شہد کی مکھیوں کے بغیر شہد گائے بھینس کے بغیر دودھ کیسے ممکن ہے
گزشتہ چند برسوں میں پودوں سے بنے گوشت اور ڈیری (دودہ دہی وغیرہ) کے متبادل کافی مقبول ہو رہے ہیں۔
ملی باؤ نامی کمپنی کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو ڈارکو مانڈچ ایک 'ویگن' (vegan) ہیں، یعنی کہ وہ نہ صرف سبزی خور ہیں بلکہ جانوروں کے جسم سے نکلنے والی کوئی بھی چیز جیسے کہ دودھ یا انڈے بھی نہیں کھاتے مگر ان کا کہنا ہے کہ ' ایک ویگن ہونے کے ناتے مجھے شہد بہت یاد آتا ہے۔'
یہ تو کوئی ایسی عجیب بات نہیں کہ ویگن لوگوں کو مخصوص کھانوں کی یاد ستاتی ہو مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ڈارکو نے اس مسئلے کا حل کیا نکالا ہے۔
ڈارکو نے ایک ایسا شہد تیار کیا ہے جو کہ ہر طرح سے عام شہد جیسا ہے مگر اس کی تیاری میں شہد کی مکھیوں کا استعمال بالکل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ' جب آپ شہد کی تیاری کے عمل کو دیکھیں تو اس کی شروعات تب ہوتی ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں سے پولن اور نیکٹر جمع کرتی ہیں اور پھر اسے شہد کے بنیادی عناصر فرکٹوز اور گلوکوز میں تبدیل کرتی ہیں۔ ہم نے لیبارٹری میں مائیکرو آرگنزمز کے استعمال سے اسی عمل کو کاپی کیا ہے۔'
گزشتہ چند سالوں میں پودوں سے بنے گوشت اور ڈیری (دودہ دہی وغیرہ) کے متبادل کافی مقبول ہوتے جا رہے ہیں مگر زیادہ تر لوگوں کے لیے ابھی یہ متبادل ذائقے، غذا کا ٹیکسچر، یا استعمال کی آسانی کے حوالے سے ابھی عام گوشت یا ڈیری اشیا کی طرح عام نہیں ہوئے ہیں مگر اب ملی باؤ جیسی متعدد کمپنیاں ویگن اشیا پر فرمنٹیشن کا عمل لگا کر یہ کوشش کر رہی ہیں کہ وہ پودوں کی مدد سے ایسے متبادل بنائیں جو کہ ہر لحاظ سے اصل اشیا جیسے ہوں۔
فرمنٹیشن کے عمل کے ذریعے، مائیکرو آرگنزمز قابلِ نوش ذرات کو ہضم کر کے مفید اجزا نکالتے ہیں جیسے یسٹ کو شوگر کے ذرات کو استعمال کرتے ہوئے الکوحل بناتی ہے جو کہ بیئر بنانے میں استعمال ہوتا ہے مگر مائیکرو آرگنزمز کو صحیح انداز میں چن کر اور انھیں مخصوص اجزا دے کر یہ ممکن ہے کہ ایک مختلف چیز تیار کی جا سکے جیسے کہ شہد، یا دودھ یا انڈے کی سفیدی۔
یہ طریقہ کار استعمال کرنے والی ایک کمپنی لندن میں موجود 'بیٹر ڈیری' کے نام سے ہے جو کہ یسٹ یعنی خمیر کی فرمنٹیشن کے ذریعے دودھ اور پنیر تیار کر رہی ہے۔ اس کے بانی جیون نگراجا کہتے ہیں کہ ' جیسے یسٹ کو بیئر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ہم اسے تھوڑا سا تبدیل کر کے اس سے وہ چیز تیار کرواتے ہیں جو ہم چاہیں۔ ٹیکنالوجی یسٹ کا استعمال کرتے ہوئے اسے ہم تبدیلی کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ہمارے کیس میں ہم اس سے ڈیری اشیا بنا رہے ہیں۔'
سان فرانسسکو میں کلارا فوڈز نامی کمپنی اسی طریقے سے انڈے کی سفیدی تیار کر رہی ہے اور انھیں امید ہے کہ 2028 تک وہ دنیا میں انڈے کی پروٹین تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی بن جائیں گے۔ اس کے بانی آرٹورو ایلیزونڈ کہتے ہیں کہ ' ہماری مخصوص فرمنٹیشن ٹیکنالوجی ہمیں روایتی انڈوں کے مقابلے میں ذائقے، ٹیکسچر، اور کھانے کے استعمال کے حوالے سے بہتر انڈے تیار کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔'
