کوروناعوامی لاپرواہی کے باعث حکومت سخت اقدامات پر مجبور
ایک جانب ملک میں کورونا کے وار جاری ہیں تو دوسری جانب کراچی کو سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے۔
لاہور:
ملک میں کورونا وائرس کی صورت حال تشویشناک حد تک خراب ہوتی ہوئی نظرآرہی ہے۔
وباء کی تیسری لہر نے حکومت کو ایک بار پھر سخت فیصلے کرنے پر مجبور کردیا ہے جبکہ طبی ماہرین پہلے ہی ان خدشات کا اظہار کررہے تھے کہ وباء کے مکمل خاتمے تک عوام احتیاطی تدابیر اختیار کریں، لیکن افسوسناک طور پر ان ہدایات کو یکسرنظرانداز کردیاگیا جس کے نتائج ہمیں آج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی)نے اپنے اجلاس میں چند اہم فیصلے کیے ہیں ،جن کے تحت ملک کے تمام صوبوں میں ہاٹ اسپاٹ کی نشاندہی کر کے وہاں لاک ڈاؤن نافذ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ 5 اپریل سے ان ڈور اور آؤٹ ڈور شادیوں اور تقریبات پر بھی مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے، البتہ صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
صوبوں میں ٹرانسپورٹ میں مسافروں کی کمی کے لیے بھی مختلف آپشن زیر غور ہیں اور اس حوالے سے حتمی فیصلہ صوبوں کی رائے اور بذریعہ ٹرین، بس اور ہوائی جہاز سفر کرنے والوں کے اعدادوشمار موصول ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ صوبوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ این سی او سی کی جانب سے دیے گئے اہداف کو بروقت حاصل کریں۔ مذکورہ پابندیوں کا اطلاق ان علاقوں اور شہروں میں ہوگا، جن میں مثبت کیسز کی شرح 8 فیصد یا اس سے زائد ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر اسد عمرکا کہنا ہے کہ کورونا کیسز میں اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو مزید پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی قوم کے نام اپنے پیغام میں عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ایس او پیز پر عمل درآمد کریں۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں کورونا ویکسین کی قلت ہوگئی ہے، کورونا ویکسین سے متعلق جو ہمیں دنیا نے کہا تھا وہ بھی ہمیں نہیں مل رہا، جو ملک کورونا ویکسین بناتے ہیں وہاں بھی ویکسین کی کمی ہوگئی ہے۔ ادھر میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے)کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا بھی یہی کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر بہت خطرناک ہے، جو تعداد حکومت بتا رہی ہے اس سے کہیں زیادہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔کورونا وائرس کی صورت حال میں عوام بھی کنفیوژن کا شکار نظرآتے ہیں۔
این سی او سی کی جانب سے کاروباری اوقات کار 8بجے تک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ سندھ میں یہ اوقات رات دس بجے تک ہیں۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ کراچی کے گنجان آباد اور کاروباری مراکز خصوصاً فوڈ اسٹریٹس میں اصل رش ہوتا ہی رات دس بجے کے بعد ہوتا ہے اور عوام ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتے ہوئے رات گئے شہر کی سڑکوں پر گھومتے رہتے ہیں۔حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں پر انتظامیہ عملدرآمد کرانے میں بالکل ناکام نظرآتی ہے۔
دوسری جانب عوام کا یہ حال ہے کہ وہ اب بھی کورونا کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی حفاظت کے لیے ان کو پانچ روپے کا ماسک خریدنا بھی گوارا نہیں ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زیادہ مسافر سفر کررہے ہیں۔ فی الحال سندھ میں کورونا مریضوں کی تعدا د پنجاب کے مقابلے میں کم دیکھنے میں آرہی ہے لیکن جو بے احتیاطی عوام کی جانب سے سامنے آ رہی ہے اس سے یہی نظرآتا ہے کہ سندھ میں بھی کورونا وائرس کی صورت حال تشویشناک ہوسکتی ہے۔ چیئرمین کورونا ٹاسک فورس ڈاکٹر عطا الرحمن بھی اس صورت حال پر انتہائی متفکر نظرآتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وائرس تیزی سے ساخت تبدیل کر رہا ہے، اس لیے ویکسین غیر موثر ہوسکتی ہے، کورونا کی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے، حکومت کو چاہئے کہ پولیس کو چھڑیاں پکڑا دیں اورجو ماسک کے بغیر نظر آئے اسے دو ڈنڈے ماریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ عوام کورونا صورتحال کوعام نہ سمجھیں اور سختی سے ہدایات پرعمل کریں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ازخود اپنے اوپر رحم کریں۔ ماسک کا استعمال کریں، احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
