سارے رنگ
اگرچہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ کسی کی حوصلہ افزائی یا ستائش سے اُسے مسرت اور مزید آگے بڑھنے کے لیے توانائی ملتی ہے
RIYADH:
ایک ''انجمن ستائشِ دیگراں'' کا احوال
اگرچہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ کسی کی حوصلہ افزائی یا ستائش سے اُسے مسرت اور مزید آگے بڑھنے کے لیے توانائی ملتی ہے، تاہم بہت سے احباب ستائش سے بے پروا، مخالفتوں اور ناموافق حالات میں بھی وہی کہتے، لکھتے اور کرتے رہتے ہیں، جسے وہ دل وجان سے درست جانتے اور مانتے ہیں۔۔۔ لیکن ایسے معدودے چند 'خسارے کے سوداگروں' سے ہٹ کر سماج کی بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی ہے، جو ستائش سے حوصلہ پاتی ہے اور بہت سے تو اس دَشت میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پھر ان کے کام کا سارا خلوص اور لگن کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور سارا محور فقط یہ داد وتحسین ہی رہ جاتی ہے۔۔۔
اور آج کے 'تعلقات عامّہ' یا (پی آر) کے زمانے میں ہمیں بہ یک وقت کئی قسم کی 'انجمنِ ستائشِ باہمی' ایک دوسرے سے سر ٹکراتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔۔۔ نتیجتاً حق اور سچ تو درکنار، ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بات کرنے اور داد دینے والے بھی سمٹتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ اب بات فقط یہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی شعر اور بات کہنے والا 'اپنا' ہے، تو اس سے بالکل ماورا ہو جائیے کہ وہ کیا اور کیسا خیال کہہ رہا ہے، بس دھڑا دھڑ واہ واہ کے ڈونگرے برساتے چلے جائیے۔۔۔ کیوں کہ آپ کی باری پر وہ بھی اپنا یہ ''فرض'' اتنی دل جمعی سے نبھاتا رہا ہے۔۔۔
اسی 'نشہ آور' ستائش سے کیف اٹھانے کے لیے ہمارے ہاں بہت سی اعلانیہ اور غیراعلانیہ انجمنیں بھی قائم ہیں، جنھیں دفتری زبان میں 'لابی' بھی کہا جاتا ہے، یہ سیاسی، لسانی، نظریاتی کے علاوہ مفاداتی بنیادوں پر بھی قائم ہوتی ہیں۔۔۔ اگرچہ ان 'لابیوں' سے کوئی بھی شعبہ خالی نہیں، لیکن سرِ دست ہمارا موضوع لکھنے پڑھنے والوں کے ایسے 'جَتھوں' سے ہے، جو بہ ظاہر تو اس میدان سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ 'ذہنی بونے' ہوتے ہیں اور بہ جائے دل وجان سے لکھنے اور کہنے کے، فقط نام وَری کے پیچھے دوڑتے ہیں۔۔۔
انھیں تو گویا سانس ہی اخبارات اور چینلوں پر اپنی تصویریں، خبریں اور ویڈیو دیکھ کر آتا ہے۔۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ آج کے زمانے میں اگر آپ کسی 'لابی' کا حصہ نہیں بنیں گے، تو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کی موافق کچلے جائیں گے۔۔۔! لیکن اس کے باوجود 'شہرِ قائد' میں ایک ایسی عجیب وغریب ''لابی'' وجود میں آگئی ہے، جو کسی بھی 'انجمن ستائش باہمی' کا الٹ معلوم ہوتی ہے۔۔۔ چلیے ہم آپ کو بھی ذرا ان کی طرف لیے چلتے ہیں۔۔۔
یہ شام ڈھلے شہر کی ایک مصروف شاہ راہ کے کنارے ایک کتب خانے کے سبزہ زار پر ایک تقریب کا اہتمام ہے، جو دراصل ایک 'بزم' کے عہدے داروں کے چناؤ کے لیے ہے۔۔۔ برقی قمقموں کے سائے میں مخصوص فاصلے سے رکھی ہوئی نشستیں دھیرے دھیرے پُر ہوتی گئیں۔۔۔ ان میں زیادہ تر 'بزم شعرو سخن' کے ارکان ہیں اور باقی کچھ ہم جیسے مبصرین بھی اعزازی طور پر مدعو ہیں۔۔۔ تاج دار عادل، حنیف عابد، شاہد ہاشمی اور شکیل خان وغیرہ جیسے نام بھی ایسے مہمانوں میں شامل ہیں، لیکن ہم تو نہ شاعر و ادیب اور نہ ہی کسی اور بااثر انجمن یا 'لابی' سے کوئی علاقہ رکھتے ہیں، لیکن یہ ''بزم شعر وسخن'' کی بیٹھک تھی، جس کے سرپرست بھی خود نہ شاعر ہیں اور نہ ادیب۔۔۔ البتہ ادب دوست اور سخن فہم ضرور ہیں، تو یوں سمجھیے، ہمیں بھی انھوں نے اسی زمرے کے کسی خانے میں جَڑ دیا اور اپنا رکن نہ ہونے کے باوجود یہاں ہماری گنجائش نکال لی۔۔۔
یہاں صرف 'بزم شعروسخن' کے سرپرستوں کا شاعر وادیب نہ ہونا ہی انفرادیت نہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ عجب معاملہ ان کے چناؤ کا ہے۔۔۔ تقریب شروع ہوئی، یعنی انتخابی مرحلے کا بھی آغاز ہوا۔۔۔ جس کے لیے نہ کسی قسم کی کوئی انتخابی مہم تھی، نہ ہی رائے دہندگان کو 'قائل' کرنے کے لیے کوئی دوڑ دھوپ۔۔۔ انتہا تو یہ ہے کہ کوئی باقاعدہ امیدوار اور چھَپی ہوئی 'انتخابی پرچیاؓں' تک نہ تھیں۔۔۔ بس اسٹیج سے یہ اعلان ہوا کہ ارکان اپنی پرچی پر باری باری صدر، جنرل سیکریٹری اور پھر اگلے مرحلے میں مجلس منتظمہ کے لیے اپنے تجویز کردہ افراد کا نام لکھ دیں۔۔۔ اور اس میں بزم شعرو سخن کے 'مجلس عظمیٰ' کے ارکان طارق جمیل، سرفراز عالم، ڈاکٹر سہیل اختر اور ڈاکٹر بشیر لاکھانی کے نام نہیں لکھے جا سکتے۔۔۔ کیوں کہ دستور کی رو سے 'سرپرست' کسی بھی عہدے کے لیے امیدوار نہیں بن سکتے، بقول شخصے ایسی انجمن کی سرپرستی کا کیا فائدہ، جس میں خود کو 'دولھا' نہ بنائیں۔۔۔!
