ڈسکہ الیکشن پریزائیڈنگ افسران لاپتہ ہونے سے نتیجہ متاثر ہوا سپریم کورٹ
حکومتی اداروں کی نااہلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، عدالت
این اے 75 ڈسکہ الیکشن کیس میں جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ اگر پولیس نے الیکشن کمیشن کے خطوط کا جواب نہیں دیا تو الیکشن کمیشن نے انتخابات روک کر کارروائی کیوں نہیں کی، صرف خطوط لکھنے سے سیکورٹی انتظامات نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کے حکم کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن کا دوبارہ الیکشن کا فیصلہ حقائق اور قانون کے مطابق ہے، وکیل سلمان اکرم راجہ نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا تو جسٹس عمر عطاء بندیا ل نے ن لیگ کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا گزشتہ ہفتے بھی آپ دلائل مکمل نہیں کر سکے تھے، آپکے دلائل مکمل کرنے میں ناکامی کے باعث طوفان برپا ہوا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ شہری علاقوں میں فائرنگ کے باعث ٹرن آوٴٹ 35 فیصد سے کم تھا الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عمل میں رکاوٹیں منصوبے کے مطابق ڈالیں گئیں ۔
جسٹس منیب اختر نے کہاالیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کسی منصوبے کی بات نہیں کی، فیصلے کے وقت پریزائیڈنگ افسران کا موبائل ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس نہیں تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 20 پریذائیڈنگ افسران پولیس اسکوڈ کے ساتھ لا پتہ ہوگئے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا الیکشن کمیشن کو یہ تاثر ملا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے۔ عدالت الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھے۔ کم سے کم 109 پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ ہونی چاہیئے۔ 109 پولنگ اسٹیشن میں سے 76پولنگ اسٹیشن ڈسکہ شہر کے ہیں، 20 پولنگ اسٹیشن کے پریزائیڈنگ آفسران غائب ہوئے ہیں۔ سول انتظامیہ نے ڈسکہ میں الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کیا۔ انتظامیہ کے عدم تعاون کا فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا۔ ڈسکہ میں پریزائیڈنگ افسران کو ہی اغوا کر لیا گیا جو سنگین بات ہے، استدعا ہے کہ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم برقرار رکھا جائے۔
ن لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف نے کہا لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کی لوکیشن عدالت کو جمع کروا دی ہے، لاپتہ 14 افسران حلقے سے باہر گئے تھے، حلقے سے باہر جاکر افسران اور پولیس کے موبائل بند ہو گئے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کمیشن نے اپنے فیصلے کے بعد لوکیشن کیوں منگوائی؟پریزائیڈنگ افسران کی لوکیشن کی قانونی حیثیت نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیکورٹی انتظامات اطمینان بخش نہیں تھے۔ تو الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟پولنگ سے چند روز پہلے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی انتظامات کا پتہ تھا۔ اn حالات میں الیکشن کمیشن کو بڑھ کر اقدامات کرنے تھے۔ الیکشن کمیشن نے آئی جی کو خط لکھا آر پی او کو خط لکھا صرف خط لکھنے سے سیکورٹی انتظامات تو نہیں ہوتے الیکشن کمیشن کو بڑھ کر انتظامات کرنے چاہیئے تھے الیکشن کمیشن کو جواب نہ ملنے پر کارروائی کرنی چاہیے تھی، الیکشن کمیشن نے صورتحال کے پیش نظر انتخابات کو روکا کیوں نہیں۔
جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا اندازہ نہیں تھا کہ صورتحال اتنی خراب ہو جائے گی اور پولیس سے کنٹرول نہیں ہو پائے گی۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ریکارڈ سے یہ دکھائیں پولنگ کے روز جو کچھ ہوا وہ ڈیزائن (سوچا سمجھا منصوبہ) تھا۔ پولنگ کے دن سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا پولیس اور انتظامیہ نے تعاون نہیں کیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا ماضی میں پولیس کی کارکردگی سے کمیشن مطمئن تھا؟عام انتخابات میں رینجرز کی مدد بھی لی جاتی ہے۔ پولیس تعاون نہیں کررہی تھی۔ تو متبادل انتظام کیوں نہیں کیا۔کیا صرف خط لکھنے سے سیکورٹی اقدامات ہوتے ہیں۔انتخابی عمل ملتوی کر کے پولیس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ سات فروری سے پولیس تعاون نہیں کررہی تھی الیکشن 19 کو ہوا۔ پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ پولیس کے پاس مجمع منتشر کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ حکومتی اداروں کی نااہلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ الیکشن کمیشن منظم دھاندلی شواہد سے ثابت کرے اگر منظم دھاندلی کے شواہد نہیں تو قانون کی وسیع خلاف ورزی دکھائے۔ 360 میں سے 340 پولنگ اسٹیشنز پر نوشین افتخار جیت رہی تھیں۔ دیکھنا ہے کہ پریزائیڈنگ افسران کے لاپتہ ہونے سے نتیجہ متاثر ہوا؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاالیکشن ایکٹ کی کئی سیکشنز کی خلاف ورزی ہوئی پورے حلقے کے نتیجے پر اثر پڑا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاتشدد، فائرنگ اور دھمکیاں کیا یہ مواد پورے حلقے میں ری پول کرانے کا جواز ہوسکتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فائرنگ ،تشدد اور دھمکیوں سے پورے حلقے کا رزلٹ متاثر ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ عدالت نے وقت کی کمی کے باعث مزید سماعت کل تک ملتوی کردی ۔
سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کے حکم کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن کا دوبارہ الیکشن کا فیصلہ حقائق اور قانون کے مطابق ہے، وکیل سلمان اکرم راجہ نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا تو جسٹس عمر عطاء بندیا ل نے ن لیگ کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا گزشتہ ہفتے بھی آپ دلائل مکمل نہیں کر سکے تھے، آپکے دلائل مکمل کرنے میں ناکامی کے باعث طوفان برپا ہوا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ شہری علاقوں میں فائرنگ کے باعث ٹرن آوٴٹ 35 فیصد سے کم تھا الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عمل میں رکاوٹیں منصوبے کے مطابق ڈالیں گئیں ۔
جسٹس منیب اختر نے کہاالیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کسی منصوبے کی بات نہیں کی، فیصلے کے وقت پریزائیڈنگ افسران کا موبائل ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس نہیں تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 20 پریذائیڈنگ افسران پولیس اسکوڈ کے ساتھ لا پتہ ہوگئے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا الیکشن کمیشن کو یہ تاثر ملا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے۔ عدالت الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھے۔ کم سے کم 109 پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ ہونی چاہیئے۔ 109 پولنگ اسٹیشن میں سے 76پولنگ اسٹیشن ڈسکہ شہر کے ہیں، 20 پولنگ اسٹیشن کے پریزائیڈنگ آفسران غائب ہوئے ہیں۔ سول انتظامیہ نے ڈسکہ میں الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کیا۔ انتظامیہ کے عدم تعاون کا فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا۔ ڈسکہ میں پریزائیڈنگ افسران کو ہی اغوا کر لیا گیا جو سنگین بات ہے، استدعا ہے کہ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم برقرار رکھا جائے۔
ن لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف نے کہا لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کی لوکیشن عدالت کو جمع کروا دی ہے، لاپتہ 14 افسران حلقے سے باہر گئے تھے، حلقے سے باہر جاکر افسران اور پولیس کے موبائل بند ہو گئے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کمیشن نے اپنے فیصلے کے بعد لوکیشن کیوں منگوائی؟پریزائیڈنگ افسران کی لوکیشن کی قانونی حیثیت نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیکورٹی انتظامات اطمینان بخش نہیں تھے۔ تو الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟پولنگ سے چند روز پہلے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی انتظامات کا پتہ تھا۔ اn حالات میں الیکشن کمیشن کو بڑھ کر اقدامات کرنے تھے۔ الیکشن کمیشن نے آئی جی کو خط لکھا آر پی او کو خط لکھا صرف خط لکھنے سے سیکورٹی انتظامات تو نہیں ہوتے الیکشن کمیشن کو بڑھ کر انتظامات کرنے چاہیئے تھے الیکشن کمیشن کو جواب نہ ملنے پر کارروائی کرنی چاہیے تھی، الیکشن کمیشن نے صورتحال کے پیش نظر انتخابات کو روکا کیوں نہیں۔
جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا اندازہ نہیں تھا کہ صورتحال اتنی خراب ہو جائے گی اور پولیس سے کنٹرول نہیں ہو پائے گی۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ریکارڈ سے یہ دکھائیں پولنگ کے روز جو کچھ ہوا وہ ڈیزائن (سوچا سمجھا منصوبہ) تھا۔ پولنگ کے دن سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا پولیس اور انتظامیہ نے تعاون نہیں کیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا ماضی میں پولیس کی کارکردگی سے کمیشن مطمئن تھا؟عام انتخابات میں رینجرز کی مدد بھی لی جاتی ہے۔ پولیس تعاون نہیں کررہی تھی۔ تو متبادل انتظام کیوں نہیں کیا۔کیا صرف خط لکھنے سے سیکورٹی اقدامات ہوتے ہیں۔انتخابی عمل ملتوی کر کے پولیس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ سات فروری سے پولیس تعاون نہیں کررہی تھی الیکشن 19 کو ہوا۔ پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ پولیس کے پاس مجمع منتشر کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ حکومتی اداروں کی نااہلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ الیکشن کمیشن منظم دھاندلی شواہد سے ثابت کرے اگر منظم دھاندلی کے شواہد نہیں تو قانون کی وسیع خلاف ورزی دکھائے۔ 360 میں سے 340 پولنگ اسٹیشنز پر نوشین افتخار جیت رہی تھیں۔ دیکھنا ہے کہ پریزائیڈنگ افسران کے لاپتہ ہونے سے نتیجہ متاثر ہوا؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاالیکشن ایکٹ کی کئی سیکشنز کی خلاف ورزی ہوئی پورے حلقے کے نتیجے پر اثر پڑا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاتشدد، فائرنگ اور دھمکیاں کیا یہ مواد پورے حلقے میں ری پول کرانے کا جواز ہوسکتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فائرنگ ،تشدد اور دھمکیوں سے پورے حلقے کا رزلٹ متاثر ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ عدالت نے وقت کی کمی کے باعث مزید سماعت کل تک ملتوی کردی ۔