ڈپٹی اسپیکر بننے کے بعد خاندان نے میرا سیاسی مقام تسلیم کیا شہلا رضا کے حالات زیست

میری سیاسی وابستگی کے سبب پوزیشن ہولڈر بھائی کو انٹرویو میں فیل کر دیا جاتا، ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی


Rizwan Tahir Mubeen December 07, 2017
ڈاکٹر بننا چاہتی تھی، مگر والدہ ہاسٹل بھیجنے پر تیار نہ ہوئیں، شہلا رضا (فوٹو: ایکسپریس)

KARACHI: یہ ایک سادہ سا کمرہ ہے، جہاں نہایت بے تکلفانہ انداز میں گفتگو ہو رہی ہے، فضا میں دیوار پر ٹنگے ہوئے ٹی وی کی 'خبری باتیں' بھی شامل ہیں آنے جانے والوں کی 'آوازیں' کمرے کے کواڑ کے ساتھ نصب 'حفاظتی چوکھٹ' کے بجنے سے مستقل آ رہی ہیں بہت سے سائلین ہیں، جو اپنی بپتا سنانے یہاں آرہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً بجتا ہوا فون بھی لوگوں کی یہاں برابر رسائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ دیوار کے ساتھ آراستہ نشستوں پر بہت سے افراد تشریف فرما ہیں جب کہ ایک مرکزی مسند ہے، جس کے عقب میں پردے کو پاکستان پیپلزپارٹی کے سہ رنگی پرچم میں بانٹا گیا ہے مسند کے دائیں طرف بے نظیربھٹو، اور بائیں طرف آصف علی زرداری کی تصویر آویزاں ہے، جب کہ اس کے سامنے کی دیوار پر ذوالفقارعلی بھٹو اور نصرت بھٹو دکھائی دیتے ہیں یہ بیٹھک سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا کا دفتر میں ہے جو اپنی معاون خاتون کی مدد سے جلدی جلدی سارے امور نمٹاتی جا رہی ہیں۔

جس رفتار سے لوگ رخصت ہو رہے ہیں، اسی حساب سے آتے بھی چلے جا رہے ہیں، مگر اُن کی جلدی میں پھر بھی عجلت نہیں، وہ بات ٹالتی نہیں، مکمل کرتی ہیں جناح یونیورسٹی کی طالبات سے ملیں، تو اُن کے برقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئیں کہ تم اس کی پابندی کرتے ہوئے بھی سب کچھ کر سکتی ہو ایک خاتون کا حال دل سنتے سمے اس کے گود کے بچے پر توجہ مرکوز ہوئی، اس میں کوئی علامت دیکھی، تو کہا 'اس کا ٹیسٹ ضرور کرالینا'
خدا خدا کر کے سائلین کے مسائل کے بعد ہمارے سوالات کی باری آسکی اور ہم بہ مشکل اُن کی مصروفیات میں گویا ایک چھوٹا سا نقب ہی لگا سکےکیوں کہ دَم سادھے بہت سے درخواست گزار بے چینی سے ہماری گفتگو ختم ہونے کے منتظر تھے۔

1964ءکی 8 جنوری کو سیدہ شہلا رضا کا جنم ہوا،بہ مقام کراچی جیکب لائن کے عقب میں واقع سرکاری کوارٹرز میں سکونت رہی، والد اٹامک انرجی کمیشن سے منسلک تھے، اُن کا تبادلے کے سبب حیدر آباد منتقل ہوئیں، جہاں گورنمنٹ گرلز اسکول لطیف آباد نمبر 10 میں زیر تعلیم رہیں، پھر والد کا تبادلہ ڈیرہ غازی خان ہوا، وہاں جاتیں، تو نصاب مختلف ہوتا، چناں چہ اپنے خیر پور میں اپنے ننھیال آگئیں، اُن کے نانا سید وجیہ الحسنین 1968ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی خیرپور کے پہلے صدر رہے۔ ایف ایس سی کے بعد انہوں نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا اور پی ایس ایف (پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن) میں بھی شامل ہوئیں اور اسی برس اس کی جنرل سیکریٹری ہوگئیں۔ سیاسی زندگی کی پہلی تقریر ذوالفقار علی بھٹو کی 59 ویں سال گرہ پر کی، جسے پیپلزپارٹی کے سینئر راہ نما این ڈی خان، راشد ربانی، سیٹھ ابراہیم اور دیگر نے بہت سراہا۔

