زباں فہمی آن بان پان تان جان اور شان
پان کھِلائی، ہندوؤں میں شادی کے موقع پر بھاوجوں کو ملنے والا نیگ /حق ہے
زباں فہمی نمبر 91
کیا آن بان تھی ہمارے بزرگوں کی اور کیا شان تھی ہماری پیاری زبان اردو کی کہ جس نے جوہر دکھائے، جانِِ انجمن ہوگیا اور کہیں کسی پُختہ گائک نے پکے سُروں میں تان لگائی تو پان لگانے والے کیا، کھلانے والے کیا اور کھانے والے کیا، سبھی مسحور ہوگئے۔ بس طبیعت کچھ مائل بہ لفاظی ہوئی تو اس ہیچ مَدآں نے یہ قافیہ پیمائی کی ....آپ قافیہ سرائی کہہ لیجئے (لفظ تو لیجے ہی ہے، مگر بَربِنائے رَوِشِ قُدَماء، لیجئے کہا بھی جاتاہے اور لکھا بھی جاتا ہے...البتہ 'لیجیے' نہ لکھیں تو بہتر !)۔
آن بان اور شان کا استعمال آپس میں اس قدر ملا ہوا، بلکہ گُندھا ہوا ہے کہ انھیں الگ نہیں سمجھا جاتا، گویا یہ الفاظ نہیں، یک جان دو (بلکہ سہ) قالِب ہوں۔ لفظ آن، اسم مؤنث، فارسی الاصل، سنسکرت الاصل یعنی ہندی ہے اور اس کے معانی ہیں: ۱۔الف) ادا، چھَب، عشوہ، غمزہ ب) دل کشی، جاذبیت، سج دھج۔۲۔ طریقہ، انداز، طرز، ڈھب، طور۔۳۔ طبیعت، مزاج، عادت، خصلت۔۴۔ بناوٹ، تصنع۔۵۔ بانکپن، تمکنت، وقار۔۶۔ قَسَم، عہد، وعدہ ۔۷۔ رواج، رسم، رِیت۔۸۔ روک ٹوک، ممانعت۔۹۔ مرتبہ، شان وشوکت۔۱۰۔ ارادہ، مرضی، خواہش۔۱۱۔ خودداری۔۱۲۔ پاس وضع، وضع داری۔۱۳۔ شرم، حیا۔۱۴۔ ضِد، ہَٹ (مختصر اردو لغت جلد اوّل، اردولغت بورڈ، کراچی : ۲۰۱۹ء)۔ لغات کشوری میں اس کے معانی میں، مال اور ملکیت کا اضافہ کیا گیا ہے، جیسے فُلاں چیز اَز آنِ مَن است۔ یہ وہ نکتہ ہے جو شاید اچھے اچھوں کو بھی حیرت میں ڈال دے۔
نوراللغات (از مولوی سید نورالحسن نیّر ، جلداول) میں حیرت انگیز طور پر آن کو مزید مختلف معانی (بشمول وقت، ساعت، تھوڑی دیر، دَم بھر اور لحظہ بھر) کے ساتھ عربی الاصل بھی قرار دیا ہے یعنی عربی میں بھی یہ لفظ موجود ہے۔ ان معنوں میں استعمال کی مثالیں: ؎ آنکھ پڑجاتی ہے، ہر آن تِری زُلفوں پر+نکلی جاتی ہے مِری جان تِری زُلفوں پر (رشکؔ ) اور ؎ ایک آن بھی مجھ سے نہ ملو، آٹھ پہر میں +گھر چھوڑ کے اپنا، رہو اَغیار کے گھر میں (مومنؔ)۔]مولوی تصدق حسین رضوی صاحب کی لغات کشوری (اردو) اس کی تصدیق کرتی ہے، البتہ مصباح اللغات (عربی۔ اردو) میں اس لفظ کے اشتقاق و استعمال کی تفصیل ملتی ہے۔
بُردبار اور سنجیدہ مرد کورَجُل'' آنِِ کہا جاتا ہے[۔ مختصر اردو لغت جلد اوّل میں بھی آن (اسم مؤنث) کے ذیل میں لکھا ہے:الف) وقت، ساعت، گھڑی، دقیقہ ;ب) (متعلق فعل) تھوڑی دیر، دم بھر، لحظہ بھر (بیشتر میں 'ایک' یا 'میں' وغیرہ کے ساتھ);آن کی آن میں (متعلق فعل) یعنی دم بھر، دم بھر میں، ذرا سی دیر میں، چشم زدن میں، فوراً۔ فارسی میں آن (قدیم تلفظ، آں) ضمیر اشارہ بعید یعنی وہ کے علاوہ بمعنی لمحہ بھی مستعمل ہے۔ اردو کا آناً فاناً بھی فارسی کے آناً یعنی فی الفور۔یا۔ فوراً سے بنا ہے (فرہنگ انگلیسی فارسی از عباس آریان پور کاشانی و منوچہر آریان پور کاشانی، تہران۔ فرہنگ فارسی یعنی جدید لغات فارسی از ڈاکٹر محمد عبداللطیف)۔ البتہ مختصر اردو لغت اسے عربی الاصل بتاتے ہوئے معانی یوں واضح کرتی ہے: ۱۔ آن کی آن میں، دم بھر میں،۲۔ ہر آن، ہر لمحہ، دم بدم;اس معنی میں فآنا مستعمل ہے۔
گویا ہم اہل زبان نے آناً فاناً اس طرح بنایا ہے۔ فارسی لفظ آن بمعنی ''وہ'' سے اردو میں مختلف الفاظ وتراکیب بنائی گئی ہیں۔ قصداً تفصیل سے گریز کرتا ہوں۔ (اس کی فارسی جمع ''آنان'' یعنی وہ لوگ بھی قدیم اردو میں موجود تھی۔ بحوالہ لغات کشوری)۔ آن (فارسی) بمعنی نازوانداز، معشوق کی ادا، شان، حُسن، چھَب کا ذکر کرتے ہوئے صاحبِ نوراللغات نے یہ منفرد شعر لکھا ہے، پڑھیے اور سَردُھنیے کہ کیسے ایک ہی ہجے کے دو الفاظ، ایک ہی شعر میں کس طرح نگینے کے مانند جڑ کر، دو معانی پیدا کیے ہیں شاعر (ذوقؔ) نے: اے اَجَل تکلیف مَت کر، کیا کرے گی آن کے+ہوچکا پہلے ہی مَیں کُشتہ، کسی کی آن کا۔ پہلا آن بمعنی آنا ہے اور دوسرا بمعنی ادا۔ آن کر، بجائے، آنا، آج بھی بعض اہل ِزبان بولتے ہیں، مگر ادبی زبان میں متروک ہے۔
