رنگ بدلتی سیاست

سیاست میں اصول اور ضمیر سیاستدانوں اور حکمرانوں کو صرف اپنے مفاد کے حصول کے لیے یاد آتے ہیں

m_saeedarain@hotmail.com

FESSENHEIM, FRANCE:
ابھی چھ ماہ ہی گزرے ہیں کہ پی ڈی ایم کی شکل میں قائم ہونے والے سیاسی اتحاد میں شامل باری باری تین تین بار اقتدار میں رہنے والی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں دوریاں بڑھ گئی ہیں جس کی ابتدا سابق صدر آصف زرداری کی پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں آؤٹ ہو جانے والی تقریر سے ہوئی جس میں انھوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور سندھ حکومت چھوڑنے سے انکار کیا تھا جس پر پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن اس قدر ناراض ہوئے کہ بہ مشکل میڈیا کے سامنے آئے اور لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کرکے چلے گئے اور بتایا کہ پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی کو مہلت دی ہے کہ وہ اس سلسلے میں واضح فیصلہ کرکے بتائے تاکہ پی ڈی ایم لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کرسکے۔

لانگ مارچ منسوخ ہونے اور بعد میں مریم نواز اور بلاول بھٹو کے ٹویٹ اور پریس بریفنگ نے پی ٹی آئی کو جشن منانے کا موقعہ تو دیا مگر وہ وزیر اعظم کی ہدایت پر جشن تو نہ منا سکے مگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی خوشیاں دوچند ہوگئیں اور میڈیا ٹاک شوز میں ان کے چہروں سے عیاں تھا کہ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔

گزشتہ چھ ماہ میں ہر ٹی وی ٹاک شو میں پی ٹی آئی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنما مہمان ہوتے تھے اور جے یو آئی کے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا جاتا تھا جہاں تینوں پارٹیوں کے رہنما یک زبان ہو کر پی ٹی آئی رہنما کا زبانی گھیراؤ اور حکومت پر تنقید کرتے تھے جس کے جواب میں پی ٹی آئی کے بعض رہنما بلکہ چند حکومتی عہدیداروں کی کوشش ہوتی تھی کہ اپوزیشن رہنماؤں کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے انھیں بولنے ہی نہ دیا جائے۔ بار بار ان کے بولنے پر مداخلت کی جائے اور یہ گرما گرمی اتنی بڑھ جاتی تھی کہ میزبان کو وقفہ لینا پڑتا یا پروگرام روکنا پڑتا۔ حکومتی رہنما اپنے جارحانہ انداز سے اپوزیشن رہنماؤں پر حملہ آور اور یہ بھی شکایت کرتے کہ وہ تعداد میں زیادہ ہو کر ایک دوسرے کی زبان بولتے اور حکومتی رہنماؤں کو بولنے کا کم موقعہ ملتا ہے۔ یہ سلسلہ چھ ماہ ہی جاری رہ سکا کیونکہ 16 مارچ کے بعد اپوزیشن رہنماؤں میں وہ باہمی محبت نظر نہیں آرہی جو پہلے تھی۔


صرف تین سال پہلے سینیٹ کے الیکشن سے قبل آصف زرداری، نواز شریف حکومت کے خلاف تھے اور ان کی حکومت جب چاہے ختم کرانے کا دعویٰ کرتے تھے مگر ان کا بس بلوچستان میں چلا جہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اچانک تحریک عدم اعتماد آئی اور پسندیدہ ارکان اسمبلی کے ذریعے پسندیدہ سینیٹر منتخب کرائے گئے اور نواز شریف کی میاں رضا ربانی کو دوبارہ چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے کی پیشکش مسترد کرکے سابق صدر نے بالاتروں کی پشت پناہی سے بلوچستان سے ایک نیا چہرہ چیئرمین سینیٹ اور اپنی پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو پی ٹی آئی کی مدد سے ڈپٹی چیئرمین منتخب کرا لیا تھا۔

وزیر اعظم بننے کے لیے عمران خان نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے خلاف تحریک چلائی تھی اور شریفوں اور زرداری پر کرپشن، ملک لوٹ کر باہر جائیدادیں بنانے کے سنگین الزامات لگائے تھے۔ 2018 کے انتخابات میں وزیر اعظم بن کر کل تک کے اپنے سیاسی مخالفین کو عہدوں سے نواز دیا اور انھوں نے اتنا جینا حرام کیا کہ دو سال حکومتی انتقام اور گرفتاریاں برداشت کرکے نواز شریف اور آصف زرداری مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم میں ایک ہوگئے۔

اپنے مخالفین کو متحد کرنے کا سہرا بھی موجودہ حکومت کو جاتا ہے جنھوں نے ملکی معیشت تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مہنگائی کا ریکارڈ قائم کرکے اپوزیشن کو متحد ہونے کا موقعہ دیا۔ اس اتحاد سے قبل آصف زرداری نے نواز شریف کی مدد سے اپوزیشن کی واضح اکثریت دیکھتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانا چاہا مگر حکومت نے یہ کوشش خفیہ ہاتھوں سے ناکام بنا دی اور سب پر بھاری کے دعویدار آصف زرداری کو ناکامی ہوئی۔ آصف زرداری کو دوسری ناکامی یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے میں ہوئی جس کا جواب انھوں نے پی ڈی ایم کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے پی پی ارکان اسمبلی کے استعفوں سے انکار کرکے دیا اور باقی جماعتیں منہ دیکھتی رہ گئیں۔

سیاست میں اصول اور ضمیر سیاستدانوں اور حکمرانوں کو صرف اپنے مفاد کے حصول کے لیے یاد آتے ہیں۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے نواز شریف دشمنی میں عمران خان کو نواز شریف سے بہتر وزیر اعظم قرار دیا ہے جب کہ ہر سیاستدان سیاسی مفاد پرستی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ محمد خان جونیجو کو بہتر اصول پرست کہا جاسکتا ہے جن کا دور بہتر تھا انھوں نے اپنی حکومت گنوا لی مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ سیاست میں کل کے دشمن سیاسی مفاد کے لیے ایک ہو جاتے ہیں اور پھر سیاسی مفاد کے لیے الگ ہو جایا کرتے ہیں۔ مفاد ہو تو یوٹرن اچھا اور ووٹ نہ ملیں تو وہ بے ضمیر، پھر تحریک اعتماد حاصل کرنے کے لیے وہی بے ضمیر کام آ جاتے ہیں اور یہی سیاست رنگ بدلتی رہتی ہے۔
Load Next Story