اس سب سے ویگن لوگ تو خوش ہو ہی رہے ہیں مگر ایسی تیار کردہ اشیا کے ماحولیاتی فوائد بھی ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق گوشت اور ڈیری اشیا کی تیاری دنیا میں گرین ہاؤس گیسز کی پیداوار کا 14.5 فیصد لگ جاتا ہے۔ ادھر ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں شہد کی بڑھتی ہوئی مانگ شہد کی مکھیوں کی کئی اقسام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
ڈارکو کہتے ہیں کہ کمرشل بنیادوں پر شہد کی مکھیوں کی ایک قسم پالنے سے دیگر اقسام کو نقصان پہنچ رہا ہے اور جنگلی شہد کی مکھیاں ناپید ہو رہی ہیں۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ ان طریقوں سے تیار کردہ ڈیری اشیا کو پہلے دوسری اشیا کے اجزا کے طور پر استعمال کیا جائے بجائے اس کے کہ انھیں براہِ راست بوتلوں میں ڈال کر صارفین کو دیا جائے۔ ڈارکو کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں بکنے والے شہد کا دو تہائی دیگر اشیا کی تیاری میں استعمال کے لیے بکتا ہے جیسے کہ اشیائے خور و نوش، کاسمیٹکس، یا ادویات کی صنعت۔ تو بطور ایک کمپنی ہمارا پہلے ماڈل بزنس سے بزنس سیلز کا ہے۔ ہمارے پاس ابھی سے 15 کمپنیاں ہیں جنھوں نے ہم سے مال خریدنے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔'
انھیں توقع ہے کہ اس سال کے آخر تک وہ اپنی پہلی کھیپ مارکیٹ میں بھیج چکے ہوں گے۔ بیٹر ڈیری نامی کمپنی کی بھی ایسی ہی سٹیریٹجی ہے۔ کمپنی ابھی کمرشل بنیادوں پر فروخت کے عمل سے قدرے زیادہ دور ہے مگر انھیں یقین ہے کہ وہ زیادہ مقدار میں پیداوار حاصل کر سکیں گے اور وہ ابھی بڑے بڑے ریسٹورانٹس کو فروخت میں دلحسپی رکھتے ہیں۔
' اگر آپ پیزا ہٹ یا مکڈونلڈز کے بارے میں سوچیں تو آپ کو پنیر کی ضرورت ہے جو کہ ایک مخصوص انداز میں پگھلتا ہے، تو ایسے میں ایک ایسا پنیر تیار کرنا جو ویگن بھی ہو اور پکانے کے دوران پگھلتے ہویے سٹارچ اور تیل نہ بن جائے، تیار کرنا بہت مشکل ہے۔'
مگر کمرشل بنیادوں پر فروخت میں ایک مسئلہ یہ آئے گا کہ آپ ایسی اشیا کو کہیں گے کیا؟ کیا یہ واقعی دودھ، شہد، یا انڈے ہیں؟ کمپنیوں کو امید ہے کہ حکام ان کے نظریے اس اتفاق کریں گے۔ نگاراجا کہتے ہیں کہ' یہ مولیکیولر سطح پر ایک جیسے ہیں تو انھیں ایسے ہی پکارا جانا چاہیے۔ مگر اگر ہمیں کوئی اور نام چننا پڑا تو بھی ٹھیک ہے۔'
ایک دلچسپ امکان یہ بھی ہے کہ فرمنٹیشن سے بنائے گئی اشیا شاید اصل سے بھی بہتر ہوں۔ مثال کے طور پر کوئی وجہ نہیں ہے کہ شہد کی پیداوار میں آپ منوکا قسم کے شہد کی بالکل صحیح کاپی تیار نہ کر سکیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے صحت حوالے سے بہت سارے فوائد ہیں اور اس کی قیمت عام شہد سے تقریباً ایک سو گنا ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ دودھ اور پنیر میں بھی ایسے ہی امکانات ہیں۔ لاکٹوز کی بھی دودھ میں ضرورت نہیں ہے اور جو لوگ لاکٹوز والی مصنوعات کو استعمال نہیں کر سکتے، وہ بھی عام دودھ استعمال کر پائیں گے۔ اس طریقہ کار سے تخلیقی عمل کے بے شمار نتائج ہوسکتے ہیں۔ فی الحال جیون نگراجا کہتے ہیں کہ ابھی تو میں صرف شہد کھا رہا ہوں چاہے تھوڑی سی مقداد میں ہی سہی۔ 'میں نے کل 23ویں تجربے سے تیار کیا جانے والا شہد چکھا ہے۔'