نورالحسن نیّر صاحب نے لکھا ہے کہ آنا سے مشتق، آن کا استعمال پہلے لکھنؤ میں عموماً تھا، اب صرف دہلی میں ہے۔ انھوں نے امانتؔ لکھنوی کا یہ شعر بطور امتثالِ امر لکھا ہے: غمزے تمھارے دیکھنے پایا نہ دوگھڑی +عاشق کے جی پہ آن بنی، ایک آن میں۔ یہ فعل لازمی ہے جس میں آن کر (فعل معطوفہ) اور آن پہنچنا، نیز آن گرنا جیسے افعال مرکبہ، پھر یہ محاورے بنائے گئے: آن بننا (واقع ہونا، پیش آنا، آپڑنا، آفت پڑنا، مصیبت آنا، مخالف ہونا، ٹھن جانا)، آن پھنسنا (آکے پھنس جانا، آتے ہی گرفتار یا مبتلا ہوجانا، پہنچتے ہی گھِر جانا) اور آن دھمکنا (یکایک آجانا، جو ناگوار ۔یا۔ طنزیہ ہو، بیرونی شخص یا طاقت کا قبضہ جمانا) ]مختصر اردو لغت جلد اوّل ، اردولغت بورڈ، کراچی : ۲۰۱۹ء[۔ آن بمعنی قَسَم اور عہد، درحقیقت عورتوں کی بولی میں رائج رہا ہے۔
ہم نے بھی اپنی والدہ ماجدہ مرحومہ اور نانی اماں مرحومہ سے بارہا سنا۔ مثال: کیا تمھیں برات میں جانے کی آن ہے (نوراللغات)۔ آن بمعنی مَناہی، رو ک ٹوک، رسم کے خلاف، دستور کے خلاف۔ یہ بھی زنانہ بولی میں زیادہ مستعمل رہا ہے، جیسے بی بی کیا تمھارے یہاں چُوڑی دار پائجامہ کی آن ہے۔ (نوراللغات)۔ آن کے معانی میں مُراد اور تمنا بھی شامل ہیں، جیسے خدا تمھاری آن رکھے یعنی مراد پوری کرے (نوراللغات)۔ ہندی اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ کے بیان کے مطابق، آن کے معانی ہیں: اور (دوسرا)، جُدا، الگ، دوسرا، اقرار اور عہد۔
آگے بڑھتے ہیں تو انٹرنیٹ پر بھی کچھ دل چسپ مواد نظر آتا ہے۔ یہ اشعار ایک آن لائن اردولغت میں منقول دیکھے: ہجر کی ایک آن میں دل کا ٹھکانا ہوگیا/ہر زماں ملتے تھے باہم سوز مانا ہوگیا (میر تقی میر)، ہم جو اُس بن خوار ہیں حد سے زیادہ/یار یاں تک آن کر کیا کم ہوا (میر تقی میر)، ٹک پوچھتے جو آن نکلتا کوئی ادھر/اب بعد مرگ قیس بیاباں کی کیا خبر (میر تقی میر)، کہتے ہیں چلتے وقت ملاقات ہے ضرور/جاتے ہیں ہم بھی جان سے ٹک دیکھو آن کر (میر تقی میر)، حال گلزارِ زمانہ کا ہے جیسے کہ شفق!/رنگ کچھ اور ہی جائے ہے اک آن کے بیچ (میر تقی میر)، ہر آن وہ انداز ہے جس میں کہ کہے جی/اُس مخترع جور کو کیا کیا ہے ادا یاد (میر تقی میر)، اک آن میں بدلتی ہے صورت جہاں کی/جلد اس نگار خانہ سے کر انتقال چل (میر تقی میر)، ایک آن گزر جائے تو کہنے میں کچھ آوے/درپیش ہے یاں مردن دُشوار ہمیشہ (میر تقی میر)، یوسف سے کئی آن کے تیرے سرِبازار/بک جاتے ہیں باتوں میں خریدار ہمیشہ (میر تقی میر)، میں تو آوارہ سہی پر شام کے ڈھلنے تلک/میرا سایہ آن ملتا ہے' تیری دیوار سے(سلیم کوثر)
(https://www.urduinc.com/english-dictionary
/%D8%A2%D9%86-meaning-in-urdu)
اب ہم بات کرتے ہیں آن بان کی۔ یہ اسم مؤنث ہے۔ اس میں بان تابع مہمل ہے، یعنی اُس کے الگ سے کوئی معنی نہیں۔ مختصر اردو لغت کے بیان کے مطابق اس کے معانی ہیں: ۱۔ شان وشوکت، سج دھج،۲۔ عزت، آبرو، خود داری، پاس ناموس، ۳۔ تمکنت، اکڑ، دماغ داری، ۴۔ بانکپن، وضع داری، ۵۔ ہَٹ، اَڑ، ضد۔ اسی ذیل میں محاورے بھی نقل کیے گئے ہیں: آن پر بننا (عزت پر حَرف آنا، وقار کو ٹھیس لگنا)، آن پر جان دینا (عزت آبرو یا ساکھ بچانے کے لیے موت قبول کرنا، طورطریقے یا وضع وغیرہ کو تہہ دل سے پسند کرنا)۔ ایک لفظ ''آن''[On] انگریزی سے بھی مستعار ہے جس کے معانی ہیں: کَل یا اُس کا پُرزہ، چالو، رُوبہ عمل، کھُلا ہوا، بند کی ضد۔ (مختصراردولغت)۔ {یہاں ایک عجیب لطیفہ بھی پیش کرتا چلوں۔ ایک مشہور ارد وویب سائٹ نے اپنے طور پر یہ طے کیا کہ لفظ آن کسی لڑکی کا نام بھی ہوسکتا ہے اور پھر مختلف معانی نقل کرتے ہوئے اس کے بارے میں مزید گُل افشانی کردی.....ہاہاہا...اسے کہتے ہیں، بندر کے ہاتھ ناریل لگنا۔ بغیر کچھ سیکھے، سکھانے کا شوق ہمارے یہاں بڑھتا جارہا ہے۔ یہ غیرمتعلقہ بات یہاں اس لیے نقل کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ اَب بلاامتیاز صنف، عمروطبقہ ہمارے یہاں کسی بھی موضوع پر کچھ کتابی علم یا کسی اہل علم سے کچھ اکتساب کرنا تقریباً معیوب قرار پاچکا ہے۔ بس انٹرنیٹ کھولو اور جو نظر آئے، آمنا صدقنا۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے!}۔
اب ذرا یہ بھی ذکر ہوجائے کہ لفظ بان الگ سے بھی موجود ہے، مگر مختلف مفہوم کے ساتھ۔ عربی میں بان، اسم مذکر ہے۔ اسے البان کہا اور لکھا جاتا ہے۔ یہ ایک نازک، خوش بو دار درخت ہے جس کے بیج سے تیل نکالا جاتا ہے۔ بعض لوگ بیدِمُشک کو بھی بان کہتے ہیں، جبکہ بقول صاحب ِنوراللغات، بعض فرہنگ نگاروں نے سہواً درخت سہجنہ (سینجنا، سیجنا، سوہانجنا) اور بکائن کو بھی بان قرار دے دیا۔ (مصباح اللغات و نوراللغات)۔ ایک اور بان (اسم مذکر) وہ ہے جس کا مطلب ہے، مونج کی رسّی جس سے چارپائی بُنتے ہیں۔ مُنیرشکوہ آبادی نے کہا تھا: ؎ بِٹھا کے پاس جو تو دل مِرا جلا ئے گا+ہر ایک بان چھٹے گا تِرے کھٹولے کا۔
(نوراللغات)۔ مختصر اردو لغت سے معلوم ہوتا ہے: ۱۔ مونج یا گھاس وغیرہ کی باریک بَٹی ہوئی ڈوری جس سے چارپائی وغیرہ بُنی جاتی ہے۔۲۔ تِیر، تُکّہ، خدنگ (نوراللغات سے پتا چلا کہ یہ لفظ سنسکرت الاصل ہے اور پہلے وان تھا جو ہندی /اردو میں بان ہوا، نیز یہ راجہ بلی کے بیٹے کا نام تھا)۔۳۔ ایک قسم کا باروت (باردو) وغیرہ سے بھرا ہوا خدنگہ جو جدید آلات ِجنگ کی ایجاد سے پہلے، دورانِ جنگ میں، دشمن کے ٹھکانوں پر پھینکا جاتا تھا، {نوراللغات میں مصحفی ؔکا یہ شعر درج کیا گیا: جُو ں مرغ ِ صبح بولا، صدمہ یہ دل کو پہنچا+جیسے کسی نے میری چھاتی پہ بان مارا۔ مرتب کا کہنا ہے کہ یہ لفظ اگن یعنی آگ اور بان یعنی تیر کا مخفف ہے۔
ہوائی، آتش بازی کا خدنگہ جو ہوائی سے مشابہ ہوتا ہے، گولا، رات کے وقت، ہاتھی کو ڈرانے کا خدنگہ۔۴۔ بھاگے ہوئے زخمی جانوروں کے خون کے نشانات۔۵۔ سمندروں یا دریاؤں کی اونچی لہر {بڑا جُواربھاٹا جو دریاؤں میں آتا ہے: نور اللغات}۔۶۔ وہ گنبد نُما چھوٹا ڈنڈا جس سے دُھنکی کی تانت کو جھٹکا دے کر روئی دُھنتے ہیں۔ ۷۔ بہشت ۔۸۔ آواز۔ مولوی نیرؔ صاحب نے نوراللغات میں بان بمعنی آتش بازی کے ذیل میں میرؔ کا یہ شعر درج کیا ہے: نالہ تا آسمان جاتا ہے+شور سے جیسے بان جاتاہے۔ یہی لفظ بطور اسم مؤنث طَور، ڈھنگ، مزاج ، خاصیّت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مختصر اردو لغت میں وضاحت سے درج کیا گیا: بناوٹ، ڈھنگ، شکال، مزاج، خاصیّت (اکثر آن کے ساتھ بطور تابع مستعمل)۔ اس کا استعمال بمعنی عادت، خصلت، خُو، سبھاؤ بھی ہوتا ہے۔
کہاوت ہے: بان والے کی بان نہ جائے، کُتا مُوتے ٹانگ اُٹھائے (یعنی بُری عادت کبھی نہیں چھُوٹتی)۔ دہلی والے اسے مؤنث برتتے ہیں، عادت ڈالنا، پڑنا، سیکھنا کے ساتھ، جیسے ''جیسی بان ڈالوگے، ویسی پڑے گی۔ نوراللغات میں ایک اضافی معنی یہ بھی درج ہیں: ہندوؤں میں شادی سے کچھ روز پہلے دولھا دُلھن کے ساتھ ایک رسم برتی جاتی ہے کہ وہ کسی مکان کے گوشے میں بٹھا دیے جاتے ہیں۔ یہاں ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ بان بمعنی صاحب، مالک، محافظ، دیکھ بھال کرنے والا، نگراں، رکھنے والا، چلانے والا، ہنکانے والا بھی مستعمل ہے۔
