بنوں میں 4 لڑکوں کا قتل مظاہرین کا اسلام آباد کی طرف مارچ
مذاکرات ناکام ہوچکے، قبائلی رہنما ملک موید، مارچ میں ہزاروں افراد لاشوں کے ہمراہ شریک ، پولیس کا مظاہرین پر لاٹھی چارج
خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں جانی خیل کے مقام پر 4 نو عمر لڑکوں کے قتل کے خلاف سات روز سے جاری دھرنے کے منتظمین نے اتوار کی صبح اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کردیا تاہم اسلام آباد روانہ ہونے والے قافلے کا دو کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد ہی دریائے تونچی کے مقام پر پولیس کے ساتھ تصادم ہوا ہے۔
مظاہرین رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے بنوں شہر سے آگے نکل کر کوہاٹ روڈ تک پہنچ گئے۔قبائلی رہنما ملک موید جانی خیال کے مطابق صبح ہونے والے مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں جس کے بعد اْنھوں نے اسلام آباد کی جانب اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔پولیس ہم پر شیلنگ اور آنسو گیس پھینک رہی ہے۔ شاید ان حالات میں دوبارہ جرگہ شروع کرنا ممکن نہ ہو۔'یاد رہے کہ جانی خیل سے تعلق رکھنے والے یہ چار لڑکے احمد اللہ خان، محمد رحیم، رفعام اللہ اور عاطف اللہ تقریباً 27 روز قبل شکار کے لیے گئے تھے اور لاپتہ ہوگئے تھے لیکن گذشتہ اتوار کے روز ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔
بنوں سے صحافی محمد نعمان کے مطابق مظاہرین نے مقتول لڑکوں کی لاشیں ٹریکٹر ٹرالی پر رکھی ہوئی ہیں اور اس قافلے میں تقریباً 10 ہزار افراد کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہیں اور کئی افراد قافلے کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔بنوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شہر میں کچھ مقامات پر موبائل نیٹ ورک کے علاوہ انٹرنیٹ سروسز بھی بند ہیں اور صارفین مشکلات کے شکار ہیں۔دوسری جانب کوہاٹ پولیس نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو اس وقت اپنی تحویل میں لے لیا جب وہ مظاہرے میں شرکت کرنے کے لیے جا رہے تھے۔
ڈپٹی کمشنر بنوں محمد زبیر نیازی نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ امن و امان کو بحال رکھے۔ 'ہم لوگ کوشش کررہے ہیں کہ یہ کسی ایک مقام پر رک جائیں اور ان سے مذاکرات کیے جائیں۔'دریں اثناء وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان ہنگامی طور پر بنوں پہنچ گئے ، اس موقع پرگفتگو کرتے ہوئے انہوں جانی خیل واقعہ پر تعزیت اور متاثرین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا،اُنہوں نے کہا کہ میں شروع دن ہی سے اس واقعے کے سلسلے میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا ہوں، میں نے صوبائی وزراء اور پارٹی شخصیات کو بھی یہاں بھیجا جو متاثرہ خاندانوں کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، آج میں خود جانی خیل قوم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔
مظاہرین رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے بنوں شہر سے آگے نکل کر کوہاٹ روڈ تک پہنچ گئے۔قبائلی رہنما ملک موید جانی خیال کے مطابق صبح ہونے والے مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں جس کے بعد اْنھوں نے اسلام آباد کی جانب اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔پولیس ہم پر شیلنگ اور آنسو گیس پھینک رہی ہے۔ شاید ان حالات میں دوبارہ جرگہ شروع کرنا ممکن نہ ہو۔'یاد رہے کہ جانی خیل سے تعلق رکھنے والے یہ چار لڑکے احمد اللہ خان، محمد رحیم، رفعام اللہ اور عاطف اللہ تقریباً 27 روز قبل شکار کے لیے گئے تھے اور لاپتہ ہوگئے تھے لیکن گذشتہ اتوار کے روز ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔
بنوں سے صحافی محمد نعمان کے مطابق مظاہرین نے مقتول لڑکوں کی لاشیں ٹریکٹر ٹرالی پر رکھی ہوئی ہیں اور اس قافلے میں تقریباً 10 ہزار افراد کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہیں اور کئی افراد قافلے کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔بنوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شہر میں کچھ مقامات پر موبائل نیٹ ورک کے علاوہ انٹرنیٹ سروسز بھی بند ہیں اور صارفین مشکلات کے شکار ہیں۔دوسری جانب کوہاٹ پولیس نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو اس وقت اپنی تحویل میں لے لیا جب وہ مظاہرے میں شرکت کرنے کے لیے جا رہے تھے۔
ڈپٹی کمشنر بنوں محمد زبیر نیازی نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ امن و امان کو بحال رکھے۔ 'ہم لوگ کوشش کررہے ہیں کہ یہ کسی ایک مقام پر رک جائیں اور ان سے مذاکرات کیے جائیں۔'دریں اثناء وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان ہنگامی طور پر بنوں پہنچ گئے ، اس موقع پرگفتگو کرتے ہوئے انہوں جانی خیل واقعہ پر تعزیت اور متاثرین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا،اُنہوں نے کہا کہ میں شروع دن ہی سے اس واقعے کے سلسلے میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا ہوں، میں نے صوبائی وزراء اور پارٹی شخصیات کو بھی یہاں بھیجا جو متاثرہ خاندانوں کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، آج میں خود جانی خیل قوم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