1990ءمیں فائنل ائیر میں تھیں، کہ گرفتار کر لی گئیں، کہتی ہیں "گرفتاری کے بعد اسلحے کی فراہمی اور دُہرے قتل کے مقدمات ڈالے گئے۔ 27 دن سی آئی اے سینٹر اور پھر ساڑھے چار ماہ کراچی جیل میں رہیں۔ ضمانت کی 12 درخواستیں مسترد ہونے کے بعد ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت کی کوشش بارآور ہوئی۔ 'اسلحہ سپلائی' کے مقدمے سے بری ہونے میں تین برس لگے۔ گرفتاری گھر سے ہوئی، مگر مقدمے میں الزام تھا کہ گُل بہار کے علاقے سے پکڑا گیا اور گاڑی سے ٹی ٹی اور ڈھائی سو راﺅنڈز اور پتا نہیں کون کون سے ہتھیار برآمد ہوئے، شکر ہے کلاشن نہ تھی، جس کی ضمانت نہیں ہوتی تھی۔ بھائیوں کو بھی ساتھ گرفتار کیا، جنہیں اگلے روز چھوڑ دیا گیا۔"

والدین کو صبح تک پتا ہی نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں؟ شہلا رضا کہتی ہیں کہ اگر وہ یہ پوچھیں بیٹی کہاں ہے، تو اس کے پیسے اور کچھ دینا چاہیں، تو اس کے بھی پیسے۔ والد کی استطاعت نہ تھی، ڈیڑھ لاکھ اور 24 ہزار روپے کی زرضمانت پیپلزپارٹی کی جانب سے دی گئی۔ بے نظیر نے والد کو کافی تسلی بھی دی۔ شہلا رضا بتاتی ہیں کہ گرفتاری پر بے نظیر بہت حیران اور پریشان ہوئیں، انہوں نے ڈانٹا بھی کہ کیا کر لیا تھا تم نے، جو تمہیں بھی گرفتار کر لیا، انہوں نے والد سے بھی پوچھا کہ یہ پڑھائی میں کیسی ہے۔ انہیں جیل کے ماحول اور ان کی تعلیم کی بھی بہت فکر تھی، اس لیے انہوں نے کہا جب تک ڈگری ہاتھ میں نہ آئے، کوئی دوسرے کام نہیں کرو گی۔ جیل میں بھی ان کے پیغامات ملتے رہتے۔

اپریل 1991ءمیں رہا ہوئیں، اور دسمبر 1991ءمیں اُن کی شادی ہوگئی۔ کہتی ہیں کہ میری گرفتاری سے والدین ڈر گئے تھے، 'ایم بی بی ایس' کے بعد بھائی جب ملازمت کے لیے جاتے، تو وہاں یہ بات پہنچ جاتی کہ یہ پیپلزپارٹی والی شہلا رضا کا بھائی ہے، اس لیے انہیں مختلف بہانوں سے ناکام کر دیا جاتا۔ حالاں کہ وہ نرسری سے ہمیشہ اول آتے رہے۔ یہ امر نہایت پریشان کُن تھا۔

شہلا رضا کے والد نے علی گڑھ سے گریجویشن کیا، وہ ہر بات میں بچوں سے تبادلہ خیال کرتے۔ اُن کے نانا بھی ڈاکٹر تھے، لیکن اس کے باوجود والدہ پریشان ہوتیں کہ والد ہر بات میں بیٹیوں سے مشورہ کرتے ہیں۔ مجھ سے پہلے بڑی بہن یونیورسٹی گئیں، یہ اتنی نئی بات نہ تھی کہ خالہ اور پھوپھیوں نے بھی ایم اے کیا، لیکن سیاست ایک نیا قدم تھا، جس سے روایات کا دائرہ ٹوٹا اور والد کو بہت کچھ سننا پڑا، کہ بیٹیوں کو بڑی آزادی دے رکھی ہے، ایک بار تھانے میں ڈی ایس پی نے بھی والد کو کہا 'آپ کی بیٹی سیّد ہے اور لڑکوں کے ساتھ پڑھتی ہے۔' لیکن والد ہمیشہ ساتھ کھڑے رہے، شہلا رضا کے بقول اُن سے پہلے خاندان کی لڑکیوں میں طب یا تدریس کے ہی رجحان تھے، کہتی ہیں کہ "میرے سیاسی مقام کو بھی جب قبول کیا، جب ڈپٹی اسپیکر بنی۔"

