شب سست موج کا ساحل
ہمارے ماضی کی کرتوتوں نے وطن عزیز کو کسی اسپتال کے انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں پہنچا دیا ہے
اگرچہ ان کے ساتھ میرا تعلق صرف ایک صحافی اور حکمران کا رہا لیکن انھوں نے ہمیشہ شائستگی کے ساتھ معاملہ کیا جس کا میں کئی بار ذکر بھی کر چکا ہوں۔ فی الحال ایک اظہار ہمدردی بھی ہے اور افسوس بھی کہ متعدد مبینہ سنگین بیماریوں کے باوجود جن کی ابتدائی گنتی نو ہے اور ان میں اضافے کا سلسلہ بھی جاری ہے ہمارے مہربان جنرل صاحب کو عدالت نے معاف نہیں کیا ورنہ ہم نے تو نزلہ و زکام کے بیماروں کی بھی عدالت میں پیشی سے معافی دیکھی ہے بہر حال یہ عدلیہ کا معاملہ ہے اور ہمارے لیے بہت نازک کہ ہم تو توہین عدالت کے احترام میں ایک پیشی بھی بھگتنے کی استطاعت نہیں رکھتے، وکیل کی فیس تو بڑا معاملہ ہے، ہر جگہ چوہدری اعتزاز کو تو نہیں لے جا سکتے جو ہم سے فیس نہیں لیا کرتے اور ذاتی تعلق کی بنا پر اس کی پروا نہیں کرتے کہ وہ کتنے بڑے وکیل ہیں اور مفت پیش ہو رہے ہیں۔
وکالت کا ایک اور واقعہ یاد آ گیا ہے۔ ہماری دیہاتی اور دیہاتی اشرافیہ کی سوسائٹی میں قتل وغیرہ کے مقدمے بنتے ہی رہتے ہیں۔ ایک ذرا بڑے اور خطرناک مقدمے میں میاں محمود علی قصوری مرحوم و مغفور کو وکیل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ مقدمہ پیچیدہ تھا اور قصوری صاحب مؤکلوں سے کہتے کہ تم لوگ میرے پاس بیٹھ کر ہی مقدمے کے واقعات پر گپ شپ کرتے رہو، اس میں سے کوئی نکتہ میں بھی ڈھونڈ لوں گا بہر کیف ایک دن دیکھا کہ انھوں نے دراز کھولی اور اس میں سے پانچ ہزار کے نوٹوں کی گدی اٹھا کر چیف مؤکل کے حوالے کر دی اور کہا کہ میں نے مقدمے کی فائل میں عبدالقادر حسن کا نام بھی پڑھا ہے، یہ اس کی فیس کا حصہ میں واپس کر رہا ہوں۔ وصول کی ہوئی فیس اور وہ بھی کسی ایسے مقدمے کی جس کی وکالت مؤکلوں کی بڑی منت و سماجت کے بعد قبول کی گئی ہو واپس کرنا ایک غیر معمولی واقعہ ہے، اتنی رقم اسی زمانے میں بڑی رقم تھی اور غیر معمولی لوگ ہی ایسی بات کر سکتے ہیں۔
بہر کیف بات جنرل صاحب کے مشہور مقدمے سے شروع ہوئی تھی، سنا ہے ان کے وکیلوں کو اب فیس کی وصولی کی پڑی ہوئی ہے اور ان کے بعض وکلاء انھیں دھمکیاں بھی دے رہے ہیں حالانکہ جنرل صاحب اپنے کسی سفارشی سے کہہ دیں تو وہ بھی یہ فیس ادا کر سکتا ہے لیکن ان کی مرضی ہم تو صرف اشارتاً مشورہ دے سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کی مہربانی کہ وہ اپنے طویل اقتدار میں بھی ہم صحافیوں کو خبریں دے کر خوش کرتے رہے اور اب جب وہ خود خبر بن گئے ہیں تب بھی خوش کر رہے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ خود تو اتنی بڑی خبر بن گئے ہیں کہ دنیا میں اس کی دھوم مچی ہے اور ملک کو توڑنے تک کی دھمکیاں بھی اسی مقدمے کا ایک شاخسانہ ہے۔ کچھ لوگوں کے دل و دماغ میں تو اس دھمکی کو برملا کرنے کی خواہش مدتوں سے تھی لیکن اس کا سنہری موقع جنرل صاحب کے اس نعرے سے پیدا کیا ہے۔
یہ مقدمہ کیا ہے خبروں کا ایک پلندہ اور پہاڑہ ہے۔ جدھر ہاتھ ڈالیں خبروں کا ایک بنڈل ہاتھ میں آ جاتا ہے اور ہمارے جیسے کالم نویس کے تو عیش ہیں جسے حالات حاضرہ کا ایک طوفان گھیرے ہوئے ہے۔ یہ مقدمہ اپنی جگہ بہت بڑا مقدمہ تھا۔ وہ ہمارے چوتھے فوجی حکمران تھے۔ ان سے پہلے والے تو قدرت نے اٹھا لیے یا بستر پر پڑے ہی رخصت ہو گئے یہ پہلے فوجی حکمران ہیں جن پر ایک باقاعدہ مقدمہ دائر ہوا ہے اور خود انھوں نے بھی اسے سچ مان لیا ہے ورنہ اتنی بیماریوں کی تلاش کی کیا ضرورت تھی، ایک بلڈی سویلین عدالت نے اتنے بڑے جرنیل کو پابند سلاسل کر دیا ہے۔ ایسی سویلین عدالت کو وہ جھڑک کر بھی خاموش کرا سکتے تھے لیکن اندازہ یہ ہے کہ مقدمہ کسی قانونی خلاف ورزی کا نہیں کہ تعزیرات پاکستان کے اوپر سے نکل گیا ہے بلکہ فوج نے بھی اپنی مشہور نظم و ضبط والی اطاعت کا اظہار نہیں کیا ورنہ جی ایچ کیو میں ایک ٹرپل ون یعنی 111 نمبر کا بریگیڈ ایسے موقعوں پر بہت کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ یہ ایوان حکومت سے زیادہ دور نہیں ہوتا اس کے مارچ کی دھمکی ایوان تک پہنچ جاتی ہے لیکن معلوم ہوا کہ اب حالات اس قدر نازک ہوئے ہیں کہ فوج اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں ہے اور اپنے وقار اور عزت کو کسی جرنیل کے اقتدار کے لیے قربان کرنے پر تیار نہیں ہے۔
ہمارے ماضی کی کرتوتوں نے وطن عزیز کو کسی اسپتال کے انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں پہنچا دیا ہے، حالات کی اس جان لیوا صورت حال کو پیدا کرنے میں سویلین اور ان سے زیادہ خود فوج کا کردار ہے۔ فوج نہ صرف خود ہماری مبینہ آزادی کی عمر میں مسلسل اقتدار میں رہی بلکہ اس نے اپنے ساتھ موقع پرست پیشہ ور سویلین سیاستدانوں کو بھی ملا لیا۔ عوام اس گٹھ جوڑ کو بے بسی میں دیکھتے رہے۔ اس مطلق العنان حکمرانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب جس کا جی چاہتا ہے وہ ملک کو توڑنے کی بات کر دیتا ہے اور اس حیرت انگیز گستاخی کا جواب کہیں سے نہیں آتا جب کہ اس کا پہلا جواب بلکہ مسکت جو اب حکومت کی طرف سے آنا چاہیے تھا اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ع
شب سست موج کا ساحل کہاں ہے۔