امن ہو تو نہیں چاہوں گا کہ جامعہ میں کوئی وردی والا نظرآئے وائس چانسلر جامعہ کراچی ڈاکٹر اجمل خان

منہ پر سچ بولتا ہوں، جس کا ہمیشہ مجھے نقصان ہوتا ہے، ڈاکٹر محمد اجمل خان

منہ پر سچ بولتا ہوں، جس کا ہمیشہ مجھے نقصان ہوتا ہے، ڈاکٹر اجمل خان (فوٹو: ایکسپریس)

علم مسلسل پھیلتا ہوا ایک ایسا سمندر ہے کہ آج کوئی بڑا اہل علم بھی سب کچھ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتا، لیکن بہت سے عالم، علم کا ایک ایسا گہرا ساگر معلوم ہوتے ہیں کہ جس کا کوئی انت ہی دکھائی نہ دے ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر محمد اجمل خان ہیں، جنہیں 'نباتیات' کے میدان میں مَلکہ حاصل ہے، 24 جنوری 2017ءکو انہیں جامعہ کراچی کا سترہواں شیخ الجامعہ مقرر کیا گیا۔

وہ 1953ء کو شاہ فیصل کالونی کراچی میں پیدا ہوئے، اُن سے ایک بڑے بھائی اور تھے۔ والد ہندوستان کی سول سروس میں تھے، رہائش بنارس کے قریبی گاﺅں میں تھی، اُن کی والدہ بتاتی ہیں کہ اُن کے والد سے انگریز افسر نے ماہانہ رشوت مانگی، انہوں نے کہا میری تو اتنی تنخواہ بھی نہیں، کہا گیا کہ کسی بھی طرح کر یں، والد ڈویژن فوریسٹ آفیسر تھے، بالواسطہ اشارہ تھا کہ جنگل کٹوا دیں۔ ان کے انکار پر تنزلی کر دی، جس پر وہ مستعفی ہو گئے، ڈاکٹر اجمل کہتے ہیںکہ یہ 1947ءسے کچھ پہلے کا زمانہ ہے، جب انگریز نے یہ طے کیا کہ یہاں لوٹ مار کا نظام شروع کرنا ہے، تو اس نے رشوت مانگنا شروع کی، میں اس کا پہلا گواہ ہوں، انگریز نے پاک وہند میں بدعنوانی کی بنیاد رکھی۔

1947ءکے بعد والد یہاں آئے اور بہ مشکل واپڈا (سکھر) میں کلرک ہوگئے۔ وہیں انہیں برین ہیمبرج ہوا، اور کراچی آتے آتے انتقال ہو گیا۔ ڈاکٹراجمل چھے برس کے تھے، بڑے بھائی انٹر میں تھے، جنہوں نے ایک کیمیکل کمپنی میں نوکری کر کے گھر چلایا، پوری زندگی وہیں رہے۔

ڈاکٹر اجمل 'شاہ فیصل کالونی' کے سرکاری اسکول میں پڑھے، پھر مشہور جامعہ ملیہ کالج میں داخلہ ہوا، جو زیادہ دور نہ تھا، پیدل یا سائیکل پر چلے جاتے، انٹر کے بعد جامعہ کراچی میں شعبہ ¿ نباتیات، (Boatny) میں داخلہ لیا۔ ابتداً زیادہ توجہ نہ دی، کام یاب طلبہ میں وہ آخری پانچ میں ہوتے۔ آنرز کے آخری برس سترہ، اٹھارہ گھنٹے پڑھائی کی اور باقی کلاس سے آٹھ فی صد زیادہ نمبر لیے، مگر دو سال کے کم نمبروں کے سبب تیسری پوزیشن بنی۔ پھر یونی ورسٹی میں اول آئے۔

