ٹائی ٹینکدنیا کو سحرزدہ کردینے والی فلم

فلم کی تیاری اور عکس بندی کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات اور انوکھے حقائق کا بیان

فلم کی تیاری اور عکس بندی کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات اور انوکھے حقائق کا بیان

سال 1997کا نومبر اس حوالے سے یاد گار رہے گا کہ اس مہینے کے آغاز میں جاپان سے ایک ایسی فلم کی نمائش کا سلسلہ شروع ہوا جس نے آناً فاناً پوری دنیا کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا۔

یہ فلم تھی ''ٹائی ٹینک''۔ دنیا کے سب سے بڑے مسافر بحری جہاز کی اپنے پہلے ہی کارروباری سفر کے دوران بربادی کی کہانی۔ یہ جہاز کیا تھا، سمندر کے سینے پر تیرتا ہوا ایک شہر ہی تھا۔ اس کو تعمیر کرانے والا اس کا مالک بھی اس میں سوار تھا۔ کہتے ہیں اس سفر پر روانگی سے پہلے کپتان نے اس جہاز کے عظیم الشان قد کاٹھ اور حجم کو دیکھتے ہوئے کہا تھا'' خدا بھی چاہے تو اسے ڈبو نہیں پائے گا''۔ اس فلم کا شمار بھی اُن گنی چُنی فلموں میں ہوا جو اپنی رونمائی کے ساتھ ہی دنیا کے اندر ایک نئے انداز کو رواج دے دیتی ہیں۔

جیسے جان کیٹس کی جواں مرگی اور اس المیے سے مطابقت لئے ہوئے اس کی اُداس شاعری نے یورپ کو کچھ اس انداز میں اپنے رومانوئی سحر میں گرفتار کیا کہ کہ نوجوان عین عہد شباب میں مرنے کی خواہش کرنے لگے۔ اس فلم کو بنانے کا بنیادی مقصد تو یہی تھا کہ ایک غیر معمولی بحری جہاز کی اپنے پہلے ہی سفر پر تباہی بذات خود ایک بہت غیر معمولی واقعہ ہے لیکن جیسا کہ ہالی وڈ کے لئے کام کرنے والے دنیا کے بڑے ہنر کار ہمیشہ کرتے ہیں ، یہاں بھی اس آئیڈیا کے خالق فلم کے ڈائریکٹر اور کو۔ پروڈیوسر جیمز کیمرون نے اس جہاز کے عرشے پر پروان چڑھنے والی ایک المیہ رومانوی کہانی بھی بُنی جس نے اس جہاز کی تباہی پر مبنی داستان کو غیر معمولی طور پر موثر اور دل گداز بنا دیا۔

فلم کو شوبز کی اصناف میں خاص مقام حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ آج فلم کو دیکھنے والے شائقین کی تعداد کروڑوں سے بڑھ کر اربوں تک پہنچ چکی ہے۔ مختلف کتابوں، کہانیوں، حقیقی زندگی کے واقعات یا شخصیات پر بننے والی فلموں کو ہم دیکھتے اور پسند کرتے ہیں، لیکن عموماً ان فلموں کے پس پردہ ان حقائق کو نہیں جان پاتے جن کے ذریعے ایک خیال جیتی جاگتی فلم کا روپ دھارتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم بنانے کے دوران جو کچھ پیش آتا ہے وہ بزات خود شائقین فلم کے لئے نہایت دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ بعض فلمیں تو ایسی ہوتی ہیں، جو دہائیوں تک انسانی دل و دماغ پر اپنا اثر برقرار رکھتی ہیں، جس کی وجہ اس فلم کی کہانی، اداکاری، منظر کشی، ڈائیلاگ یا موسیقی ہو سکتی ہے۔

عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے کینیڈین فلم ڈائریکٹر و پروڈیوسر جیمز فرانسیس کیمرون نے 1997ء میں ٹائی ٹینک کے نام سے ایک ایسی فلم بنائی، جس نے دنیا بھر کی فلم انڈسٹری، ناقدین اور شائقین کو حیران کر دیا۔ 1997ء کے بعد 2012ء میں اس فلم کو تھری ڈی میں اور 2017ء میں تیسری بار مقامی سطح پر ریلیز کیا گیا۔ دنیا کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی اس پہلی فلم کا بجٹ 2 سو ملین ڈالر جبکہ باکس آفس پر کمائی 2 ارب ڈالر سے زائد ہے۔

