لاہورکا مومن پورہ قبرستان

جہاں کتنی ہی نام ور شخصیات کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں


جہاں کتنی ہی نام ور شخصیات کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں

مومن پورہ قبرستان لاہور، پاکستان کے سب سے پرانے قبرستانوں میں سے ایک ہے جو لکشمی چوک کے پاس میکلوڈ روڈ پر واقع ہے۔ اہلِ تشیع حضرات کے زیرِاستعمال اس قبرستان میں تقریباً دس ہزار سے بھی زیادہ قبریں موجود ہیں۔

قزلباش خاندان کے تعمیر کردہ اس قبرستان میں سو سال سے بھی پرانی کئی قبریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مومن پورہ قبرستان میں کیسے کیسے نابغہ روزگار لوگ آسودہ خاک ہیں، لیکن افسوس ہے کہ زندہ لوگوں کو یہ خبر ہی نہیں کہ ان خاموش بستیوں میں کیسا کیسا ہیرا محو خواب ہے۔

میں نے اسی مقصد کے پیشِ نظر لاہور کے مختلف قبرستانوں میں محو استراحت ان تمام ہستیوں کے تعارف کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے اور ان بھولے بسرے لوگوں کی قبروں کی تصاویر اس نیت سے بنائی ہیں تاکہ وہ نام جو ہماری یادداشتوں سے محو ہو رہے ہیں وہ ایک بار پھر تازہ ہوجائیں اور ہم جیسے ادنیٰ طالب علم ان شخصیات کے کارناموں کے بارے میں جان سکیں۔

پیش خدمت ہے مومن پورہ قبرستان میں دفن ہستیوں کا تعارف۔

ناصر کاظمی

آشنا درد سے کسی طور ہونا تھا ہمیں

تو نہ ملتا تو کسی اور سے بچھڑے ہوتے

پاکستان کے مشہور شاعر ناصر کاظمی، 8 دسمبر 1925ء کو پنجاب کے شہر امبالہ شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ والد محمد سلطان کاظمی رائل انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے جو خاندان سمیت 1947 میں پاکستان آ گئے۔

ناصر کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔ انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ آگے کی تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے ایک بھرپور ہاسٹل لائف گزاری۔ ناصر کاظمی نے بنا بی اے پورا کیے ہی تعلیم ترک کردی۔

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

آزادی کے بعد پاکستان آ تے ہی ان کے والدین آگے پیچھے چل بسے اور انہیں یہ بڑا صدمہ جھیلنا پڑا۔ ناصر نے پہلے ادبی رسالہ ''اوراق نو'' کی ادارت کے فرائض انجام دیے اور پھر ''خیال'' میں بھی کام کیا۔ 1952ء میں رسالہ ''ہمایوں'' کی ادارت سے وابستہ ہوئے۔ ہمایوں کے بند ہونے پر ناصرکاظمی محکمہ دیہات سدھار سے منسلک ہوگئے۔ اس کے بعد وہ زندگی کے باقی سال ریڈیو پاکستان سے جڑے رہے۔

آؤ چپ کی زباں میں ناصر

اتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں

اردو شاعری میں آپ اختر شیرانی کی رومان پرور شاعری سے بہت متاثر تھے۔ آپ نے اپنی اصلاح اور راہ نمائی کے لیے حفیظ ہوشیارپوری کو چنا۔ ناصر نے بارش، یاد، تنہائی، دریا، محبوب کا حسن، چاند اور رات جیسی فطرت کے قریب چیزوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور لوگوں کے دل میں اتر گئے۔ آپ کا کہنا تھا کہ میرے تمام مشاغل جیسے آرٹ، شاعری، موسیقی، پیڑ پودوں اور پرندوں سے محبت کے گرد گھومتے ہیں اس لیے میری شاعری میں بھی یہی سب جھلکتے ہیں۔

آپ کی شاعری کی بہترین کتابوں میں برگِ نے، پہلی بارش، دیوان، ہجر کی رات کا ستارہ اور نشاطِ خواب شامل ہیں۔ برگِ نَے ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1952ء میں شائع ہوا۔

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کہ دیکھتے ہیں

تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بام فلک سے اتر کر دیکھتے ہیں

