حکومت کو اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں ہے
سیاست کا یہ اناڑی پن، اناڑی حکومت کے خوب کام آیا۔
آج کی سیاست کا لب لباب اگر کوئی پوچھے تو بس اتنا بتا دیں! کہ پی ڈی ایم نے جو بم حکومت پہ گرانا تھا وہ پی ڈی ایم کے اپنے ہی ہاتھوں میں پھٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی لانگ مارچ کی تحریک بھی کہیں ہوا میں تحلیل ہوگئی۔
سیاست کا یہ اناڑی پن، اناڑی حکومت کے خوب کام آیا۔اپوزیشن اناڑی اس لیے کہ بھلا اُسے اتنا زور لگانے کی اور اتنی جلدی Exposeہونے کی کیا ضرورت تھی؟ تھوڑی دیر انتظار کر لیتے، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے اور ایک دوسرے کو برداشت کرتے تو حکومت نے جلد ہی اپنی کارکردگی کی وجہ سے گھر چلے جانا تھا۔ لیکن اپوزیشن کے اناڑی پن کی وجہ سے اب حکومتی ایوانوں کو خوب بغلیں بجانے کا موقع مل گیا اور عوام کو بھی اسی حکومت پر اکتفا کرنا پڑا۔
بھلا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کا ہو یا پیپلزپارٹی کا، عوام کو اس سے کیا غرض، لیکن اس بات کومیڈیا اور حکومت نے اس قدر بڑھا رکھا ہے کہ ایسے لگ رہا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے۔حالانکہ عوام کے غرض والی جو چیزیں ہیں اُن میں سے سب سے ضروری یہ ہے کہ ''غیر یقینی ''کی صورتحال سے کیسے نکلا جائے۔ کیسے عام آدمی کے روزگار کا پہیہ چل سکے؟ اس کے ساتھ عوام کو اس چیز سے غرض ہے کہ حکومت 10فیصد بھی ڈلیور نہیں کر پارہی۔
یوں لگتا ہے کہ حکومتی ٹیم نااہل ہے، نہ تو انھیں باؤلنگ کا تجربہ ہے، نہ بیٹنگ کا اور نہ ہی فیلڈنگ کا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے اسکول کے دن تھے، جب خان صاحب نے 1971ء میں کرکٹ کی عالمی دنیا میں قدم رکھا وہ پہلا ٹیسٹ انگلینڈ کے خلاف کھیلے جس میں وہ بطور کھلاڑی ناکام رہے جس کی بدولت انھیں اگلے تین سال تک کرکٹ میں جگہ نہ مل سکی۔
پھرانھوں نے دوبارہ 1974ء میں ٹیم میں جگہ بنائی، پھر وہ 1982ء میں ٹیم کے کپتان بنے، پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنتے ہی انھوں نے اپنے سے عمر میں بڑے خالہ زاد بھائی ماجد خان کو ٹیم سے نکال کر اپنی اصول پسندی کی دھاک تو بٹھا دی تھی۔لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ وہ بحیثیت کھلاڑی اپنی زندگی کا پہلا ٹیسٹ بھی ہار گئے تھے،پھر بطور کپتان پہلا ٹیسٹ بھی ہارے اور پہلی سیریز بھی ہار گئے تھے اورپھر پہلا ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ بھی ہار گئے تھے، اپنی کپتانی کا دوسرا ورلڈ کپ بھی ہار گئے تھے، جب کہ انھیں تیسرے ورلڈ کپ میں رمضان کے مہینے میں قوم کی دعاؤں سے فتح ملی تھی، جو خان صاحب کی زندگی کا آخری میچ تھا۔ اب کی بار سیاست کے میدان میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ اسی چکر میں ہار رہے ہیں کہ آگے چل کر انھیں ''سیاست کا ورلڈ کپ'' مل جائے گا لیکن یہ اُن کی محض خام خیالی لگتی ہے۔
