زندگی میں کوئی غم نہیں پالا ہجرت صرف پاکستان کی خاطر کی معروف شاعر رسا چغتائی سے ایک بیٹھک

دادا جب بازار سے گزرتے، تو ہندو دکان دار بھی احتراماً کھڑے ہو جاتے، معروف شاعر کی یادیں

اردو میں میرتقی میر جیسا کوئی سخن وَر آج تک نہیں آیا، رسا چغتائی ( فوٹو: ایکسپریس)

RIYADH:
انہوں نے متحدہ ہندوستان کی ریاست جے پور کی نظامت سوائے مادھو پور میں آنکھ کھولی، سن پیدائش؛ 1928ئ، انگریزی تاریخ تو انہیں معلوم نہیں، البتہ اٹھارہواں روزہ تھا، وہ پانچ بہن بھائی تھے اُن سے بڑی دو بہنیں تھیں، جب کہ ایک بہن اور ایک بھائی اُن سے چھوٹے تھے۔ والد مرزا محمود علی بیگ تحصیل میں عرائض نویسی سے گزر بسر کرتے۔ کہتے ہیں 'بچپن بہت اچھا گزرا دادا مرزا نجف علی بیگ مولوی تھے، بہت سے لوگ اُن کے معتقد تھے اور ان سے اردو پڑھنے آتے، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ انہوں نے بھی اپنے دادا سے ہی اردو پڑھی، بچپن میں وہ اکثر دادا کے ساتھ ساتھ رہتے، دادا اُن کے ناز اٹھاتے آٹھ، دس سال کے تھے، جب دادا کا سایہ سر سے اٹھ گیا، وہ عاشورہ کا دن تھا، اُن کا جنازہ محرم کے جلوس کے پیچھے پیچھے تھا۔ یہ تذکرہ مرزا محتشم علی بیگ کا ہے، جنہیں سخن وَری کی دنیا میں رسا چغتائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جب ہم اُن سے ملاقات کے لیے نکلے، تو دیکھا اُس نگر کی دیواروں پر اپنے راج کے لیے بہ یک وقت کئی سیاسی ومذہبی جماعتیں سرگرداں تھیں اور کہیں تو باہم دست وگریباں ہوتی ہوئی بھی محسوس ہوتیں انواع اقسام کے نعرہ ¿ فتح ومرگ، مطالبوں اور جلسے کی خبروں کے ساتھ ان دیواری تحریروں کا شدید اختلاف بھی عیاں تھا جا بہ جا جس شخصیت کو مطعون کیا گیا، بہت سی جگہوں پر اُسے ہی 'قوم کے باپ' کے خطاب سے نوازنے والوں نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا ایسی ہی تحریروں سے رنگی دیواروں کے درمیانی راستوں سے ہوتے ہوئے ہم رسا چغتائی کے مسکن پہنچے اُس روز دھوپ چمکیلی تھی، لیکن نرم سمندری ہواﺅں نے سورج چڑھتے سمے بھی موسم خوش گوار بنایا ہوا تھا تب ہی اُس دوپہر بجلی کے آنکھ میچ لینے کے باوجود ہمیں موسم کی شدت محسوس نہ ہوئی کھلے ہوئے کواڑ کمرے میں قدرتی روشنی کا بھرپور انتظام کیے ہوئے تھے۔

اس سادہ سے مکان کے مقابل سرسبز 'رانی پارک' نے فضا کو اور بھی شانت بنایا تھا، سادہ اور چھوٹی سی بیٹھک میں ہم اُن کی زبانی گئے دنوں کی بازگشت پر کان لگائے تھے، جب وہ مغلیہ سلطنت کے آخری برسوں میں جنم لینے والے اپنے دادا کا تذکرہ کرتے، تو ہم ان کی آنکھوں میں اُس اتھل پتھل زمانے میں زندگی کرنے والی نگاہوں کے عکس تلاشتے گفتگو کے پس منظر میں کبھی کوئل کی کُوک رس گھولتی، تو کبھی کسی پھیری والے کی صدا سماعتوں کو اردگرد کی رواں دواں زندگی کی خبر دیتی۔