ایما وولاکوٹ
( بشکریہ بی بی سی )
یہ تو کوئی ایسی عجیب بات نہیں کہ ویگن لوگوں کو مخصوص کھانوں کی یاد ستاتی ہو مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ڈارکو نے اس مسئلے کا حل کیا نکالا ہے۔
ڈارکو نے ایک ایسا شہد تیار کیا ہے جو کہ ہر طرح سے عام شہد جیسا ہے مگر اس کی تیاری میں شہد کی مکھیوں کا استعمال بالکل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ' جب آپ شہد کی تیاری کے عمل کو دیکھیں تو اس کی شروعات تب ہوتی ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں سے پولن اور نیکٹر جمع کرتی ہیں اور پھر اسے شہد کے بنیادی عناصر فرکٹوز اور گلوکوز میں تبدیل کرتی ہیں۔ ہم نے لیبارٹری میں مائیکرو آرگنزمز کے استعمال سے اسی عمل کو کاپی کیا ہے۔'
گزشتہ چند سالوں میں پودوں سے بنے گوشت اور ڈیری (دودہ دہی وغیرہ) کے متبادل کافی مقبول ہوتے جا رہے ہیں مگر زیادہ تر لوگوں کے لیے ابھی یہ متبادل ذائقے، غذا کا ٹیکسچر، یا استعمال کی آسانی کے حوالے سے ابھی عام گوشت یا ڈیری اشیا کی طرح عام نہیں ہوئے ہیں مگر اب ملی باؤ جیسی متعدد کمپنیاں ویگن اشیا پر فرمنٹیشن کا عمل لگا کر یہ کوشش کر رہی ہیں کہ وہ پودوں کی مدد سے ایسے متبادل بنائیں جو کہ ہر لحاظ سے اصل اشیا جیسے ہوں۔
فرمنٹیشن کے عمل کے ذریعے، مائیکرو آرگنزمز قابلِ نوش ذرات کو ہضم کر کے مفید اجزا نکالتے ہیں جیسے یسٹ کو شوگر کے ذرات کو استعمال کرتے ہوئے الکوحل بناتی ہے جو کہ بیئر بنانے میں استعمال ہوتا ہے مگر مائیکرو آرگنزمز کو صحیح انداز میں چن کر اور انھیں مخصوص اجزا دے کر یہ ممکن ہے کہ ایک مختلف چیز تیار کی جا سکے جیسے کہ شہد، یا دودھ یا انڈے کی سفیدی۔
یہ طریقہ کار استعمال کرنے والی ایک کمپنی لندن میں موجود 'بیٹر ڈیری' کے نام سے ہے جو کہ یسٹ یعنی خمیر کی فرمنٹیشن کے ذریعے دودھ اور پنیر تیار کر رہی ہے۔ اس کے بانی جیون نگراجا کہتے ہیں کہ ' جیسے یسٹ کو بیئر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ہم اسے تھوڑا سا تبدیل کر کے اس سے وہ چیز تیار کرواتے ہیں جو ہم چاہیں۔ ٹیکنالوجی یسٹ کا استعمال کرتے ہوئے اسے ہم تبدیلی کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ہمارے کیس میں ہم اس سے ڈیری اشیا بنا رہے ہیں۔'
سان فرانسسکو میں کلارا فوڈز نامی کمپنی اسی طریقے سے انڈے کی سفیدی تیار کر رہی ہے اور انھیں امید ہے کہ 2028 تک وہ دنیا میں انڈے کی پروٹین تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی بن جائیں گے۔ اس کے بانی آرٹورو ایلیزونڈ کہتے ہیں کہ ' ہماری مخصوص فرمنٹیشن ٹیکنالوجی ہمیں روایتی انڈوں کے مقابلے میں ذائقے، ٹیکسچر، اور کھانے کے استعمال کے حوالے سے بہتر انڈے تیار کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔'
اس سب سے ویگن لوگ تو خوش ہو ہی رہے ہیں مگر ایسی تیار کردہ اشیا کے ماحولیاتی فوائد بھی ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق گوشت اور ڈیری اشیا کی تیاری دنیا میں گرین ہاؤس گیسز کی پیداوار کا 14.5 فیصد لگ جاتا ہے۔ ادھر ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں شہد کی بڑھتی ہوئی مانگ شہد کی مکھیوں کی کئی اقسام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
ڈارکو کہتے ہیں کہ کمرشل بنیادوں پر شہد کی مکھیوں کی ایک قسم پالنے سے دیگر اقسام کو نقصان پہنچ رہا ہے اور جنگلی شہد کی مکھیاں ناپید ہو رہی ہیں۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ ان طریقوں سے تیار کردہ ڈیری اشیا کو پہلے دوسری اشیا کے اجزا کے طور پر استعمال کیا جائے بجائے اس کے کہ انھیں براہِ راست بوتلوں میں ڈال کر صارفین کو دیا جائے۔ ڈارکو کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں بکنے والے شہد کا دو تہائی دیگر اشیا کی تیاری میں استعمال کے لیے بکتا ہے جیسے کہ اشیائے خور و نوش، کاسمیٹکس، یا ادویات کی صنعت۔ تو بطور ایک کمپنی ہمارا پہلے ماڈل بزنس سے بزنس سیلز کا ہے۔ ہمارے پاس ابھی سے 15 کمپنیاں ہیں جنھوں نے ہم سے مال خریدنے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔'
انھیں توقع ہے کہ اس سال کے آخر تک وہ اپنی پہلی کھیپ مارکیٹ میں بھیج چکے ہوں گے۔ بیٹر ڈیری نامی کمپنی کی بھی ایسی ہی سٹیریٹجی ہے۔ کمپنی ابھی کمرشل بنیادوں پر فروخت کے عمل سے قدرے زیادہ دور ہے مگر انھیں یقین ہے کہ وہ زیادہ مقدار میں پیداوار حاصل کر سکیں گے اور وہ ابھی بڑے بڑے ریسٹورانٹس کو فروخت میں دلحسپی رکھتے ہیں۔
' اگر آپ پیزا ہٹ یا مکڈونلڈز کے بارے میں سوچیں تو آپ کو پنیر کی ضرورت ہے جو کہ ایک مخصوص انداز میں پگھلتا ہے، تو ایسے میں ایک ایسا پنیر تیار کرنا جو ویگن بھی ہو اور پکانے کے دوران پگھلتے ہویے سٹارچ اور تیل نہ بن جائے، تیار کرنا بہت مشکل ہے۔'
مگر کمرشل بنیادوں پر فروخت میں ایک مسئلہ یہ آئے گا کہ آپ ایسی اشیا کو کہیں گے کیا؟ کیا یہ واقعی دودھ، شہد، یا انڈے ہیں؟ کمپنیوں کو امید ہے کہ حکام ان کے نظریے اس اتفاق کریں گے۔ نگاراجا کہتے ہیں کہ' یہ مولیکیولر سطح پر ایک جیسے ہیں تو انھیں ایسے ہی پکارا جانا چاہیے۔ مگر اگر ہمیں کوئی اور نام چننا پڑا تو بھی ٹھیک ہے۔'
ایک دلچسپ امکان یہ بھی ہے کہ فرمنٹیشن سے بنائے گئی اشیا شاید اصل سے بھی بہتر ہوں۔ مثال کے طور پر کوئی وجہ نہیں ہے کہ شہد کی پیداوار میں آپ منوکا قسم کے شہد کی بالکل صحیح کاپی تیار نہ کر سکیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے صحت حوالے سے بہت سارے فوائد ہیں اور اس کی قیمت عام شہد سے تقریباً ایک سو گنا ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ دودھ اور پنیر میں بھی ایسے ہی امکانات ہیں۔ لاکٹوز کی بھی دودھ میں ضرورت نہیں ہے اور جو لوگ لاکٹوز والی مصنوعات کو استعمال نہیں کر سکتے، وہ بھی عام دودھ استعمال کر پائیں گے۔ اس طریقہ کار سے تخلیقی عمل کے بے شمار نتائج ہوسکتے ہیں۔ فی الحال جیون نگراجا کہتے ہیں کہ ابھی تو میں صرف شہد کھا رہا ہوں چاہے تھوڑی سی مقداد میں ہی سہی۔ 'میں نے کل 23ویں تجربے سے تیار کیا جانے والا شہد چکھا ہے۔'
ایما وولاکوٹ
( بشکریہ بی بی سی )