آپ کی وفات 2 مارچ 1972 میں معدے کے سرطان کی وجہ سے لاہور میں ہوئی اور مومن پورہ قبرستان آپ کا مدفن ٹھہرا۔ پاکستان پوسٹ نے آپ کی یاد میں پندرہ روپے کا ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا۔ آپ کا ایک بیٹا بصیر سلطان کاظمی (مقیم انگلینڈ) بھی شاعری اور ڈراما نگاری ہے وابستہ ہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری آج بھی پاکستان و بھارت کے ڈراموں اور فلموں میں استعمال کی جا رہی ہے۔

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضاء

ان خالی کمروں میں ناصر میں شمع جلاؤں کس کے لیے

آغا نعمت اللہ جان درانی

مولانا آغا نعمت اللہ جان درانی جن کا تخلص احقر امرتسری تھا، 1903 میں افغانستان کے شہر قندھار میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک مشہور اسلامی اسکالر، مصنف اور مقرر تھے۔ آپ آغا جی کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کی پوتی ایک جگہ آپ کے بارے میں یوں لکھتی ہیں:

آغاجی کا بچپن اور جوانی لدھیانہ شہر کے شہزادوں کے محلے میں گزرا جہاں افغانستان سے آئے سدوزئی قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ افغان شاہی خاندان سے تعلق کی وجہ سے یہ سب شہزادے کہلاتے تھے۔ حکومت برطانیہ نے ان کے وظائف مقرر کر رکھے تھے، لہٰذا سب شہزادے سکون کی زندگی گزارتے۔ آغا جی ان سب سے الگ تھلگ تھے۔ کتابوں کے رسیا اور علم کے دیوانے۔ آپ نے اپنی تبلیغ، تقریر اور تحریر کے ذریعے درس کربلا کی تشہیر کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا۔آپ سب کچھ چھوڑ کر اپنی زوجہ کنیز فاطمہ اور بچوں کے ہمراہ امرتسر چلے گئے۔ اسی دوران برصغیر تقسیم ہوگیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب انھیں وہاں سے نکلنا پڑا۔ گھر کے تمام لوگ پہلے ہی پاکستان جا چکے تھے، صرف ان کا بڑا بیٹا آغا اعجاز حسین ان کے ساتھ تھا۔ اپنے بھرے گھر سے کتابوں کی ایک بوری اٹھائی جسے وہ اور بیٹا باری باری اٹھا کر لاہور لانے میں کامیاب ہوگئے۔

لاہور میں پہلے نسبت روڈ اور پھر برانڈرتھ روڈ پر رہائش اختیار کی۔ تحریر و تقریر کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ موچی دروازہ میں امام باڑہ حسینی بیگم، امام باڑہ فتح علی شاہ اور نثار حویلی میں مجالس پڑھنا شروع کیں۔ شانِ عزا اور یادِحسینؓ جیسی کتب تحریر کیں جو انصاف پریس سے چھپ کر ڈھیروں کی تعداد میں آتی تھیں۔ان کا معمول تھا کہ برف خانہ چوک میں ماہنامہ " اسد" کے ایڈیٹر شائق انبالوی اور مولانا اظہر حسن زیدی سے ملنے جاتے۔ مولانا اظہر حسن زیدی کو ان سے اتنی محبت اور عقیدت تھی کہ انھوں نے ایک پوری مجلس ہی " نعمت" کے موضوع پر پڑھ دی جب مولانا آغا نعمت اللہ جان ان کے سامنے بیٹھے تھے۔

لکشمی چوک میں " شہید" کے ایڈیٹر مظفر علی شمسی سے ملنے بھی جاتے۔ چوک رنگ محل میں " معارف اسلام " کا دفتر تھا۔ ان تمام رسائل میں ان کے علمی اور تحقیقی مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ ہر اتوار کو سفید کرتا پاجامہ پہن کر کالی شیروانی، قراقلی ٹوپی پہنے ہاتھ میں چوبی چھڑی پکڑ کر اندرون موچی گیٹ جاتے جہاں ان کے دوست فتح علی شاہ کی بیٹھک میں ان کے دیگر دوست احباب بھی جمع ہوتے کشمیری چائے اور باقر خوانیوں کے ساتھ علمی مباحث کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ان کی اپنی کتابوں کے اندر پہلے صفحے پر ان کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہوتی تھی جس میں وہ شیروانی پہنے بے ریش نظر آتے تھے۔

