گڈ بائے ہٹ مین
شیخ صاحب نے زرداری دور میں بھی وزارت خزانہ کی ذمے داری سنبھالی اور وہاں بھی انہوں نے مہنگائی کا طوفان برپا کردیا تھا
جب خان صاحب کے کارپوریٹ گرو اسد عمر وزارت خزانہ چلانے میں ناکام رہے تو پھر آئی ایم ایف کے اکانومی ہٹ مین حفیظ شیخ کو دبئی سے پاکستان امپورٹ کرلیا گیا۔
حفیظ شیخ دبئی میں اپنا بزنس وغیرہ کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کو خزانہ کا پورٹ فولیو تھمادیا گیا۔ قانونی مسائل کی وجہ سے وہ وزیر کے عہدے پر تو متمکن نہ ہوسکتے تھے، لہٰذا انہیں مشیر خزانہ بنا دیا گیا۔ لیکن باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ حفیظ شیخ کے پاس جو پاورز فار ایکسرسائز تھیں وہ کسی بھی وزیر سے کم نہیں تھیں۔
شیخ صاحب اس سے قبل زرداری کے وقت میں بھی وزارت خزانہ کی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں اور وہاں بھی انہوں نے مہنگائی کا طوفان برپا کردیا تھا۔ یہ اپنے پرانے باس کو بھی کوئی نیک نامی نہ دے سکے تھے۔ موجودہ حکومت میں بھی حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر پاکستان کےلیے قرض حاصل کیا تھا۔ اس قرض کو اتارنے کےلیے خصوصی اقدامات کرنا تھے، نتیجے کے طور پر مختلف سبسڈیز کو ختم کیا گیا اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا کر پیسے اکھٹے کیے گئے تاکہ آئی ایم ایف کا قرض واپس کیا جاسکے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آیا کہ قوم اب تک رو رہی ہے۔
اس کے ساتھ حفیظ شیخ کا اپنا مزاج اور رویہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ میری تو ان سے کوئی براہ راست ملاقات نہیں ہے اور راہ چلتے کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہوتا، تاہم جو ان سے مل چکے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ شیخ صاحب کو کچھ صحت کے مسائل بھی ہیں اور کچھ اُن کے مزاجی مسائل بھی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی ساتھی وزرا سے بھی اچھی نہیں تھی اور اپنے ماتحت عملے میں بھی وہ چند ایک کے سوا باقی سب کے ساتھ اَن کمفرٹیبل تھے۔ پھر شیخ صاحب نے جب ڈائریکٹ وزیراعظم کو بائی پاس کرنے کی کوشش کی تو یہ ان کی نوکری کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور انہیں سینیٹ کے الیکشن سے گزار کر خداحافظ کہا گیا۔ شیخ صاحب چند ہی دنوں میں شائد دوبارہ صحراؤں میں اپنے کاروبار کو دیکھنے کےلیے چلے جائیں گے اور یہ کانٹوں کا تاج اب حماد اظہر کے سر پر ہے۔
اس حکومت کا سب سے بڑا چیلینج کیا ہے؟ اپوزیشن؟ نہیں۔ اس حکومت کا سب سے بڑا چیلینج مہنگائی ہے۔ حالات یہاں تک آچکے ہیں کہ معیشت کی حالت انتہائی نازک ہوچکی ہے۔ جس معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر اعشاریہ کچھ فیصد ہوگی، اس کی کیا حالت ہوگی۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان دودھ کے دھلے صادق و امین سے بہتر تو وہ چور بہتر تھے جہاں زندگی کسی نہ کسی طرح افورڈ ہو جاتی تھی، آج تو مرنا بھی ایک مہنگا کام ہوچکا ہے۔
حماد اظہر کے سر پر کانٹوں کا تاج تو رکھ دیا گیا ہے لیکن کیا وہ اس کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟ حماد اظہر کی یہ چوتھی وزارت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے پچھلی 3 وزارتوں میں کون سا ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ اتنی اہم وزارت حماد اظہر کو دی گئی ہے؟ اس میں سے ایک وزارت پر تو موصوف شاید محض چوبیس گھنٹے کےلیے رہے تھے لیکن پھر بھی کارکردگی کے اظہار کےلیے دو وزارتیں تو کافی ہوتی ہیں۔ بطور وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداور انہوں نے کیا کیا ہے؟
میرا ذاتی خیال ہے کہ حماد اظہر سے کچھ نہیں ہوسکے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حفیظ شیخ تو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرکے گئے ہیں۔ مہنگائی کا جن ابھی مزید تباہی مچائے گا، کیونکہ ہم نے آئی ایم ایف سے عہد کیا ہوا ہے۔ ہم نے دیگر شعبوں وغیرہ سے بھی سبسڈیز کا خاتمہ کرنا ہے، اس کا بھی ہم آئی ایم ایف کو کہہ چکے ہیں۔ اب بتائیے کہ ایسی صورتحال میں حماد اظہر کیسے بہتر اننگ کھیلے گا جبکہ اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف کا ہو؟ مجھے تو حماد اظہر کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس وزارت پر تو حماد اظہر سے قبل بھی دو بندے رہے ہیں جن کا پورٹ فولیو ان سے بہت بہتر تھا اور وہ بھی گھر واپس بھیجے گئے ہیں۔ لہٰذا، کیا حماد اظہر حکومت کی بقایا مدت تک یہاں برقرار رہ سکیں گے؟ ہاں، اگر وہ کسی طرح سے آئی ایم ایف کے جال سے نکل جائیں تو وہ یہاں پر آخر تک کام کرسکیں گے، ورنہ یہ بھی جلد ہی گھر جائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حفیظ شیخ دبئی میں اپنا بزنس وغیرہ کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کو خزانہ کا پورٹ فولیو تھمادیا گیا۔ قانونی مسائل کی وجہ سے وہ وزیر کے عہدے پر تو متمکن نہ ہوسکتے تھے، لہٰذا انہیں مشیر خزانہ بنا دیا گیا۔ لیکن باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ حفیظ شیخ کے پاس جو پاورز فار ایکسرسائز تھیں وہ کسی بھی وزیر سے کم نہیں تھیں۔