ٹائی ٹینک دنیا کی وہ پہلی فلم تھی، جس نے باکس آفس پر ایک ارب ڈالر کا ہندسہ عبور کیا تھا اور 12سال تک یہ ریکارڈ قائم رہا، تاہم 2009ء میں جیمز کیمرون کی ہی نئی آنے والی فلم اواتار نے اس ریکارڈ کو توڑ ڈالا۔ ٹائی ٹینک پر 2سو ملین ڈالر خرچہ آیا جبکہ اصلی ٹائی ٹینک کو بنانے میں اُس وقت 7.5ملین ڈالر لگے، جو 1997ء میں 120ملین ڈالر کے لگ بھگ بنتے ہیں، یوں یہ فلم ، اصل ٹائی ٹینک بحری جہاز سے بھی 80 ملین ڈالر مہنگی تھی۔

ٹائی ٹینک کی عکس بندی اور تکمیل کے وقت بھی اس کی کامیابی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فلم کو پہلے پہل بہت محدود سینماؤں میں ریلیز کیا گیا، پروڈکشن کمپنیوں کی طرف سے ڈائریکٹر کو فلم کی ناکامی پر ان کے حصے کی رقم کاٹنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ دنیا اس فلم کی کامیابی پر دنگ رہ گئی۔ اس فلم کو 14شعبوں میں آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا، جن میں سے 11 میں اسے کامیابی ملی، جو بلاشبہ اس فلم کی غیر معمولی کامیابی کی ایک واضح دلیل ہے۔ یہ فلم صرف رومانس یا قربانی کی کہانی نہیں بلکہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ زندگی چاہے جتنی بھی مختصر ہو، وہ شاندار ہونی چاہیے۔

یہ فلم 1912ء میں پیش آنے والے ایک سانحہ پر بنائی گئی ہے، لیکن دنیا میں شائد ہی کوئی ایسی فلم ہو گی، جس نے ماضی میں ہوئے کسی حادثہ کو اتنے شاندار طریقے سے دکھایا ہو۔ ٹائی ٹینک دراصل اس وقت دنیا کا سب سے بڑا برطانوی مسافر بردار بحری جہاز تھا، جس کی لمبائی882 فٹ، چوڑائی 92 فٹ اور اونچائی 175فٹ تھی۔ یہ 10 اپریل 1912ء کو برطانیہ کے ساؤتھیپٹن سے نیویارک سٹی کے لئے چلا تھا، لیکن 5 روز بعد ہی یعنی 15 اپریل کو یہ ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا، جہاز پر حادثے کے وقت 2 ہزار 224 مسافر اور جہاز کا عملہ سوار تھا، جن میں سے تقریباً 15 سو افراد مارے گئے۔

ٹائی ٹینک کے کیپٹن ایڈورڈ جان سمتھ تھے۔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دعوی کیا تھا کہ ''ٹائی ٹینک کو خدا بھی نہیں ڈبو سکتا'' اس ضمن میں کوئینز یونیورسٹی بلفاسٹ کے پروفیسر اور ٹائی ٹینک پر متعدد کتابیں لکھنے والے جان ولسن فوسٹر کا کہنا ہے کہ یہ صرف کسی نامعلوم شخص کا دعوی ہے کہ اس نے کیپٹن سمتھ کو یہ کہتے سنا، بصورت دیگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں بلکہ کیپٹن نے صرف تکنیکی اعتبار سے کہا تھا کہ ٹائی ٹینک ڈوب نہیں سکتا، تاہم دوسری طرف کتاب Down with the Old Canoe: A Cultural History of the Titanic Disaster کے مصنف سٹیون بائیل کا کہنا ہے کہ '' آپ اس طرح خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے''

اس فلم کے ڈائریکٹر و پروڈیوسر جیمز فرانسیس کیمرون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن سے ہی بحری جہازوں میں خاص دلچسپی رکھتے تھے اور ٹائی ٹینک سے تو انہیں خصوصی لگاؤ تھا، وہ اس جہاز کے بارے میں بہت زیادہ متجسس تھے، اسی لئے جب انہوں نے 1995ء میں ٹائی ٹینکا کے نام سے بننے والی ڈاکیومنٹری دیکھی تھی تو انہوں نے ٹائی ٹینک پر کچھ بنانے کا اٹل فیصلہ کر لیا اور وہ اپنا آئیڈیا لے کر معروف پروڈکشن کمپنی 20th Century Fox کے پاس چلے گئے، جنہوں نے یہ پراجیکٹ منظور کر لیا۔ اس فلم کے لئے کیمرون نے بذات خود 12 بار سمندر میں ڈبکی لگائی اور تباہ شدہ ٹائی ٹینک کا وزٹ کیا۔