اس تصویر کے نیچے یہ شعر درج ہوتا؛

جو ہے تحریر میں پنہاں وہ حقیقت دیکھو

میری صورت نہ دیکھو میری سیرت دیکھو

آپ کی پوتی ''امبرین معصوم'' ایک جگہ لکھتی ہیں کہ؛

میں نے بھی اپنے دادا جی کو جنہیں سب بڑے آغا جی کہتے تھے، کبھی اداس نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہر قسم کے حالات میں پُرامید اور مطمئن رہتے۔ جب کبھی ان کی زباں بندی ہوتی، تب بھی وہ مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے۔ مگر ایک دن میں نے انھیں زاروقطار روتے دیکھا۔ وہ موچی دروازہ کے باہر محترمہ فاطمہ جناح کا جلسہ سن کر آئے تھے اور دیر تک یہی کہتے رہے: ''قائد اعظم کی بہن کو ووٹ مانگنے ہمارے دروازے پر آنا پڑا، کیا پاکستان میں یہ وقت بھی آنا تھا۔؟؟' ' مولانا کا انتقال 1968 میں لاہور شہر میں ہوا۔

سید امتیاز علی تاج

مولوی سید ممتاز علی اور محمدی بیگم کے ہاں 13 اکتوبر 1900 کو پیدا ہونے والے امتیاز علی تاج، اردو زبان کے معروف مصنف اور ڈراما نگار تھے۔ آپ کے والد دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف اور مجلہ حقوق نسواں کے بانی مدیر تھے جب کہ والدہ بھی مضمون نگار تھیں۔

امتیاز نے بنیادی اور اعلیٰ تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ انہیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈرامے سے دل چسپی تھی جو ان کا خاندانی ورثہ بھی تھا۔ تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی ایک ادبی رسالہ (کہکشاں) نکالنا شروع کر دیا۔ ڈراما نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن تھے اور محض بائیس برس کی عمر میں اپنا مشہور زمانہ ڈراما ''انارکلی'' لکھا جو اردو ڈراما کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کئی ڈرامے اسٹیج، فلم اور ریڈیو کے لیے تحریر کیے، جب کہ انگریزی اور فرانسیسی زبان کے ڈراموں کا ترجمہ کر کے انہیں یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھالنا ایک علیحدہ کارنامہ ہے۔ ان میں قرطبہ کا قاضی اور خوشی شامل ہیں۔ امتیاز علی تاج نے بچوں کے لیے ایک جاسوسی سیریز انسپکٹر اشتیاق شروع کی، چچا چھکن ان کی مزاح نگاری کی عمدہ کتاب ہے جو پاکستان کی درسی اردو کتب کا بھی حصہ ہے۔



حکومتِ پاکستان نے آپ کی ادبی خدمات پر آپ کو ''ستارہ امتیاز'' اور صدارتی ایوارڈ برائے ڈرامہ نگاری سے بھی نوازا ہے۔آپ کی وفات نہایت الم ناک طریقے سے ہوئی۔ اپریل 1970 کی ایک رات جب آپ اپنے گھر کی چھت پر سو رہے تھے کہ دو نقاب پوش حملہ آوروں نے چاقو کے وار کرکے آپ کو زخمی کردیا۔ تاج کو کافی زخم آئے اور خون بہا، اسپتال میں علاج کے بعد ہوش بھی آیا مگر پھر سانس رکنے لگی اور 19 اپریل 1970 کو انتقال کرگئے۔ ان کے قاتلوں کو نہ گرفتار کیا جا سکا اور نہ ہی تفتیش کا کوئی نتیجہ بر آمد ہوا۔ آپ کی قبر مومن پورہ قبرستان میں واقع ہے۔ ان کے دیگر کام یاب ڈراموں میں، آخری رات، پرتھوی راج، گونگی، بازار حسن اور نکاح ثانی شامل ہیں۔

