سورج چاند ستارے قرآن و سنّت کی روشنی میں
’’اور سورج، چاند اور ستارے سب کے سب اس (اﷲ) کے حکم سے (ایک مقرر، منظم اور منضبط نظام کے) تابع بنا دیے گئے ہیں۔‘‘
PESHAWAR:
اﷲ تعالیٰ زمین و آسمان ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کے خالق ہیں جس طرح انس و جن کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اسی طرح باقی مخلوقات کو بھی کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کیا، ہر مخلوق اﷲ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ ان مخلوقات میں سورج، چاند اور ستارے بھی شامل ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے جاہلیت کی ایک برائی یہ بھی ذکر فرمائی: لوگ ستاروں کی گردش اور ان کے اپنی اپنی منازل میں طلوع و غروب کی وجہ سے بارشوں وغیرہ کے برسنے کا اعتقاد رکھیں گے۔ حضرت زید بن خالدؓ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر رات کو بارش ہوئی اور صبح اﷲ کے رسول ﷺ نے ہمیں نماز فجر پڑھائی، جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف رخ مبارک پھیر لیا اور پوچھا: کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا؟ ہم نے عرض کی کہ اﷲ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے صبح کی تو مجھ پر ایمان رکھتے تھے اور ستاروں کے منکر تھے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے نے بارش برسائی تو ایسے کہنے والا شخص میرا منکر جب کہ ستاروں پر اعتقاد رکھنے والا ہے۔ (صحیح البخاری)
نظامِ فلکی قُدرتِ الہیّہ کا مظہر اور تابع ہے۔ مفہوم آیت: ''اور سورج، چاند اور ستارے سب کے سب اس (اﷲ) کے حکم سے (ایک مقرر، منظم اور منضبط نظام کے) تابع بنا دیے گئے ہیں۔'' (سورۃ الاعراف) حضرت ابوبکرؓ سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اﷲ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے دو بڑی نشانیاں ہیں۔
مفہوم آیت:''اﷲ وہی ذات ہے جس نے سورج کو روشنی کا ذریعہ اور منبع بنایا۔''
مفہوم آیت:''اور سورج اپنے مقرر کردہ راستے پر چلتا ہے جو راستہ غالب علم والے (اﷲ تعالیٰ) کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔'' (سورۃ یٰس) حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ میں سورج کے غروب کے وقت نبی کریم ﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ابوذر! کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی اس بات کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب غروب ہونے کے لیے اپنے مقام کی طرف چلا جاتا ہے تو زیر عرش اﷲ کو سجدہ کرتا ہے۔ (صحیح البخاری) سورج کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا ہر طلوع و غروب اﷲ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے اور یہ اس کی اجازت کا تابع ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی اجازت کا تابع فرمان ہونا ہی اس کا سجدہ قرار دیا گیا ہے۔
شمسی تقویم:
مفہوم آیت:''ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نور اور دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل (روزی کو بہ آسانی) تلاش کرسکو تاکہ تم سالوں کی گنتی اور (مہینوں کا) حساب معلوم کر سکو۔'' (سورۃ بنی اسرائیل)
مفہوم آیت:''سورج اور چاند (اﷲ تعالیٰ کی طرف سے فلکی) حسابات کے مطابق ہیں۔'' (سورۃ الرحمٰن) سورج کے ذریعے بعض نمازوں کے مستحب، مسنون اور مکروہ اوقات، روزے کے سحر و افطار کا حساب کتاب بھی لگایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سمتِ قبلہ متعین کرنے میں بھی سورج کو مدار بنایا جاتا ہے۔
مفہوم آیت:''اور ہم نے سورج کو روشنی اور حرارت کا مرکز بنایا۔'' (سورۃ النباء)
سورج کو گرہن لگنا: حضرت نعمان بن بشیرؓ سے مروی ہے رسول اﷲ ﷺ کے زمانۂ مبارک میں سورج گرہن ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں نے نظریہ بنالیا ہے سورج و چاند کو گرہن اس لیے لگتا ہے کہ کسی عظیم شخصیت کی موت واقع ہوئی ہے، حالاں کہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے سورج اور چاند کو گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا یہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانیاں ہیں۔'' (السنن الکبریٰ للنسائی)