اس کے بعد جامعہ میں ہی 'پاکستان سائنس فاﺅنڈیشن' کے ایک منصوبے سے بطور تحقیقی افسر منسلک ہوئے۔ 1977ءمیں تدریس کی پیش کش قبول کرلی۔ پھر لیکچرر کی اسامی پر مستقل ہو گئے۔ کافی جدوجہد کے بعد امریکا کی اوہائیو یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے اسسٹنٹ شپ مل گئی، یعنی وہیں پڑھاتے اور پڑھتے، کیوں کہ معاشی حالات اچھے نہ تھے۔ 1984ءمیں پی ایچ ڈی مکمل کر کے پوسٹ جاب کی اور پھر 1985ءمیں جامعہ کراچی لوٹ آئے۔

بیتے دن بازیافت کرتے ہوئے ڈاکٹر اجمل بتاتے ہیں کہ وہ دور جامعہ کراچی کے اوج کا آخری زمانہ تھا، اس دور میں اشتیاق قریشی کی وجہ سے بہت سے لوگ پی ایچ ڈی کرنے باہر گئے۔ تب جامعہ کراچی 'ٹیک آف' پوزیشن پر تھی۔ میں سیاست دان نہیں، اس لیے کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا، لیکن وہ ایسا دور تھا کہ صورت حال ٹھیک رہتی، تو جامعہ کراچی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتی، مگر پھر مقتدر حلقوں میں کچھ فیصلے کیے گئے، جس کے نتیجے میں جامعہ کراچی بتدریج ڈوبتی چلی گئی۔

آپ طالبان کا نام تو اب لے رہے ہیں، اس زمانے میں جامعہ کراچی کا کنٹرول ایک جماعت کو دے دیا گیا۔ جب کہ جامعات فیکلٹی چلاتی ہیں، طلبہ تنظیمیں نہیں۔ یہ 1975ء کے بعد کی بات ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہر میں تھے اور جامعہ کراچی ان کی مخالف جماعت کنٹرول کرتی، جس نے بھرتیوں سے لے کر ترقیوں تک میں من مانی کی۔ یہاں سے جامعہ کراچی کی تباہی شروع ہوئی۔ یوں تباہ حالی بڑھتی چلی گئی۔ کراچی یونیورسٹی کی 25، 30 سال کی تاریخ میں ہر چیز پر سمجھوتا کیا گیا، اور تباہی وبربادی پھیلی۔

ڈاکٹر اجمل کہتے ہیں کہ جامعات میں گٹھن کے ماحول میں کوئی کام نہیں کیا جا سکتا، یہاں اپنے نظریات مسلط کرنے کے لیے ڈنڈوں سے مارا جاتا، شہر نے تو بہت بعد میں تشدد دیکھا، جامعہ کراچی اور جامعہ پنجاب نے یہ 1974-75ءمیں ہی دیکھ لیا۔ پھر حالات خراب ہوتے چلے گئے، اب 'رد الفساد' شروع ہونے سے کچھ کمی آئی ہے۔ ہم نے پوچھا "جامعہ کراچی بھٹو مخالف جماعت کو دینے کا فیصلہ کس نے کیا؟" تو انہوں نے کہا کہ جو تاریخ تھی، وہ بتا دی، اس پر مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔

ڈاکٹر محمد اجمل کہتے ہیں کہ '1985ءمیں امریکا میں رہ سکتا تھا، لیکن میں واپس آیا، یہاں جامعہ کراچی میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا قبضہ تھا، دھونس دھمکی کا بازار گرم تھا، طلبہ کو مارا جاتا، اساتذہ سے بدتمیزی کی جاتی، سارے استاد سہمے رہتے۔' انہوں نے اس ماحول کو دیکھا، تو وہ چار، پانچ اساتذہ نے 'بغاوت' کر دی کہ جامعات میں جبراً کچھ مسلط نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر اجمل کے خیال میں انہوں نے آواز اٹھا کر وہ خوف کا ماحول توڑا، اور اساتذہ گھٹن سے باہر نکلے۔ پھر شہر میں ایک اور تبدیلی آئی، جو پہلے سے زیادہ شدت کی تھی، یہاں تشدد کی سطح اور بلند تھی، جس سے ڈاکٹر اجمل دل برداشتہ ہو کر جدوجہد سے کنارہ کش ہو گئے اور 1987-88ءمیں مکمل طور پر اپنی تحقیق کی طرف مرکوز ہو گئے۔

جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ کے لیے ڈاکٹر محمد اجمل کی ریٹائرمنٹ سے دس سال پہلے سے اُن کا نام لیا جاتا رہا۔ اُن کی اصول پسندی کے سبب لوگ کہتے اگر یہ آگئے تو بہت "تباہی" ہوگی۔ کہتے ہیں 'منہ پر سچ بولتا ہوں، جس کا ہمیشہ مجھے نقصان ہوتا ہے، مگر عادت سے مجبور ہوں۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ ایسے عناصر مجھے رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر اجمل کبھی جامعہ کراچی کے انتظامی عہدوں میں دل چسپی نہیں رہی، انہیں اپنے محقق اور استاد ہونے پر فخر ہے۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے واقعے کو مذکور کرتے ہوئے ڈاکٹر اجمل کہتے ہیںکہ ریٹائر ہوا، تو کہا کہ ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ کا عہدہ واپس کر دیجیے۔ انہوں نے کہا جس نے ایک نیا انسٹی ٹیوٹ بنایا آپ اسے تو گھر بھیج رہے ہیں، اور جنہوں نے کوئی ادارہ بھی نہیں بنایا، وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن دنوں سعودی عرب کی کنگ سعود یونیورسٹی، متحدہ عرب امارات کی وزارت ماحولیات اور دوحہ کی قطر یونیورسٹی سے انہیں پیش کش ہوئی، جس میں سے انہوں نے دوحہ (قطر) کو چُن لیا، وہاں چار سال رہے۔ کہتے ہیں کہ وہ ایک ماہ میں اتنے پیسے دیتے تھے کہ یہاں سال بھر میں بھی نہیں ملتے، لیکن انہوں نے وہاں مزید توسیع لینے سے انکار کیا، جس کا سبب اُن کی خُود داری رہی، کہ وہ باہر دوسرے درجے کا شہری بننا گوارا نہیں کر سکتے۔ ورنہ قطر والی اسامی کوئی بھی ہوش وحواس والا مسترد نہیں کر سکتا۔ کہتے ہیں کہ یہاں کچھ مہربانوں نے اُن کے نام سے درخواست جمع کرا دی، جسے انہوں نے قبول کر لیا۔

ڈاکٹر اجمل جامعہ کراچی کو ایک بہت بڑا چیلینج قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پورا ملک ہی انحطاط کا شکار ہے۔ انگریز اپنا نظام کالے انگریزوں کے حوالے کر گئے۔ غلامی کا ڈھانچا وہیں ہے، صرف منتظم بدلے۔ انگریزوں کی تو کوئی سطح تھی، ہمارے والے تو تھے ہی غلام۔ انگریز نے اپنی 'نوآبادیات' کو دوام بخشا۔ اگر انقلاب آتا، تو سب چیزیں ختم ہو کر نئی بنتیں، مگر ایسا نہ ہوا۔ پھر ہمارا محل وقوع ایسا ہے کہ ہم عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بن گئے۔ مختلف وجوہ کی بنا پر ہمارے لوگ ان کی جنگ کا ایندھن بنتے رہے اور ہم نے پورا ملک تباہ وبرباد کر دیا۔ جامعہ کراچی بھی اسی برباد سماج کا حصہ ہے۔


نجی جامعات کے سوال پر کہتے ہیں کہ وہ اپنا محدود کردار ادا کر رہی ہیں۔ جامعہ کراچی کے پاس 56 شعبے اور بہت سے ادارے ہیں۔ ہماری اہمیت ان سب سے مل کر بھی کم نہیں ہوتی۔ جب تک کراچی یونیورسٹی آگے نہیں بڑے گی، ملک میں ترقی نہیں آئے گی۔ نجی جامعات کے پاس معیار تو ہے، مگر فیس بہت زیادہ ہیں۔ ہم متوسط اور نچلے طبقے کا آخری سہارا ہیں، حکومت کو ہمارا ہاتھ پکڑنا پڑے گا۔