رشید عطرے

جب بھی پاکستان فلمی صنعت سے وابستہ موسیقاروں کا نام لیا جائے گا، رشید عطرے ان میں سر فہرست ہوں گے۔ نہ جانے کتنی خوب صورت آوازوں کو ساز اور دھن دینے والا یہ موسیقار آج مومن پورہ قبرستان میں ایک بے نام قبر میں آرام کر رہا ہے۔ رشید عطرے فروری 1919 کو امرتسر میں خوشی محمد امرتسری کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے موسیقی سیکھنے کی ابتدا اپنے والد سے کی جو خود ایک مشہور ہارمونیم نواز تھے۔ پھر آپ عظیم گائیک استاد فیاض علی خان کی شاگردی میں آ گئے۔ موسیقی کے شوق میں جلد ہی انہوں نے کلکتہ کا رخ کیا، جہاں اس وقت کے مشہور بنگالی موسیقار''آر سی (رائے چند) بورال'' کے ساتھ 1942 میں بننے والی فلم ممتا میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ تب آپ کی عمر صرف 23 سال تھی۔

1947 تک آپ آٹھ فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب عطرے لاہور آئے تو یہاں انہوں نے فلم ''بیلی'' کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کی ناکامی کے بعد رشید عطرے راولپنڈی چلے گئے جہاں انہوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کرلی۔ آزادیٔ کشمیر کے حوالے سے گایا جانے والا مشہور نغمہ ''مرے وطن تری جنت میں آئیں گے اک دن'' ان کے اسی زمانے کی یادگار ہے۔ایک بار آپ پھر فلمی موسیقی کی طرف پلٹے اور کام یابی نے آپ کے قدم چوم لیے۔ انہوں نے اپنے پاکستانی کیریئر میں مجموعی طور پر 55 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں سرفروش، چن ماہی، وعدہ، مکھڑا، قیدی، محبوب، فرنگی، ہزار داستان، مرزا جٹ، محل اور زرقا جیسی مشہور فلمیں شامل ہیں۔ آپ کو فلم سات لاکھ ، نیند اور شہید پر بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

آپ کے مشہور ترین نغموں میں اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا اللہ اکبر، اْس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو، گائے گی دنیا گیت میرے، مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ، لٹ اُلجھی سُلجھا جا رے بالم اور سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی شامل ہیں۔

دسمبر 1967 کو جب آپ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا تو آپ کی عمر 48 برس تھی۔

استاد امانت علی خان

پاکستانی موسیقی میں پٹیالہ گھرانا اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتا ہے جس نے بڑے بڑے کلاسیکل گلوکار پیدا کیے۔ انہی میں سے ایک امانت علی خان تھے جو 1922ء میں پنجاب کے ضلع ہوشیارپور کے قصبے شام چوراسی میں پیدا ہوئے۔ آپ پٹیالہ گھرانے کے بانی علی بخش جرنیل کے پوتے تھے۔ تقسیم کے بعد آپ نے پاکستان ہجرت کی جہاں اپنے بھائی فتح علی خان کے ساتھ آپ کی جوڑی بہت مشہور ہوئی۔ اس جوڑی نے مختلف محافل میں اپنے فن گائیکی کے جوہر دکھائے۔ آپ مشہور بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر کے اولین استادوں میں سے ایک تھے۔ 1969 میں آپ کو اپنے بھائی کے ساتھ حکومتِ پاکستان کی طرف سے ''پرائڈ آف پرفارمنس'' سے نوازا گیا۔ آپ نے ریڈیو پاکستان پر موسیقی کے پروگراموں میں بھی شرکت کی۔

استاد امانت علی خان نے غزل گائیکی کو اپنے منفرد انداز میں پیش کرکے بہت جلد اپنے ہم عصر گلوکاروں، جن میں استاد مہدی حسن خان اور استاد غلام علی شامل ہیں، میں اپنا ایک الگ مقام اور شناخت بنائی۔موسم بدلا رُت گدرائی اہل جنون بے باک ہوئے، ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام بھی آئے، انشا جی اٹھو اب کوچ کرواس شہر میں دل کا لگانا کیا اور پاکستان کا مشہور ملی نغمہ ''اے وطن پیارے وطن پاک وطن اے میرے پیارے وطن'' بھی استاد امانت علی خان کا گایا ہوا ہے۔