مفہوم آیت:''اور اﷲ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو (اپنے حکم کا) تابع بنا دیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک (اپنے محور میں) متعینہ وقت (قیامت) تک چلتا رہے گا۔'' (سورۃ زمر)
مفہوم آیت:''جب سورج (بے نور ہو جائے گا اور اس کو) لپیٹ دیا جائے گا۔'' (التکویر)
چاند کی شرعی حیثیت: مفہوم آیت: ''اے میرے پیغمبر (ﷺ)! لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ فرما دیں کہ یہ لوگوں (کے مختلف عبادات و معاملات) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لیے ہیں۔'' (سورۃ البقرۃ)
اﷲ تعالیٰ نے حج کے علاوہ بھی بعض شرعی احکامات کا مدار چاند پر رکھا ہے۔ جیسے:
اَحکامِ عاشوراء ، شبِ برأت، رمضان کے روزے، لیلۃ القدر، لیلۃ الجائزۃ (شبِ عید)، یومِ عرفہ کا روزہ، عیدین (عیدالفطر، عیدالاضحیٰ) تکبیراتِ تشریق (9ذوالحج نماز فجر تا 13 ذوالحج نماز عصر) قربانی (دس، گیارہ اور بارہ ذوالحج)، ایامِ بیض کے روزے (ہر قمری ماہ کے تین دن: 15،14،13) روزہ توڑنے کا کفارہ (مسلسل بلا تعطل دو قمری ماہ کے روزے)، زکوٰۃ (ایک قمری سال)، اشہر حُرم (تقدس و حرمت والے چار مہینے رجب، ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم)، مدتِ رَضاعت اور عدّت وغیرہ۔
ستارے آسمان کے لیے باعث زینت ہیں۔ مفہوم آیت: ''بے شک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی خوب صورتی سے مزین کیا۔'' (سورۃ الصافات)
مفہوم آیت:(ان ستاروں کو) ''ہر سرکش شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بنایا۔ وہ اوپر کے جہان کی باتیں نہیں سن سکتے اور ان پر ہر طرف (جس طرف سے بھی جانے کی کوشش کرتے ہیں) سے مار پڑتی ہے، انہیں دھکے دیے جاتے ہیں اور ان کو آخرت میں دائمی عذاب ہوگا۔ ہاں اگر کوئی شیطان اوپر کے جہان کی کوئی بات سن بھی لے تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ کر بھسم کر دیتا ہے۔'' (سورۃ الصافات)
ستاروں کو دیکھ کر راستہ یا سمت معلوم کرنا: مفہوم آیت: ''اور راستوں کی پہچان کے لیے بہت سی علامات بنائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راستے سمت معلوم کرتے ہیں۔ (سورۃ النحل)
معاشرے میں ایسی جہالتیں رائج ہیں جو سراسر ایمان کی کم زوری اور بداعتقادی پر مبنی ہیں۔ ان سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے مختلف ناموں سے معروف انہی جہالتوں
کے بارے میں کیا خُوب ارشاد فرمایا ہے:
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِِ افلاک میں ہے خوار و زبُوں
حیات کیا ہے، خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں
حضرت معاویہ بن الحکمؓ سے مروی ہے میں نے اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا: کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہم جاہلیت (قبل از اسلام) کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔ ایک یہ بھی ہے کہ ہم کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو۔'' (مسلم)
ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ میں نے اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ بعض اوقات کاہن ایسی باتیں بتاتے ہیں جو درست ثابت ہو جاتی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ درست بات جنوں کی طرف سے ہوتی ہے جسے وہ کاہن کے کانوں میں ڈالتے ہیں اور وہ کاہن اس میں سو (بہ کثرت) جھوٹ ملا لیتے ہیں۔ (صحیح مسلم)
حضرت صفیہؓ بعض ازواج مطہرات کے حوالے سے نقل کرتی ہیں کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص عراف (نجومی) کے پاس آیا تاکہ اس سے اپنے حالات معلوم کرے تو ایسے بندے کی نماز چالیس دنوں تک قبول نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم)
حضرت معاویہ بن الحکم سُلمیؓ سے مروی ہے کہ میں نے اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ ہم بدفالی بھی لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بدفالی محض تمہارے دل کا ایک وسوسہ ہے تم اس کے پیچھے نہ پڑو۔ (صحیح مسلم)