اس چناؤ کے دوران مختلف شخصیات اظہارخیال کرتی رہیں۔۔۔ معروف شاعر تاج دار عادل اور حنیف عابد نے اس جذبے کو سراہا کہ اس بزم کو بنانے والے خود ہی کسی عہدے اور کسی بھی خودستائشی سے دور رہتے ہیں۔۔۔ بزم شعرو سخن کے مجلس عظمیٰ کے بانی رکن سرفراز عالم بتاتے ہیں کہ 'بزم شعروسخن' کو جنوری 2015ء میں باقاعدہ شکل دی گئی، جس کے بعد سے ہر سال اس کے انتخابات ہوتے ہیں اور عام طور پر سالانہ مشاعرے کے علاوہ چار چھوٹی شعروسخن کی محفلیں بھی سجائی جاتی ہیں۔۔۔ جس کا مقصد کسی بھی گروہ بندی سے بالاتر ہو کر صرف ادب دوست لوگوں کے ذوق کی آب یاری کرنا ہوتا ہے۔۔۔
اس تقریب میں سیاسیات کے معروف استاد شاہد ہاشمی نے اردو اور کراچی کے حوالے سے اپنے دل کی باتیں کرکے گویا حاضرین کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ فلاحی ادارے کراچی کے ضرور ہیں، لیکن اس کے لیے روپیا تو بیرون شہر اور بیرون ملک سے بھی آتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِن میں کراچی سے باہر کا چندہ 10 سے 20 فی صد ہوتا ہے۔۔۔ اردو کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ کراچی جیسے شہر میں جس کی اکثریت کی مادری زبان اردو ہے، یہاں شادی کارڈ اور دکانوں کے بورڈ انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں! آخر میں شکیل خان نے مشتاق احمد یوسفی کا شہ پارہ سنا کر محفل کو زعفران زار کیا اور پھر اقبال عظیم کی طویل بحر کی غزل سنا کر اپنی یادداشت کی دھاک بٹھا دی اور خوب داد وصول کی؎
تم سے کس نے کہا، میں نے شکوہ کیا؟ خیر جس نے کہا اور جو بھی کہا، کہنے والا غلط فہم و نادان ہے
ہاں کبھی ازرہِ تذکرہ بے خیالی میں ضمناً کوئی بات کہہ دوں یونہی، وہ بھی احباب میں اس کا امکان ہے
اس اثنا میں بزم شعروسخن کے انتخابی مراحل مکمل ہوئے اور شیخ طاہر سلطان بطور صدر دوبارہ 'بزم شعر وسخن' کا اعتماد حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔۔۔ یوں 'انجمن ستائشِ دیگراں' کا عنوان بنی ہوئی ایک خوب صورت محفل برخاست ہوئی۔۔۔
۔۔۔
پرانا شہر اور پتلی گلیوں میں سفر۔۔۔
علی مکرم نیاز، (حیدرآباد دکن)
ہر شہر میں ایک پرانا شہر ضرور ہوتا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بقول ہمارے حبیب لبیب مرزا: وہ شہر ہی کیا جس میں کوئی ''پرانا شہر'' نہ ہو۔
ارے نہیں، آپ غلط سمجھے۔ پرانے شہر میں کوئی ایلین (Alien) مخلوق نہیں بستی۔ اپنے ہی بھائی بندے ہوتے ہیں، بس ذرا اس کی کمی سی ہوتی ہے، جسے نئے شہر میں ترتیب، سلیقہ، تمدن، نظم و ضبط وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے اور پرانے شہر کی معروف و مقبول بے ترتیبی کی سب سے نمایاں مثال وہ گلیاں ہوتی ہیں، جس میں کوئی نیا نویلا شخص پھنستا ہے، تو اس شاعر کو گالیاں بَکتا ہے جس نے کہا تھا: ''الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں۔۔۔'' کم بخت نامراد! شاعرانہ لفاظی کے بہ جائے ان گلیوں میں چلائے گاڑی اور پھر کرے ذرا یہ شاعری۔۔۔!