رسا چغتائی بتاتے ہیں کہ سوائے مادھوپور میں ہندوﺅں کی اکثریت تھی، سب بہت اچھی طرح مل جل کے رہتے تھے۔ تمام سیاسی سرگرمیوں کی آزادی تھی، ہندو اور مسلمانوں کی الگ الگ تحریکوں اور 1947ءمیں بٹوارے کے باوجود بھی وہاں کی فضا ذرا تلخ نہ ہوئی۔ آج بھی وہاں مسلمان ہیں اور بڑے عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ وہاں سے ہجرت کا سبب بس یہ تھا کہ مسلمانوں کے دل میں ایک تعلق بن گیا تھا کہ ایک مسلم ریاست بن رہی ہے۔ سوائے مادھوپور میں کبھی جناح آئے، نہ ہی انہوں نے وہاں دیگر مسلم لیگی راہ نماﺅں کو دیکھا، مسلم لیگ کے لیے مقامی سطح پر کارکنان ہی متحرک تھے۔ بٹوارے کے بعد انہیں وہاں کوئی پریشانی نہ تھی، وہ ایس پی آفس کے شعبہ ¿ حسابات میں کلرک تھے۔ اس سے قبل ایک سال مڈل اسکول میں پڑھاتے رہے، والد نے افسر سے کہا میرا دل پریشان ہوتا ہے، یوں وہ ایس پی آفس میں ہوگئے۔ روزی روٹی اور دیگر مسائل کے باعث مزید تعلیم نہ حاصل کر سکے۔

رسا چغتانی نے 1948-49ءمیں براستہ کھوکھراپار کراچی ہجرت کی۔ اُس وقت بیٹا ذرا بڑا تھا، جب کہ بیٹی گود کی تھی۔ اسٹیشن ماسٹر اُن کے ہم زلف تھے، جس سے کافی سہولت رہی۔ کھوکھراپار سرحد کے قریب واقع ایک کوارٹر میں مہینا بھر ٹھیرے۔ دوران سفر بھی کہیں خوف یا بے امنی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کہتے ہیں کہ صرف تن کے کپڑوں میں نکلے، ہندوستان سے صرف اللہ کا نام لے کر آئے۔ وہاں کا مکان بہن بھائیوں کے حوالے کیا، اب بھی وہاں بہن کے بچے رہتے ہیں۔ والد کا انتقال ہو چکا تھا، جب کہ والدہ یہاں آئیں۔ کراچی آکر جیکب لائن میں 30 روپے مہینے پر ایک کوارٹر ملا۔ اس کے بعد رہائش میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ 'آئی ایریا' میں جگہ ملی، تو مکان بنوایا۔

تجربے کار تھے اس لیے یہاں آکر ڈی سی آفس کے محکمہ خزانہ میں ملازمت ہوگئی۔ کہتے ہیں، بہت اچھا وقت گزرا۔ اس کے بعد دو سال کے لیے کورٹ میں بھی رہے اور تقریباً 20 سال بعد ازخود ریٹائرمنٹ لی۔ کچھ دوست 'حریت' اخبار میں تھے، اِن کے توسط سے وہاں پروف ریڈر ہوگئے، یہاں بھی کافی عرصہ رہے، پھر حریت کے نئے مالکان اور ماحول سے موافقت نہ پاکر یہ سلسلہ ترک کر دیا۔

رسا چغتائی بتاتے ہیں کہ 1945-46ءسے شعر کہہ رہے ہیں، پہلا شعر اب ذہن سے محو ہو چکا۔ اپنے ایک عزیز اور شاعر بنیش سلیمی کا نام وہ بطور استاد لیتے ہیں، جنہوں نے اتفاقاً رسا چغتائی کا کچھ کلام پڑھا، تو شاعرانہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقع کراچی میں ملا، یہ منظر بھی اب یادداشت میں کچھ دھندلا سا گیا ہے، ذہن پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ یہ 1957-58ءکا زمانہ تھا۔