اﷲ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر عمل کرنے اور توہمات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اﷲ تعالیٰ زمین و آسمان ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کے خالق ہیں جس طرح انس و جن کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اسی طرح باقی مخلوقات کو بھی کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کیا، ہر مخلوق اﷲ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ ان مخلوقات میں سورج، چاند اور ستارے بھی شامل ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے جاہلیت کی ایک برائی یہ بھی ذکر فرمائی: لوگ ستاروں کی گردش اور ان کے اپنی اپنی منازل میں طلوع و غروب کی وجہ سے بارشوں وغیرہ کے برسنے کا اعتقاد رکھیں گے۔ حضرت زید بن خالدؓ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر رات کو بارش ہوئی اور صبح اﷲ کے رسول ﷺ نے ہمیں نماز فجر پڑھائی، جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف رخ مبارک پھیر لیا اور پوچھا: کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا؟ ہم نے عرض کی کہ اﷲ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے صبح کی تو مجھ پر ایمان رکھتے تھے اور ستاروں کے منکر تھے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے نے بارش برسائی تو ایسے کہنے والا شخص میرا منکر جب کہ ستاروں پر اعتقاد رکھنے والا ہے۔ (صحیح البخاری)
نظامِ فلکی قُدرتِ الہیّہ کا مظہر اور تابع ہے۔ مفہوم آیت: ''اور سورج، چاند اور ستارے سب کے سب اس (اﷲ) کے حکم سے (ایک مقرر، منظم اور منضبط نظام کے) تابع بنا دیے گئے ہیں۔'' (سورۃ الاعراف) حضرت ابوبکرؓ سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اﷲ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے دو بڑی نشانیاں ہیں۔
مفہوم آیت:''اﷲ وہی ذات ہے جس نے سورج کو روشنی کا ذریعہ اور منبع بنایا۔''
مفہوم آیت:''اور سورج اپنے مقرر کردہ راستے پر چلتا ہے جو راستہ غالب علم والے (اﷲ تعالیٰ) کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔'' (سورۃ یٰس) حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ میں سورج کے غروب کے وقت نبی کریم ﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ابوذر! کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی اس بات کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب غروب ہونے کے لیے اپنے مقام کی طرف چلا جاتا ہے تو زیر عرش اﷲ کو سجدہ کرتا ہے۔ (صحیح البخاری) سورج کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا ہر طلوع و غروب اﷲ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے اور یہ اس کی اجازت کا تابع ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی اجازت کا تابع فرمان ہونا ہی اس کا سجدہ قرار دیا گیا ہے۔
شمسی تقویم:
مفہوم آیت:''ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نور اور دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل (روزی کو بہ آسانی) تلاش کرسکو تاکہ تم سالوں کی گنتی اور (مہینوں کا) حساب معلوم کر سکو۔'' (سورۃ بنی اسرائیل)
مفہوم آیت:''سورج اور چاند (اﷲ تعالیٰ کی طرف سے فلکی) حسابات کے مطابق ہیں۔'' (سورۃ الرحمٰن) سورج کے ذریعے بعض نمازوں کے مستحب، مسنون اور مکروہ اوقات، روزے کے سحر و افطار کا حساب کتاب بھی لگایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سمتِ قبلہ متعین کرنے میں بھی سورج کو مدار بنایا جاتا ہے۔
مفہوم آیت:''اور ہم نے سورج کو روشنی اور حرارت کا مرکز بنایا۔'' (سورۃ النباء)
سورج کو گرہن لگنا: حضرت نعمان بن بشیرؓ سے مروی ہے رسول اﷲ ﷺ کے زمانۂ مبارک میں سورج گرہن ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں نے نظریہ بنالیا ہے سورج و چاند کو گرہن اس لیے لگتا ہے کہ کسی عظیم شخصیت کی موت واقع ہوئی ہے، حالاں کہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے سورج اور چاند کو گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا یہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانیاں ہیں۔'' (السنن الکبریٰ للنسائی)