بے چارہ مرکزی سڑک کے بے ہنگم ٹریفک سے بچنے کی خوشی میں آرام و سکون سے گاڑی چلا رہا ہوتا ہے کہ کوئی گلی مڑتے ہی سامنے موجود چھوٹا سا مندر یا مسجد یا کوئی اور مذہبی ڈھانچہ دیکھ کر مغالطے میں آتا ہے کہ شاید یہ گلی بند ہے، حالاں کہ گلی کی ٹریفک اس کے باوجود دائیں بائیں سے رواں دواں ہوتی ہے۔ اب اس بے چارے کو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا شکایت کرے، کس سے کرے۔۔۔؟ ویسے شہر ہی کیا پورے ملک کے ماحول کے ناتے اب ایسی کوئی شکایت ہی بے تکی یا غیرضروری لگتی ہے کہ کیا پہلے تھا؟ سڑک یا مذہبی اسٹریکچر۔۔۔؟
بہرحال رکاوٹ کچھ بھی ہو، بلاجھجک اگلی گاڑی کا تعاقب کر لینا چاہیے، ورنہ گلیوں کی پیچیدگیوں میں گم ہونے کا یقینی امکان ہوتا ہے۔ ہمیں پھر یاد آ گئے مرزا، جو کہتے ہیں کہ 'اگر بائک سوار دھوپ میں اپنے سائے کے رخ کو بھی پہچاننے سے نامانوس ہے، تو پھر امید کے سہارے، مرکزی سڑک پر جا نکلنے کی چاہ میں، گلیاں گلیاں بھٹکتے بھٹکتے آخر اسی پوائنٹ پر جا پہنچتا ہے جہاں سے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا۔۔۔!''
اور ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں رہے کہ ان گلیوں میں کوئی رائٹ اور رانگ سائیڈ نہیں ہوتا! 'جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں، مینا اسی کا ہے' کے مصداق جو راہ خالی نظر آئے گاڑی بھگا لیتے ہیں جاں نثار۔ اب چاہے درست سمت سے کوئی مسکین ذاتِ شریف پرانی گاڑی پر خراماں خراماں آ رہا ہو، وہ سوائے خشمگیں نگاہوں سے گھورنے کے، اور کچھ کر نہیں سکتا۔ کیوں کہ بے چارہ جانتا ہے کہ جس رفتار سے لونڈا گاڑی بھگا رہا ہے، اسی رفتار سے زبان بھی چلے گی اور بھلا کون اپنے خاندان کے رشتوں کے نام سڑک پر سنتا بیٹھے۔۔۔؟
دوسری اہم بات یہ کہ جس رفتار سے آپ ان زلفوں میں۔۔۔ ہمارا مطلب ہے، ان گلیوں میں گاڑی دوڑائیں، اسی رفتار سے اچانک و بحفاظت گاڑی روکنے کی مہارت بھی آنی چاہیے۔ ورنہ ہوتا ووتا کچھ نہیں، اچانک آپ کی تیز رفتاری میں کسی پتلی گلی سے کوئی بھی برآمد ہوجائے گی، جس کے بعد آپ چاروں شانے چت ہوں گے۔۔۔
اس لیے مرزا فرماتے ہیں کہ یا تو بندے کو 'تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آج کے بعد' گنگناتے ہوئے باقاعدہ سڑکوں پر رواں دواں رہنا چاہیے یا پھر ان شیطانی آنت نما گلیوں میں خوار ہونے کا شوق ہو تو مہارت، حاضر دماغی اور بے پرواہ سلیقہ اپنے اندر ہمہ وقت ہمہ دم برپا رکھنا چاہیے۔
''بے پرواہ سلیقہ'' ہمارے مرزا کی اختراع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بائیک چلانا بے پروائی سے سہی، مگر اس بے پروائی کا بھی ایک اداکارانہ سلیقہ ہوتا ہے، یعنی ٹکراؤ یا تصادم والے مقامِ واردات پر جمع ہونے والے تماشائیوں کو لگے یہی کہ غلطی آپ کی نہیں، بلکہ سو فی صد فریقِ مقابل کی ہے! اب کوئی قطعاً یہ نہ سمجھے کہ جوانِ رعنا ہی ایسی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ خدا گواہ ہے کہ پرانے شہر کی انھی گلیوں میں ایک بار ہماری چشم گناہ گار نے یوں بھی دیکھا کہ آدھی سے زیادہ سڑک کھدی پڑی ہے، باقی آدھی کے آدھے سے گٹر کا ابلتا پانی ہے اور بچے ہوئے حصے میں دونوں سمتوں سے گاڑیاں اپنی اپنی ڈرائیونگ استعداد کا مظاہرہ فرما رہی ہیں۔ ایسے ماحولِ افراتفری میں 'دو پہیوں' پر متمکن ایک مردِ میداں، پیچھے برقع پوش اہلیہ، جن کی گود میں ایک عدد نومولود، سامنے دو چھوٹے بچے، اماں باوا کے درمیان پھنسی بڑی بچی، ہینڈل کے دونوں سروں پر لٹکتی تھیلیاں اور گاڑی سوار ہیں کہ نہایت اطمینان سے ہارن پر ہارن دیتے، پان چباتے۔۔۔ غالباً کسی سرکس میں رَسے پر توازن سنبھالتی لڑکی کے مقام و مرتبے کو بھی پانی پانی کر دینے کے قوی ارادے سے نکلے ہیں۔
ہیلمٹ کی پابندی پر عموماً پرانے شہر کے بائیک سواروں کی جانب سے کسرنفسی ویسی ہی برتی جاتی ہے، جیسی بلدیہ پرانے شہر کی سڑکوں کو درست حالت میں رکھنے میں برتتی ہے۔ اب قانون بے چارے ٹریفک پولیس کی گردن پر سوار ہوتا ہے اور وہ چاہے کتنا بھی کنارے پر چھپ کر کھڑا ہو، بائیک سوار نے شان سے بغیر سائلنسر کی گاڑی لہراتے بھگاتے ہوئے عین پولیس والے کے سامنے روکی، بائیں طرف پان کی پچکاری مہارت سے اچھالی، ہینڈل سے لٹکتا ہوا ہیلمٹ نکالا، سر پر سلیقہ سے جمایا، پھر مؤدبانہ طریقے سے پولیس والے کی توند کو دو انگلیوں سے چھوتے ہوئے کہا ''چاچا! یہ درشہوار اسپتال کو کاں سے جانا۔۔۔؟''
اور پولیس والے چچا ساری چوکسی ہیکڑی بھول کر روایتی حیدرآباد اسٹائل میں راستہ سمجھانے لگتے:
''دیکھو میاں، وہ سامنے جو پٹرول پمپ دکھ را نئیں، اس کے تھوڑا آگے پان کا ڈبہ ہے دیکھو، اس سے لگی گلی مارو، پھر دو بائیں چھوڑ کر تیسری پکڑو، ذرّا آگے بلدیہ کے کچرے کی کنڈی دکھتی دیکھو، بس اس کے اِچ سامنے کی گلی میں گُھسو، دو منٹ کے بعد ہی اسپتال دکھتا، سامنے اِچ۔۔۔!''
۔۔۔
''بازاری باتیں''
مرسلہ : سارہ یحییٰ، کراچی
فروری 1948ء میں بانی پاکستان قائداعظم سبی میں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے تشریف لائے۔ آپ نے اس علاقے میں آزادی کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں یہاں کے صحافیوں سے باتیں کیں۔ قائداعظم نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان مجھے اس قدر عزیز ہے کہ میں نے اس کے انتظامات کو اپنے اختیارات میں شامل کر رکھا ہے، تاکہ اس علاقے کو جلد از جلد ترقی دی جا سکے۔ اﷲ نے اس علاقے کو وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اب یہ یہاں کے عوام کا کام ہے کہ انھیں کام میں لائیں۔ اس پریس کانفرنس میں مولانا عبدالکریم ایڈیٹر میزان، مولانا محمد عبداﷲ ایڈیٹر پاسبان، عبدالصمد درانی ایڈیٹر استقلال ، میر محمد حسن نظامی ایڈیٹر بولان، محمد رفیق پراچہ ایڈیٹر جمہور، مسٹر حسن اختر نمائندہ اے پی پی، مسٹر فضل احمد غازی ایڈیٹر خورشید، مولانا شبیر الحسنین ایڈیٹر الاسلام اور بیرون ملک کے صحافی بھی شامل تھے۔ قائداعظم کی اس پہلی پریس کانفرنس میں 'الاسلام' کے مدیر مولانا شبیرالحسنین نے قائداعظم سے سوال کیا۔
'قائداعظم! حکومتِ ہندوستان نے 1948ء سے مسلم لیگ کو ہندوستان میں خلاف قانون جماعت قرار دے دیا ہے۔'
قائداعظم نے پوچھا تم نے یہ بات کہاں سنی؟
شبیرالحسنین نے کہا 'یہ بات میں نے ابھی ابھی بازار میں سنی ہے۔'
قائداعظم بولے کہ 'کوئی اور بات کرو۔ میرے سامنے بازاری باتیں مت کیا کرو!'
('صحافت وادی بولان میں' از کمال الدین احمد سے اقتباس)
۔۔۔
جس کے پاس الفاظ نہ ہوں۔۔۔
اقراء کنول
رونا مسئلے کا حال نہیں۔۔۔ لیکن جس کے پاس الفاظ ہی نہ ہوں۔۔۔ جس کو منانا بھی نہ آتا ہوں۔۔۔ جو سب کا دل رکھے۔۔۔ لیکن اس کا ہی دل توڑ دیا جائے، وہ شکوہ بھی نہ کر سکے، اس کو منانے والا بھی کوئی نہ ہو، نہ سمجھانے والا نہ سمجھنے والا، سب کے سامنے مسکراتا چہرہ ہو، تنہائی میں رب سے باتیں کرتا۔۔۔ کیسا ہوگا وہ شخص۔۔۔ روتا ہوگا وہ شخص۔۔۔ سب باتیں رات کے اندھیرے میں۔۔۔ رب سے کہتا ہوگا۔۔۔ اے رب ! بہت رلاتے ہیں مجھے۔۔۔ شکوہ نہیں کر رہا۔۔۔ 'حال دل' سنا رہا کوئی نہیں آپ کے سوا۔۔۔ جو سمجھ سکے۔۔۔ سن سکے!
