امجد کی دو تین باتیں

ہال میں داخل ہوئے تو امجد کے لیے ایک حیرت منتظر تھی۔

طارق محمود میاں

امجد اسلام امجد کو ایک تازہ گیلپ پول میں مقبول ترین ادیب قرار دیے جانے پر بہت طبع آزمائی ہوچکی۔ کئی مضمون اور کئی کالم، کئی رنگوں میں کئی اخباروں میں چھپ چکے۔ میں نے بھی جب یہ خبر پڑھی تھی تو خوشی سے میرے ''چھکے چھوٹ گئے تھے''۔ ایسے میں کیا حرج ہے اگر کچھ مشترکہ یادوں کو اپنے قارئین کے ساتھ میں بھی شیئر کرلوں۔

امجد گوناگوں خوبیوں سے مالا مال ایک باغ و بہار شخصیت ہیں۔ آپ چہار جہتی کہہ لیں یا شش جہتی، وہ مایوس نہیں کریں گے۔ ہر پہلو سے امیدوں پر پورا اتریں گے۔ ان سے میری پہلی ملاقات آج سے 34 برس قبل طارق روڈ والے ہوٹل میں ہوئی تھی۔ یہ ایک طے شدہ ملاقات تھی اور میں ان دنوں کراچی سے ایک رسالہ نکالنے کا پروگرام بنارہا تھا۔ رسالہ نکلا تو اس میں جہاں امجد کی اور بہت سی تحریریں شامل ہوئیں وہاں ان کا لکھا ہوا ایک ایسا کالم بھی شایع ہوتا رہا جسے وہ اپنے نام سے نہیں لکھتے تھے۔

چونکہ اتنے عرصے کے بعد تو بین الاقوامی جنگوں کی سازشی دستاویز بھی ڈی کلاسیفائی کردی جاتی ہیں لہٰذا آج میں اس راز سے پردہ اٹھارہا ہوں کہ ''قلمی شورہ'' کے قلمی نام سے لکھ کے لاہور کے ادیبوں کو رگڑا لگانے والا کوئی اور نہیں بلکہ امجد ہی تھے۔ اس ادبی کالم کے بیچ میں وہ ایک آدھ چپت خود کو بھی لگالیتے تھے تاکہ اوروں کا کچا چٹھا کھولنے والے کا اپنا بھید نہ کھل جائے۔ ایک جگہ انھوں نے اپنا غائبانہ ذکر یوں کیا تھا... ''پچھلے دنوں ناصر زیدی بڑا خوش خوش پھر رہا تھا۔ وجہ پوچھی تو بولا، یار میرے شعری مجموعے ''ڈوبتے چاند کا منظر'' کا دوسرا ایڈیشن چھپ رہا ہے۔ امجد اسلام امجد نے بڑی تشویش سے پوچھا، کیوں؟ پہلا ایڈیشن کہاں گیا۔''

ایک اور جگہ انھوں نے لکھا، ''پچھلے دنوں عطاء الحق قاسمی نے وزیر آغا کا ایک عجیب و غریب شعر اپنے کالم کا موضوع بنایا۔ شعر یہ تھا:

دیکھا تو اس کی نظر تھی جل تھل
مشکیزۂ ابر پھٹ رہا تھا


مشکیزۂ ابر کی اس ترکیب پر لوگ بہت ہنسے لیکن سب سے زیادہ لطف اس وقت آیا جب کسی نے انتہائی معصومیت سے ایک محفل میں آغا صاحب سے دریافت کیا، آغا صاحب! پچھلے دنوں پتہ چلا تھا کہ مشکیزۂ ابر پھٹ گیا تھا۔ کچھ زیادہ نقصان تو نہیں ہوا؟''

انھی دنوں امجد کے ڈرامے ''وارث'' کی دھوم تھی۔ وہ ختم ہوا تو چند ہی روز میں پورا ڈراما کتابی شکل میں آگیا اور ''وارث'' کے فنکاروں کا طائفہ لے کر امجد کراچی آگئے۔ یہاں بہت پذیرائی ملی۔ کھڑکی توڑ شوز ہوئے۔ روٹری کلب والوں کو معلوم ہوا کہ امجد اسلام امجد سے میری اچھی یاد اﷲ ہے تو انھوں نے مجھے کہا کہ امجد کو بلائو۔ ہم ان سے شاعری سنیں گے اور ان کے اعزاز میں ڈنر دیں گے۔ میں نے دعوت بڑھا دی۔ دو ہفتے بعد امجد نے اطلاع دی، ''میں کراچی آرہا ہوں۔ روٹری والوں کو گرین سگنل دے دو۔''

جس روز امجد نے آنا تھا کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں ڈنر رکھا گیا۔ بہت سے روٹیرینز اور ان کے اہلِ خانہ منتظر تھے۔ میں نے امجد کا ہوٹل کے دروازے پر استقبال کیا۔ انھوں نے لابی میں ایک آئینہ زدہ ستون کے سامنے ٹھٹک کے جیب سے کنگھی نکالی اور اسے سر کے آگے پیچھے جانے کس چیز میں پھیرنے لگے۔ مجھے دیکھتے ہوئے دیکھا تو کھسیانی ہنسی سے کہا، ''ہی ہی۔ میں نے کہا ذرا زلفیں سنوار لوں۔'' اس روز مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ زلفوں کی امجد کے نزدیک کیا اہمیت ہے۔ شاعری میں زلفِ جاناں کے بارے میں ان کے جذبات کی شدّت کا پسِ منظر بھی شاید یہی ہے۔

ہال میں داخل ہوئے تو امجد کے لیے ایک حیرت منتظر تھی۔ وہ بڑے کنفیوژ ہوئے کیونکہ وہاں ایک اور امجد بھی بطور مہمان موجود تھا۔ یہ خواجہ امجد سعید تھے۔ پہلے تو امجد اسلام امجد کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ دو امجدوں کے بیچ میں اسلام سینڈوچ ہوگیا ہے لیکن اس روز واقعی دو امجدوں کے بیچ میں محفل پھنس گئی۔ کلب کے ممبروں میں ہر مزاج کے لوگ تھے۔ پھر بھی انھوں نے دونوں کو بڑے تحمل سے سنا اور داد دی۔ کچھ لوگ معاشی گفتگو سے بور نہیں ہوئے تو کچھ کو شاعری نے بے لطف نہیں کیا۔

کلب کے ایک پرجوش ممبر جو امجد اسلام امجد کو مدعو کرنے میں ضد کرنے کی حد تک ملوث تھے، خدا حافظ کہنے کے لیے ہوٹل سے باہر تک آئے تو امجد نے پوچھا ''میں آپ لوگوں کو ایک لطیفہ سنائوں؟'' بولے، ''جی ارشاد فرمائیے۔'' امجد نے کہا، ''احمد راہی اور اقبال ساجد لاہور میں مال روڈ پر گھوم رہے تھے کہ ایک فقیر نے اقبال ساجد سے بھیک مانگنا شروع کردی۔

احمد راہی نے فقیر سے کہا، تم آج تک اس لیے فقیر کے فقیر ہو کہ تمہیں اِتنا بھی پتہ نہیں کہ کس سے مانگا جاتا ہے اور کس کو دیا جاتا ہے۔'' لطیفہ سن کے وہ صاحب کچھ پریشان سے ہوگئے اور صورت حال سے لطف اٹھانے کے لیے میں نے منہ دوسری طرف کرلیا۔ امجد کا قہقہہ ان صاحب کے جانے کے بعد بلند ہوا۔
Load Next Story