ہندوستان میں رسا چغتائی کے گھر میں زیادہ کتابیں تو نہ تھی، لیکن یہ یاد ہے کہ غالب، میر اور مصحفی وغیرہ کے نسخے موجود تھے۔ والد کو موسیقی کا بہت شوق تھا، گھر میں وہ دادا کے ڈر کے باعث ساز وغیرہ نہیں رکھتے تھے، لیکن دادا سے چھپ کر دوست احباب کے ساتھ قوالی اور شاعری وغیرہ کی محفلیں سجاتے تھے۔ دادا کے رعب کی بنا پر کوئی شکایت بھی نہ کرتا کہ کہیں وہ الٹا اسے ہی نہ ڈانٹیں کہ تمہارے گھر میں ہو رہا ہے "کیا لگا رکھا ہے یہ؟" (ہنستے ہوئے اُن کے لہجے کی نقل کرتے ہیں) وہاں اُن کے دادا کی بہت عزت تھی، جب وہ اپنے دادا کے ساتھ بازار سے گزرتے، تو اُن کے دادا کو دیکھ کر ہندو دکان دار تک احتراماً کھڑے ہو جاتے تھے۔ دو تہائی ہندو آبادی کے حامل سوائے مادھوپور کا یہ نقشہ انہیں آج بھی حیران کر دیتا ہے۔

ذاتی کتب کے تذکرے پہ رسا چغتائی نے بتایا کہ ایک دوست کو میر صاحب کا دیوان پڑھنے کو دیا، دوست کا انتقال ہو گیا، تو وہ واپس نہ مل سکا۔ ان کے بچوں سے کہا تب بھی کوئی سبیل نہ ہوئی، کہتے ہیں ممکن ہے کہ دوست نے بھی کسی اور کو دیا ہو۔' اُن کی سب شعرا سے دوستی اور اچھے تعلقات ہیں، کہتے ہیں، میں سب کو ہی سلام کرتا ہوں۔ کسی قریبی شاعر کا نام لینا چاہا، جو زور ڈالنے کے باوجود ذہن میں نہ آیا۔ سخت شاعری پر ردعمل کے سوال پر کہا کہ 'میں کبھی ان چکروں میں پڑا ہی نہیں!'

رسا چغتائی اچھی شاعری کے سفر کرنے پر گہرا یقین رکھتے ہیں کہ کلام ہی شاعر کی شناخت بنتا ہے، لوگوں کو بعض اشعار کے صرف ایک مصرع، جب کہ بہت سے پورے اشعار ازبر ہو جاتے ہیں۔ یہ خدا کی دین ہے، جس پر کرم ہو جائے۔ رسا چغتائی شاعری میں کسی مخصوص شخصیت کو نہیں مانتے، تاہم وہ میر تقی میر کے معترف ہیں۔ انہیں استاد قرار دیتے ہیںِ کہ سب نے اِن کی پیروی کی، لیکن کوئی ان کے مقام تک نہ آسکا، اُن سے غالب سمیت تمام شاعروں نے سیکھا کہ شاعری کیا چیز ہوتی ہے۔ آج تک اتنا بڑا شاعر پیدا نہیں ہوا، مستقبل میں کوئی آئے تو آجائے۔ کہتے ہیں کہ غالب نے بھی بڑی شاعری کی، مگر وہ میر کے مقام کو نہ پا سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ خداداد صلاحیتیں ہیں، میر صاحب کو خاندان نے تباہ کیا تھا اور انہیں اپنے طور پر زندگی گزارنی پڑی تھی۔ میر کے خیالات، احساسات اور آسان زبان حیران کرتی ہے ، پھر میر کی انکساری دیکھیے، کہتے ہیں

میر نہیں پیر تم کاہلی اللہ رے
نام خدا ہو جواں کچھ تو کیا چاہیے

رسا چغتائی بہت سے نئے شعرا سے بھی متاثر ہیں، تاہم کسی کا نام نہیں لیتے۔ کہتے ہیں بعض نقادوں کی نثر بہت اچھی تھی، جیسے سلیم احمد اور قمر جمیل۔ رسا چغتائی نے دوستوں کے ساتھ لاتعداد فلمیں دیکھیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ہندوستانی فلموں کا جواب نہیں، جب کہ ہمارے ہاں ایک فلم بھی اچھی نہیں بنی۔ انہیں کلا کار بھی وہیں کے بھاتے ہیں، جن میں دلیپ کمار سرفہرست ہیں، جب کہ گائیکی میں وہ اپنے میں ملک کی سبقت مانتے ہیں اور مہدی حسن کا فن سراہتے ہیں۔ رسا چغتائی کا کہنا ہے کہ ہماری شاعری کی برتری واہگہ پار بھی تسلیم کی جاتی ہے۔