ایسے دیگر بے شمار لازوال گیت اور غزلیں آج بھی شائقین موسیقی میں بے حد مقبول ہیں جب کہ ان کے گائے ہوئے ملی نغمے اب بھی ان کے منفرد انداز گائیکی کے ساتھ وطن پرستی کا درس دیتے ہیں۔موجودہ دور کے مشہور پاکستانی سنگر شفقت امانت علی، آپ ہی کے بیٹے ہیں جو جدید اور کلاسیکی موسیقی کے امتزاج کے ساتھ گلوکاری میں مصروف ہیں۔استاد امانت علی خان کا انتقال 17 ستمبر، 1974ء میں اپڈکس کے پھٹنے کی وجہ سے ہوا اور آپ مومن پورہ قبرستان میں مدفون ہیں۔

ایئر مارشل مصحف علی میر

ایئر چیف مارشل مصحف علی 5 مارچ 1947ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا خاندان متوسط قسم کا کشمیری خاندان تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے 21جنوری 1968ء کو پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا اور 1971ء اور 1999ء دونوں جنگوں میں حصہ لیا۔ 20 نومبر 2000ء کو پاک فضائیہ کے ''چیف آف ایئراسٹاف'' مقرر ہوئے اور اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے۔

2003ء میں ان کا طیارہ کوہاٹ ایئرپورٹ کے نزدیک ایک حادثے کا شکار ہو گیا جس میں ایئرچیف مارشل مصحف علی میر اپنی اہلیہ اور دیگر سولہ افراد سمیت جاں بحق ہوگئے۔ انھیں حکومت پاکستان نے نشان امتیاز (ملٹری)، ہلال امتیاز (ملٹری)، ستارہ امتیاز (ملٹری) اور ستارہ بسالت کے اعزازات عطا کیے تھے۔کچھ امریکی مصنفین کو شک تھا کہ مصحف علی 11/9 کے حملوں کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے لیکن وہ اس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد نہ پیش کر سکے۔

منیر احمد

پاکستانی موسیقی کے بڑے ناموں میں سے ایک، منیر حسین صاحب 1950 سے 70 کی دہائی تک پاکستان فلم انڈسٹری کے بہترین گلوکار مانے جاتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق آپ نے 163 اردو و پنجابی فلموں کے لیے کوئی 300 گانے گائے۔ مشہور میوزک ڈائریکٹر رشید عطرے آپ کے ماموں اور صفدر حسین آپ کے کزن تھے۔

1957 آپ کو فلم انڈسٹری میں متعارف کروانے میں ان دونوں کا اہم کردار ہے۔ آپ پاکستانی فلم انڈسٹری کے وہ پہلے گلوکار تھے جنہیں بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں میں کام یابی ملی تھی۔آپ کا پہلا گانا سات لاکھ فلم کا ''قرار لوٹنے والے تو قرار کو ترسے'' تھا جو بے حد مشہور ہوا اور اسی سے آپ شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ اس کے بعد آپ نے مکھڑا، کوئل، گلفام، اولاد اور ہیررانجھا جیسی مہور فلموں کے لیے پلے بیک کیا۔

حالاںکہ آپ نے بہت سی مشہور فلموں کے لیے بہترین گلوکاری کی لیکن اس مقام تک نہ پہنچ سکے جو آپ کے ہم عصر گلوکاروں جیسے احمد رشدی اور مسعود رانا کو ملا۔ آپ کا انتقال 27 ستمبر 1995 کو ہوا۔

حجاب امتیاز علی

حجاب امتیاز علی نے 4 نومبر، 1908ء میں حیدر آباد دکن، کے ایک مہذب گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ والد سید محمد اسماعیل نظام حیدرآباد کے فرسٹ سیکریٹری تھے جب کہ حجاب کی والدہ عباسی بیگم بھی اپنے عہد کی معروف ناول نگار تھیں۔ ان کا ناول زہرہ بیگم کافی مشہور ہوا تھا۔ حجاب نے عربی، فارسی، اردو اور موسیقی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ حجاب نے انگریزی تعلیم کالج میں حاصل کی، جس میں انہیں عبور حاصل تھا۔