فلم کے مرکزی کرداروں ہیرو اور ہیروئن فرضی کردار ہیں اور ان کی کہانی فلم کو ایک نئی جہت دیتی ہے اور جہاز کی غرقابی کہیں زیادہ اندوہ ناک بن جاتی ہے۔ جیک ڈوسن کے لئے پہلے پہل ٹام کروز، میکالی کن اور بریڈ پٹ جیسے بڑے اداکاروںکو نام لیا جا رہا تھا، پھر جونی ڈِپ کو اس کردار کی آفر کی گئی، جو انہوں نے ٹھکرا دی اور شائد آج تک وہ اس فیصلے پر پچھتا رہے ہوں۔ کرسیٹین بیل بھی جیک کے کردار کے لئے آڈیشن دینے والوں کی فہرست میں شامل ہیں، کیمرون کی پہلی پسند امریکی اداکار ریور فونکس تھے، لیکن بدقسمتی سے فلم بننے تک ان کی موت ہو گئی۔

بہرحال معروف امریکی اداکار میتھیو ڈیوڈ میک کانھے کو جیک کا کردار دینے کا فیصلہ کر لیا گیا اور دوسری طرف روز کے لئے ڈریو بیریمور، جینیفر انسٹن، کیمرون ڈیاز اور میڈونا جیسی تقریباً 60 اداکاراؤں نے آڈیشن دیا لیکن گینیتھ پالٹرو خوش نصیب قرار پائیں۔ لیکن یہ دونوں اداکار فلم میں کہیں نظر نہیں آتے، جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کیٹ نے جیمز کیمرون کا روز کے کردار کے لئے قائل کیا اور بعدازاں لیونارڈو کو بھی کیٹ نے ہی کیمرون سے متعارف کروایا۔

روز کی پینٹنگ والے سین میں جو ہاتھ دکھایا گیا ہے وہ لیونارڈو کا نہیں بلکہ ہدایت کار کیمرون کا تھا، اس کے علاوہ فلم میں جیک کے تمام خاکے بھی کیمرون ہی نے بنائے تھے۔ بعدازاں کیٹ ونسلٹ کے خاکے کو 2011ء میں 16ہزار ڈالر میں نیلام کر دیا گیا۔ ٹائی ٹینک فلم کے اداکاروں کے انتخاب میں خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھا گیا کہ ہر کردار ظاہری روپ کے اعتبار سے بھی حقیقی کردار کے قریب ہو، جس کے لئے جیمز نے متعدد پرانے اخبارات اور کتابوں میں سرکھپایا، یہی وجہ ہے کہ فلم میں جہاز کے کیپٹن سے لے کر باقی مسافروں تک کی حقیقی کرداروں سے مشابہت کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔

ڈائریکٹر نے فلم کے لئے بنائے جانے والے ٹائی ٹینک کے ماڈل کا سائز حقیقی ٹائی ٹینک کے تقریباً مطابق رکھا۔ اس ماڈل کے لئے حقیقی ٹائی ٹینک بنانے والی کمپنی یعنی Harlen And Wolf کی خدمات ہی حاصل کی گئیں۔ اس ماڈل جہاز کو پانی میں دکھانے کے لئے میکسیکو کا 40 ایکڑ پر محیط واٹرفرنٹ (ساحل کا نسبتاً خاموش ایریا) حاصل کیا اور 17ملین گیلن پانی استعمال کیا گیا۔

اس جہاز کا اندرونی حصہ میکسیکو کے باجا سٹوڈیو میں بنایا گیا، جہاں اندرونی سیڑھیوں کا سائز حقیقی ٹائی ٹینک کی سیڑھی سے 30 فیصد زائد تھا۔ فلم کا انٹیرئیر سیٹ حقیقی ٹائی ٹینک کے اندرونی حصے کی تصاویر کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا۔ جہاز کے جس ٹوٹے ہوئے دروازے کے ذریعے روز کی جان بچتی ہے، وہ درحقیقت بالکل ویسا ہی بنایا گیا، جو حقیقی تباہ شدہ ٹائی ٹینک کی کھوج کے دوران ملا تھا۔

اس ٹکڑے کو کینیڈا کے میری ٹائم میوزیم آف اٹلانٹک میں رکھا گیا ہے۔ فلمی ٹائی ٹینک کو ڈوبنے میں اتنا ہی وقت (242 منٹ) لگا، جتنا حقیقی جہاز کو لگا تھا، اسی طرح جہاز کو آئس برگ سے ٹکرانے میں 37سیکنڈز لگے، جو حقیقی ٹائی ٹینک کے ٹکرانے کا وقت ہے۔