ایک ''انجمن ستائشِ دیگراں'' کا احوال
اگرچہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ کسی کی حوصلہ افزائی یا ستائش سے اُسے مسرت اور مزید آگے بڑھنے کے لیے توانائی ملتی ہے، تاہم بہت سے احباب ستائش سے بے پروا، مخالفتوں اور ناموافق حالات میں بھی وہی کہتے، لکھتے اور کرتے رہتے ہیں، جسے وہ دل وجان سے درست جانتے اور مانتے ہیں۔۔۔ لیکن ایسے معدودے چند 'خسارے کے سوداگروں' سے ہٹ کر سماج کی بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی ہے، جو ستائش سے حوصلہ پاتی ہے اور بہت سے تو اس دَشت میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پھر ان کے کام کا سارا خلوص اور لگن کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور سارا محور فقط یہ داد وتحسین ہی رہ جاتی ہے۔۔۔
اور آج کے 'تعلقات عامّہ' یا (پی آر) کے زمانے میں ہمیں بہ یک وقت کئی قسم کی 'انجمنِ ستائشِ باہمی' ایک دوسرے سے سر ٹکراتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔۔۔ نتیجتاً حق اور سچ تو درکنار، ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بات کرنے اور داد دینے والے بھی سمٹتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ اب بات فقط یہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی شعر اور بات کہنے والا 'اپنا' ہے، تو اس سے بالکل ماورا ہو جائیے کہ وہ کیا اور کیسا خیال کہہ رہا ہے، بس دھڑا دھڑ واہ واہ کے ڈونگرے برساتے چلے جائیے۔۔۔ کیوں کہ آپ کی باری پر وہ بھی اپنا یہ ''فرض'' اتنی دل جمعی سے نبھاتا رہا ہے۔۔۔
اسی 'نشہ آور' ستائش سے کیف اٹھانے کے لیے ہمارے ہاں بہت سی اعلانیہ اور غیراعلانیہ انجمنیں بھی قائم ہیں، جنھیں دفتری زبان میں 'لابی' بھی کہا جاتا ہے، یہ سیاسی، لسانی، نظریاتی کے علاوہ مفاداتی بنیادوں پر بھی قائم ہوتی ہیں۔۔۔ اگرچہ ان 'لابیوں' سے کوئی بھی شعبہ خالی نہیں، لیکن سرِ دست ہمارا موضوع لکھنے پڑھنے والوں کے ایسے 'جَتھوں' سے ہے، جو بہ ظاہر تو اس میدان سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ 'ذہنی بونے' ہوتے ہیں اور بہ جائے دل وجان سے لکھنے اور کہنے کے، فقط نام وَری کے پیچھے دوڑتے ہیں۔۔۔
انھیں تو گویا سانس ہی اخبارات اور چینلوں پر اپنی تصویریں، خبریں اور ویڈیو دیکھ کر آتا ہے۔۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ آج کے زمانے میں اگر آپ کسی 'لابی' کا حصہ نہیں بنیں گے، تو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کی موافق کچلے جائیں گے۔۔۔! لیکن اس کے باوجود 'شہرِ قائد' میں ایک ایسی عجیب وغریب ''لابی'' وجود میں آگئی ہے، جو کسی بھی 'انجمن ستائش باہمی' کا الٹ معلوم ہوتی ہے۔۔۔ چلیے ہم آپ کو بھی ذرا ان کی طرف لیے چلتے ہیں۔۔۔
یہ شام ڈھلے شہر کی ایک مصروف شاہ راہ کے کنارے ایک کتب خانے کے سبزہ زار پر ایک تقریب کا اہتمام ہے، جو دراصل ایک 'بزم' کے عہدے داروں کے چناؤ کے لیے ہے۔۔۔ برقی قمقموں کے سائے میں مخصوص فاصلے سے رکھی ہوئی نشستیں دھیرے دھیرے پُر ہوتی گئیں۔۔۔ ان میں زیادہ تر 'بزم شعرو سخن' کے ارکان ہیں اور باقی کچھ ہم جیسے مبصرین بھی اعزازی طور پر مدعو ہیں۔۔۔ تاج دار عادل، حنیف عابد، شاہد ہاشمی اور شکیل خان وغیرہ جیسے نام بھی ایسے مہمانوں میں شامل ہیں، لیکن ہم تو نہ شاعر و ادیب اور نہ ہی کسی اور بااثر انجمن یا 'لابی' سے کوئی علاقہ رکھتے ہیں، لیکن یہ ''بزم شعر وسخن'' کی بیٹھک تھی، جس کے سرپرست بھی خود نہ شاعر ہیں اور نہ ادیب۔۔۔ البتہ ادب دوست اور سخن فہم ضرور ہیں، تو یوں سمجھیے، ہمیں بھی انھوں نے اسی زمرے کے کسی خانے میں جَڑ دیا اور اپنا رکن نہ ہونے کے باوجود یہاں ہماری گنجائش نکال لی۔۔۔
یہاں صرف 'بزم شعروسخن' کے سرپرستوں کا شاعر وادیب نہ ہونا ہی انفرادیت نہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ عجب معاملہ ان کے چناؤ کا ہے۔۔۔ تقریب شروع ہوئی، یعنی انتخابی مرحلے کا بھی آغاز ہوا۔۔۔ جس کے لیے نہ کسی قسم کی کوئی انتخابی مہم تھی، نہ ہی رائے دہندگان کو 'قائل' کرنے کے لیے کوئی دوڑ دھوپ۔۔۔ انتہا تو یہ ہے کہ کوئی باقاعدہ امیدوار اور چھَپی ہوئی 'انتخابی پرچیاؓں' تک نہ تھیں۔۔۔ بس اسٹیج سے یہ اعلان ہوا کہ ارکان اپنی پرچی پر باری باری صدر، جنرل سیکریٹری اور پھر اگلے مرحلے میں مجلس منتظمہ کے لیے اپنے تجویز کردہ افراد کا نام لکھ دیں۔۔۔ اور اس میں بزم شعرو سخن کے 'مجلس عظمیٰ' کے ارکان طارق جمیل، سرفراز عالم، ڈاکٹر سہیل اختر اور ڈاکٹر بشیر لاکھانی کے نام نہیں لکھے جا سکتے۔۔۔ کیوں کہ دستور کی رو سے 'سرپرست' کسی بھی عہدے کے لیے امیدوار نہیں بن سکتے، بقول شخصے ایسی انجمن کی سرپرستی کا کیا فائدہ، جس میں خود کو 'دولھا' نہ بنائیں۔۔۔!