1935 میں حجاب کی شادی مشہور ڈراما انارکلی کے مصنف امتیاز علی تاج سے ہوئی اور آپ حجاب امتیاز علی کے نام سے مشہور ہوئیں۔حجاب برصغیر کی پہلی مسلم خاتون پائلٹ تھیں۔ آپ نے 1936ء میں ''ناردن لاہور فلائنگ کلب'' سے ہوا بازی کی سند حاصل کی اور برٹش گورنمنٹ کی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں۔ اسی برس تہذیب نسواں میں ان کی ہوابازی کے متعلق ایک نظم چھپی تھی، جس نے حجاب کو کافی شہرت دی۔انھیں ہوابازی کے علاوہ کار ڈرائیونگ، بلیاں، طوطے اور کبوتر پالنا بہت پسند تھا۔ باجود ان تمام مصروفیات کے لکھنے اور پڑھنے کا بھی ان کا وقت مقرر تھا۔

تہذیب نسواں کی ادارتی ذمہ داریاں بھی انھوں نے نبھائیں۔ تاج کے ساتھ لاہور کی علمی وادبی فضا میں رہ کر ان کے ادبی ذوق میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ آپ کے لکھے ناولوں میں اندھیرا خواب، ظالم محبت، وہ بہاریں یہ خزائیں، سیاح عورت، افسانوی مجموعے میری ناتمام محبت، ممی خانہ، تحفے اور شگوفے قابل ذکر ہیں۔

حجاب امتیاز علی کے آخری ناول پاگل خانہ کو آدم جی ادبی انعام سے نوازا گیا اور حکومت پاکستان نے آپ کی گراںقدر ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

19 مارچ 1999ء کو حجاب امتیاز علی لاہور، پاکستان میں وفات پاگئیں۔ وہ مومن پورہ قبرستان میں اپنے شوہر امتیاز علی تاج کے ساتھ مدفون ہیں۔

سید عابد علی عابد

دَمِ رُخصت وہ چپ رہے عابد

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

یہ مشہور شعر کہنے والے اردو کے نام ور شاعر' ادیب' نقاد' محقق' مترجم اور ماہرتعلیم سید عابد علی عابد، 17 ستمبر 1906ء کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پیدا ہوئے تھے۔

انہوں نے ''ہزار داستاں'' نامی رسالے سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا پھر مجلس وضع قانون (پنجاب) میں بطور مترجم کام کیا۔ کچھ عرصہ وکالت بھی کی۔ آپ 1947 سے 195 تک دیال سنگھ کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مجلس ترقی ادب سے وابستہ ہوگئے۔

عابد علی عابد تنقیدنگاری کے لیے بہت مشہور تھے۔ وہ ریڈیو پاکستان لاہور کے ابتدائی ڈراما اور فیچر لکھنے والوں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں ریڈیو کے لیے بے شمار ڈرامے لکھے۔ پنجاب کی سب سے پہلی بولتی فلم ''ہیر رانجھا ''(1931) کی کہانی اور مکالمے انھوں نے لکھے تھے۔سید عابد علی عابد کی تصانیف کی فہرست بہت طویل ہے جس میں ڈراموں اور افسانوں کے مجموعے' ناول' تنقیدی مضامین' شاعری اور تراجم سبھی کچھ شامل ہیں۔

جنوری 1971ء میں سیدعابدعلی عابد لاہور میں وفات پاگئے اور مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ آپ کی قبر کا حال دیکھ کر دل خون کے آنسو رو پڑا۔ آپ کا علمی کام اس قدر ہے کہ اردو دنیا کبھی آپ کو بھلا نہ سکے گی، مگر افسوس کہ یہ دنیا ہی اور ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ'' مرنے والے تب نہیں مرتے جب ان کی روح نکل جاتی ہے، بلکہ وہ تب مرتے ہیں جب ان کے پیچھے چاہنے والے ان کی قبروں پر آنا بھول جاتے ہیں۔''

دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات

غمِ دوراں میں ہے عکسِ غمِ یار آج کی رات

آتشِ گل کو دامن سے ہوا دیتی ہے

دیدنی ہے روشِ موجِ بہار آج کی رات

آج کی رات کا مہماں ہے ملبوسِ حریر

اس چمن زار میں اُگتے ہیں شرر آج کی رات

میں نے فرہاد کی آغوش میں شیریں دیکھی

میں نے پرویز کو دیکھا سرِدار آج کی رات

جو چمن صرفِ خزاں ہیں وہ بلاتے ہیں مجھے

مجھے فرصت نہیں اے جانِ بہار آج کی رات

مشعلِ شعر کا لایا ہوں چڑھاوا عابد

جگمگاتے ہیں شہیدوں کے مزار آج کی رات

اسد امانت علی خان

اسد امانت علی خان 25 ستمبر، 1955ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد استاد امانت علی خان ایک مشہور غزل گائیک اور کلاسیکی فن کار تھے۔ آگے چل کر اسد نے بھی موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادااستاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔اسد امانت علی خان نے اپنے چچا استاد حامد علی خان کے ساتھ اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا اور ان دونوں کی جوڑی نے کلاسیکی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔

استاد امانت علی خان کی اچانک وفات کے بعد اسد امانت علی خان نے ان کے گائے ہوئے خوب صورت نغمے ''انشا جی اٹھو اب کوچ کرو سے'' اپنی شہرت کے سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت، غزلیں اور فلمی گانے گائے جو اپنی دل کشی اور سریلے پن کی وجہ سے زبان زد عام ہوئے۔حکومت پاکستان نے 2007 میں اسد امانت علی کان کو ان کی فنی خدمات کے صلے میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

اپریل، 2007ء میں لندن، برطانیہ میں حرکت قلب بند ہونے سے آپ وفات پاگئے اور مومن پورہ قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

ریاض بٹالوی

پاکستان کے مشہور فیچر رائٹر، ریاض بٹالوی 5 فروری 1937ء کو بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ آپ روزنامہ مشرق اور کوہستان سے وابستہ رہے۔ آپ کے فیچرز کو پاکستان ٹیلی ویژن نے ڈرامائی تشکیل دے کر ایک حقیقت ایک فسانہ کے نام سے پیش کیا۔ اس سلسلے کے تمام ڈرامے بے حد مقبول ہوئے جن میں سناٹا، آئینے، تلاش اور خلش کے نام سرفہرست ہیں۔ 14 اگست 1986ء کو انھیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ ریاض بٹالوی کا انتقال 15 جنوری 2003ء کو لاہور میں ہوا اور وہ مومن پورہ کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔

مشیر کاظمی

مشیر کاظمی 9 مئی 1915ء کو ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ والد گرامی پولیس سروس میں تھے تو کاظمی نے بھی والد کے نقشِ قدم پر چلتے پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر دل نہ لگا اور جلد ہی ملازمت چھوڑ دی۔ ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ تقسم ہند کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور ضلع مظفر گڑھ میں آن بسے، مگر یہاں ان کی طبیعت مائل نہ ہوئی، چناںچہ علی پور سے لاہور آ گئے۔مشیر کی دوسری بیوی روبینہ شاہین، ریڈیو اور ٹی وی کی اپنے دَور کی ممتاز فن کارہ تھیں۔ کاظمی نے فلموں میں نغمہ نگاری کا آغاز فلم دوپٹہ سے کیا جس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔

یہ پاکستان کی پہلی اردو فلم تھی جس کے نغمے ملکہ ترنم نور جہاں نے گائے تھے۔ اس فلم کے تقریباً سبھی نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے جس سے مسیر آسمانِ شہرت پر جا بیٹھے۔ مشیر کاظمی نے لاتعداد فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے جن میں میرا کیا قصور، زمین، لنڈا بازار، دلاں دے سودے، مہتاب، ماں کے آنسو، آخری نشان، آخری چٹان، باغی کمانڈر اور دل لگی کے نام سرفہرست تھے۔

1965ء کی پاک بھارت جنگ کا سب سے مشہور نغمہ ''اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو'' مشیرکاظمی کا ہی تحریر کردہ تھا جسے نسیم بیگم نے جی جان سے گایا تھا۔آپ کی وفات دسمبر 1975 کو لاہور میں ہائی۔ان ہستیوں کے علاوہ مصطفیٰ علی ہمدانی، شاعر منظور حسین چھلہ، افسانہ نگار نصرت علی اور صحافی سعادت خیالی بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں