عورت کے حقوق
آج بھی بہت سےغیر مسلم مفکرین اسلام ہی کو صنف نازک کا نجات دہندہ اورحقوق نسواں کا اصل پاسدار سمجھتے ہیں
کینیڈین شہریت کی حامل میڈیکل کی طالبہ مصباح سید نے کچھ روز قبل الزام لگایا تھا کہ پروفیسر کی جانب سے نقاب اوڑھنے پر اس کا اسٹیج پر مذاق اڑایا گیا اور اس واقعے کے بعد سے ان کا پورا گھر اذیت میں مبتلا ہے۔ اس واقعے کی تفصیلات جاننے کے بعد میں اپنے قلم کو لکھنے سے روک نہیں پائی۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ کوئی بھی ذی شعور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہوئے اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ جب کہ طالبہ نے پشاور میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاکستان جیسی ریاست میں حجاب اور نقاب کا مذاق اڑانا قابلِ مذمت ہے۔
انھوں نے حکومت سے معاملے کی تحقیقات کے لیے آزاد اور غیر جانب دار کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ ایم بی بی ایس کی طالبہ کی دادرسی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں لاہور سے حکمراں مسلم لیگ کے ایم این اے شیخ روحیل اصغر نے اپنے نکتہ اعتراض میں کہا کہ پشاور میں میڈیکل طالبہ مصباح سید کی آواز پر کان دھرا جائے ، یہاں کوئی فرانس کی کالونی نہیں کہ لڑکی کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کی جائے، انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، آئین کے تحت مملکت کی ذمے داری ہے کہ پاکستان میں اسلامی روایات کی ترویج اور حفاظت کرے، انھوں نے مطالبہ کیا کہ مصباح سید کے ساتھ واقعے کی آزادانہ انکوائری کی جائے۔ بلاشبہ انھوں نے اسمبلی میں اس واقعے کی بابت آواز بلند کرکے ایک مجاہدانہ کردار ادا کیا مگر میرا سوال اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ کیا ہم واقعی ایک آزاد اسلامی مملکت کی فضا میں سانس لے رہے ہیں؟ جہاں میڈیکل کی ایک طالبہ کو حجاب ہٹانے سے انکار پر اس کے پروفیسر نے تضحیک اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ خیبر میڈیکل کالج سال اول کی اس طالبہ نے پریس کانفرنس بھی کی تاکہ میڈیا کو اپنے ساتھ زیادتی کے خلاف قائل کرسکے ۔
یہ کیسا اسلامی معاشرہ ہے جہاں لاقانونیت اور بے حسی کی چادر نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ ہم کس راستے پر گامزن ہیں؟ یہ وہی دین ہے جہاں اسلام نے عورتوں کو کتنی ترقی دی، کیسا بلند مقام عطا کیا۔ قرآنِ کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات و افکار اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت و مساوی نظام عمل پر عش عش کر اٹھے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علمبردار اور حقیقی ضامن ہے۔ آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ اعتراض کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں تو یہ حقیقت سے چشم پوشی کرکے صرف اور صرف اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے اور کچھ نہیں۔
آج بھی بہت سے غیر مسلم مفکرین اعتراف کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنف نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا اصل پاسدار سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دیے جن کا تصور قبل از اسلام ناممکن تھا، ای بائیڈن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ''سچا اور اصلی اسلام جو محمد ﷺ لے کر آئے اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کیے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔''
ڈبلیو لائیٹر لکھتے ہیں کہ ''عورت کو جو تکریم اور عزت محمد ﷺنے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے۔''
یہ تمام کوڈز یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں مغرب پرست معاشرے کو جس تیزی سے اپنا رہے ہیں وہ خود اپنی معاشرت سے دلبرداشتہ ہیں اور ان کی نظر میں بھی اسلام وہ واحد مذہب ہے جہاں خواتین کو ان کا اصل مقام دلایا گیا ہے۔
حقوق نسواں جو کہ آج کی دنیا کا ایک بہت ہی بڑا المیہ بن چکا ہے اس کے متعلق بہت سے مقالے لکھے گئے، تقاریر کی گئیں اور بہت سی کانفرنسز بھی منعقد ہوئیں۔ جب ہم اس دنیا کے انسانی نقشے اور مختلف انسانی معاشروں کو وقت کے کینوس پر رکھتے ہوئے ایک سرسری نگاہ بھی ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ خواہ وہ ہمارے اپنے ملک کا اسلامی معاشرہ ہو یا دیگر اسلامی ممالک کا، حتیٰ کہ غیر اسلامی معاشرہ بھی کہ جن میں ترقی یافتہ اور متمدن معاشرے بھی شامل ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام معاشروں میں حقوق نسواں کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جہاں اور بہت سے میدانوں میں ترقی ہوئی وہیں انسانی حقوق کے حوالے سے بھی مختلف تحریکوں نے سر اٹھانا شروع کیا، اگرچہ بیسویں صدی تک کوئی واضح تصور پیش نہیں کیا جاسکا لیکن کسی حد تک پیشرفت ضرور ہوئی۔ لیکن اس تمام جدوجہد میں خواتین کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا گیا، بالآخر خود خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے میدانِ عمل میں آئیں۔ اس تحریک کا آغازکب ہوا، اس حوالے سے وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس سلسلے کی با ضابطہ کوشش 13 جولائی 1848 میں ہوئی، جب نیویارک میں Seneca falls کے مقام پر خواتین کی طرف سے ایک کنونشن منعقد ہوا، جس میں ایک منشور جذبات پیش کیا گیا۔ اس تحریک کے آغاز کے اسباب وہ معاشرتی رویے تھے جن میں عورت کو نہایت سست اور ذلیل مقام دیا جاتا تھا۔ غیر اسلامی مذہبی نقطہ نظر میں عورت کو گناہ کی جڑ، برائی کا سرچشمہ اور جہنم کا دروازہ سمجھا جاتا تھا۔
ترقی کے اس دور میں مغرب نے حقوق نسواں اور آزادی نسواں کے خوبصورت نعرے کی آڑ میں جو حقوق عورت کو عطا کیے ہیں، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسے عملی طور پر گھر کی چار دیواری سے نکال کر بازار کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ آرٹ اور کلچر کے خوبصورت پردوں میں اس کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ عورت عملاً جنس کے متلاشیوں اور کاروباریوں کے ہاتھوں کھلونا اور مختلف کاروباری کمپنیوں کے پوسٹرز کی زینت بن کر رہ گئی ہے۔
گزشتہ چند سال میں وطن عزیز پاکستان میں بھی حقوق نسواں کے موضوع نے غیر معمولی اہمیت حاصل کرلی ہے، شاید ہی کوئی تقریب یا مباحثہ ایسا ہو جس میں یہ موضوع زیر بحث نہ آیا ہو، چند مفکرین کا خیال تھا کہ پاکستان میں عورت کے استحصال کی بنیادی وجہ حدود آرڈینینس ہیں لہٰذا ان میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ اس سوچ نے ایک تحریک کی صورت اختیار کی اور بالآخر تحفظ حقوق نسواں بل پیش ہوگیا۔ خیال تھا کہ اب عورت تمام معاشرتی اور مذہبی قیدوں سے آزاد ہے، لہٰذا اب وہ کسی قسم کے ظلم کا شکار نہیں ہوگی۔ معاشرے میں اس کو یہ مقام نصیب ہوگا جو تاریخ انسانی میں اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ گزشتہ حکومت نے اگرچہ اعدادوشمار کے سحر سے لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے اور سادہ لوح خواتین کو ترقی کے مینار دکھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی، مگر اس کے باوجود ملک بھر میں خواتین کے خلاف جبر و تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔
ہم جو خود کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں ہم کیوں حقیقت سے نظریں چرا کر غیروں کی روش کو اپنانا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں، کیوں ؟ یہ سوال ہماری اور آپ کی زندگی میں بس ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے، جسے ہم در خور اعتنا سمجھتے ہوئے مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے حکومت سے معاملے کی تحقیقات کے لیے آزاد اور غیر جانب دار کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ ایم بی بی ایس کی طالبہ کی دادرسی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں لاہور سے حکمراں مسلم لیگ کے ایم این اے شیخ روحیل اصغر نے اپنے نکتہ اعتراض میں کہا کہ پشاور میں میڈیکل طالبہ مصباح سید کی آواز پر کان دھرا جائے ، یہاں کوئی فرانس کی کالونی نہیں کہ لڑکی کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کی جائے، انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، آئین کے تحت مملکت کی ذمے داری ہے کہ پاکستان میں اسلامی روایات کی ترویج اور حفاظت کرے، انھوں نے مطالبہ کیا کہ مصباح سید کے ساتھ واقعے کی آزادانہ انکوائری کی جائے۔ بلاشبہ انھوں نے اسمبلی میں اس واقعے کی بابت آواز بلند کرکے ایک مجاہدانہ کردار ادا کیا مگر میرا سوال اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ کیا ہم واقعی ایک آزاد اسلامی مملکت کی فضا میں سانس لے رہے ہیں؟ جہاں میڈیکل کی ایک طالبہ کو حجاب ہٹانے سے انکار پر اس کے پروفیسر نے تضحیک اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ خیبر میڈیکل کالج سال اول کی اس طالبہ نے پریس کانفرنس بھی کی تاکہ میڈیا کو اپنے ساتھ زیادتی کے خلاف قائل کرسکے ۔
یہ کیسا اسلامی معاشرہ ہے جہاں لاقانونیت اور بے حسی کی چادر نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ ہم کس راستے پر گامزن ہیں؟ یہ وہی دین ہے جہاں اسلام نے عورتوں کو کتنی ترقی دی، کیسا بلند مقام عطا کیا۔ قرآنِ کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات و افکار اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت و مساوی نظام عمل پر عش عش کر اٹھے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علمبردار اور حقیقی ضامن ہے۔ آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ اعتراض کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں تو یہ حقیقت سے چشم پوشی کرکے صرف اور صرف اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے اور کچھ نہیں۔
