہ بھی مواقع مل جائیں گئے اوراس خدشے کا اظہار بلوچ لبریشن فرنٹ کے ممبر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کیاہے، اگرچہ گوادر پورٹ کے قیام کو وہ بلوچ ثقافت و روایات کے لیے خطرہ اور بلوچ نسل کے اقلیت میں بدل جانے کے خوف کا نام دیتے ہیں ۔

اس بات کا اگر تجزیہ کیا جائے تویہی خوف سامنے آتا ہے کہ سرمایہ داری کا ریلا ان کا کنٹرول عوام سے ختم کر دے گا، دوسری طرف یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ جاگیر داری ساختوں کی توڑ پھوڑ میں سرمایہ داری کا بنیادی کردار ہوتا ہے اور سرمایہ داری نظام کے پھیلنے کے نتیجے میں ہی طبقاتی جدوجہد بھی جنم لیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت سرداری نظام کے تحت لوگ اپنے فیصلوں اور رائے میں اتنے آزاد نہیں ہیں کیونکہ عوام اپنی جان کے کھو جانے کے خوف سے علیحدگی پسند بلوچ سرداروں کی ہاں میں ہاں ملانے پر زیادہ مجبور ہیں، قوم پرستوں کے ایک رکن نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ کس طرح وہ ان لوگوں کو غداروں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں جو وفاق کے ساتھ الحاق کی پشت پناہی کرتے ہیں یا جائز سمجھتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سرداری نظام کے جبر تلے بلوچستان کے عوام مجبورکیے جارہے ہیں کہ وہ قوم پرستی کی اس تحریک میں شامل ہوں جو میرے خیال سے نسل پرستی کی ایک شکل ہے۔ نسل پرستی جو ہمیشہ تشدد اور ظلم کی طرف لے کر جاتی ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story