یہ لاحقہ ہے، متعدد الفاظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے باغ بان، مہربان، دیدبان، شتربان، فِیل بان، گاڑی بان اور دِیدبان۔ ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ مغل تاجدار اکبر نے کسی بات پر اپنے فِیل بان (ہاتھی کے نگراں) سے خفا ہوتے ہوئے اپنے خاص مصاحب راجہ بِیر بَل سے کہا: یہ جتنے ناموں کے ساتھ 'بان' آتا ہے، وہ سب بہت بُرے ہوتے ہیں۔ حاضر جواب بِیر بَل بولا: بہت اچھا مہربان! (یہی لطیفہ ایک دوسرے رتن، مُلّا دوپیازہ سے بھی منسوب ہے)۔ اب آتے ہیں پان کی طرف۔۱۔ پان اسم مذکر ہے اور یہ ایک قسم کا خوش بو دار پتّا ہے جس پر کتّھا چونا لگا کر کھانے سے منھ لال ہوجاتا ہے۔
اسے برگِ تنبول یا ناگر بیل کا پتّا بھی کہتے ہیں۔ روزمرّہ اور خاص مواقع مثلاً شادی بیاہ میں اس کا استعمال بہت عام ہے۔گزشتہ چند دہائیوں سے میٹھے پان کا رواج بڑھ گیا ہے۔۲۔ کِیمُخت یا چمڑے کا تراشا ہوا خوب صورت ٹکڑا جو ہندوستانی جُوتیوں کے اَڈّے/اڈّی /ایڈی کے پہلوؤں پر، مضبوطی کے لیے لگایا جاتا ہے، نیز لنگوٹ کے اوپر کا رنگین چمڑا۔۳۔ تاش کی بازی کے ایک رنگ کا نام جس میں پان کی شکل، نیز سرخ بوٹیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں۔
۴۔ بطور اسم مؤنث: جولاہے بُننے کے سُوت کو مانڈی میں بھگو کر تانی کرنے کو پان کہتے ہیں۔ مجازاً کلف، مانڈی (دیہاتی) تنباکو (تمباکو)، مخفف پنج جیسے پانصد (پانچ سو) اور پانزدہ (پندرہ)۔۵۔ انگیا کی کٹوریوں کا، پان سے مشابہ، چھوٹا ٹکڑا۔ ۶۔ ہار کے تعویز میں بنی ہوئی ایک شکل۔ ۷۔ پان پتا (اسم مذکر: لکھنؤ) پان اور مختلف لوازم خانہ داری۔۸۔ محض پتّا(قدیم )۔ ۹۔ شال دوشالوں پر بنی ہوئی آرائشی شکل۔ (فرہنگ آصفیہ، ج۱، مختصر اردو لغت ج۱)۔ ان معانی میں خاکسار کا یہ نکتہ بھی شامل کرلیں کہ مٹھائی کی ایک (پیڑے کی مخصوص پان نُما) قسم کو بھی، عرفِ عام میں پان کہا جاتا ہے، جبکہ خواتین کی قمیص (قمیض) کے گلے پر بننے والے نمونے بھی پان کہلاتے ہیں۔ پان بنانا (گلوری بنانا)/چبانا/چِیرنا/ کھانا /لگانا فعل لازم ہیں، جبکہ پان دینا/کرنا/کھِلانا فعل متعدّی ہیں۔
پان کھِلائی، ہندوؤں میں شادی کے موقع پر بھاوجوں کو ملنے والا نیگ /حق ہے، جبکہ مسلمانوں میں منگنی کی رسم بھی یہی کہلاتی ہے۔ (فرہنگ آصفیہ ومختصر اردو لغت )۔ محاورے میں پان پھول کا مطلب ہے عام (یعنی معمولی ) تحفہ بحوالہ فرہنگ اردو محاورات از پروفیسر محمد حسن (ہندوستان)۔ اس کے دیگر معانی یہ ہیں: دیوتاؤں کی بھینٹ، خاطر تواضع، نذرانہ، نذر، برائی بھلائی، سرانجام کار (مختصر اردو لغت )۔ پان دان کا خرچ سے مراد ہے بیوی یا کسی عورت کا جیب خرچ، بالائی/ اوپری خرچ۔ پان دینا (پان کھلانا، پان سے تواضع کرنا، رخصت کرنا، رخصت کا پان کھلانا)، پان کھلانا (منگنی کی رسم ادا کرنا، بات پکی کرنا، نیز کھانے کے لیے پان پیش کرنا بھی محاورے ہیں۔
کبھی آپ نے ''اکیس پان کا بِیڑا'' سنا ہے؟ یہ بھی ہندوستانی شادیوں کی ایک رسم ہے جس میں تلے اوپر رکھے ہوئے پانوں کی گلوری، آرسی مصحف کے موقع پر دولھا کو کھلائی جاتی ہے (عددی محاورے اور ضرب الامثال از سید عامر عالم رضوی، نظرثانی: ڈاکٹر شاہد ضمیر۔ اردو لغت بورڈ، کراچی: ۲۰۱۸ء)۔ بِیڑا اٹھانا کا محاورہ بھی پان کے بیِڑے سے متعلق ہے۔ تان کہتے ہیں سُروں کے اس کھنچاؤ کو جس سے راگ میں بتدریج بڑھت ہو، نیز سُروں کی آواز کا مسلسل وتیز چڑھاؤ، طولانی تار، سوت کے وہ تاگے جو کپڑا بُنائی میں لمبائی میں ترتیب دیے جائیں، پھیلاؤ، کھچاؤ، تناؤ، ایک ہی طرح کے سُر، تنا ہوا تاگا، بھاٹے (جزر) کی لہر، ترنگ، کھینچ کر تان لگانے کی کیفیت، وسعت، سلسلہ۔ تان اُڑانا/توڑنا محاورے ہیں، جبکہ تان کر سونایا تان لینا بھی دیگر مفہوم میں بولے جانے والے محاورے ہیں (مختصر اردو لغت )۔ آن بان کے ساتھ شان کا استعمال بھی عام ہے۔ فیض احمد فیض ؔ : جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے/یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں۔