فلم میں ایک بوڑھے میاں بیوی کو دکھایا گیا ہے، جو جہاز کے ڈوبتے وقت اپنے بیڈ پر ہی لیٹے رہتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، یہ واقعہ فکشن نہیں بلکہ حقیقت ہے، حقیقی ٹائی ٹینک میں ایڈ اور اسیڈر سٹارس موجود تھے، جو نیویارک میں ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور کے مالک تھے، ایڈ کو جان بچانے کے لئے لائف بوٹ پر ایک سیٹ کی آفر کی گئی تھی لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے آفر ٹھکرا دی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی جئیں اور مریںگی۔

فلم میں کئی مواقع ایسے ہیں، جہاں سکرپٹ سے ہٹ کر اپنے ڈائیلاگ ہی بول دیئے گئے، جیسے پینٹگ والے سین میں جیک نے بولنا تھا کہ ''Lie On That Couch'' لیکن وہ ہڑبڑاہٹ میں کہہ گئے''Lie On That Bed, I Mean Couch'' بول دیا، جیمز کیمرون کو یہ غلطی اتنی پسند آئی کہ اس لائن کو ہی فائنل کر دیا گیا۔ ایک اور جگہ پر جیک نے ایک ڈائیلاگ بولا''I Am The King Of The World'' جو اتنا معروف ہوا کہ اسے 2007ء میں فلموں کی 100 بہترین لائنز میں شامل کیا گیا، حالاں کہ یہ ڈائیلاگ فلم کے سکرپٹ میں تھا ہی نہیں اور جیک یعنی لیونارڈو نے اسے خود سے ہی جوڑ دیا۔

فلم کے آخری لمحات کو 'جب جہاز ڈوبتا ہے، فلمانے کے لئے13لاکھ لٹر پانی، 150سے زائد ''ایکسٹراز'' کے ساتھ 100 سٹنٹ مینز کو استعمال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس سین کی عکسبندی کی وجہ سے متعدد اداکار فلو، زکام سے لے کر گردوں تک کے مرض کا شکار ہوئے۔

کیٹ ونسلٹ کو اس سین کی وجہ سے نمونیہ ہو گیا تھا۔ بعدازاں سارے سیٹ کو ڈوبانے کے لئے ایک کروڑ 90 لاکھ لٹر پانی کا استعمال کیا گیا۔ شوٹنگ کے دوران جیمز بہت حکم چلایا کرتے تھے اور کسی کی لاپرواہی برداشت نہیں کرتے تھے، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان سے برہم تھے اور شائد اسی کا بدلہ لینے کے لئے فلم کی عکس بندی کی شروعات میں ہی کسی نے کھانے میں پی سی پی (phenylcyclohexyl piperidine) نامی دوا ملا دی، جس سے 80 افراد متاثر ہوئے اور ان میں سے 50 افراد کو فوری طور پر ہسپتال پہنچانا پڑا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بندہ آج تک پکڑا نہیں گیا، جس نے یہ حرکت کی تھی۔ فلم کا تھیم سونگ My Heart Will Go On بہت زیادہ پسند کیا گیا لیکن جیمز اس فلم میں کوئی گانا نہیں چاہتے تھے۔

امریکن میوزک کمپوزر جمیز ہارنر نے جیمز سے چھپ کر سیلین ڈیون سے ایک گانا گوایا اور جیمز کا موڈ دیکھ کر اسے ان کے سامنے پیش کر دیا، جو جیمز کو اتنا پسند آیا کہ وہ اس سے انکار نہ کر سکے۔ اور اسی گانے کی وجہ سے فلم کو بیسٹ اوریجنل سونگ کا آسکر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ فلم میں روز کے لئے 24 سوٹ تیار کئے گئے اور ہر سوٹ پر اس وقت 5ہزار ڈالر خرچہ آیا۔

ٹائی ٹینک میں بوڑھی روز کا کردار ادا کرنے والی گلوریا سٹیورٹ فلم کے تمام اداکاروں میں سب سے زیادہ عمر کی تھی، بلکہ وہ واحد خاتون اداکارہ تھیں، جو حقیقی ٹائی ٹینک ڈوبنے کے وقت بھی موجود تھیں، کہا جاتا ہے 1912ء میں جب جہاز ڈوبا تو گلوریا 2 برس کی تھیں۔ اس کے علاوہ جب کیٹ اور گلوریا کو آسکر کے لئے نامزد کیا گیا تو یہ شوبز تاریخ کی پہلی مثال تھی، جب ایک ہی فلم میں ایک ہی کردار کے لئے دو اداکاروں کو آسکر کے لئے نامزد کیا گیا۔
Load Next Story