غلامی اپنے اصلی روپ میں

ملازمین کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر امریکا نے بھارتی سفیر سے بھی کوئی رعایت نہ برتی۔۔۔

میرے ملک میں غریب مزدور طبقہ ہمیشہ سے جبر و ستم کا نشانہ بنتا آیا ہے اور اس وقت تک بنے گا جب تک قانون ظالم کا نہیں، مظلوم کا محافظ نہ بن جائے۔ انصاف کا پیمانہ یکساں اور ظالم و مظلوم کا انجام مختلف نہ ہوجائے۔ لاہور کے پوش ایریا میں صرف ڈھائی ہزار روپے ماہوار پر کام کرنے والی دس سالہ غریب اور یتیم بچی ارم کو تشدد کرکے مار دیا گیا۔ ارم کی مالکن کہتی ہے ''ارم نے گھر سے پیسے چوری کیے تھے۔ میں نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس پر تشدد کیا۔ مارتی تو میں اسے پہلے بھی تھی، لیکن اتنا نہیں۔ اتنا غصہ آیا تھا کہ اس سے منواتے منواتے مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ میں نے اسے مار دیا ہے۔'' بچی کی والدہ کا کہنا ہے ''جب ہم ماں بیٹا ارم سے ملنے آئے تو ہمیں باہر مار پیٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔ ارم چیخ رہی تھی، لیکن ہمیں اس سے ملنے نہیں دیا گیا۔ جب ہم سروسز اسپتال پہنچے تو میری بچی مر چکی تھی۔'' ذرایع کے مطابق ارم کو دو دن تک ہاتھ پاؤں باندھ کر پانی کے پائپ کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جب ارم کو اسپتال لایا گیا تو اس کے پورے جسم پر زخموں کے نشانات تھے اور اس کی موت واقع ہوچکی تھی۔

اس واقعے کو جان کر میں محو حیرت ہوں کہ خدا جانے ایک غریب بچی پر اتنا غصہ کیوں آیا کہ اس کی جان ہی لے لی۔ ممکن ہے بچی نے پیسے چرائے ہوں، لیکن بچی کی زندگی کی قیمت کیا ان پیسوں سے بھی ارزاں تھی؟ جان تو سب کی برابر ہوتی ہے۔ امیر کی ہو یا غریب کی۔مالک کی ہو یا مزدور کی۔ ہر انسان کو اپنی جان سے ایک جیسا پیار ہوتا ہے، لیکن یہاں معاملہ جدا ہے، بالکل جدا۔ ان غریب و مزدور بچوں کو کوئی انسان سمجھے تو سہی۔ مزدور بچوں کو تو مالکان ہی نہیں، ان کے بچے بھی شاید کوئی دوسری مخلوق سمجھتے ہیں، تبھی تو ان کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ گھریلو ملازمین فراہم کرنے والے ایجنٹ بھی مزدور بچوں کو ایسی جگہ لے جاتے ہیں جس کا نہ بچے کو علم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے والدین کو۔ طویل عرصے کے بعد خود ہی ملوا دیا تو غنیمت۔ یہ اس لیے کہ بچہ کہیں چھٹی نہ مانگ لے اور والدین اس سے ملاقات نہ کریں۔ معاملہ صرف ایک ارم کا نہیں، بلکہ ان گنت واقعات کا تسلسل ہے۔ یہ تو چند واقعات میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آجاتے ہیں، ورنہ ان مظلوموں کے ساتھ جو ہوتا ہے، خدا کی پناہ۔ ان کو زبانی، ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کو بھوکا رکھا جاتا ہے، قید کردیا جاتا ہے، ان کی تنخواہ ہڑپ کرلی جاتی ہے اور ان کی عزت و آبرو کی پامالی بھی کی جاتی ہے، حتیٰ کہ ان کو قتل کرنے اور کتوں کے آگے پھینکنے کے متعدد واقعات بھی اس ملک میں پیش آچکے ہیں۔