سیاست ایک الگ طرح کا کھیل ہے جس میں خراب فیلڈنگ، خراب باؤلنگ، زیادہ نوبال یا غلط شاٹس کی گنجائش نہیں ہوتی۔اس لیے جتنی شاٹس سیاست میں انھوں نے ڈھائی سال میں لگا لی ہیں، وہ اُن کی کارکردگی جانچنے کے لیے کافی ہیں، سیاست کے میدان میں لوگوں نے 21سال اُن کا انتظار نہیں کرنا۔ اب T20کا دور ہے، سنبھل کر تیز اور جدید تقاضوں کے عین مطابق کھیلنا ہوگا، کیوں کہ یہاں پورا ملک داؤ پر لگا ہے، چانسز کم اور مقابلہ زیادہ ہے۔
یہاں ڈھائی ، پونے تین سالوں کی کارکردگی یہ ہے کہ شوگر سکینڈل کی رپورٹ سب کے سامنے آچکی ہے جس میں '' شوگر ملز کارٹل'' کو ایف بی آر کی جانب سے 469 ارب روپے کے ٹیکس نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں اور 110ارب روپے کی مالیت کی سٹہ بازی کا بھید پانے کے لیے ایف آئی اے کو متحرک کردیا گیا ہے۔
پٹرولیم سکینڈل سب کے سامنے ہے، جس میں وزیراعظم نے اپنے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور سیکریٹری پٹرولیم کو برطرف کرتے ہوئے پٹرولیم کے کاروبار میں سیکڑوں ارب کے گھپلوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ پھر کارکردگی یہ بھی ہے کہ آپ اپنے ہی تعینات کردہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف تحریک چلانے لگے ہیںحالانکہ راجہ سکندر کا نام عمران خان نے اپنے ایک غیر سیاسی مشیر کی سفارش پر پیش کیا تھا، اب پورا الیکشن کمیشن ہی حکمرانوں کو متنازعہ اور جانبدار نظر آ رہا ہے۔
چراکارے کند عاقل کہ بازآید پشیمانی (عقلمند وہ کام ہی کیوں کرے جس کے نتیجے میں اسے پشیمان ہونا پڑے)
ہمارے سیاستدانوں کی یہ عجیب سی عادت ہے کہ کسی اہم منصب پر تقرر کرتے وقت بامقصد مشاورت کی ضرورت محسوس کرتے ' نہ مطلوبہ شخص کی اہلیت و صلاحیت' کا جائزہ لیتے اور نہ موزونیت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ کسی قریبی دوست' رشتے دار یا کاروباری حصے دار نے سفارش کردی' وفاداری اور ہر جائز و ناجائز معاملے میں تابعداری کا یقین دلا دیا تو اعلیٰ سرکاری منصب پر تقرر منظور۔پھر نتیجہ ڈسکہ الیکشن جیسا نکلتا ہے، جہاں دنگا فساد ہوا' دو قیمتی جانیں ضایع ہوئیں ۔ لیکن پنجاب حکومت کی نااہلی کا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈالا جا سکتا ہے نہ بیس پریذائیڈنگ افسروں کی کئی گھنٹے تک گمشدگی کا ذمے دار اکیلا راجہ سلطان ہے۔
پورے سسٹم کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ خان صاحب کے پاس بالنگ اور بیٹنگ بہتر کرنے کے لیے ابھی ان کے پاس دوسال ہیں، اس کے ساتھ ہی اب تک ہونے والی سیاسی غلطیوں کو ماننا بھی ہوگا، عمران خان زبردست فائٹر ہے۔ لیکن پوری قوم کے بیڑے کو اجتماعی طور پر پار لگانے کی صلاحیت پر ان کے ناقدین سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ معیشت اور حکمرانی کا جال اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس کی گانٹھوں کو ٹھنڈے دل، گہری سوچ اور تدبر سے ہی کھولنا پڑتا ہے۔
گورننس گہرا کام ہے، اس کے لیے زیادہ گہرے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے فیلڈنگ ٹھیک کھڑی کریں، آپ خود آل راؤنڈر کی کارکردگی دکھائیں اور ایک ایک کرکے اپنے وسیم اکرم اور وقار یونس کو ٹھیک کریں۔ اپوزیشن کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں ، کیوں کہ جب آپ کارکردگی دکھا رہے ہوں گے تو یہ لوگ اپنی موت خود ہی مر جائیں گے!!!