رسا چغتائی کے خیال میں جیسے عالم ہونا اور زبان دان ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اسی طرح جب کوئی شاعر ہے، تو اس کے لیے اہل زبان یا غیر اہل زبان ہونا معنی نہیں رکھتا۔ بعض معمولی پڑھے لکھے شعرا کے کلام نے بھی قارئین کو متاثر کیا، کیوں کہ یہ فطری صلاحیت ہے، جسے مل گئی، اُسے مل گئی۔ رسا چغتائی سمجھتے ہیں کہ اردو تو ہم بھی روز سیکھتے ہیں، نئے لفظ کا برتاﺅ دیکھ کر اسے استعمال کرتے ہیں۔ اردو شاعری کے مستقبل کو امید افزا قرار دیتے ہیں کہ 'شاعری کا مستقبل اچھا ہے تو اردو کا بھی اچھا ہی ہے۔'


رسا چغتائی کسی مخصوص پہناوے یا کسی رنگ کے قائل نہیں، پتلون قمیص بھی پہنتے ہیں اور شیروانی بھی۔ کھانے پینے کے بات ہوئی، تو ان کی بھولی بسری یادیں چِھڑ گئیں بتایا کہ ہندوستان میں وہ تیتر کا شکار کر کے اس سے شوق فرماتے، اب یہاں یہ ممکن نہیں۔ بڑا گوشت انہیں شروع سے ہی پسند نہیں۔ کہتے ہیں ہندوستان میں تو گائے کٹتی ہی نہ تھی، کوئی چھپ چھپا کے کاٹ لیتا ہو تو اور بات ہے۔ خوشی کے ذیل میں رسا چغتائی دل کے موسم کے اچھے ہونے کے قائل ہیں کہ جی کو لگے، تو اچھی ہوا چلنے سے بھی مسرت ہو جاتی ہے۔

شاعر کے دل پر چوٹ لگنے کا سوال ہوا تو فرمایا کہ میں نے کبھی کسی غم کو نہیں پالا، اللہ پر پختہ یقین ہے، اس لیے کسی بھی دکھ پر کچھ دن سے زیادہ افسردہ نہیں رہا، اپنے رب سے کہہ دیتا ہوں۔ شاعری میں اِن غموں کا رنگ کہں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ زندگی کے بڑے غموں کے استفسار پر انہوں نے پاکستان خراب ہونے کو سب سے بڑا روگ بتایا۔ وہ ملک کا قیام اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں، لیکن یہ جن لوگوں کے ہاتھ آیا، انہوں نے اسے سنوارا نہیں، خدا جانے اس میں کیا مصلحت ہے۔ اگر بنایا جاتا تو آج پاکستان 'پاکستان' ہوتا۔ یہاں کی حالت دیکھیے، اچھے شہر کا یہ حال ہوتا ہے؟

گفتگو کے اس مرحلے پر رسا چغتائی ایک بار پھر بیتے ہوئے زمانے کی یادوں میں کھونے لگتے ہیں، ان کے ذہن کے دریچے پر ماضی کا ایک دیپ روشن ہو جاتا ہے پھر وہ سلسلہ ¿ کلام یوں جوڑتے ہیں 'اگر آپ جے پور دیکھتے تو حیرت کرتے وہاں ہر سڑک پر ایک مقررہ فاصلے پر جمعدار متعین ہوتے۔ اگر کسی گھوڑے نے لید کر دی، تو مجال نہ تھی کہ پڑی رہ جائے، کسی بچے نے کچھ کھا کر کاغذ پھینک دیا تو فوراً اٹھاتے۔ اعلیٰ افسران دورے پر نکلتے اور کہیں غفلت نظر آتی، تو اس پر سخت گرفت ہوتی۔