جامعہ کراچی میں بندوق والوں کی موجودگی کا تذکرہ چھڑا، کہ پہلے یوں بندوق والوں کو جامعہ کے اندر آنا کتنا معیوب سمجھا جاتا تھا، تو ڈاکٹر اجمل نے کہا کہ جب یہاں کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا نہ تھا۔ عالم یہ تھا کہ جامعہ کی دیواریں نہ ہونے کے باوجود ہم اپنے کمروں کے بھی فقط دروازہ بھیڑ کے چلے جاتے، مگر آج اتنے حفاظتی اقدام کے باوجود ڈاکے بھی پڑ جاتے ہیں، دہشت گردی اور جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ اگر پہلے جیسا امن ہو جائے، تو میں بالکل نہیں چاہوں گا کہ کوئی وردی والا یہاں نظر بھی آئے۔

ہم نے ماحول کی بابت گفتگو چاہی، تو وہ گویا ہوئے کہ سب چھوڑیں، جو شہر اپنی گندگی نہیں سنبھال سکتا، تو وہاں ماحول کی بات تو چھوڑ دیجیے، ہمارا سمندر 20 میل تک آلودہ ہے۔ پہلے یہ تو صاف کرلیں، پھر ماحول کی بات کیجیے۔' ڈاکٹر اجمل کی دو شادیاں ہوئیں، تین بیٹیاں ہیں۔ بڑی صاحب زادی امریکا میں ہیں، دوسری یہاں ڈاکٹر ہیں اور ایک اے لیول میں زیر تعلیم ہیں۔ اہلیہ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ہیں، کہتے ہیں کہ زندگی میں اتنی محنت کی کہ اب گھر میں صرف آرام کرنا پسند کرتا ہوں۔ ایک زمانے میں غیر ملکی لٹریچر پڑھنے کا بہت شوق رہا، متھالوجی (Mythology) بھی بہت پڑھی۔ اب بھی قطر سے واپسی پر دوبارہ مطالعے کا ارادہ تھا، لیکن اب نئی ذمے داریوں کے سبب فرصت ہی نہیں۔ کہتے ہیں جب ہم نوجوان ہوتے ہیں، تو شاعری پسند ہوتی ہے، انہیں بھی تھی، لیکن جب نثر اور فلسفے کی طرف آئے، تو شاعری روکھی روکھی لگنے لگی۔

چاقو نکالنے پر جامعہ کراچی بند ہوگئی

ڈاکٹر اجمل خان کہتے ہیں کہ "امریکا جانے سے پہلے جامعہ کراچی میں تشدد آچکا تھا، کلاشن کوف کا تو پتا نہیں، پستول آگئی تھی۔ ہم تو صرف مکالمے سے لڑتے، کبھی بات بہت بڑھ جاتی، تو درخت کی شاخ کو ہتھیار بنالیتے۔ جامعہ میں جب اُن کا آخری برس تھا، کسی نے چاقو نکال لیا، تو جامعہ ایک دن کے لیے بند ہوگئی تھی، لوگ کہتے دیکھو ذرا جامعہ کراچی کا طالب علم ہو کر چاقو نکالتا ہے! ڈاکٹر اجمل طلبہ سیاست میں زیادہ سرگرم نہیں رہے، کہتے ہیںکہ "این ایس ایف" کے ساتھ بطور کارکن رہا، جو کبھی یونین کا چناﺅ جیتتی ہی نہ تھی، انتخابات کے موقع پر جلوسوں میں مہم کم اور تفریح زیادہ ہوتی تھی۔' ہم نے "این ایس ایف" کی شکست پر استفسار کیا، تو انہوں نے کہا کہ کچھ عالمی وجوہات تھیں، اُس دور میں دنیا کے طول وعرض میں قدامت پرستی بڑھ رہی تھی اور ترقی پسند پس پا ہو رہے تھے، ہم ان سے الگ تو نہیں رہ سکتے تھے، باقی کچھ اِن کے اپنی غلطیاں بھی ہوں گی۔ پیپلزپارٹی بننے سے 'این ایس ایف' کی کم زوری کا تذکرہ ہوا، تو کہنے لگے کہ 'این ایس ایف' کا پی پی سے کوئی تعلق نہیں، تب ہی انہوں نے 'پی ایس ایف' بنائی۔ 'پی ایس ایف' میں این ایس ایف کے لوگ جانے کا تذکرہ ہوا تو بولے کہ این ایس ایف تو 1972ءمیں ہی ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔ ہم نے اُن کے روس نواز یا چین نواز ہونے کے پوچھا تو ٹال گئے۔