مفہوم آیت:''اور اﷲ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو (اپنے حکم کا) تابع بنا دیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک (اپنے محور میں) متعینہ وقت (قیامت) تک چلتا رہے گا۔'' (سورۃ زمر)
مفہوم آیت:''جب سورج (بے نور ہو جائے گا اور اس کو) لپیٹ دیا جائے گا۔'' (التکویر)
چاند کی شرعی حیثیت: مفہوم آیت: ''اے میرے پیغمبر (ﷺ)! لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ فرما دیں کہ یہ لوگوں (کے مختلف عبادات و معاملات) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لیے ہیں۔'' (سورۃ البقرۃ)
اﷲ تعالیٰ نے حج کے علاوہ بھی بعض شرعی احکامات کا مدار چاند پر رکھا ہے۔ جیسے:
اَحکامِ عاشوراء ، شبِ برأت، رمضان کے روزے، لیلۃ القدر، لیلۃ الجائزۃ (شبِ عید)، یومِ عرفہ کا روزہ، عیدین (عیدالفطر، عیدالاضحیٰ) تکبیراتِ تشریق (9ذوالحج نماز فجر تا 13 ذوالحج نماز عصر) قربانی (دس، گیارہ اور بارہ ذوالحج)، ایامِ بیض کے روزے (ہر قمری ماہ کے تین دن: 15،14،13) روزہ توڑنے کا کفارہ (مسلسل بلا تعطل دو قمری ماہ کے روزے)، زکوٰۃ (ایک قمری سال)، اشہر حُرم (تقدس و حرمت والے چار مہینے رجب، ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم)، مدتِ رَضاعت اور عدّت وغیرہ۔
ستارے آسمان کے لیے باعث زینت ہیں۔ مفہوم آیت: ''بے شک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی خوب صورتی سے مزین کیا۔'' (سورۃ الصافات)
مفہوم آیت:(ان ستاروں کو) ''ہر سرکش شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بنایا۔ وہ اوپر کے جہان کی باتیں نہیں سن سکتے اور ان پر ہر طرف (جس طرف سے بھی جانے کی کوشش کرتے ہیں) سے مار پڑتی ہے، انہیں دھکے دیے جاتے ہیں اور ان کو آخرت میں دائمی عذاب ہوگا۔ ہاں اگر کوئی شیطان اوپر کے جہان کی کوئی بات سن بھی لے تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ کر بھسم کر دیتا ہے۔'' (سورۃ الصافات)
ستاروں کو دیکھ کر راستہ یا سمت معلوم کرنا: مفہوم آیت: ''اور راستوں کی پہچان کے لیے بہت سی علامات بنائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راستے سمت معلوم کرتے ہیں۔ (سورۃ النحل)
معاشرے میں ایسی جہالتیں رائج ہیں جو سراسر ایمان کی کم زوری اور بداعتقادی پر مبنی ہیں۔ ان سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے مختلف ناموں سے معروف انہی جہالتوں
کے بارے میں کیا خُوب ارشاد فرمایا ہے:
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِِ افلاک میں ہے خوار و زبُوں
حیات کیا ہے، خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں
حضرت معاویہ بن الحکمؓ سے مروی ہے میں نے اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا: کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہم جاہلیت (قبل از اسلام) کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔ ایک یہ بھی ہے کہ ہم کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو۔'' (مسلم)
ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ میں نے اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ بعض اوقات کاہن ایسی باتیں بتاتے ہیں جو درست ثابت ہو جاتی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ درست بات جنوں کی طرف سے ہوتی ہے جسے وہ کاہن کے کانوں میں ڈالتے ہیں اور وہ کاہن اس میں سو (بہ کثرت) جھوٹ ملا لیتے ہیں۔ (صحیح مسلم)
حضرت صفیہؓ بعض ازواج مطہرات کے حوالے سے نقل کرتی ہیں کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص عراف (نجومی) کے پاس آیا تاکہ اس سے اپنے حالات معلوم کرے تو ایسے بندے کی نماز چالیس دنوں تک قبول نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم)
حضرت معاویہ بن الحکم سُلمیؓ سے مروی ہے کہ میں نے اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ ہم بدفالی بھی لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بدفالی محض تمہارے دل کا ایک وسوسہ ہے تم اس کے پیچھے نہ پڑو۔ (صحیح مسلم)
اﷲ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر عمل کرنے اور توہمات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین