وطن کی پاسبانی کے لیے
شرپسندوں کو واردات کرنے سے قبل گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا؟
معدنی وسائل کی دولت سے مالا مال صوبہ بلوچستان گزشتہ کئی ماہ و سال سے بدامنی، خوں ریزی اور بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں فرقہ وارانہ منافرت کے نتیجے میں سات افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ لواحقین نے مرحومین کے جلوس جنازہ کے ساتھ آئی جی پولیس اور اقوام متحدہ کے ذیلی آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی دیا۔
چند روز پیشتر راولپنڈی سے گلگت جانے والی چار بسوں سے ناران کے قریب 25 افراد کو باقاعدہ شناخت کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بلوچستان کے حالات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن و امان کا قیام پیپلز پارٹی کی حکومت کی اوّلین ترجیح ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کیا جائے گا۔ بلوچستان کی طرح کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے۔ روزانہ 8/10 افراد کو ٹارگٹ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔
پولیس و رینجرز کے مسلسل گشت کے باوجود دہشت گرد عناصر واردات کرنے کے بعد بچ کے نکل جاتے ہیں جو یقیناً قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کے آگے سوالیہ نشان ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے خبردار کیا ہے کہ تحریکِ طالبان آیندہ دو چار ہفتوں کے دوران کراچی و دیگر اہم شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی آئینی ذمے داری حکومت کی ہے تو پھر دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے کے لیے خفیہ ایجنسیوں سے ملنے والی اطلاعات کے بعد سیکیورٹی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے؟
شرپسندوں کو واردات کرنے سے قبل گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا؟ نہ صرف عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکامی بلکہ قومی و دفاعی تنصیبات کامرہ ایئر بیس، نیول مہران ایئر بیس اور جی ایچ کیو پر دہشت گردوں کے حملوں کی ذمے داری کس پر عاید ہوتی ہے، بعینہ ملک میں فرقہ وارانہ منافرت، مذہبی جنونیت اور مسلکی اختلافات کے خاتمے اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے علماء و مشائخ اپنے فرائض و ذمے داریاں ادا کرنے سے گریزاں کیوں نظر آتے ہیں؟
یہ پاکستان کی بڑی بدنصیبی ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی مذہب، مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر احترام، رواداری، تحمل، برداشت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا کلچر پروان نہ چڑھ سکا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہم اسلام کی آفاقی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اگر ہمارے اکابرین و عمائدین نے صورت حال کی نزاکتوں کا احساس نہ کیا تو تباہی ہمارا مقدر ہوگی۔
آپ ہزاروں سال پر مبنی مذاہبِ عالم کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مختلف ادوار میں عوام النّاس نے کسی نہ کسی مذہب، عقیدے اور شریعت کے تحت ہی اپنی زندگی کے روز و شب بسر کرنے کے طور طریقے اپنائے، آبادیوں کے دور دراز تک پھیلائو کے پہلو بہ پہلو مذاہب کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا، اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زاید انبیاء کرام کو رشد و ہدایت کا سرچشمہ بنا کر بھیجا، جن کی تعلیمات کا بنیادی نکتہ اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت و ربوبیت کا لوگوں کے دلوں میں یقین بٹھانا اور انھیں صبر، تحمل، برداشت، رواداری اور احترامِ انسانیت کا درس دینا تھا۔
آقائے دو جہاں حضرت محمدؐ کی ولادت باسعادت کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اسلام آخری آفاقی مذہب ہے جس کی تعلیمات بھی سراسر امن و آشتی پر مبنی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ دنیا کی تقریباً 7 ارب کی آبادی میں آج بھی عقاید، مسلک اور فرقے کے لحاظ سے مختلف مذاہب کے پیروکار موجود ہیں۔ چند معروف اور بڑے مذاہب میں اسلام، مسیحیت، یہودیت، بدھ مت، ہندو مت اور سکھ مت شامل ہیں اور ان مذاہب میں بھی متعدد فرقے پائے جاتے ہیں۔
ہر مذہب، فرقے اور مسلک کے پیروکار کامل یقین کے ساتھ اس پر کاربند رہتے ہیں اور اپنے مسلک و عقیدے کو اپنے ایمان کا حصّہ سمجھتے ہیں۔ ہر مذہب و مسلک میں امن، رواداری، برداشت، تحمل اور احترام کا درس موجود اور اسلام تو آفاقی امن و سلامتی کا دین ہے جس میں لااکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دین کے ذریعے مختلف مذاہب ومسالک کے درمیان رواداری اور ایک دوسرے کے احترام کا درس دیا گیا ہے، لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب لوگ مذہب، عقیدے، مسلک اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف غیر سنجیدہ، منافقانہ، منتقمانہ، جذباتی، جارحانہ اور متشدد طرز عمل کا اظہار کرتے ہیں اور ہر صورت اپنے عقاید دوسروں پر مسلط کرنے اور اپنی بات منوانے کے لیے ہتھیار اٹھالیتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ غور و فکر کے حوالے سے بانجھ پن کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اگر آپ دوسروں سے اپنے مسلک، عقیدے اور فرقے کے احترام کی توقع رکھتے ہیں تو کیا آپ پر یہ لازم نہیں ہے کہ دوسروں کے عقیدے و مسلک اور فرقے کا احترام کریں؟
پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا اور جمہوری نظام کی اساس بھی مساوات اور قانون کی حکمرانی میں ہے اور قانون کی نظر میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے 11 اگست 1947 کو اپنی یادگار تقریر میں کہا تھا کہ ''اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔''
یعنی پاکستان میں مذہب و عقیدے کی بنیاد پر سب کو آزادی و آئینی تحفظ حاصل ہے لیکن آج قائد کا پاکستان نہ صرف زبان، علاقے اور صوبے بلکہ مذہب، مسلک، عقیدے اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے عمل سے دوچار ہے۔ اسی حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان داخلی و بیرونی خطرات میں گِھرا ہوا ہے۔ لسانی، ثقافتی، صوبائی اکائیوں کے درمیان یکجہتی اور مذہبی رواداری و فرقہ وارانہ ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے اور اگر حکومت نے جرأت مندی کا مظاہرہ نہ کیا تو خدانخواستہ اس ملک کے وجود کو خطرات درپیش ہو جائے گا۔
الطاف حسین نے مختلف مکاتب فکر کے علماء پر مشتمل اتحاد بین المسلمین فورم تشکیل دینے کی تجویز دی ہے۔ حالات کی سنگینی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ملک کی سیاسی، مذہبی وعسکری قوتیں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے اکابرین و عمائدین وطن کی پاسبانی کے لیے اپنے اختلافات بھلا کر متحد ہوجائیں۔