کیا آن بان تھی ہمارے بزرگوں کی اور کیا شان تھی ہماری پیاری زبان اردو کی کہ جس نے جوہر دکھائے، جانِِ انجمن ہوگیا اور کہیں کسی پُختہ گائک نے پکے سُروں میں تان لگائی تو پان لگانے والے کیا، کھلانے والے کیا اور کھانے والے کیا، سبھی مسحور ہوگئے۔ بس طبیعت کچھ مائل بہ لفاظی ہوئی تو اس ہیچ مَدآں نے یہ قافیہ پیمائی کی ....آپ قافیہ سرائی کہہ لیجئے (لفظ تو لیجے ہی ہے، مگر بَربِنائے رَوِشِ قُدَماء، لیجئے کہا بھی جاتاہے اور لکھا بھی جاتا ہے...البتہ 'لیجیے' نہ لکھیں تو بہتر !)۔
آن بان اور شان کا استعمال آپس میں اس قدر ملا ہوا، بلکہ گُندھا ہوا ہے کہ انھیں الگ نہیں سمجھا جاتا، گویا یہ الفاظ نہیں، یک جان دو (بلکہ سہ) قالِب ہوں۔ لفظ آن، اسم مؤنث، فارسی الاصل، سنسکرت الاصل یعنی ہندی ہے اور اس کے معانی ہیں: ۱۔الف) ادا، چھَب، عشوہ، غمزہ ب) دل کشی، جاذبیت، سج دھج۔۲۔ طریقہ، انداز، طرز، ڈھب، طور۔۳۔ طبیعت، مزاج، عادت، خصلت۔۴۔ بناوٹ، تصنع۔۵۔ بانکپن، تمکنت، وقار۔۶۔ قَسَم، عہد، وعدہ ۔۷۔ رواج، رسم، رِیت۔۸۔ روک ٹوک، ممانعت۔۹۔ مرتبہ، شان وشوکت۔۱۰۔ ارادہ، مرضی، خواہش۔۱۱۔ خودداری۔۱۲۔ پاس وضع، وضع داری۔۱۳۔ شرم، حیا۔۱۴۔ ضِد، ہَٹ (مختصر اردو لغت جلد اوّل، اردولغت بورڈ، کراچی : ۲۰۱۹ء)۔ لغات کشوری میں اس کے معانی میں، مال اور ملکیت کا اضافہ کیا گیا ہے، جیسے فُلاں چیز اَز آنِ مَن است۔ یہ وہ نکتہ ہے جو شاید اچھے اچھوں کو بھی حیرت میں ڈال دے۔
نوراللغات (از مولوی سید نورالحسن نیّر ، جلداول) میں حیرت انگیز طور پر آن کو مزید مختلف معانی (بشمول وقت، ساعت، تھوڑی دیر، دَم بھر اور لحظہ بھر) کے ساتھ عربی الاصل بھی قرار دیا ہے یعنی عربی میں بھی یہ لفظ موجود ہے۔ ان معنوں میں استعمال کی مثالیں: ؎ آنکھ پڑجاتی ہے، ہر آن تِری زُلفوں پر+نکلی جاتی ہے مِری جان تِری زُلفوں پر (رشکؔ ) اور ؎ ایک آن بھی مجھ سے نہ ملو، آٹھ پہر میں +گھر چھوڑ کے اپنا، رہو اَغیار کے گھر میں (مومنؔ)۔]مولوی تصدق حسین رضوی صاحب کی لغات کشوری (اردو) اس کی تصدیق کرتی ہے، البتہ مصباح اللغات (عربی۔ اردو) میں اس لفظ کے اشتقاق و استعمال کی تفصیل ملتی ہے۔
بُردبار اور سنجیدہ مرد کورَجُل'' آنِِ کہا جاتا ہے[۔ مختصر اردو لغت جلد اوّل میں بھی آن (اسم مؤنث) کے ذیل میں لکھا ہے:الف) وقت، ساعت، گھڑی، دقیقہ ;ب) (متعلق فعل) تھوڑی دیر، دم بھر، لحظہ بھر (بیشتر میں 'ایک' یا 'میں' وغیرہ کے ساتھ);آن کی آن میں (متعلق فعل) یعنی دم بھر، دم بھر میں، ذرا سی دیر میں، چشم زدن میں، فوراً۔ فارسی میں آن (قدیم تلفظ، آں) ضمیر اشارہ بعید یعنی وہ کے علاوہ بمعنی لمحہ بھی مستعمل ہے۔ اردو کا آناً فاناً بھی فارسی کے آناً یعنی فی الفور۔یا۔ فوراً سے بنا ہے (فرہنگ انگلیسی فارسی از عباس آریان پور کاشانی و منوچہر آریان پور کاشانی، تہران۔ فرہنگ فارسی یعنی جدید لغات فارسی از ڈاکٹر محمد عبداللطیف)۔ البتہ مختصر اردو لغت اسے عربی الاصل بتاتے ہوئے معانی یوں واضح کرتی ہے: ۱۔ آن کی آن میں، دم بھر میں،۲۔ ہر آن، ہر لمحہ، دم بدم;اس معنی میں فآنا مستعمل ہے۔
گویا ہم اہل زبان نے آناً فاناً اس طرح بنایا ہے۔ فارسی لفظ آن بمعنی ''وہ'' سے اردو میں مختلف الفاظ وتراکیب بنائی گئی ہیں۔ قصداً تفصیل سے گریز کرتا ہوں۔ (اس کی فارسی جمع ''آنان'' یعنی وہ لوگ بھی قدیم اردو میں موجود تھی۔ بحوالہ لغات کشوری)۔ آن (فارسی) بمعنی نازوانداز، معشوق کی ادا، شان، حُسن، چھَب کا ذکر کرتے ہوئے صاحبِ نوراللغات نے یہ منفرد شعر لکھا ہے، پڑھیے اور سَردُھنیے کہ کیسے ایک ہی ہجے کے دو الفاظ، ایک ہی شعر میں کس طرح نگینے کے مانند جڑ کر، دو معانی پیدا کیے ہیں شاعر (ذوقؔ) نے: اے اَجَل تکلیف مَت کر، کیا کرے گی آن کے+ہوچکا پہلے ہی مَیں کُشتہ، کسی کی آن کا۔ پہلا آن بمعنی آنا ہے اور دوسرا بمعنی ادا۔ آن کر، بجائے، آنا، آج بھی بعض اہل ِزبان بولتے ہیں، مگر ادبی زبان میں متروک ہے۔