سیاست کا یہ اناڑی پن، اناڑی حکومت کے خوب کام آیا۔اپوزیشن اناڑی اس لیے کہ بھلا اُسے اتنا زور لگانے کی اور اتنی جلدی Exposeہونے کی کیا ضرورت تھی؟ تھوڑی دیر انتظار کر لیتے، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے اور ایک دوسرے کو برداشت کرتے تو حکومت نے جلد ہی اپنی کارکردگی کی وجہ سے گھر چلے جانا تھا۔ لیکن اپوزیشن کے اناڑی پن کی وجہ سے اب حکومتی ایوانوں کو خوب بغلیں بجانے کا موقع مل گیا اور عوام کو بھی اسی حکومت پر اکتفا کرنا پڑا۔
بھلا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کا ہو یا پیپلزپارٹی کا، عوام کو اس سے کیا غرض، لیکن اس بات کومیڈیا اور حکومت نے اس قدر بڑھا رکھا ہے کہ ایسے لگ رہا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے۔حالانکہ عوام کے غرض والی جو چیزیں ہیں اُن میں سے سب سے ضروری یہ ہے کہ ''غیر یقینی ''کی صورتحال سے کیسے نکلا جائے۔ کیسے عام آدمی کے روزگار کا پہیہ چل سکے؟ اس کے ساتھ عوام کو اس چیز سے غرض ہے کہ حکومت 10فیصد بھی ڈلیور نہیں کر پارہی۔
یوں لگتا ہے کہ حکومتی ٹیم نااہل ہے، نہ تو انھیں باؤلنگ کا تجربہ ہے، نہ بیٹنگ کا اور نہ ہی فیلڈنگ کا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے اسکول کے دن تھے، جب خان صاحب نے 1971ء میں کرکٹ کی عالمی دنیا میں قدم رکھا وہ پہلا ٹیسٹ انگلینڈ کے خلاف کھیلے جس میں وہ بطور کھلاڑی ناکام رہے جس کی بدولت انھیں اگلے تین سال تک کرکٹ میں جگہ نہ مل سکی۔
پھرانھوں نے دوبارہ 1974ء میں ٹیم میں جگہ بنائی، پھر وہ 1982ء میں ٹیم کے کپتان بنے، پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنتے ہی انھوں نے اپنے سے عمر میں بڑے خالہ زاد بھائی ماجد خان کو ٹیم سے نکال کر اپنی اصول پسندی کی دھاک تو بٹھا دی تھی۔لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ وہ بحیثیت کھلاڑی اپنی زندگی کا پہلا ٹیسٹ بھی ہار گئے تھے،پھر بطور کپتان پہلا ٹیسٹ بھی ہارے اور پہلی سیریز بھی ہار گئے تھے اورپھر پہلا ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ بھی ہار گئے تھے، اپنی کپتانی کا دوسرا ورلڈ کپ بھی ہار گئے تھے، جب کہ انھیں تیسرے ورلڈ کپ میں رمضان کے مہینے میں قوم کی دعاؤں سے فتح ملی تھی، جو خان صاحب کی زندگی کا آخری میچ تھا۔ اب کی بار سیاست کے میدان میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ اسی چکر میں ہار رہے ہیں کہ آگے چل کر انھیں ''سیاست کا ورلڈ کپ'' مل جائے گا لیکن یہ اُن کی محض خام خیالی لگتی ہے۔
سیاست ایک الگ طرح کا کھیل ہے جس میں خراب فیلڈنگ، خراب باؤلنگ، زیادہ نوبال یا غلط شاٹس کی گنجائش نہیں ہوتی۔اس لیے جتنی شاٹس سیاست میں انھوں نے ڈھائی سال میں لگا لی ہیں، وہ اُن کی کارکردگی جانچنے کے لیے کافی ہیں، سیاست کے میدان میں لوگوں نے 21سال اُن کا انتظار نہیں کرنا۔ اب T20کا دور ہے، سنبھل کر تیز اور جدید تقاضوں کے عین مطابق کھیلنا ہوگا، کیوں کہ یہاں پورا ملک داؤ پر لگا ہے، چانسز کم اور مقابلہ زیادہ ہے۔