'تھر میں بھوک سے مرنے والے جانوروں کی اموات تھم سکتی ہیں'

ڈاکٹر اجمل 1970ءکے بعد سے کسی نہ کسی حیثیت میں جامعہ کراچی سے منسلک ہیں، ڈاکٹر اجمل کے 300 سے زائد تحقیقی مقالے اور 15 سے زیادہ تصانیف ہیں، اسلامی دنیا کے پانچ بڑے بائیولوجسٹ میں شمار ہوتے ہیں۔ اب تک 15 طلبہ ان کے زیر نگرانی پی ایچ ڈی کر چکے۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عطاالرحمن نے مجھے پاکستان کا اب تک کا نمایاں ترین ماہر نباتیات قرار دیا۔ ڈاکٹر اجمل ان دنوں 'اینگرو' کے ساتھ کام کر رہے ہیں، یہ نمکین پانی سے پروان چڑھنے والا جانوروں کا چارہ لگا رہے ہیں، جو سال میں چودہ فصلیں دے گا۔ کہتے ہیں یہ ان کی زندگی بھر کی محنت ہے۔ اگر اسے تھر میں لگا لیا جائے، تو وہاں خشک سالی میں جانوروں کی اموات کا سلسلہ تھم سکتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ سیاسی جدوجہد اس لیے چھوڑی کہ مجھے لگتا تھا کہ ہم اس درجے پر پہنچ چکے کہ اب مجھ اکیلے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ تنہا شخص نظام بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لیکن اپنے مورچے پر جنگ ضرور لڑ سکتا ہے، سو یہ میں نے کیا۔ جامعہ کراچی میں "انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن" (Institute of Sustainable Halophyte Utilization) کو بنانے میں دس برس لگے۔ جامعہ کراچی کی درجہ بندی میں آج اس انسٹی ٹیوٹ کی مطبوعات کا بڑا حصہ ہے۔ 'ایچ ای جے' (Hussain Ebrahim Jamal Research Institute of Chemistry) کے پاس تو بہت بڑا نظام ہے، انہیں سالانہ ایک بلین اور ہمیں چند لاکھ مل رہے ہیں، اِن سے کوئی موازنہ نہیں، لیکن صَرف کی گئی رقم کے حساب سے ہماری کارکردگی بہتر ہے۔ یہ سارے کام میرا ان قوتوں کو جواب تھا، جو جامعہ کراچی کو تباہ کر رہے تھے۔ وہ مجھے نہ روک سکے، میں نے اپنے کام کے لیے راستہ بنا لیا۔

ہم نے پوچھا "اگر ہر شخص ہی یہ سوچ لے کہ صرف اُس کے کچھ کرنے سے کیا بدلے گا، تو یہ ٹھیک ہے؟" تو بولے کہ میں نے کام کیا اور اپنی فکر آگے پھیلائی۔ آج دنیا بھر میں لوگ میری تحقیق سے مستفید ہو رہے ہیں۔ نباتیات کا کوئی بھی محقق کسی نہ کسی سطح پر میرے کام سے مستفید ضرور ہوگا۔ میں خود کو کوئی بہت بڑا مسیحا نہیں سمجھ رہا، لیکن میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنی صلاحیت سے زیادہ ہی کام کیا ہے۔

