یہ دنیا بچوں کی ہے
ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ابتدائی آٹھ مہینے اس کی زندگی کے لیے بہت اہم ہیں۔
کہتے ہیں کہ یہ دنیا بچوں کی ہے کہ آنے والے کل کو ان ہی بچوں نے سنبھالنا ہے لیکن آج کا یہ دن بچوں کے لیے کیسا ہے۔
بچوں کے ادب کے لیے صورتحال کچھ گمبھیر ہے دراصل آج کا بچہ پڑھنے سے بھاگتا ہے اسے موبائل فونز یا کمپیوٹر پر ایک جگہ بیٹھے بیٹھے سب کچھ دیکھنے کو مل جاتا ہے جو اسے دیکھنا بھی نہیں چاہیے لیکن پھر بھی اس کو یہ میسر ہے کیونکہ اس کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت ہے وہ ایک لمحے میں ملک میں اور دوسرے ہی لمحے ملک سے باہر سب کچھ دیکھ لیتا ہے۔
بچوں کی نفسیات اس برفیلے راستے نے کچھ اور بھی پیچیدہ کردی ہے وہ اپنے والدین اپنے دوستوں اور اساتذہ سے بھی اس قدر قریب نہیں ہے جتنا کہ موبائل یا کمپیوٹر سے جڑا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے لیے اس دنیا کو کیا دے رہے ہیں۔ تربیت اور تعلیم کے نظام میں کس قدر بھی شکستگی کیوں نہ ہو والدین اور بچوں کے درمیان روابط ضرور رہتے ہیں ان کو جوڑنے اور سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ابتدائی آٹھ مہینے اس کی زندگی کے لیے بہت اہم ہیں۔ کیونکہ اس دوران وہ کھانے پینے ، سونے جاگنے اور دوسری ضروریات زندگی کا عادی ہو جاتا ہے اگر ماں اپنے بچے کو آدھی رات کو فیڈ دیتی ہے تو اس کی یہ عادت آیندہ آنے والے ان تمام سالوں میں جب وہ اپنی ماں سے غذا لینے کا پابند ہے اس وقت بھی کھانے کا عادی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بچے کی زندگی کے شروع کے سال اس کی تعلیمی اور تربیتی حوالے سے بہت اہم ہیں جس میں بچے کو پڑھنے لکھنے اور سیکھنے کے مراحل سے گزرنے کی عادت پڑتی ہے۔
پرانے زمانے میں بچوں کو ابتدائی تعلیم گھر میں ہی دینے کا رواج تھا۔ برصغیر میں تمام بڑے ادب سے جڑے ناموں کی فہرست اٹھائیے اور ان کے بچپن کے دور پر نظر ڈالیے آپ کوکچھ ایسا ہی دکھائی دے گا ،گھرکی تربیت اور تعلیمی ماحول بچوں کے معصوم ذہنوں کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔ اسی لیے اگرگھر میں بچہ اپنے اردگرد پڑھنے لکھنے کا ماحول دیکھے گا تو فطری طور پر وہ اسی جانب بڑھے گا لیکن بدقسمتی سے آج کا بچہ اپنے اردگرد موبائل اسکرینزکی چمک دمک ہی دیکھ رہا ہے اس کے پیچھے اسے کارٹون ، فلمیں، گانے، ڈانس اور نہ جانے کیا کچھ ملتا چلا جا رہا ہے، جو ان کے معصوم ذہنوں پر جوش وجذبات ، غصہ ، اشتعال پسندی اور بے ہودہ زبان کا بگھار لگا رہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے جب بھارتی چینلز کی یلغار تھی بچوں نے اس وقت ان رسوم و روایات کا خوب اثر لیا تھا جس کا ہمارے اسلامی شعائر سے کوئی تعلق نہیں مثلاً آرتی اتارنا یا ہاتھ جوڑنا اور اسی طرح کی فضول لغو زبان بھی عروج پر تھی ایسے میں سرکاری اداروں کا اٹھایا قدم بہتر رہا اور یوں کیبل کے تاروں سے جڑے بدتہذیبی کا بازار گرم ہوتے ہوتے کافی سرد ہو گیا۔بچوں کے ادب کے حوالے سے پاکستان میں ایک معروف ادارہ جو وقف پاکستان بھی ہے کافی متحرک رہا تھا، بچوں کے لیے ہر مہینے فنکشنز اورکتابوں کا اجرا باقاعدگی سے ہوتے رہتے تھے لیکن اب صورتحال بہت دگرگوں ہے اوپر سے کورونا کی وبا نے اس سختی پرکچھ اور بھی پریشر بڑھا دیا ہے، اس کورونا وبا سے پہلے ہی کسی حوالے سے اس ادارے کے ایک معتبر فرد سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ آج کل بچوں کے ادب کی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے یہاں تک کہ ہر مہینے چھپنے والا بچوں کا رسالہ جسے پڑھتے نسلیں جوان ہوگئیں بند کرنے کے بارے میں غورکیا جا رہا ہے اور کتابوں کا یہ حال ہے کہ چھاپیں بھی تو پڑھنے والے کہاں سے لائیں کہ اب بچوں میں کتاب بینی کا رجحان ہی نہیں رہا ، اسی لیے یہ رفتار تو نہایت سست ہے۔