آج بھی بہت سے غیر مسلم مفکرین اعتراف کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنف نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا اصل پاسدار سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دیے جن کا تصور قبل از اسلام ناممکن تھا، ای بائیڈن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ''سچا اور اصلی اسلام جو محمد ﷺ لے کر آئے اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کیے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔''
ڈبلیو لائیٹر لکھتے ہیں کہ ''عورت کو جو تکریم اور عزت محمد ﷺنے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے۔''
یہ تمام کوڈز یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں مغرب پرست معاشرے کو جس تیزی سے اپنا رہے ہیں وہ خود اپنی معاشرت سے دلبرداشتہ ہیں اور ان کی نظر میں بھی اسلام وہ واحد مذہب ہے جہاں خواتین کو ان کا اصل مقام دلایا گیا ہے۔
حقوق نسواں جو کہ آج کی دنیا کا ایک بہت ہی بڑا المیہ بن چکا ہے اس کے متعلق بہت سے مقالے لکھے گئے، تقاریر کی گئیں اور بہت سی کانفرنسز بھی منعقد ہوئیں۔ جب ہم اس دنیا کے انسانی نقشے اور مختلف انسانی معاشروں کو وقت کے کینوس پر رکھتے ہوئے ایک سرسری نگاہ بھی ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ خواہ وہ ہمارے اپنے ملک کا اسلامی معاشرہ ہو یا دیگر اسلامی ممالک کا، حتیٰ کہ غیر اسلامی معاشرہ بھی کہ جن میں ترقی یافتہ اور متمدن معاشرے بھی شامل ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام معاشروں میں حقوق نسواں کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جہاں اور بہت سے میدانوں میں ترقی ہوئی وہیں انسانی حقوق کے حوالے سے بھی مختلف تحریکوں نے سر اٹھانا شروع کیا، اگرچہ بیسویں صدی تک کوئی واضح تصور پیش نہیں کیا جاسکا لیکن کسی حد تک پیشرفت ضرور ہوئی۔ لیکن اس تمام جدوجہد میں خواتین کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا گیا، بالآخر خود خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے میدانِ عمل میں آئیں۔ اس تحریک کا آغازکب ہوا، اس حوالے سے وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس سلسلے کی با ضابطہ کوشش 13 جولائی 1848 میں ہوئی، جب نیویارک میں Seneca falls کے مقام پر خواتین کی طرف سے ایک کنونشن منعقد ہوا، جس میں ایک منشور جذبات پیش کیا گیا۔ اس تحریک کے آغاز کے اسباب وہ معاشرتی رویے تھے جن میں عورت کو نہایت سست اور ذلیل مقام دیا جاتا تھا۔ غیر اسلامی مذہبی نقطہ نظر میں عورت کو گناہ کی جڑ، برائی کا سرچشمہ اور جہنم کا دروازہ سمجھا جاتا تھا۔
ترقی کے اس دور میں مغرب نے حقوق نسواں اور آزادی نسواں کے خوبصورت نعرے کی آڑ میں جو حقوق عورت کو عطا کیے ہیں، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسے عملی طور پر گھر کی چار دیواری سے نکال کر بازار کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ آرٹ اور کلچر کے خوبصورت پردوں میں اس کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ عورت عملاً جنس کے متلاشیوں اور کاروباریوں کے ہاتھوں کھلونا اور مختلف کاروباری کمپنیوں کے پوسٹرز کی زینت بن کر رہ گئی ہے۔
گزشتہ چند سال میں وطن عزیز پاکستان میں بھی حقوق نسواں کے موضوع نے غیر معمولی اہمیت حاصل کرلی ہے، شاید ہی کوئی تقریب یا مباحثہ ایسا ہو جس میں یہ موضوع زیر بحث نہ آیا ہو، چند مفکرین کا خیال تھا کہ پاکستان میں عورت کے استحصال کی بنیادی وجہ حدود آرڈینینس ہیں لہٰذا ان میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ اس سوچ نے ایک تحریک کی صورت اختیار کی اور بالآخر تحفظ حقوق نسواں بل پیش ہوگیا۔ خیال تھا کہ اب عورت تمام معاشرتی اور مذہبی قیدوں سے آزاد ہے، لہٰذا اب وہ کسی قسم کے ظلم کا شکار نہیں ہوگی۔ معاشرے میں اس کو یہ مقام نصیب ہوگا جو تاریخ انسانی میں اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ گزشتہ حکومت نے اگرچہ اعدادوشمار کے سحر سے لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے اور سادہ لوح خواتین کو ترقی کے مینار دکھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی، مگر اس کے باوجود ملک بھر میں خواتین کے خلاف جبر و تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔
ہم جو خود کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں ہم کیوں حقیقت سے نظریں چرا کر غیروں کی روش کو اپنانا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں، کیوں ؟ یہ سوال ہماری اور آپ کی زندگی میں بس ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے، جسے ہم در خور اعتنا سمجھتے ہوئے مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