یہاں اکثر غریب مزدور اور گھریلو ملازمین غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ صرف 2013 میں مجموعی طور پر پانچ سو سے زاید ایسے مزدور بچوں، عورتوں اور مردوں کو بھٹہ مالکان، جاگیرداروں، زمینداروں اور وڈیروں کی نجی جیلوں سے بازیاب کروایا گیا، جن کو اپنی محنت کا معاوضہ مانگنے پر قید کردیا گیا تھا۔ ملک میں شہر شہر چھوٹی عمر کے بے شمار بچے جگہ جگہ اپنی عمر سے بڑے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ مصروف ناکوں پر جبری بھکاریوں کی فوج دکھائی دیتی ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں میں بال بال قرض میں جکڑے مزدور جھکے نظر آتے ہیں۔ اس وقت ملک میں گھریلو ملازمین اور مزدوروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جنھیں صحت، اجرت اور اپنی ملازمت سے متعلق کوئی تحفظ مہیا نہیں اور بیشتر مواقع پر ان کے حقوق کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد کا 81 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، صرف 3 فیصد کو ہفتے میں ایک چھٹی کی سہولت حاصل ہے، جب کہ باقی خواتین کو زچگی کے دوران بھی چھٹیاں یا کوئی مالی مراعات مہیا نہیں کی جاتیں۔ کم از کم ا تنا ہی ہو کہ مالکان ان کے کام اور وقت کی کچھ حدود ہی متعین کردیں تو بھی شاید ان بے چاروں کے حقوق کا کچھ تحفظ ہوجائے۔ مگر اتنا بھی نہیں ہوتا۔


نوعمر بچوں اور بچیوں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لینے، تین وقت کا بچا ہوا کھانا اور تنخواہ کے نام پر قلیل رقم دینے کو بالکل جائز سمجھا جاتا ہے اور ذرا سی چوں چرا پر گالیوں اور تشدد سے نوازا جاتا ہے۔ حیرت انگیز اور قابل غور بات تو یہ ہے کہ اس ظلم میں وہی لوگ آگے آگے ہوتے ہیں، جو اسی غریب و مزدور طبقے کی محنت کی وجہ سے صاحب مال و دولت ہوئے ہیں اور یہی جاگیردار اور سرمایہ دار ان کے حق میں کوئی قانون بننے کی راہ میں رکاوٹ ہیں، جو دو وقت کھانے کے عوض پورے خاندان سے غلاموں کی طرح کام لیتے ہیں۔

ہمارے ملک میں چند شعبوں کے سوا ان مزدوروں کے تحفظ کا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکا۔ ہمیں اس حوالے سے دوسرے ممالک کی پیروی کرنی چاہیے۔ گزشتہ سال سعودی عرب میں خواتین، بچوں اور گھریلو ملازمین پر تشدد کے خلاف قانون پاس کیا گیا ہے۔ پاس کیے گئے اس 17 نکاتی بل کے مطابق اگر کوئی شخص خواتین، بچوں اور گھریلو ملازمین پر نفسیاتی اور جسمانی تشدد میں ملوث پایا گیا تواس کو ایک سال قید کی سزا کے ساتھ 50 ہزار سعودی ریال جرمانہ کیا جائے گا۔ اس سے پہلے والے قانون کے ذریعے بھی گھریلو ملازمین اور خواتین پر تشدد کرنے والے کئی افراد کو سعودی عدالت نے تین تین سال کی سزا دی تھی۔ اسی طرح یورپ میں بھی مزدوروں اور گھریلو ملازمین کے حوالے سے قوانین پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔ گزشتہ سال سعودی عرب کی ایک شہزادی نے امریکا میں رہتے ہوئے اپنی ملازمہ پر تشدد کیا، جب معاملہ امریکی عدالت میں پہنچا تو امریکن پولیس نے سعودی شہزادی کو حراست میں لے کر سزا دی۔

امریکا میں بھارتی سفیر دیویانی کھوبرا جادے کا معاملہ تو ابھی تازہ ہے۔ ملازمین کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر امریکا نے بھارتی سفیر سے بھی کوئی رعایت نہ برتی۔ امریکی قانون کے مطابق اپنی ملازمہ کو معاوضہ نہ دینے پر بھارتی سفیرکو ہتھکڑی پہنا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ پھر ڈھائی لاکھ ڈالر کی ضمانت پر رہا کیا گیا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے باوجود امریکا نے اپنے قوانین کی پاسداری کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ جب ہم اپنے معاشرے میں اس مزدور و لاچار طبقے کا استحصال ہوتا دیکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت دوبارہ لوٹ آیا ہے۔ ممالک نے اگرچہ لفظی طور پر غلامی کو ختم کردیا ہے اور پاکستان کا آئین بھی کہتا ہے کہ غلامی کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود عملی طور پر غلامی آج بھی اپنے اصلی روپ میں موجود ہے۔ ملک میں انسانوں کی بہت بڑی تعداد غلامی کی زندگی بسر کررہی ہے۔ اس دور میں بھی پسے ہوئے طبقے کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے، جو زمانہ جاہلیت میں غلاموں کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ کیا اس لاچار طبقے کی غلامی کبھی حقیقت میں بھی ختم ہوگی؟
Load Next Story