کراچی آرٹس کونسل میں ایک ادبی شمارہ جوہر انٹرنیشنل کی تعارفی تقریب میں بھی کچھ اسی قسم کے خیالات مقررین سے سنے۔ عارف افضال عثمانی کا تعلق امریکا سے ہے، ریڈیو ٹی وی کے ساتھ صحافی ہونے کی ذمے داری نبھاتے نبھاتے اردو ادب سے بھی ایسے جڑے کہ خالصتاً ادبی رسالہ نکال رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ادب کا رجحان اور اس سے جڑے صاحبان اب بھی امید رکھتے ہیں کہ ادبی ماحول ڈوبے گا نہیں کہ ابھی میدان اور بھی ہیں۔
ایسے ہی میدان میں بچوں کے ادب کے حوالے سے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشن اینڈ میڈیا علی حسن ساجد نے اپنے تجربے کے حوالے سے بتایا کہ انھوں نے بھی بچوں کے لیے ایک ماہنامہ نکالنے کے لیے بہت محنت کی اور اس کا بخوبی اجرا بھی کیا لیکن چند مہینے چلنے کے بعد اس کا چلنا دوبھر ہو گیا اور مجبوراً اسے بند کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے یہ ناکام تجربہ حجاب فاطمہ صاحبہ بھی کرچکی تھیں۔
بچپن سے کتابوں سے جڑنا اور بہت کچھ پڑھنا اب بھی نہیں بھولتا کہ پڑھنے کا یہی شوق قلم سے اس طرح جڑا ہے کہ شکر خدا کا ٹوٹا نہیں لیکن جو آج کی دنیا میں بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے کیا درست ہے؟ کیا اسکول کی سطح پر بچوں کوکتب بینی سے روشناس کرانا بہتر ہے، یا انھیں ان کے پسندیدہ میڈیا کے ذریعے اپنی روایات سے جوڑنا یا ایسی کوشش کرنا بہتر ہے؟
کہانی سنانا یا پڑھنا ہمیشہ سے بچوں اور بڑوں کے لیے ایک ایسا مفید ذریعہ رہا ہے کہ جس کے ذریعے بہت سی اچھی باتیں تاریخ ، مذہب اور سیاسیات کو زیر بحث لایا جاتا ہے، چھوٹے بچوں کے حوالے سے کہانی سنانا کچھ اور بھی بہت ضروری اس طرح سے ہے کہ ان کے معصوم ذہن صاف پلیٹ کی مانند ہوتے ہیں جس پر کچھ تحریر نہیں ہوتا لہٰذا کہانیوں کے ذریعے ان کی ذہنی تربیت ہوسکتی ہے۔ اخلاقی طور پر ہم بچوں کو کیا کچھ سکھا سکتے ہیں مثلاً جھوٹ بولنا بری بات ہے ، شرارت نہ کرو ، بڑوں کا ادب کرو ، برا بھلا کہنا اچھا نہیں ہوتا لیکن ان کو کہانیوں کی صورت میں پروکر بیان کرنے کا اثر ہی دوسرا ہے۔
قدرت نے ہمارے اردگرد بہت خوبصورت دیکھنے اور استعمال کرنے کی نعمتیں دی ہیں ان کی حفاظت کرنا، خیال رکھنا اور شکر ادا کرنا کس طرح انسانی فطرت کا حصہ بن سکتا ہے، ایسے میں بچوں کو اسکولز میں بھی الف، ب،ت اور اے بی سی ڈی کے ساتھ اخلاقی حوالے سے بھی رہنمائی کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس طرح نہ صرف ہم اپنے گھر میں بلکہ گھر کے باہر بھی اپنے ماحول کی حفاظت کرسکتے ہیں۔بچوں کا ادب اسی طرح ضروری اور اہم ہے جس طرح بڑوں کا۔
آج ہم مختلف چینلز پر بڑوں کے لیے پیار محبت، شادی بیاہ، طلاق اور ساس بہو کے جھگڑوں پر مبنی ڈھیروں ڈرامے دیکھتے ہیں ایسے میں بچوں کے لیے کیا کچھ ہے؟ کیا ہم اپنے پانچ چھ سال کے بچوں کی تربیت انیس بیس سال کے نوجوانوں کی طرح تو نہیں کر رہے؟ ہمیں سوچنا ہے اور آگے بڑھ کر اس کے لیے کام کرنا ہے کہ یہ دنیا بچوں کی ہے۔ آج کا بچہ کل کا صدر اور وزیر اعظم ہوگا، کل کی فوج اور پولیس ہمارے رہنما اور پاسبان یہی بچے ہیں خدارا انھیں نظرانداز نہ کیجیے۔