نورالحسن نیّر صاحب نے لکھا ہے کہ آنا سے مشتق، آن کا استعمال پہلے لکھنؤ میں عموماً تھا، اب صرف دہلی میں ہے۔ انھوں نے امانتؔ لکھنوی کا یہ شعر بطور امتثالِ امر لکھا ہے: غمزے تمھارے دیکھنے پایا نہ دوگھڑی +عاشق کے جی پہ آن بنی، ایک آن میں۔ یہ فعل لازمی ہے جس میں آن کر (فعل معطوفہ) اور آن پہنچنا، نیز آن گرنا جیسے افعال مرکبہ، پھر یہ محاورے بنائے گئے: آن بننا (واقع ہونا، پیش آنا، آپڑنا، آفت پڑنا، مصیبت آنا، مخالف ہونا، ٹھن جانا)، آن پھنسنا (آکے پھنس جانا، آتے ہی گرفتار یا مبتلا ہوجانا، پہنچتے ہی گھِر جانا) اور آن دھمکنا (یکایک آجانا، جو ناگوار ۔یا۔ طنزیہ ہو، بیرونی شخص یا طاقت کا قبضہ جمانا) ]مختصر اردو لغت جلد اوّل ، اردولغت بورڈ، کراچی : ۲۰۱۹ء[۔ آن بمعنی قَسَم اور عہد، درحقیقت عورتوں کی بولی میں رائج رہا ہے۔
ہم نے بھی اپنی والدہ ماجدہ مرحومہ اور نانی اماں مرحومہ سے بارہا سنا۔ مثال: کیا تمھیں برات میں جانے کی آن ہے (نوراللغات)۔ آن بمعنی مَناہی، رو ک ٹوک، رسم کے خلاف، دستور کے خلاف۔ یہ بھی زنانہ بولی میں زیادہ مستعمل رہا ہے، جیسے بی بی کیا تمھارے یہاں چُوڑی دار پائجامہ کی آن ہے۔ (نوراللغات)۔ آن کے معانی میں مُراد اور تمنا بھی شامل ہیں، جیسے خدا تمھاری آن رکھے یعنی مراد پوری کرے (نوراللغات)۔ ہندی اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ کے بیان کے مطابق، آن کے معانی ہیں: اور (دوسرا)، جُدا، الگ، دوسرا، اقرار اور عہد۔
آگے بڑھتے ہیں تو انٹرنیٹ پر بھی کچھ دل چسپ مواد نظر آتا ہے۔ یہ اشعار ایک آن لائن اردولغت میں منقول دیکھے: ہجر کی ایک آن میں دل کا ٹھکانا ہوگیا/ہر زماں ملتے تھے باہم سوز مانا ہوگیا (میر تقی میر)، ہم جو اُس بن خوار ہیں حد سے زیادہ/یار یاں تک آن کر کیا کم ہوا (میر تقی میر)، ٹک پوچھتے جو آن نکلتا کوئی ادھر/اب بعد مرگ قیس بیاباں کی کیا خبر (میر تقی میر)، کہتے ہیں چلتے وقت ملاقات ہے ضرور/جاتے ہیں ہم بھی جان سے ٹک دیکھو آن کر (میر تقی میر)، حال گلزارِ زمانہ کا ہے جیسے کہ شفق!/رنگ کچھ اور ہی جائے ہے اک آن کے بیچ (میر تقی میر)، ہر آن وہ انداز ہے جس میں کہ کہے جی/اُس مخترع جور کو کیا کیا ہے ادا یاد (میر تقی میر)، اک آن میں بدلتی ہے صورت جہاں کی/جلد اس نگار خانہ سے کر انتقال چل (میر تقی میر)، ایک آن گزر جائے تو کہنے میں کچھ آوے/درپیش ہے یاں مردن دُشوار ہمیشہ (میر تقی میر)، یوسف سے کئی آن کے تیرے سرِبازار/بک جاتے ہیں باتوں میں خریدار ہمیشہ (میر تقی میر)، میں تو آوارہ سہی پر شام کے ڈھلنے تلک/میرا سایہ آن ملتا ہے' تیری دیوار سے(سلیم کوثر)
(https://www.urduinc.com/english-dictionary
/%D8%A2%D9%86-meaning-in-urdu)
اب ہم بات کرتے ہیں آن بان کی۔ یہ اسم مؤنث ہے۔ اس میں بان تابع مہمل ہے، یعنی اُس کے الگ سے کوئی معنی نہیں۔ مختصر اردو لغت کے بیان کے مطابق اس کے معانی ہیں: ۱۔ شان وشوکت، سج دھج،۲۔ عزت، آبرو، خود داری، پاس ناموس، ۳۔ تمکنت، اکڑ، دماغ داری، ۴۔ بانکپن، وضع داری، ۵۔ ہَٹ، اَڑ، ضد۔ اسی ذیل میں محاورے بھی نقل کیے گئے ہیں: آن پر بننا (عزت پر حَرف آنا، وقار کو ٹھیس لگنا)، آن پر جان دینا (عزت آبرو یا ساکھ بچانے کے لیے موت قبول کرنا، طورطریقے یا وضع وغیرہ کو تہہ دل سے پسند کرنا)۔ ایک لفظ ''آن''[On] انگریزی سے بھی مستعار ہے جس کے معانی ہیں: کَل یا اُس کا پُرزہ، چالو، رُوبہ عمل، کھُلا ہوا، بند کی ضد۔ (مختصراردولغت)۔ {یہاں ایک عجیب لطیفہ بھی پیش کرتا چلوں۔ ایک مشہور ارد وویب سائٹ نے اپنے طور پر یہ طے کیا کہ لفظ آن کسی لڑکی کا نام بھی ہوسکتا ہے اور پھر مختلف معانی نقل کرتے ہوئے اس کے بارے میں مزید گُل افشانی کردی.....ہاہاہا...اسے کہتے ہیں، بندر کے ہاتھ ناریل لگنا۔ بغیر کچھ سیکھے، سکھانے کا شوق ہمارے یہاں بڑھتا جارہا ہے۔ یہ غیرمتعلقہ بات یہاں اس لیے نقل کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ اَب بلاامتیاز صنف، عمروطبقہ ہمارے یہاں کسی بھی موضوع پر کچھ کتابی علم یا کسی اہل علم سے کچھ اکتساب کرنا تقریباً معیوب قرار پاچکا ہے۔ بس انٹرنیٹ کھولو اور جو نظر آئے، آمنا صدقنا۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے!}۔
اب ذرا یہ بھی ذکر ہوجائے کہ لفظ بان الگ سے بھی موجود ہے، مگر مختلف مفہوم کے ساتھ۔ عربی میں بان، اسم مذکر ہے۔ اسے البان کہا اور لکھا جاتا ہے۔ یہ ایک نازک، خوش بو دار درخت ہے جس کے بیج سے تیل نکالا جاتا ہے۔ بعض لوگ بیدِمُشک کو بھی بان کہتے ہیں، جبکہ بقول صاحب ِنوراللغات، بعض فرہنگ نگاروں نے سہواً درخت سہجنہ (سینجنا، سیجنا، سوہانجنا) اور بکائن کو بھی بان قرار دے دیا۔ (مصباح اللغات و نوراللغات)۔ ایک اور بان (اسم مذکر) وہ ہے جس کا مطلب ہے، مونج کی رسّی جس سے چارپائی بُنتے ہیں۔ مُنیرشکوہ آبادی نے کہا تھا: ؎ بِٹھا کے پاس جو تو دل مِرا جلا ئے گا+ہر ایک بان چھٹے گا تِرے کھٹولے کا۔
(نوراللغات)۔ مختصر اردو لغت سے معلوم ہوتا ہے: ۱۔ مونج یا گھاس وغیرہ کی باریک بَٹی ہوئی ڈوری جس سے چارپائی وغیرہ بُنی جاتی ہے۔۲۔ تِیر، تُکّہ، خدنگ (نوراللغات سے پتا چلا کہ یہ لفظ سنسکرت الاصل ہے اور پہلے وان تھا جو ہندی /اردو میں بان ہوا، نیز یہ راجہ بلی کے بیٹے کا نام تھا)۔۳۔ ایک قسم کا باروت (باردو) وغیرہ سے بھرا ہوا خدنگہ جو جدید آلات ِجنگ کی ایجاد سے پہلے، دورانِ جنگ میں، دشمن کے ٹھکانوں پر پھینکا جاتا تھا، {نوراللغات میں مصحفی ؔکا یہ شعر درج کیا گیا: جُو ں مرغ ِ صبح بولا، صدمہ یہ دل کو پہنچا+جیسے کسی نے میری چھاتی پہ بان مارا۔ مرتب کا کہنا ہے کہ یہ لفظ اگن یعنی آگ اور بان یعنی تیر کا مخفف ہے۔
ہوائی، آتش بازی کا خدنگہ جو ہوائی سے مشابہ ہوتا ہے، گولا، رات کے وقت، ہاتھی کو ڈرانے کا خدنگہ۔۴۔ بھاگے ہوئے زخمی جانوروں کے خون کے نشانات۔۵۔ سمندروں یا دریاؤں کی اونچی لہر {بڑا جُواربھاٹا جو دریاؤں میں آتا ہے: نور اللغات}۔۶۔ وہ گنبد نُما چھوٹا ڈنڈا جس سے دُھنکی کی تانت کو جھٹکا دے کر روئی دُھنتے ہیں۔ ۷۔ بہشت ۔۸۔ آواز۔ مولوی نیرؔ صاحب نے نوراللغات میں بان بمعنی آتش بازی کے ذیل میں میرؔ کا یہ شعر درج کیا ہے: نالہ تا آسمان جاتا ہے+شور سے جیسے بان جاتاہے۔ یہی لفظ بطور اسم مؤنث طَور، ڈھنگ، مزاج ، خاصیّت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مختصر اردو لغت میں وضاحت سے درج کیا گیا: بناوٹ، ڈھنگ، شکال، مزاج، خاصیّت (اکثر آن کے ساتھ بطور تابع مستعمل)۔ اس کا استعمال بمعنی عادت، خصلت، خُو، سبھاؤ بھی ہوتا ہے۔
کہاوت ہے: بان والے کی بان نہ جائے، کُتا مُوتے ٹانگ اُٹھائے (یعنی بُری عادت کبھی نہیں چھُوٹتی)۔ دہلی والے اسے مؤنث برتتے ہیں، عادت ڈالنا، پڑنا، سیکھنا کے ساتھ، جیسے ''جیسی بان ڈالوگے، ویسی پڑے گی۔ نوراللغات میں ایک اضافی معنی یہ بھی درج ہیں: ہندوؤں میں شادی سے کچھ روز پہلے دولھا دُلھن کے ساتھ ایک رسم برتی جاتی ہے کہ وہ کسی مکان کے گوشے میں بٹھا دیے جاتے ہیں۔ یہاں ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ بان بمعنی صاحب، مالک، محافظ، دیکھ بھال کرنے والا، نگراں، رکھنے والا، چلانے والا، ہنکانے والا بھی مستعمل ہے۔