سرحد کے اُس پار گردش کرتا ہوا اُن کا ذہن جب سوائے مادھوپور کے سبزے کے تذکرے پر آیا، تو یادوں کی سحر کی جکڑن مزید گہری ہوگئی اور وہ چشم تصور سے ہمارے سامنے منظر باندھنے لگے کہ 'ایسا سبزہ کہ سبحان اللہ، سبحان اللہ! ایمان سے جی چاہتا کہ وہیں بیٹھے رہو اور بڑی تعداد میں لوگ شام کے وقت بچوں کے ساتھ وہاں جا کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔' بدستور سیما پار کا تصور طاری کیے ہوئے وہ جے پور کا حُسن یاد کرتے ہیں کہ 'وہاں ایک لائبریری کی عمارت تھی، جس کے ارد گرد کیا زبردست سبزہ تھا دکانوں کے ساتھ چھتی ہوئی چوڑی فٹ پاتھ کا تذکرہ کرتے ہیںکہ مینہ برستے سمے اس کی پناہ میں آئیے اور چھپر تلے ہو کر برسات کا لطف لیا کیجیے۔ بٹوارے کے بعد وہ ایک بار ہی سوائے مادھوپور گئے، جب بہن بیمار تھیں، کہتے ہیں کہ تقسیم کے بعد اب پہلی سی صورت نہیں رہی، سندھ سے نقل مکانی کر نے والوں کے سبب وہاں کی آبادی کافی گنجان ہوگئی۔

"ہمیں ایک وابستگی تھی پاکستان سے، کہ اپنا ملک ہوگا، اپنے لوگ ہوں گے، آپ بتائیے، یہاں کوئی تہذیب دکھائی دی؟" دل فریب اور شانت ماضی سے وہ حال کی کٹھنائیوں میں آکر ہمیں جھنجوڑتے ہوئے محسوس ہوئے ہم نے پوچھا کس کی غلطی ہے، تو کہا پاکستان کو اپنا سمجھا، مگر اس کا غلط فائدہ اٹھایا گیا، یہاں پڑوسی، پڑوسی کو نہیں جانتا، اس کے دکھ درد میں کیا شریک ہوگا۔ رسا چغتائی کو معاشرے کا بگاڑ اور گندگی بہت دل گرفتہ کر دیتی ہے۔

 

'بچوں سے کہا ہے کہ چاہو تو کتاب چھپوا لینا'

رسا چغتائی کی پانچ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، پہلا شعری مجموعہ بہ عنوان 'ریختہ' منظر عام پر آیا، یہ 1980ءکی دہائی تھی۔ اس کے بعد زنجیر ہمسائیگی، تصنیف اور چشمہ ٹھنڈے پانی کا قارئین کے ہاتھوں میں آئیں، جب کہ 2007ءمیں 'تیرے آنے کا انتظار رہا' منصہ ¿ شہود پر آئی۔ اب بھی آمد ہوتی ہے، تو لکھ لیتے ہیں، لیکن ابھی کلام اتنا نہیں ہوا کہ کتابی صورت میں آسکے۔ کہتے ہیں کہ بچوں سے کہا ہے کہ چاہو تو چھپوا لینا۔ رسا چغتائی شاعری کے لیے کیفیت کو دوش دیتے ہیں کہ طبیعت اجاگر ہو جائے، تو بہ مشکل پانچ چھے ماہ میں کتاب آسکتی ہے۔ اصل امکان دل اور ذہن کی بیداری کا ہے، اور یہ اللہ کی طرف سے ہے، پھر چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ وہ کسی وقت کو اشعار کی آمد سے منسوب کرنے کے قائل نہیں، کہتے ہیں کہ دن رات کی قید نہیں، جو لوگ رات کو 'آمد' کی بات کرتے ہیں، وہ ارادتاً رات کو سکون کی بنا پر پڑھنے بیٹھتے ہوں گے، تو شعر بھی کہہ لیتے ہیں، میرا بھی کبھی جی ہوتا ہے، تو رات کو بیٹھ کر پڑھتا ہوں، لیکن اب کچھ پڑھنے کی کوشش کروں، تو سر میں درد ہونے لگتا ہے۔'

'رشوت کیوں لی؟'