تین بہن بھائی شہلا رضا سے بڑے اور ایک بہن چھوٹی ہیں۔ بڑی بہن ڈبل ایم اے، جب کہ ایک بھائی پروفیسر اور دوسرے ڈاکٹر ہیں۔ چھوٹی بہن شارجہ میں ایسوسی ایٹ آرکیٹیکٹ ہیں۔ شہلا رضا نے پنجم اور ہشتم میں تعلیمی وظائف پائے اور جامعہ کراچی میں اہلیت کے بل پر داخلہ پایا۔ گرفتاری کے سبب ایم اے کے امتحانات بعد میں جیل سے دیے، اس میں سیکنڈ ڈویژن آئی، جس کا والد کو بہت افسوس ہوا۔ بچپن میں ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھا، والد نے حیدرآباد کا ڈومیسائل بنوایا تھا، مگر والدہ تیار نہ تھیں کہ انہیں نواب شاہ میڈیکل کالج بھیجا جائے، والدہ کے خیال میں وہ ایک انتہائی بگڑی ہوئی بچی تھیں، کہتیں کہ 'جس نے گھر میں کبھی کوئی کام نہ کیا، وہ ہاسٹل میں کس طرح رہے گی، اس کا روز کسی نہ کسی سے جھگڑا ہوتا رہے گا۔'

شہلا رضا کہتی ہیں کہ 'میں والدہ سے بھی قریب تھی، لیکن پھر اپنی حرکتوں کی وجہ سے والد سے زیادہ نزدیک ہوئی۔ والد نے کبھی ڈانٹا نہیں، لیکن ان کا رعب تھا، کہ اگر کوئی بات اُن تک گئی، تو اچھا نہ ہوگا، کیوں کہ انہوں نے امی کو سارے اختیار دیے ہوئے تھے۔ والدہ سارے بہن بھائیوں کی سرزنش کرتیں، پٹائی بھی کر دیتیں۔ شہلا رضا نے ریڈیو پاکستان پر بھی کچھ پروگرام کیے۔ پہلے بہت کتب تھیں، اب اتنی نہیں۔

1994ءکے زمانے میں شہلا رضا نے 'پیپلز یوتھ' میں بھی کام کیا، کہتی ہیں کہ بے نظیر چاہتی تھیں کہ خواتین کو اسٹوڈنٹ ونگ سے براہ راست پارٹی میں لیا جائے۔ شوہر غلام قادر کی ملازمت کے سبب شہلا رضا اسلام آباد اور راول پنڈی میں رہیں۔ 1997ءمیں کراچی لوٹیں، تو بے نظیر نے شہلا رضا کو کوآرڈی نیشن کمیٹی میں لیا اور انہیں عہدے دار نام زد کرنے کی ذمے داری ملی۔ ایک سال بعد دوبارہ اسلام آباد چلی گئیں اور پھر 2000ءمیں واپس آ کر بطور کارکن شعبہ ¿ اقلیت میں کام کیا، 10 ہزار سے زیادہ ہندو ووٹ رجسٹرڈ کرائے، جو 2002ءکے مخلوط انتخاب کے سبب اور زیادہ کارآمد ہوئے، بے نظیر نے اسے بہت سراہا۔ 1991ءتا 2004ءشہلا رضا کے پاس کوئی عہدہ نہ تھا۔ بہت سے نئے چہرے آگے تھے، لوگ کہتے بھی کہ آپ پارٹی کی خاطر جیل بھی گئیں اور آپ کے پاس کوئی عہدہ نہیں، جس پر وہ کہتیں کہ میری جدوجہد کسی عہدے کی خاطر نہ تھی۔ 2004ءمیں انہیں پیپلزپارٹی خواتین ونگ کراچی ڈویژن کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا، کہتی ہیں کہ خواتین کارکنان کو نئی راہ پر ڈالا۔ 2008ءمیں خواتین کی نشست پر رکن سندھ اسمبلی بنیں اور اگلے دن ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئیں۔ اب پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کی سیکریٹری اطلاعات بھی ہیں۔