یہ لاحقہ ہے، متعدد الفاظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے باغ بان، مہربان، دیدبان، شتربان، فِیل بان، گاڑی بان اور دِیدبان۔ ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ مغل تاجدار اکبر نے کسی بات پر اپنے فِیل بان (ہاتھی کے نگراں) سے خفا ہوتے ہوئے اپنے خاص مصاحب راجہ بِیر بَل سے کہا: یہ جتنے ناموں کے ساتھ 'بان' آتا ہے، وہ سب بہت بُرے ہوتے ہیں۔ حاضر جواب بِیر بَل بولا: بہت اچھا مہربان! (یہی لطیفہ ایک دوسرے رتن، مُلّا دوپیازہ سے بھی منسوب ہے)۔ اب آتے ہیں پان کی طرف۔۱۔ پان اسم مذکر ہے اور یہ ایک قسم کا خوش بو دار پتّا ہے جس پر کتّھا چونا لگا کر کھانے سے منھ لال ہوجاتا ہے۔
اسے برگِ تنبول یا ناگر بیل کا پتّا بھی کہتے ہیں۔ روزمرّہ اور خاص مواقع مثلاً شادی بیاہ میں اس کا استعمال بہت عام ہے۔گزشتہ چند دہائیوں سے میٹھے پان کا رواج بڑھ گیا ہے۔۲۔ کِیمُخت یا چمڑے کا تراشا ہوا خوب صورت ٹکڑا جو ہندوستانی جُوتیوں کے اَڈّے/اڈّی /ایڈی کے پہلوؤں پر، مضبوطی کے لیے لگایا جاتا ہے، نیز لنگوٹ کے اوپر کا رنگین چمڑا۔۳۔ تاش کی بازی کے ایک رنگ کا نام جس میں پان کی شکل، نیز سرخ بوٹیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں۔
۴۔ بطور اسم مؤنث: جولاہے بُننے کے سُوت کو مانڈی میں بھگو کر تانی کرنے کو پان کہتے ہیں۔ مجازاً کلف، مانڈی (دیہاتی) تنباکو (تمباکو)، مخفف پنج جیسے پانصد (پانچ سو) اور پانزدہ (پندرہ)۔۵۔ انگیا کی کٹوریوں کا، پان سے مشابہ، چھوٹا ٹکڑا۔ ۶۔ ہار کے تعویز میں بنی ہوئی ایک شکل۔ ۷۔ پان پتا (اسم مذکر: لکھنؤ) پان اور مختلف لوازم خانہ داری۔۸۔ محض پتّا(قدیم )۔ ۹۔ شال دوشالوں پر بنی ہوئی آرائشی شکل۔ (فرہنگ آصفیہ، ج۱، مختصر اردو لغت ج۱)۔ ان معانی میں خاکسار کا یہ نکتہ بھی شامل کرلیں کہ مٹھائی کی ایک (پیڑے کی مخصوص پان نُما) قسم کو بھی، عرفِ عام میں پان کہا جاتا ہے، جبکہ خواتین کی قمیص (قمیض) کے گلے پر بننے والے نمونے بھی پان کہلاتے ہیں۔ پان بنانا (گلوری بنانا)/چبانا/چِیرنا/ کھانا /لگانا فعل لازم ہیں، جبکہ پان دینا/کرنا/کھِلانا فعل متعدّی ہیں۔
پان کھِلائی، ہندوؤں میں شادی کے موقع پر بھاوجوں کو ملنے والا نیگ /حق ہے، جبکہ مسلمانوں میں منگنی کی رسم بھی یہی کہلاتی ہے۔ (فرہنگ آصفیہ ومختصر اردو لغت )۔ محاورے میں پان پھول کا مطلب ہے عام (یعنی معمولی ) تحفہ بحوالہ فرہنگ اردو محاورات از پروفیسر محمد حسن (ہندوستان)۔ اس کے دیگر معانی یہ ہیں: دیوتاؤں کی بھینٹ، خاطر تواضع، نذرانہ، نذر، برائی بھلائی، سرانجام کار (مختصر اردو لغت )۔ پان دان کا خرچ سے مراد ہے بیوی یا کسی عورت کا جیب خرچ، بالائی/ اوپری خرچ۔ پان دینا (پان کھلانا، پان سے تواضع کرنا، رخصت کرنا، رخصت کا پان کھلانا)، پان کھلانا (منگنی کی رسم ادا کرنا، بات پکی کرنا، نیز کھانے کے لیے پان پیش کرنا بھی محاورے ہیں۔
کبھی آپ نے ''اکیس پان کا بِیڑا'' سنا ہے؟ یہ بھی ہندوستانی شادیوں کی ایک رسم ہے جس میں تلے اوپر رکھے ہوئے پانوں کی گلوری، آرسی مصحف کے موقع پر دولھا کو کھلائی جاتی ہے (عددی محاورے اور ضرب الامثال از سید عامر عالم رضوی، نظرثانی: ڈاکٹر شاہد ضمیر۔ اردو لغت بورڈ، کراچی: ۲۰۱۸ء)۔ بِیڑا اٹھانا کا محاورہ بھی پان کے بیِڑے سے متعلق ہے۔ تان کہتے ہیں سُروں کے اس کھنچاؤ کو جس سے راگ میں بتدریج بڑھت ہو، نیز سُروں کی آواز کا مسلسل وتیز چڑھاؤ، طولانی تار، سوت کے وہ تاگے جو کپڑا بُنائی میں لمبائی میں ترتیب دیے جائیں، پھیلاؤ، کھچاؤ، تناؤ، ایک ہی طرح کے سُر، تنا ہوا تاگا، بھاٹے (جزر) کی لہر، ترنگ، کھینچ کر تان لگانے کی کیفیت، وسعت، سلسلہ۔ تان اُڑانا/توڑنا محاورے ہیں، جبکہ تان کر سونایا تان لینا بھی دیگر مفہوم میں بولے جانے والے محاورے ہیں (مختصر اردو لغت )۔ آن بان کے ساتھ شان کا استعمال بھی عام ہے۔ فیض احمد فیض ؔ : جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے/یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں۔