سوائے مادھوپور میں رسا چغتائی کا گھر پختہ اور مناسب تھا، جب کہ اُن کے تایا مرزا محمد علی بیگ کا مکان کچا تھا۔ کہتے ہیں کہ تایا عالم، حافظ، ترجمہ پڑھے ہوئے، عالموں سے خط وکتابت رہتی اور بہت نیک آدمی تھے، ان کے بیٹے کو ملازمت ملی، انہوں نے کہا بس اپنی تنخواہ لینا، کسی قسم کی کوئی ناجائز رقم یا رشوت نہیں لینا۔ ایک دن تایا کو خبر ہوئی کہ انہوں نے کچھ پیسے لیے ہیں، تو انہوں نے بیٹے کو بلا کر پوچھ گچھ کی کہ مجھے بالکل سچ سچ بتاﺅ، جھوٹ مت بولنا، تو وہ قبول لیے کہ میں تو نہیں لے رہا تھا، وہ دے گیا! تایا نے کہا 'دے گیا تھا، تمہیں تو نہیں لینے چاہیے تھے' ان کے بیٹے نے کہا کیا کروں، وہاں تو ایسا ہی چلتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے بیوی سے کچھ کہا نہ بچوں سے، سیدھے گھر سے اٹھ کر مسجد کے ہجرے میں جا کر بیٹھ گئے۔ پھر کبھی گھر کا رخ نہیں کیا اور ساری زندگی وہیں گوشہ نشیں رہے۔

بچوں کے خواہشیں پوری کرنا شادمان کرتا ہے

رسا چغتائی بتاتے ہیں کہ بچپن میں والد کی ایک دفعہ کی ڈانٹ سے ہی رعب قائم ہوگیا تھا، والدہ البتہ ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی ہیں۔ اُن کی شادی ہجرت سے قبل والدین کی پسند سے ہوئی، دو بچوں کی ولادت بھی بٹوارے سے قبل ہوئی، شریک حیات کا نام عائشہ بیگم تھا، جو 2003ءمیں داغ مفارقت دے گئیں، کہتے ہیں کہ 'اس نے میرا بہت ساتھ دیا۔' بچوں کے نام مرزا احتشام علی بیگ، نزہت عائشہ، مرزا مبتخر علی بیگ، مرزا مفصل علی بیگ، فرحت عائشہ اور حسنت عائشہ ہیں۔ پانچ سال قبل بڑی صاحبزادی نزہت عائشہ دار فانی سے کوچ کر گئیں، جس کے ایک سال بعد سب سے بڑے بیٹے مرزا احتشام علی بیگ کا انتقال ہوا، تین برس پیش تر مرزا مبتخر علی بیگ بھی نہ رہے رسا چغتائی کے چھوٹے بیٹے مرزا مفصل نے بتایا کہ تین عشروں قبل وہ نانا کے مرتبے پر اور 23 برس پہلے دادا کے درجے پر فائز ہوئے، رسا صاحب کہتے ہیںکہ نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں میں ہی گھِرا رہتا ہوں۔ ان کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی خواہشیں پوری کرنا انہیں شادمان کرتا ہے۔ آج کل کی مصروفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر بچوں کے ساتھ وقت بِِتاتے ہیں۔

زندگی خود ایک نظریہ ہے

جب ہم نے پوچھا کہ اپنے کلام میںکس چیز کو موضوع بنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ تو گویا ہوئے کہ اگر شاعری میں موضوع ہے، تو پھر وہ شاعری نہیں ہے، یہ تو ہمارے اندر کی بیداری ہے، کہ ہمیں کیا اچھا لگا اور کیا برا۔ رسا چغتائی اشعار میں دل کے احساس اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اِن کا زبان زدِعام ہونے والا شعر "تیرے آنے کا انتظار رہا، عمر بھر موسم بہار رہا" انہیں بھی بہت پسند ہے۔ ہم نے پوچھا کس کا انتظار رہا؟ تو ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ "یہ بتانے کو تھوڑی ہے!" پھر گویا ہوئے کہ یہ دراصل زندگی ہے، خوشی ہے، اس میں ہرچیز پوشیدہ ہے، کوئی مخصوص شخص اس شعر کا مخاطب نہیں۔ اپنی شاعری کا نظریہ 'زندگی' بتاتے ہیں کہ ہمارا اپنا ماحول، شعور اور تعلیم کو اس میں دوش ہے۔ بہت سے لوگ اعلیٰ تعلیم کے بعد تدریس یا دیگر کام کرنے لگتے ہیں، کیوں کہ شاعری ہر شخص کے بس کا کام نہیں۔ رسا چغتائی کا خیال ہے کہ اقبال نے تمام شاعروں میں سب سے الگ ڈھب پر شاعری کی۔ انہوں نے اپنے طور پر موضوعات چُنے۔ شاعر سے کسی موضوع پر اظہار کا کہا جائے، تو یہ ممکن نہیں۔
Load Next Story