اسیری کے دوران انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اُن کے ساتھ آصف زرداری کی پیشی بھی ہوتی۔ اُس وقت انہوں نے شہلا رضا کو بیٹی کہا، آج بھی یہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بے نظیر نے بھی اپنے انہیں بچوں کی طرح سمجھا، اس لیے پیپلزپارٹی کو اپنا خاندان کہتی ہیں۔ بے نظیر سے ملاقات زمانہ ¿ طالب علمی سے رہی۔، اُن کی جلاوطنی کے سبب ملاقات نہ ہو سکی، جسے وہ زندگی کا بڑا نقصان کہتی ہیں۔ 2002ءکے الیکشن سیل میں انہوں نے بطور کارکن کام کیا، کہتی ہیں کہ میرا نام قیادت تک نہ گیا، شاید میں کسی کو اچھی نہ لگتی ہوں۔ جب نتائج دینے کے لیے وہ بے نظیر سے ہم کلام ہوئیں، تو انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کہاں غائب ہیں؟ اس کے بعد بے نظیر کو صورت حال کا اندازہ ہو گیا، پھر انہوں نے مختلف امور میں براہ راست شہلا رضا کو شامل کیا۔ یہ بے نظیر کی خواہش تھی کہ انہیں کسی کلیدی عہدے، جیسے اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر وغیرہ پر فائز کریں۔ شہلا رضا کہتی ہیں 2008ءکے بعد 2013ءمیں بھی وہ ڈپٹی اسپیکر بنیں، جو ایک ریکارڈ ہے، یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں نے بہت زیادہ ہاﺅس چلایا۔'

اسمبلی کی کارروائی کے باب میں وہ کہتی ہیں کہ مرد کسی بھی پارٹی کے ہوں، جب اپنی بات منوانا ہو تو یہ بھول جاتے ہیں کہ سامنے عورت ہے۔ ہم بھی ٹھیرے بے نظیر کے تربیت یافتہ، ہم بھی لڑ جاتے ہیں۔' شہلا رضا بطور ڈپٹی اسپیکر سات مرتبہ قائم مقام گورنر سندھ بھی رہیں۔ شہلا رضا کے استاد اور سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے ایک تقریب میں انہیں شیلڈ دی اور طلبہ کو کہا یہ آپ کے لیے مثالی شخصیت ہیں۔ والدین کے بعد اساتذہ کی تعریف کو وہ بہت مان دیتی ہیں۔ بڑے بھائی کے 'این ایس ایف' سے منسلک ہونے کے باوجود اُس سمت نہ جانے کے سوال پر شہلا رضا کہتی ہیں کہ انہیں پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے متاثر کیا، جب کہ انتخابات میں بھائیوں اور والد سمیت سب نے ووٹ پیپلزپارٹی کو ہی دیا۔ اب بھی رشتے کے بہن بھائیوں کی سیاسی وابستگی مختلف جماعتوں سے ہے، ہر ایک کا حق ہے، وہ چھوٹے ہیں اس لیے انہیں بہت 'تنگ' کرتی ہوں۔

تھانے، پولیس اور کچہری کے مسائل بھگتنے کے بعد اُن کی اصلاح کا سوال ہوا تو گویا ہوئیں کہ پولیس میں بہت سی تبدیلیاں آچکیں اور بہت سی آہستہ آہستہ آئیں گی۔ 18 ہزار سے زائد اہل کاروں کو بہ ذریعہ 'این ٹی ایس' رکھا گیا، ان کی اعلیٰ تربیت کی، مراعات بڑھائیں۔ خواتین کے جو بھی مسائل سامنے آتے ہیں، انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے متحرک رہتی ہیں۔ بہت سے عام نوجوان اٹھا لیے جاتے ہیں، پھر پیسے مانگے جاتے ہیں۔ ان مسائل سے بھی جوجھتی ہیں۔