ایک جانب ملک میں کورونا کے وار جاری ہیں تو دوسری جانب کراچی کو سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے۔گزشتہ دنوں ایم کیو ایم پاکستان ،جماعت اسلامی اور تنظیم بحالی کمیٹی ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔کراچی کے نشتر پارک میں ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کے حوالے سے منعقدہ جلسے سے خطاب میں پارٹی رہنماؤں نے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبات دہرائے جبکہ تنظیم بحالی کمیٹی ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پی آئی بی کالونی گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ نوید سنائی ہے کہ آئندہ ایم کیو ایم پاکستان کا یوم تاسیس ایک ہی پلیٹ فارم سے منایا جاسکتا ہے۔
ادھر جماعت اسلامی کی''حقوق دو کراچی'' ریلی میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان و سینیٹر سراج الحق کا اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کہنا تھا کہ کراچی آج بھی 25 سو ارب سالانہ ریوینو ملک کو دیتا ہے لیکن افسوس کہ اس شہر کے اپنے لوگ بے روزگار، پیاسے اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے مسائل کے حوالے سے ایک مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان مرکزی حکومت کا حصہ ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اپنی اتحادی جماعت پی ٹی آئی پر زور دے کہ شہر کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی مرتب کرے۔ جماعت اسلامی کا یہ شکوہ بھی بجا نظرآتا ہے کہ وزیراعظم کے اعلان کردہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا ہے۔ سوائے نالوں کے اطراف کے تجاوزات کے خاتمے کے آپریشن کے علاوہ اس پلان میں شامل دیگر منصوبوں پر عملدرآمد کہیں نہیں ہے۔
کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249کے ضمنی انتخاب کے لیے سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاک سرزمین پارٹی ،پاکستان تحریک انصاف ،ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی اس نشست کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ امجد آفریدی کو امیدوار نامزد کرنے کے بعد پی ٹی آئی میں پیدا ہونے والے اندرونی اختلافات ابھی تک دور نہیں ہوسکے ہیں جن کا پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے مفتاح اسماعیل انتہائی موثر انداز میں اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں اور مسلم لیگ کے مرکزی رہنما بھی ان کی مدد کے لیے کراچی کے دورے کر رہے ہیں، تاہم اگر پیپلزپارٹی سے اتفاق رائے نہیں ہوسکا تو مفتاح اسماعیل کو مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پی ایس پی کے چیئرمین سید مصطفی کمال خود اس نشست پر امیدوار ہیں۔ اب تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ پی ایس پی سب سے موثرا نداز میں اپنی انتخابی مہم چلارہی ہے تاہم وہ ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے میں کس قدر کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ انتخابی نتائج کے بعد ہی ہوگا۔
شہر قائد میں رمضان کی آمد سے قبل ہی مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا ہے۔ اشیائے خور ونوش کی سرکاری پرائس لسٹ غیر موثر ہوگئی، کریانہ آئٹم کی سرکاری پرائس لسٹ نو ماہ گزرنے کے باوجود اپ ڈیٹ نہیں ہوسکی۔ اس ضمن میں شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں کوئی بھی چیز سرکاری نرخ پر فروخت نہیں کی جا رہی، جو حکومت اور انتظامیہ کی ناقص کاکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
شہریوں کے مطابق سندھ حکومت نے گراں فروشوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، گراں فروشی کو قابو کرنے کے لیے شہری انتظامیہ اور مجسٹریٹس کو حرکت میں نہیں لایا جا رہا، جس سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے اور عوام مہنگائی کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک سے قبل ہی یہ صورت حال ہے تو ماہ مقدس میں منافع خور عوام کی زندگی اجیرن کردیںگے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے خصوصی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔
ملک میں کورونا وائرس کی صورت حال تشویشناک حد تک خراب ہوتی ہوئی نظرآرہی ہے۔
وباء کی تیسری لہر نے حکومت کو ایک بار پھر سخت فیصلے کرنے پر مجبور کردیا ہے جبکہ طبی ماہرین پہلے ہی ان خدشات کا اظہار کررہے تھے کہ وباء کے مکمل خاتمے تک عوام احتیاطی تدابیر اختیار کریں، لیکن افسوسناک طور پر ان ہدایات کو یکسرنظرانداز کردیاگیا جس کے نتائج ہمیں آج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی)نے اپنے اجلاس میں چند اہم فیصلے کیے ہیں ،جن کے تحت ملک کے تمام صوبوں میں ہاٹ اسپاٹ کی نشاندہی کر کے وہاں لاک ڈاؤن نافذ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ 5 اپریل سے ان ڈور اور آؤٹ ڈور شادیوں اور تقریبات پر بھی مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے، البتہ صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
صوبوں میں ٹرانسپورٹ میں مسافروں کی کمی کے لیے بھی مختلف آپشن زیر غور ہیں اور اس حوالے سے حتمی فیصلہ صوبوں کی رائے اور بذریعہ ٹرین، بس اور ہوائی جہاز سفر کرنے والوں کے اعدادوشمار موصول ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ صوبوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ این سی او سی کی جانب سے دیے گئے اہداف کو بروقت حاصل کریں۔ مذکورہ پابندیوں کا اطلاق ان علاقوں اور شہروں میں ہوگا، جن میں مثبت کیسز کی شرح 8 فیصد یا اس سے زائد ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر اسد عمرکا کہنا ہے کہ کورونا کیسز میں اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو مزید پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی قوم کے نام اپنے پیغام میں عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ایس او پیز پر عمل درآمد کریں۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں کورونا ویکسین کی قلت ہوگئی ہے، کورونا ویکسین سے متعلق جو ہمیں دنیا نے کہا تھا وہ بھی ہمیں نہیں مل رہا، جو ملک کورونا ویکسین بناتے ہیں وہاں بھی ویکسین کی کمی ہوگئی ہے۔ ادھر میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے)کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا بھی یہی کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر بہت خطرناک ہے، جو تعداد حکومت بتا رہی ہے اس سے کہیں زیادہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔کورونا وائرس کی صورت حال میں عوام بھی کنفیوژن کا شکار نظرآتے ہیں۔
این سی او سی کی جانب سے کاروباری اوقات کار 8بجے تک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ سندھ میں یہ اوقات رات دس بجے تک ہیں۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ کراچی کے گنجان آباد اور کاروباری مراکز خصوصاً فوڈ اسٹریٹس میں اصل رش ہوتا ہی رات دس بجے کے بعد ہوتا ہے اور عوام ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتے ہوئے رات گئے شہر کی سڑکوں پر گھومتے رہتے ہیں۔حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں پر انتظامیہ عملدرآمد کرانے میں بالکل ناکام نظرآتی ہے۔
دوسری جانب عوام کا یہ حال ہے کہ وہ اب بھی کورونا کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی حفاظت کے لیے ان کو پانچ روپے کا ماسک خریدنا بھی گوارا نہیں ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زیادہ مسافر سفر کررہے ہیں۔ فی الحال سندھ میں کورونا مریضوں کی تعدا د پنجاب کے مقابلے میں کم دیکھنے میں آرہی ہے لیکن جو بے احتیاطی عوام کی جانب سے سامنے آ رہی ہے اس سے یہی نظرآتا ہے کہ سندھ میں بھی کورونا وائرس کی صورت حال تشویشناک ہوسکتی ہے۔ چیئرمین کورونا ٹاسک فورس ڈاکٹر عطا الرحمن بھی اس صورت حال پر انتہائی متفکر نظرآتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وائرس تیزی سے ساخت تبدیل کر رہا ہے، اس لیے ویکسین غیر موثر ہوسکتی ہے، کورونا کی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے، حکومت کو چاہئے کہ پولیس کو چھڑیاں پکڑا دیں اورجو ماسک کے بغیر نظر آئے اسے دو ڈنڈے ماریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ عوام کورونا صورتحال کوعام نہ سمجھیں اور سختی سے ہدایات پرعمل کریں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ازخود اپنے اوپر رحم کریں۔ ماسک کا استعمال کریں، احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
ایک جانب ملک میں کورونا کے وار جاری ہیں تو دوسری جانب کراچی کو سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے۔گزشتہ دنوں ایم کیو ایم پاکستان ،جماعت اسلامی اور تنظیم بحالی کمیٹی ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔کراچی کے نشتر پارک میں ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کے حوالے سے منعقدہ جلسے سے خطاب میں پارٹی رہنماؤں نے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبات دہرائے جبکہ تنظیم بحالی کمیٹی ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پی آئی بی کالونی گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ نوید سنائی ہے کہ آئندہ ایم کیو ایم پاکستان کا یوم تاسیس ایک ہی پلیٹ فارم سے منایا جاسکتا ہے۔
ادھر جماعت اسلامی کی''حقوق دو کراچی'' ریلی میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان و سینیٹر سراج الحق کا اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کہنا تھا کہ کراچی آج بھی 25 سو ارب سالانہ ریوینو ملک کو دیتا ہے لیکن افسوس کہ اس شہر کے اپنے لوگ بے روزگار، پیاسے اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے مسائل کے حوالے سے ایک مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان مرکزی حکومت کا حصہ ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اپنی اتحادی جماعت پی ٹی آئی پر زور دے کہ شہر کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی مرتب کرے۔ جماعت اسلامی کا یہ شکوہ بھی بجا نظرآتا ہے کہ وزیراعظم کے اعلان کردہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا ہے۔ سوائے نالوں کے اطراف کے تجاوزات کے خاتمے کے آپریشن کے علاوہ اس پلان میں شامل دیگر منصوبوں پر عملدرآمد کہیں نہیں ہے۔
کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249کے ضمنی انتخاب کے لیے سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاک سرزمین پارٹی ،پاکستان تحریک انصاف ،ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی اس نشست کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ امجد آفریدی کو امیدوار نامزد کرنے کے بعد پی ٹی آئی میں پیدا ہونے والے اندرونی اختلافات ابھی تک دور نہیں ہوسکے ہیں جن کا پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے مفتاح اسماعیل انتہائی موثر انداز میں اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں اور مسلم لیگ کے مرکزی رہنما بھی ان کی مدد کے لیے کراچی کے دورے کر رہے ہیں، تاہم اگر پیپلزپارٹی سے اتفاق رائے نہیں ہوسکا تو مفتاح اسماعیل کو مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پی ایس پی کے چیئرمین سید مصطفی کمال خود اس نشست پر امیدوار ہیں۔ اب تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ پی ایس پی سب سے موثرا نداز میں اپنی انتخابی مہم چلارہی ہے تاہم وہ ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے میں کس قدر کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ انتخابی نتائج کے بعد ہی ہوگا۔
شہر قائد میں رمضان کی آمد سے قبل ہی مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا ہے۔ اشیائے خور ونوش کی سرکاری پرائس لسٹ غیر موثر ہوگئی، کریانہ آئٹم کی سرکاری پرائس لسٹ نو ماہ گزرنے کے باوجود اپ ڈیٹ نہیں ہوسکی۔ اس ضمن میں شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں کوئی بھی چیز سرکاری نرخ پر فروخت نہیں کی جا رہی، جو حکومت اور انتظامیہ کی ناقص کاکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
شہریوں کے مطابق سندھ حکومت نے گراں فروشوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، گراں فروشی کو قابو کرنے کے لیے شہری انتظامیہ اور مجسٹریٹس کو حرکت میں نہیں لایا جا رہا، جس سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے اور عوام مہنگائی کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک سے قبل ہی یہ صورت حال ہے تو ماہ مقدس میں منافع خور عوام کی زندگی اجیرن کردیںگے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے خصوصی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