"مداخلت کرنے والی قوتیں کم زور ہو رہی ہیں"

ڈاکٹر اجمل کہتے ہیںکہ پہلے کچھ طاقتوں کا مفاد تھا کہ ہمارے ملک میں لوگ جاہل اور غریب رہیں، تاکہ انہیں باہر سستی افرادی قوت ملتی رہے اور کچھ وہ تھے، جو نہیں چاہتے تھے کہ ہم اپنی مصنوعات خود بنائیں۔ ہمیں علم ومعاش میں پس پا کرنے کے لیے ہماری تعلیم برباد کی گئی، لیکن یہ کھیل اب اپنا دائرہ پورا کر چکا ہے۔ یہاں مداخلت کرنے والی قوتوں کی سکت اب کم ہوتی جا رہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) کو ڈاکٹر اجمل چین کی 'لائف لائن' قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ کہ گوادر چین کی مجبوری ہے، کیوں کہ دیگر ممالک اسے دوسری طر ف سے روک رہے ہیں، 'سی پیک چین ہر حال میں بنائے گا۔ اس سے ہمیں نقصان نہیں، بلکہ فائدے ہیں۔ آج بیس، پچیس 'گودیوں' (Berths) کے کراچی کی جائز وناجائز آمدن کھربوں ڈالر میں ہے، یہاں کے 70 سے80 فی صد حصے سے ملک کا بجٹ بنتا ہے۔ جب روزانہ 300 جہازوں کی آمدورفت ہوگی، تو اس معیشت کا حجم کتنا بڑا ہوگا۔ اس کے لیے ایندھن تیکنیکی طور پر ایران سے لیا جائے گا، جو اسی دن یہاں آئے گا اور فوراً ادائی ہوگی، اس سے آج کے بجٹ سے کئی ہزار گنا زیادہ آمدن ہوگی۔

ہم نے پوچھا 'کیا اس سے عام آدمی کو بھی کچھ ملے گا؟' تو وہ اثبات میں جواب دیتے ہیں کہ جب اتنا بڑا نظام آ رہا ہے، تو پھر بنیادی علمی ومادی ڈھانچا (انفراسٹریکچر) بننے کی ضرورت ہے۔ گوادر کو اگر 'کراچی' بننا ہے، تو اسے تیکنیکی، تعلیم یافتہ اور تجربے کار لوگوں کی ضرورت ہوگی۔ سی پیک سے صحیح معنوں میں یہاں جامعات کی ضرورت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ جامعات کی ترقی کے لیے ڈرائیونگ فیکٹر ہو گا۔

چند نمایاں اعزازات کا سلسلہ

ڈاکٹر اجمل خان نے مختلف بین الاقوامی جامعات میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ 2005ءمیں ہائرایجوکیشن کمیشن نے ڈاکٹر اجمل خان کو ڈسٹینگوشڈ نیشنل پروفیسر (Distinguished National Professor) کے اعزاز سے نوازا۔ 2001ءمیں انہیں 'تمغہ ¿ حسن کارکردگی' اور 2007 ءمیں 'ستارہ امتیاز' دیا گیا۔ انہوں نے 2011 ءمیں جامعہ کراچی سے 'ڈی ایس سی' کی ڈگری حاصل کی۔ 2012ءمیں وہ جامعہ کراچی سے بحیثیت میریٹوریس پروفیسر ریٹائر ہوئے۔ اس کے بعد کنگ سعود یونیورسٹی، سعودی عرب سے بھی منسلک رہے اور قطر فاﺅنڈیشن دوحہ میں سائنسی مشیر بھی رہ چکے۔ قطر یونیورسٹی میں سینٹر برائے 'سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ' قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جہاں تاحال فوڈ سیکورٹی پروگرام کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ورلڈ اکیڈمی آف سائنس نے 2004ءمیں انہیں اپنا فیلو مقررکیا، جب کہ اسلامک اکیڈمی آف سائنس کے بھی فیلو ہیں
Load Next Story