اس چناؤ کے دوران مختلف شخصیات اظہارخیال کرتی رہیں۔۔۔ معروف شاعر تاج دار عادل اور حنیف عابد نے اس جذبے کو سراہا کہ اس بزم کو بنانے والے خود ہی کسی عہدے اور کسی بھی خودستائشی سے دور رہتے ہیں۔۔۔ بزم شعرو سخن کے مجلس عظمیٰ کے بانی رکن سرفراز عالم بتاتے ہیں کہ 'بزم شعروسخن' کو جنوری 2015ء میں باقاعدہ شکل دی گئی، جس کے بعد سے ہر سال اس کے انتخابات ہوتے ہیں اور عام طور پر سالانہ مشاعرے کے علاوہ چار چھوٹی شعروسخن کی محفلیں بھی سجائی جاتی ہیں۔۔۔ جس کا مقصد کسی بھی گروہ بندی سے بالاتر ہو کر صرف ادب دوست لوگوں کے ذوق کی آب یاری کرنا ہوتا ہے۔۔۔
اس تقریب میں سیاسیات کے معروف استاد شاہد ہاشمی نے اردو اور کراچی کے حوالے سے اپنے دل کی باتیں کرکے گویا حاضرین کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ فلاحی ادارے کراچی کے ضرور ہیں، لیکن اس کے لیے روپیا تو بیرون شہر اور بیرون ملک سے بھی آتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِن میں کراچی سے باہر کا چندہ 10 سے 20 فی صد ہوتا ہے۔۔۔ اردو کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ کراچی جیسے شہر میں جس کی اکثریت کی مادری زبان اردو ہے، یہاں شادی کارڈ اور دکانوں کے بورڈ انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں! آخر میں شکیل خان نے مشتاق احمد یوسفی کا شہ پارہ سنا کر محفل کو زعفران زار کیا اور پھر اقبال عظیم کی طویل بحر کی غزل سنا کر اپنی یادداشت کی دھاک بٹھا دی اور خوب داد وصول کی؎
تم سے کس نے کہا، میں نے شکوہ کیا؟ خیر جس نے کہا اور جو بھی کہا، کہنے والا غلط فہم و نادان ہے
ہاں کبھی ازرہِ تذکرہ بے خیالی میں ضمناً کوئی بات کہہ دوں یونہی، وہ بھی احباب میں اس کا امکان ہے
اس اثنا میں بزم شعروسخن کے انتخابی مراحل مکمل ہوئے اور شیخ طاہر سلطان بطور صدر دوبارہ 'بزم شعر وسخن' کا اعتماد حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔۔۔ یوں 'انجمن ستائشِ دیگراں' کا عنوان بنی ہوئی ایک خوب صورت محفل برخاست ہوئی۔۔۔
۔۔۔
پرانا شہر اور پتلی گلیوں میں سفر۔۔۔
علی مکرم نیاز، (حیدرآباد دکن)
ہر شہر میں ایک پرانا شہر ضرور ہوتا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بقول ہمارے حبیب لبیب مرزا: وہ شہر ہی کیا جس میں کوئی ''پرانا شہر'' نہ ہو۔
ارے نہیں، آپ غلط سمجھے۔ پرانے شہر میں کوئی ایلین (Alien) مخلوق نہیں بستی۔ اپنے ہی بھائی بندے ہوتے ہیں، بس ذرا اس کی کمی سی ہوتی ہے، جسے نئے شہر میں ترتیب، سلیقہ، تمدن، نظم و ضبط وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے اور پرانے شہر کی معروف و مقبول بے ترتیبی کی سب سے نمایاں مثال وہ گلیاں ہوتی ہیں، جس میں کوئی نیا نویلا شخص پھنستا ہے، تو اس شاعر کو گالیاں بَکتا ہے جس نے کہا تھا: ''الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں۔۔۔'' کم بخت نامراد! شاعرانہ لفاظی کے بہ جائے ان گلیوں میں چلائے گاڑی اور پھر کرے ذرا یہ شاعری۔۔۔!