اگلے چناﺅ میں اقتدار کا ہما پیپلز پارٹی کے سر بیٹھا، تو تیسری بار بھی ڈپٹی اسپیکر بنیں گی؟ کہتی ہیں پارٹی جو چاہے، میں اس کی سپاہی ہوں۔ دیگر مصروفیات میں امور خانہ داری کے علاوہ ٹی وی مذاکروں کی تیاری شامل ہے، کہتی ہیں کہ کسی پروگرام میں پڑھے بغیر نہیں جاتی۔ چینلوں پر سیاسی مکالمے سے ناظرین کو پتا چلتا ہے کہ کس کے پاس کیا دلائل ہیں۔ فلمیں پہلے دیکھ لیتی تھیں، کھانے میں اب سلاد زیادہ تناول کرتی ہیں، ملبوس میں ساڑھی بہت بھاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں خواتین کو ایک خاص شکل میں دیکھنا پسند ہے، ان کی صلاحیتوں کے بہ جائے حلیے پر زیادہ بات کرتے ہیں۔ 'فیس بک' پر ان کے پانچ جعلی اکاﺅنٹ بنائے گئے، سائبر کرائم نے شکایت کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی، ان کا اصل اکاﺅنٹ 'سیدہ شہلا رضا آفیشل' ہے۔ 'ٹوئٹر' پر اب زیادہ متحرک نہیں، کہتی ہیں 'سماجی ذرایع اِبلاغ' (سوشل میڈیا) پر کوئی صحیح بات لکھو تو لوگ گالیاں دیتے ہیں۔ 2005ءمیں شہلا رضا کی 13 سالہ بیٹی اور 11سالہ بیٹا ایک حادثے میں انتقال کر گئے، کہتی ہیں کہ مریض کی حالت نازک ہو تو، ڈاکٹر کو فوراً اسے دوسرے اسپتال بھیج دینا چاہیے۔ بڑی تکلیف دہ بات ہے، جب میرا بیٹا اسپتال پہنچا، تو وہاں زیادہ سہولت نہ تھی، انہوں نے کسی بڑے اسپتال نہ بھیجا، جس کے سبب وہ جاں بر نہ ہو سکا۔

 

45 سال میں اتنی اچھی سڑکیں نہ بنیں

پیپلزپارٹی کی 10 سالہ کارکردگی پر اطمینان کے استفسار پر شہلا رضا نے کہا 'جو شخص بالکل مطمئن ہو، تو اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے، تاہم اُن کا خیال ہے کہ ہماری دو، دو سال کی حکومتوں کے بعد نو سال بعد حکومت ملی۔ ہمیں وفاق کی طرف سے جو مسائل ملے، اسے ہم نے اب بہتری کی طرف گام زن کیا ہے، اس لیے 70 فی صد سے زائد مطمئن ہوں۔ اگر کراچی کی آبادی کے حساب سے پیسہ ملتا تو اور اچھا ہوتا۔ دیگر صوبوں سے شہر قائد میں نقل مکانی کے تناظر میں وہ کہتی ہیں کہ تینوں صوبے کراچی سے بہت زیادہ ناانصافی کر رہے ہیں۔ اُن کی یہ کیسی معاشی حکمت عملی ہے کہ ان کے لوگوں کو وہاں روزگار نہیں ملتا۔ کیا ان کے لوگوں کو روزگار دینے کا ذمہ سندھ کا ہے؟ کیا سب کو یہاں ہی آنا ہے؟ کراچی کے لیے سب کو سوچنا چاہیے۔ وفاق کراچی کے لیے خصوصی پیکیج دے۔ شہلا رضا کہتی ہیں کہ 1956ءسے کراچی کو فراہمی آب کی دو لائنیں تھیںِ، تیسری لائن بے نظیر نے شروع کرائی! یہاں بڑے بڑے نام آئے، لیکن کسی نے پانی کی لائن بھی نہ ڈالی۔ ہم نے ماشااللہ اتنی سڑکیں بنائی ہیں کہ طارق روڈ کی تاجر برادری کہتی ہے کہ 45 سال میں کبھی اتنی اچھی سڑکیں نہ بن سکیں۔ تعلیم پر بھی کام کر رہے ہیں۔ سندھ کے 80 فی صد وسائل کا انحصار وفاق پر ہے، جو پورا نہیں ملتا۔

"ہم نے کراچی میں 'سیاسی مافیا' کا زور توڑا ہے"