شیخ صاحب اس سے قبل زرداری کے وقت میں بھی وزارت خزانہ کی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں اور وہاں بھی انہوں نے مہنگائی کا طوفان برپا کردیا تھا۔ یہ اپنے پرانے باس کو بھی کوئی نیک نامی نہ دے سکے تھے۔ موجودہ حکومت میں بھی حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر پاکستان کےلیے قرض حاصل کیا تھا۔ اس قرض کو اتارنے کےلیے خصوصی اقدامات کرنا تھے، نتیجے کے طور پر مختلف سبسڈیز کو ختم کیا گیا اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا کر پیسے اکھٹے کیے گئے تاکہ آئی ایم ایف کا قرض واپس کیا جاسکے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آیا کہ قوم اب تک رو رہی ہے۔
اس کے ساتھ حفیظ شیخ کا اپنا مزاج اور رویہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ میری تو ان سے کوئی براہ راست ملاقات نہیں ہے اور راہ چلتے کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہوتا، تاہم جو ان سے مل چکے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ شیخ صاحب کو کچھ صحت کے مسائل بھی ہیں اور کچھ اُن کے مزاجی مسائل بھی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی ساتھی وزرا سے بھی اچھی نہیں تھی اور اپنے ماتحت عملے میں بھی وہ چند ایک کے سوا باقی سب کے ساتھ اَن کمفرٹیبل تھے۔ پھر شیخ صاحب نے جب ڈائریکٹ وزیراعظم کو بائی پاس کرنے کی کوشش کی تو یہ ان کی نوکری کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور انہیں سینیٹ کے الیکشن سے گزار کر خداحافظ کہا گیا۔ شیخ صاحب چند ہی دنوں میں شائد دوبارہ صحراؤں میں اپنے کاروبار کو دیکھنے کےلیے چلے جائیں گے اور یہ کانٹوں کا تاج اب حماد اظہر کے سر پر ہے۔
اس حکومت کا سب سے بڑا چیلینج کیا ہے؟ اپوزیشن؟ نہیں۔ اس حکومت کا سب سے بڑا چیلینج مہنگائی ہے۔ حالات یہاں تک آچکے ہیں کہ معیشت کی حالت انتہائی نازک ہوچکی ہے۔ جس معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر اعشاریہ کچھ فیصد ہوگی، اس کی کیا حالت ہوگی۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان دودھ کے دھلے صادق و امین سے بہتر تو وہ چور بہتر تھے جہاں زندگی کسی نہ کسی طرح افورڈ ہو جاتی تھی، آج تو مرنا بھی ایک مہنگا کام ہوچکا ہے۔
حماد اظہر کے سر پر کانٹوں کا تاج تو رکھ دیا گیا ہے لیکن کیا وہ اس کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟ حماد اظہر کی یہ چوتھی وزارت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے پچھلی 3 وزارتوں میں کون سا ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ اتنی اہم وزارت حماد اظہر کو دی گئی ہے؟ اس میں سے ایک وزارت پر تو موصوف شاید محض چوبیس گھنٹے کےلیے رہے تھے لیکن پھر بھی کارکردگی کے اظہار کےلیے دو وزارتیں تو کافی ہوتی ہیں۔ بطور وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداور انہوں نے کیا کیا ہے؟
میرا ذاتی خیال ہے کہ حماد اظہر سے کچھ نہیں ہوسکے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حفیظ شیخ تو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرکے گئے ہیں۔ مہنگائی کا جن ابھی مزید تباہی مچائے گا، کیونکہ ہم نے آئی ایم ایف سے عہد کیا ہوا ہے۔ ہم نے دیگر شعبوں وغیرہ سے بھی سبسڈیز کا خاتمہ کرنا ہے، اس کا بھی ہم آئی ایم ایف کو کہہ چکے ہیں۔ اب بتائیے کہ ایسی صورتحال میں حماد اظہر کیسے بہتر اننگ کھیلے گا جبکہ اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف کا ہو؟ مجھے تو حماد اظہر کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس وزارت پر تو حماد اظہر سے قبل بھی دو بندے رہے ہیں جن کا پورٹ فولیو ان سے بہت بہتر تھا اور وہ بھی گھر واپس بھیجے گئے ہیں۔ لہٰذا، کیا حماد اظہر حکومت کی بقایا مدت تک یہاں برقرار رہ سکیں گے؟ ہاں، اگر وہ کسی طرح سے آئی ایم ایف کے جال سے نکل جائیں تو وہ یہاں پر آخر تک کام کرسکیں گے، ورنہ یہ بھی جلد ہی گھر جائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