یہاں ڈھائی ، پونے تین سالوں کی کارکردگی یہ ہے کہ شوگر سکینڈل کی رپورٹ سب کے سامنے آچکی ہے جس میں '' شوگر ملز کارٹل'' کو ایف بی آر کی جانب سے 469 ارب روپے کے ٹیکس نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں اور 110ارب روپے کی مالیت کی سٹہ بازی کا بھید پانے کے لیے ایف آئی اے کو متحرک کردیا گیا ہے۔
پٹرولیم سکینڈل سب کے سامنے ہے، جس میں وزیراعظم نے اپنے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور سیکریٹری پٹرولیم کو برطرف کرتے ہوئے پٹرولیم کے کاروبار میں سیکڑوں ارب کے گھپلوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ پھر کارکردگی یہ بھی ہے کہ آپ اپنے ہی تعینات کردہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف تحریک چلانے لگے ہیںحالانکہ راجہ سکندر کا نام عمران خان نے اپنے ایک غیر سیاسی مشیر کی سفارش پر پیش کیا تھا، اب پورا الیکشن کمیشن ہی حکمرانوں کو متنازعہ اور جانبدار نظر آ رہا ہے۔
چراکارے کند عاقل کہ بازآید پشیمانی (عقلمند وہ کام ہی کیوں کرے جس کے نتیجے میں اسے پشیمان ہونا پڑے)
ہمارے سیاستدانوں کی یہ عجیب سی عادت ہے کہ کسی اہم منصب پر تقرر کرتے وقت بامقصد مشاورت کی ضرورت محسوس کرتے ' نہ مطلوبہ شخص کی اہلیت و صلاحیت' کا جائزہ لیتے اور نہ موزونیت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ کسی قریبی دوست' رشتے دار یا کاروباری حصے دار نے سفارش کردی' وفاداری اور ہر جائز و ناجائز معاملے میں تابعداری کا یقین دلا دیا تو اعلیٰ سرکاری منصب پر تقرر منظور۔پھر نتیجہ ڈسکہ الیکشن جیسا نکلتا ہے، جہاں دنگا فساد ہوا' دو قیمتی جانیں ضایع ہوئیں ۔ لیکن پنجاب حکومت کی نااہلی کا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈالا جا سکتا ہے نہ بیس پریذائیڈنگ افسروں کی کئی گھنٹے تک گمشدگی کا ذمے دار اکیلا راجہ سلطان ہے۔
پورے سسٹم کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ خان صاحب کے پاس بالنگ اور بیٹنگ بہتر کرنے کے لیے ابھی ان کے پاس دوسال ہیں، اس کے ساتھ ہی اب تک ہونے والی سیاسی غلطیوں کو ماننا بھی ہوگا، عمران خان زبردست فائٹر ہے۔ لیکن پوری قوم کے بیڑے کو اجتماعی طور پر پار لگانے کی صلاحیت پر ان کے ناقدین سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ معیشت اور حکمرانی کا جال اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس کی گانٹھوں کو ٹھنڈے دل، گہری سوچ اور تدبر سے ہی کھولنا پڑتا ہے۔
گورننس گہرا کام ہے، اس کے لیے زیادہ گہرے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے فیلڈنگ ٹھیک کھڑی کریں، آپ خود آل راؤنڈر کی کارکردگی دکھائیں اور ایک ایک کرکے اپنے وسیم اکرم اور وقار یونس کو ٹھیک کریں۔ اپوزیشن کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں ، کیوں کہ جب آپ کارکردگی دکھا رہے ہوں گے تو یہ لوگ اپنی موت خود ہی مر جائیں گے!!!