پٹواری
دیہاتیوں کے لیے گاؤں کے ملک یا چوہدری کے بعد سب سے زیادہ محترم وہ شخص ہے جو ان کی زمینوں کا حساب کتاب رکھتا ہے۔
حکومتی محکمہ مال کے متعلق وہی لوگ زیادہ جان پہچان رکھتے ہیں جن کا واسطہ اس محکمہ سے رہتا ہے اور ان کی زیادہ تعداد دیہات میں رہنے والوں کی ہے۔
دیہاتیوں کے لیے گاؤں کے ملک یا چوہدری کے بعد سب سے زیادہ محترم وہ شخص ہے جو ان کی زمینوں کا حساب کتاب رکھتا ہے اور عرف عام میںپٹواری کہلاتا ہے۔ پٹواریوں کے متعلق کئی قصے کہانیاں مشہور ہیںحالانکہ یہ قصے کہانیاںدیہی زندگی کی تلخ حقیقتیں ہیں جن سے ہر زمین مالک کا واسطہ پڑتا ہے۔ دیہی علاقوں کے خواندہ یا ناخواندہ لوگوں کے لیے پٹواری غیر معمولی اہمیت اور اختیارات کا حامل فرد ہوتا ہے۔
مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں محکمہ مال میں اصلاحات کے لیے سر توڑ کوششیں کیں لیکن مختلف ادوار میں کیے گئے اقدامات کا آج تک کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ یہ تمام کوششیں متعلقہ محکمے کی آشیر باد حاصل کیے بغیر کی گئیں جس کی وجہ سے ان میں ناکامی ہوئی حالانکہ اگر نیک نیتی اور متعلقہ عملے کے مشورے کے ساتھ محکمانہ قوانین میں ردو بدل کیا جاتا تو اس کے نتائج مختلف ہوتے۔ زمینوں کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کسی حد تک سہولت کا باعث بن رہا ہے مگر اس کے ثمرات ابھی تک عام آدمی تک نہیں پہنچ سکے اور حکومت جو نتائج حاصل کرنا چاہتی تھی وہ نتائج حاصل نہیں ہو پارہے۔
ماضی میں پٹواری کا دیہات میں ایک معزز شخص کے طور پر شمارہوتا تھا۔ دیہات کے اہم فیصلوں میں اس کی رائے کو صائب تصور کیا جاتا تھا لیکن پھر وقت بدل گیا اور پٹواری جو آج بھی حکومت کا اہم ترین کارندہ سمجھا جاتا ہے ۔راشن کی تقسیم ہو یا کسی علاقے میں قدرتی آفت کی وجہ سے تباہ کاری کا حساب کتاب پٹواری ہی کرتا ہے لیکن ہماری اشرافیہ جس میں ہمارے سیاستدان اور افسر شاہی شامل ہے، انھوں نے پٹواری کو وہ عزت و احترام نہیں دیا جس کا وہ حق دار ہے بلکہ اس کو ہمیشہ استعمال کیا ہے اور اس کی سرزنش ہی کی ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ افسر شاہی کے ٹھاٹ باٹھ اور تام جھام پٹواری کے دم قدم سے ہیں۔ایوب خان کے دور صدارت میں چکوال کے قصبہ خان پور کی شکار گاہ کے انتظامات کی کہانی ہو یا قدرت اللہ شہاب کے ڈپٹی کمشنری کے دور کے قصے پٹواری ہر دور میں ریاست کا اہم کل پرزہ رہا ہے ۔
ایک بات جو عام آدمی کے علم میں نہیں ہو گی وہ زمین کا وہ ریکارڈ ہے جو ایک کپڑے پرنہایت ہی چھوٹے چھوٹے نقشے مختلف لکیروں کی مدد سے بنائے گئے ہیں اور اس دستاویز کو محکمہ مال کی زبان میں لٹھا کہا جاتا ہے ۔ کپڑے کے اس ٹکڑے پر دیہات کی زمین کا مکمل نقشہ بنا ہوتا ہے اور یہ وہ مستند ذریعہ سمجھا جاتا ہے جس کی مدد سے زمین کی درست نشاندہی میں آسانی ہوتی ہے اور اس ریکارڈ کو کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ پٹواری ایک بار جو لکھ دے وہ اس کی جانب سے پتھر پر لکیر کے مترادف ہوتا ہے ۔
دیہات کے زمیندار چاہے وہ وسیع و عریض زمینوں کے مالک ہوں یا چھوٹے کاشتکاروں کے زمرے میں آتے ہوں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا پٹواری خوش رہے اس کی خوشنودی کے لیے وہ اس کی آؤ بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے یعنی اس کو ناراض ہونے کا کوئی موقع نہیں دیتے۔
نواب آف کالاباغ ملک امیر محمدخان اپنے وقت کے سب سے طاقتور حکمران تھے موجودہ پاکستان جو اس زمانے میں مغربی پاکستان کہلاتا تھا کے بلا شبہ بلاشرکت غیرے مطلق العنان حکمران تھے لیکن بنیادی طور پر وہ ایک جاگیردار تھے اور پٹواری کی اہمیت کو سمجھتے تھے اس لیے وہ بھی اپنے علاقے کے پٹواری کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھتے تھے اور اپنے دوست احباب کو بھی اس کا مشورہ دیتے تھے۔بڑے بڑے زمینداراور جاگیردار اپنے اپنے علاقے کے پٹواری کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو آج بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں کیونکہ زمیندار کا پٹواری اگر اس سے خوش ہے تو پھر ستے خیراں ہیں۔