بے چارہ مرکزی سڑک کے بے ہنگم ٹریفک سے بچنے کی خوشی میں آرام و سکون سے گاڑی چلا رہا ہوتا ہے کہ کوئی گلی مڑتے ہی سامنے موجود چھوٹا سا مندر یا مسجد یا کوئی اور مذہبی ڈھانچہ دیکھ کر مغالطے میں آتا ہے کہ شاید یہ گلی بند ہے، حالاں کہ گلی کی ٹریفک اس کے باوجود دائیں بائیں سے رواں دواں ہوتی ہے۔ اب اس بے چارے کو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا شکایت کرے، کس سے کرے۔۔۔؟ ویسے شہر ہی کیا پورے ملک کے ماحول کے ناتے اب ایسی کوئی شکایت ہی بے تکی یا غیرضروری لگتی ہے کہ کیا پہلے تھا؟ سڑک یا مذہبی اسٹریکچر۔۔۔؟
بہرحال رکاوٹ کچھ بھی ہو، بلاجھجک اگلی گاڑی کا تعاقب کر لینا چاہیے، ورنہ گلیوں کی پیچیدگیوں میں گم ہونے کا یقینی امکان ہوتا ہے۔ ہمیں پھر یاد آ گئے مرزا، جو کہتے ہیں کہ 'اگر بائک سوار دھوپ میں اپنے سائے کے رخ کو بھی پہچاننے سے نامانوس ہے، تو پھر امید کے سہارے، مرکزی سڑک پر جا نکلنے کی چاہ میں، گلیاں گلیاں بھٹکتے بھٹکتے آخر اسی پوائنٹ پر جا پہنچتا ہے جہاں سے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا۔۔۔!''
اور ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں رہے کہ ان گلیوں میں کوئی رائٹ اور رانگ سائیڈ نہیں ہوتا! 'جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں، مینا اسی کا ہے' کے مصداق جو راہ خالی نظر آئے گاڑی بھگا لیتے ہیں جاں نثار۔ اب چاہے درست سمت سے کوئی مسکین ذاتِ شریف پرانی گاڑی پر خراماں خراماں آ رہا ہو، وہ سوائے خشمگیں نگاہوں سے گھورنے کے، اور کچھ کر نہیں سکتا۔ کیوں کہ بے چارہ جانتا ہے کہ جس رفتار سے لونڈا گاڑی بھگا رہا ہے، اسی رفتار سے زبان بھی چلے گی اور بھلا کون اپنے خاندان کے رشتوں کے نام سڑک پر سنتا بیٹھے۔۔۔؟
دوسری اہم بات یہ کہ جس رفتار سے آپ ان زلفوں میں۔۔۔ ہمارا مطلب ہے، ان گلیوں میں گاڑی دوڑائیں، اسی رفتار سے اچانک و بحفاظت گاڑی روکنے کی مہارت بھی آنی چاہیے۔ ورنہ ہوتا ووتا کچھ نہیں، اچانک آپ کی تیز رفتاری میں کسی پتلی گلی سے کوئی بھی برآمد ہوجائے گی، جس کے بعد آپ چاروں شانے چت ہوں گے۔۔۔
اس لیے مرزا فرماتے ہیں کہ یا تو بندے کو 'تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آج کے بعد' گنگناتے ہوئے باقاعدہ سڑکوں پر رواں دواں رہنا چاہیے یا پھر ان شیطانی آنت نما گلیوں میں خوار ہونے کا شوق ہو تو مہارت، حاضر دماغی اور بے پرواہ سلیقہ اپنے اندر ہمہ وقت ہمہ دم برپا رکھنا چاہیے۔
''بے پرواہ سلیقہ'' ہمارے مرزا کی اختراع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بائیک چلانا بے پروائی سے سہی، مگر اس بے پروائی کا بھی ایک اداکارانہ سلیقہ ہوتا ہے، یعنی ٹکراؤ یا تصادم والے مقامِ واردات پر جمع ہونے والے تماشائیوں کو لگے یہی کہ غلطی آپ کی نہیں، بلکہ سو فی صد فریقِ مقابل کی ہے! اب کوئی قطعاً یہ نہ سمجھے کہ جوانِ رعنا ہی ایسی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ خدا گواہ ہے کہ پرانے شہر کی انھی گلیوں میں ایک بار ہماری چشم گناہ گار نے یوں بھی دیکھا کہ آدھی سے زیادہ سڑک کھدی پڑی ہے، باقی آدھی کے آدھے سے گٹر کا ابلتا پانی ہے اور بچے ہوئے حصے میں دونوں سمتوں سے گاڑیاں اپنی اپنی ڈرائیونگ استعداد کا مظاہرہ فرما رہی ہیں۔ ایسے ماحولِ افراتفری میں 'دو پہیوں' پر متمکن ایک مردِ میداں، پیچھے برقع پوش اہلیہ، جن کی گود میں ایک عدد نومولود، سامنے دو چھوٹے بچے، اماں باوا کے درمیان پھنسی بڑی بچی، ہینڈل کے دونوں سروں پر لٹکتی تھیلیاں اور گاڑی سوار ہیں کہ نہایت اطمینان سے ہارن پر ہارن دیتے، پان چباتے۔۔۔ غالباً کسی سرکس میں رَسے پر توازن سنبھالتی لڑکی کے مقام و مرتبے کو بھی پانی پانی کر دینے کے قوی ارادے سے نکلے ہیں۔