پیپلز پارٹی کے پاس کراچی کا مینڈیٹ نہ ہونے کے سوال پر کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کراچی ہم سے نظرانداز ہوا ہو۔ بتاتی ہیں کہ "مخصوص نشست پر رکن اسمبلی ہوں، لیکن گلی محلوں میں بھی پہنچنے کی کوشش کرتی ہوں۔ مارچ 2013ءمیں عباس ٹاﺅن، کراچی کے بم دھماکے میں میرے بہنوئی بھی شہید ہوئے، جب میں وہاں پہنچی، تو سارے ٹھیکے دار بن کے آگئے، کہ ہم حکومت کو نہیں آنے دیں گے، میں نے کہا میں آگئی ہوں، مارو مجھے۔ مجھ سے پہلے وہ شازیہ مری کو بھگا چکے تھے۔ اس میں وہ لوگ بھی تھے، جن کے لوگ شہید ہوئے اور ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے تھا۔ بم دھماکے کے بعد حکومت کا راستہ روکنے والے تو دہشت گردوں کی 'بی ٹیم' ہوئے۔ وہاں بڑے بڑے صحافی موجود تھے، لیکن سیاسی مافیا کے سامنے اُن کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ آکر گفتگو کرتے یا کہیں لکھتے اور کہتے کہ ہم وہاں آئے۔ اب اللہ کا شکر ہے، ہم نے اس زور کو توڑا ہے، اب لوگ دیکھیں گے، اتنا مینڈیٹ نہیں تھا، جتنا ٹھپوں سے دیا جاتا تھا۔ لوگوں کو ایک مختلف کراچی ملے گا۔ بے شک ہم نہ ہوں، مگر ہمارا کام سیاسی نظام ٹھیک کرنا ہے۔ اسپتال میں متاثرین عباس ٹاﺅن نے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے ہاتھ چومے، جو وہاں ہمارا راستہ روکنے والوں کے منہ پہ تمانچہ تھا، انہوں نے میری تصویر پر اپنے لوگوں کے چہرے لگا کر اخبار میں شایع کرائی، جو میں نے سندھ اسمبلی میں بھی لہرایا۔" جامعہ کراچی میں تشدد کے تذکرے پر کہتی ہیں کہ وہاں ہمارے سامنے تین طلبہ کو ایم کیوایم کے لڑکوں نے مارا، مجھے بھی بٹ (Butt) سے مارا گیا، جس کے سبب آج بھی کاندھے میں مسئلہ ہے۔

اقبال کی شاعری پر ملک گیر مقابلہ جیتا

ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا بتاتی ہیں کہ اُن کے والد مطالعے کا حکم دیتے، انہوں نے گھر میں 'ہمدرد نونہال' اور 'بچوں کی دنیا' وغیرہ لگوائے، عمران سیریز اور طلسم ہوش رُبا بھی پڑھا۔ عصمت چغتائی اور سعادت منٹو کو بھی پڑھ ڈالا، لیکن بعد میں دوبارہ پڑھا، تو پھر اس کا اِبلاغ اچھی طرح ہوا۔ شاعری کے تذکرے پر گویا ہوئیں کہ بہت سے لوگوں کے پاس پیسہ ہے، تو وہ کتاب شایع کرالیتے ہیں، اسے لیے بعض اشعار کی بحر میں تبصراتی طبع آزمائی بھی کرتی ہیں۔ احمد فراز، فیض احمد فیض، پروین شاکر، افتخار عارف، شاہدہ حسن اور فاطمہ حسن وغیرہ کو پڑھا ہے۔ شہلا رضا کہتی ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں کلام اقبال خوب پڑھا، بلکہ رٹا۔ اقبال کی صد سالہ پیدایش کے سلسلے کا ملک گیر مقابلہ ¿ شاعری جیتا، جس میں اقبال کے کسی شعر کا لفظ دے کر اُس لفظ کا شعر پڑھنا ہوتا تھا۔ وہ اسکول میں بھی تقاریر کرتیں، جو والد لکھ کر دیتے۔ یونیورسٹی پہنچیں، تو خود لکھنا شروع کیا، جب بھی وہ کتابوں کا ڈھیر لے کر بیٹھ جاتیں، تو سارے بہن بھائی سمجھ جاتے اور مشورے دینے لگتے۔ 'این ایس ایف' سے وابستہ بڑے بھائی اپنے افکار شامل کراتے، اس طرح ایک تقریر میں تمام بہن بھائیوں کی رائے ملحوظ رکھنی پڑتی، لیکن پھر وہ خود پر زیادہ اعتماد کرنے لگیں، یوں تقریر میں 70 فی صد مندرجات اُن کے ہوتے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں