اقتصادی ومعاشی چیلنجز اور مہنگائی کے مارے عوام

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت کے اچھے دن آنے والے ہیں


Editorial April 02, 2021
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت کے اچھے دن آنے والے ہیں

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت کے اچھے دن آنے والے ہیں اور آنے والے دنوں میں مہنگائی میں کمی آئے گی، یہ پہلی حکومت ہے جو مافیا کے سامنے کھڑی ہوئی ہے۔ سٹے باز، قبضہ اور شوگر مافیا نے غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا،جو بھی عوام کے مفاد کو نقصان پہنچائے گا اسے نہیں چھوڑیں گے۔ بلاشبہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ ملک میں حقیقی معنوں میں تبدیلی آئے تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے ، ان کی نیت درست اور شک وشبہ سے بالاتر ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر شدت اختیار کرتی جارہی ہے ، اگلے دو دنوں میں روزانہ اموات کی شرح یکدم بڑھ کر ایک سو ہوچکی ہے ، آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کرنا پڑے ، ہم یہ بھی نہیں بھول سکتے کہ کورونا کی گزشتہ لہر کے نتیجے میں پاکستان میںدوکروڑ افراد کا روزگار متاثر ہواتھا ۔ یہ بات خو ش آیند ہے کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں ڈیڑھ جب کہ ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کردیا ہے،جب کہ حکومت نے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

بھارت سے پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد جائے گی ، جب کہ ملکی کپاس کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے کپاس بھی درآمد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ، اس کی وجہ بھی وہاں قیمت کا کم ہونا بتایا گیا ہے ۔ نجی شعبے کو تیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دے دی گئی ہے ۔دوسری جانب ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ صنعتکاروں کا موقف ہے کہ بھارت سے کپاس اور دھاگے کی درآمد سے ٹیکسٹائل صنعت کی برآمدات کو بری طرح نقصان پہنچے گا، سرمایہ کاری پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے، ملک میں کپاس اور دھاگے کی کوئی کمی نہیں ہے۔

ملک میں اس وقت سوت کی کوئی کمی نہیں، سوت کی قیمتیں بھی عالمی قیمتوں کے مطابق ہیں۔ پاکستان کی اسپننگ انڈسٹری اب بھارتی اسپنروں کے ساتھ مقابلہ کرنے پر مجبور ہوگی، جنھیں سستی گیس ملنے کے بعد دیگر ریلیف ملتا ہے، پاکستان میں گیس مہنگی ہونے کے باعث عالمی سطح پر قیمتوں میں توازن رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔صنعتکاروں کی رائے اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے ، اس ضمن میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کے موقف کو بھی سنے اور جو بہتر اور قابل عمل تجاویزہوں ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔

پاکستان میں چینی کی پیدوار ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن مسئلہ یہ آن کھڑا ہوا ہے کہ ملک میں طاقتور شوگر مافیا راتوں رات قیمتوں میں اضافے کرکے ناجائز منافع خوری کی علت کا شکار ہوچکا ہے ،جب تک شوگر مافیا کا خاتمہ حکومت نہیں کرے گی اس وقت تک عوام مہنگے داموں چینی خریدنے پر مجبور ہوں گے۔

گزشتہ روز ایک اچھی خبر بھی اخبارات کی زینت بنی ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 42 ڈالر کی کمی سے 1685 ڈالر کی سطح پر پہنچنے کے باعث مقامی صرافہ مارکیٹوں میں بھی فی تولہ اور 10گرام سونے کی قیمتوں میں بالترتیب 2800 روپے اور 2401روپے کی کمی واقع ہوئی ہے،جس کے نتیجے میں کراچی، حیدرآباد، سکھر، ملتان، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کی صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ سونے کی قیمت گھٹ کر 102900روپے اور 10گرام سونے کی قیمت گھٹ کر 88220روپے ہوگئی ہے۔

حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے معاشی بحالی ہو رہی ہے،ایف بی آرنے مارچ میں460ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا، جو قابلِ تعریف ہے۔ جولائی2020 سے مارچ2021 کے دوران کل 3ہزار380 ارب روپے ٹیکس جمع ہوا۔ یہ رواں مالی سال کے9ماہ میں گزشتہ سال کی نسبت 10فیصد زیادہ ٹیکس ہے۔ زیادہ ٹیکس اکٹھا ہونا حکومتی معاشی بحالی کا عکاس ہے۔

مالی سال2021 میں پاکستان کی ترقی کی شرح منفی0.5فیصد سے بھی کم رہنے کی توقع ہے جو گزشتہ تین سالوں میں4فیصد سے زائد تھی کورونا وائرس دوبارہ اُبھرنے سے ترقی کی شرح کو مزید خطرات ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اقتصادی نمو توقع سے کم یعنی مالی سال2021 اور2022 میں اوسطاً1.3فیصد رہنے کا امکان ہے، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ اندازہ انتہائی غیریقینی ہے اور اس کی پیش گوئی وائرس کے مزید نہ پھیلنے کے حساب سے کی گئی ہے کیونکہ دوسری صورت میں مزید وسیع پیمانے پر لاک ڈاؤن کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

ملک پر قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کے علاوہ ملک میں سیاسی طور پر عدم استحکام بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اس وقت جہاں ایک طرف خدانخواستہ کورونا کے پھیلاؤ کے باعث معاشی سرگرمیوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے وہاں سیاسی انتشار اور احتجاج کی صورت میں ایک ایسا خود پیدا کردہ مسئلہ بھی درپیش ہے جس کی تیاریاں کوئی پوشیدہ امر نہیں، صورتحال کے بارے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کا رویہ ایسا نظر نہیں آتا کہ مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے، سیاسی معاملات اور سیاسی حالات ایسے نہیں کہ ان کے اثرات معیشت پر اور کاروبار زندگی پر نہ پڑیں، بلکہ یہاں ایک تقریر، ایک احتجاج اور ایک گرفتاری پر اسٹاک مارکیٹ گر جاتی ہے۔

ملک میں جب بھی غیر یقینی یا سیاسی عدم استحکام یا اس طرز کی جو بھی صورتحال سامنے آئے اس سے عوامی زندگی اور معیشت ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں کس نہج پر پہنچ چکے ہیں، آئے روز قرضوں کی واپسی کی سخت سے سخت شرائط پورا کرتے کرتے عوام پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے جسے اب اُٹھانے کی سکت بھی باقی نہیں رہی ہے ۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حکومت کو سب سے پہلے قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے چیلنج کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے جس کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنے انتخابی نعروں اور وعدوں کے قطعی برعکس آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس بیل آؤٹ پیکیج کے لیے بھی جانا پڑا اور نئے ٹیکس روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی بتدریج بڑھانا پڑے اور اسی طرح قومی معیشت کے استحکام کی خاطر عوام کڑوی گولی کھانے پر بھی مجبور ہوئے کہ وہ اپنے اچھے مستقبل اور کرپشن فری سوسائٹی کے لیے بے شمار امیدیں وابستہ کرچکے تھے لیکن اقتصادی اصلاحات سے متعلق حکومت کے مشکل اور غیرمقبول فیصلوں کے نتیجہ میں عوام کے غربت، مہنگائی،روٹی روزگار کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگے تو حکومت سے وابستہ عوام کی امیدیں بھی ماند پڑنے لگی ہیں۔

حکومت جب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی کہ معیشت کا موجودہ ڈھانچہ اشرافیائی ہے اور اس پر اشرافیہ کا مکمل کنٹرول ہے،بڑے پیمانے کی ریڈیکل اصلاحات متعارف کروائے بغیر پاکستان کی معیشت کے بنیادی نو آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، محض اچھی اور نیک خواہشات اورنیک نیت سے معاشی صورت حال میں بہتری نہیں آئے گی،بلکہ اس کے لیے معاشی پالیسیاں تبدیل کرنا ہو گی۔ پاکستان کی معیشت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقات ایسی پالیسیاں لاگو کرتے ہیں جن سے ان کو فائدہ پہنچتا ہے اور غریب عوام کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں،جب تک حکمران طبقات اور اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی، عوام مہنگائی، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور افلاس کی چکی میں پستے رہیں گے۔عوام پریشان ہیں۔

حکومتی اقدامات سے ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی پر براہ راست پڑرہا ہے، غریب اور متوسط طبقہ پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہوکر مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے۔ عوام بہت دیر سے حکومتی وعدوں کے ایفا ہونے کے منتظر ہیں۔

گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان نے توانائی کے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا ہے، جن کی وجوہات میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، گیس اور بجلی کی شدید قلت، گردشی قرضے اور بجلی اور گیس کی تقسیم اور منتقلی کے پرانے اور ناقص نظام ہیں۔ماہرین سیاسی سنجیدگی کا فقدان، غلط ترجیحات، مناسب پالیسیوں کی غیر موجودگی اور کرپشن کو پاکستان میں توانائی کے مسائل کی بڑی وجوہات قرار دیتے ہیں۔

حکومت نے گزرے چند ماہ کے دوران چار بار بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرچکی ہے ، فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر بھی جو اضافی رقم بلوں میں لگ کر آئے گی ، اس سے عوام کی چیخیں نکل جائیں گی، آئی ایم ایف کی شرائط توحکومت پوری کرکے قرضے کی وصولی میں سر خروہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عوام پر جو ستم روا رکھا جارہا ہے ، کیا یہ اسے جمہوری نظام سے بدظن کرنے کے مترادف نہیں ہے ۔

ملک میں بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے متبادل توانائی کے ذرایع استعمال کیے جائیں۔ہوا، پانی، سورج کی روشنی، کوئلہ سے انرجی پیدا کی جائے، چین کے ساتھ سِول ایٹمی معاہدہ کیا جائے اور بجلی کی بلنگ کا پری پیڈ کارڈ سسٹم بنایا جائے تو بہتر ہوگا۔

بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر نظرثانی سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے بشرطیکہ حکومت چاہے تو۔ٹیکس کے نظا م میں بہتری کا اعلان کرنا، صرف کافی نہیں ہے بلکہ ایک مربوط طریقے سے دولت مند طبقہ کو ٹیکس دینے پر ما ئل کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی سرمائے کا ضیا ع روکنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ، حکومت کے ما لیا تی خسارہ میں کمی ہونی چاہیے اور حکومتی اخرا جا ت مزید کم لائی جائے تا کہ بچنے والی رقم و وسائل عوامی بہبود پر خرچ کیے جاسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