ہیلمٹ کی پابندی پر عموماً پرانے شہر کے بائیک سواروں کی جانب سے کسرنفسی ویسی ہی برتی جاتی ہے، جیسی بلدیہ پرانے شہر کی سڑکوں کو درست حالت میں رکھنے میں برتتی ہے۔ اب قانون بے چارے ٹریفک پولیس کی گردن پر سوار ہوتا ہے اور وہ چاہے کتنا بھی کنارے پر چھپ کر کھڑا ہو، بائیک سوار نے شان سے بغیر سائلنسر کی گاڑی لہراتے بھگاتے ہوئے عین پولیس والے کے سامنے روکی، بائیں طرف پان کی پچکاری مہارت سے اچھالی، ہینڈل سے لٹکتا ہوا ہیلمٹ نکالا، سر پر سلیقہ سے جمایا، پھر مؤدبانہ طریقے سے پولیس والے کی توند کو دو انگلیوں سے چھوتے ہوئے کہا ''چاچا! یہ درشہوار اسپتال کو کاں سے جانا۔۔۔؟''
اور پولیس والے چچا ساری چوکسی ہیکڑی بھول کر روایتی حیدرآباد اسٹائل میں راستہ سمجھانے لگتے:
''دیکھو میاں، وہ سامنے جو پٹرول پمپ دکھ را نئیں، اس کے تھوڑا آگے پان کا ڈبہ ہے دیکھو، اس سے لگی گلی مارو، پھر دو بائیں چھوڑ کر تیسری پکڑو، ذرّا آگے بلدیہ کے کچرے کی کنڈی دکھتی دیکھو، بس اس کے اِچ سامنے کی گلی میں گُھسو، دو منٹ کے بعد ہی اسپتال دکھتا، سامنے اِچ۔۔۔!''
۔۔۔
''بازاری باتیں''
مرسلہ : سارہ یحییٰ، کراچی
فروری 1948ء میں بانی پاکستان قائداعظم سبی میں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے تشریف لائے۔ آپ نے اس علاقے میں آزادی کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں یہاں کے صحافیوں سے باتیں کیں۔ قائداعظم نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان مجھے اس قدر عزیز ہے کہ میں نے اس کے انتظامات کو اپنے اختیارات میں شامل کر رکھا ہے، تاکہ اس علاقے کو جلد از جلد ترقی دی جا سکے۔ اﷲ نے اس علاقے کو وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اب یہ یہاں کے عوام کا کام ہے کہ انھیں کام میں لائیں۔ اس پریس کانفرنس میں مولانا عبدالکریم ایڈیٹر میزان، مولانا محمد عبداﷲ ایڈیٹر پاسبان، عبدالصمد درانی ایڈیٹر استقلال ، میر محمد حسن نظامی ایڈیٹر بولان، محمد رفیق پراچہ ایڈیٹر جمہور، مسٹر حسن اختر نمائندہ اے پی پی، مسٹر فضل احمد غازی ایڈیٹر خورشید، مولانا شبیر الحسنین ایڈیٹر الاسلام اور بیرون ملک کے صحافی بھی شامل تھے۔ قائداعظم کی اس پہلی پریس کانفرنس میں 'الاسلام' کے مدیر مولانا شبیرالحسنین نے قائداعظم سے سوال کیا۔
'قائداعظم! حکومتِ ہندوستان نے 1948ء سے مسلم لیگ کو ہندوستان میں خلاف قانون جماعت قرار دے دیا ہے۔'
قائداعظم نے پوچھا تم نے یہ بات کہاں سنی؟
شبیرالحسنین نے کہا 'یہ بات میں نے ابھی ابھی بازار میں سنی ہے۔'
قائداعظم بولے کہ 'کوئی اور بات کرو۔ میرے سامنے بازاری باتیں مت کیا کرو!'
('صحافت وادی بولان میں' از کمال الدین احمد سے اقتباس)
۔۔۔
جس کے پاس الفاظ نہ ہوں۔۔۔
اقراء کنول
رونا مسئلے کا حال نہیں۔۔۔ لیکن جس کے پاس الفاظ ہی نہ ہوں۔۔۔ جس کو منانا بھی نہ آتا ہوں۔۔۔ جو سب کا دل رکھے۔۔۔ لیکن اس کا ہی دل توڑ دیا جائے، وہ شکوہ بھی نہ کر سکے، اس کو منانے والا بھی کوئی نہ ہو، نہ سمجھانے والا نہ سمجھنے والا، سب کے سامنے مسکراتا چہرہ ہو، تنہائی میں رب سے باتیں کرتا۔۔۔ کیسا ہوگا وہ شخص۔۔۔ روتا ہوگا وہ شخص۔۔۔ سب باتیں رات کے اندھیرے میں۔۔۔ رب سے کہتا ہوگا۔۔۔ اے رب ! بہت رلاتے ہیں مجھے۔۔۔ شکوہ نہیں کر رہا۔۔۔ 'حال دل' سنا رہا کوئی نہیں آپ کے سوا۔۔۔ جو سمجھ سکے۔۔۔ سن سکے!