سستی ادویہ مہنگی کرنے کا مہا اسکینڈل

اسرائیل اور بھارت کی جینرک ادویہ ساز کمپنیوں نے امریکی عوام کی جیبوں پر اربوں ڈالر کا ڈاکہ کیسے ڈالا؟

پچھلے ایک برس سے بنی نوع انسان کورونا وائرس کی پھیلائی وبا،کوویڈ 19کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ فوٹو : فائل

پچھلے ایک برس سے بنی نوع انسان کورونا وائرس کی پھیلائی وبا،کوویڈ 19کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ گو اس وبا پر قابو پانے کی خاطر بارہ ویکسینیں ایجاد ہو چکیں مگر اب بھی دنیا بھر میں نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسانوں تک یہ ویکسینیں نہیں پہنچ سکیں۔یہی وجہ ہے، وبا اب بھی روزانہ ہزارہا انسانوں کی جان لے لیتی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا،برطانیہ،یورپی یونین، چین اور بھارت نے ویکسین تیار کرنے والی اپنی اپنی کمپنیوں کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کیے۔مقصد یہ تھا کہ کمپنیاں جلد از جلد ویکسینیں تیار کر لیں۔اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی مصنوعات کی قیمت بھی کم رکھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین بناتے ہوئے اس کی تحقیق وتجربات پر دور حاضر میں ڈیڑھ دو ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔

یہ زر کثیر ہے،اس باعث بہت کم ادویہ ساز کمپنیاں ویکسین بناتی ہیں۔وہ بھی صرف اس وقت جب انھیں حکومتوں یا صحت کے عالمی اداروں سے امداد مل جائے۔ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب ویکسین ایک بار تیار ہو جائے تو اس کی خوراک بنانے پہ چند ڈالر ہی خرچ ہوتے ہیں۔مثال کے طور پہ بھارتی کمپنی،بھارت ٹیک کی بنائی ویکسین،کوویکسین بھارت میں صرف ڈھائی سو روپے میں دستیاب ہے۔یہ ویکسین تیار کرنے کی خاطر بھارتی حکومت نے بھی کمپنی کو سرمایہ فراہم کیا۔

امریکا نے فارماسوٹیکل کمپنیوں کو امدادی رقم دینے کے لیے مئی 2020ء میں ایک منصوبہ''آپریشن ریپ سپیڈ(Wrap Speed)شروع کیا جو فروری 2020ء تک جاری رہا۔اس منصوبے کے تحت چھ بڑی ادویہ ساز کمپنیوں کو ''12ارب ڈالر''دئیے گئے تاکہ وہ اپنی ویکسین بنا لیں۔اس دوران رقم میں سے اپنا حصّہ ناجائز طور پہ پانے کی خاطر فراڈ و دھوکے بازی کے کیس بھی سامنے آئے۔امریکی میڈیا کی رو سے امریکا کی دو ادویہ ساز کمپنیوں، انووائیو(Inovio)اور ویکس آرٹ(Vaxart)نے آپریشن ریپ سپیڈ کی انتظامیہ کو ایسی دستاویز پیش کیں جن میں دعوی کیا گیا کہ وہ سال رواں (2020ء)میں وبا کے خلاف نہایت موثر ویکسین بنا لیں گی۔لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ کمپنیوں نے دعوی بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔یہ دھوکے بازی اس لیے اختیار کی گئی تاکہ وہ بارہ ارب ڈالر کی کثیر رقم میں سے کچھ حصّہ ہڑپ کر سکیں۔

لالچ و ہوس کا عمل دخل

یہ واقعہ آشکارا کرتا ہے کہ بعض ادویہ ساز کمپنیاں ایسے نازک اور خطرناک دور میں بھی مادی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں جب کروڑوں انسانوں کی قیمتی زندگیاں وبا پھیلنے سے داؤ پر لگی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں شعبہ صحت میں لالچ و ہوس کا عمل دخل بڑھ رہاہے۔صد افسوس کہ جن شعبوں کو ماضی میں مقدس ومحترم سمجھا جاتا تھا، مثلاً تعلیم اور صحت،انھیں اب لالچی اور ہوس پرست لوگ داغدار کر رہے ہیں۔

اہل وطن میں یہ نظریہ عام ہے کہ دنیائے مغرب کے باسی قانون پسند اور دیانت دار ہوتے ہیں۔وہ کسی قسم کی کرپشن نہیں کرتے۔یہ بات خاصی حد تک درست ہے مگر انھیں اخلاقیات کی بہترین مثال قرار نہیں دیا جا سکتا۔مثلاً یہی سچائی مدنظر رکھیے کہ مغربی حکمران طبقہ ہر معاملے میں اپنے مفادات مقدم رکھتا ہے ۔اسی لیے اپنا مفاد خطرے میں دیکھے تو تمام اصول وقوانین بھول جاتا ہے۔یہ سراسر منافقت ہے۔اسی طرح مغربی ممالک میں بھی سرکاری و نجی سطح پر کرپشن،چوری اور قتل وغارت گری کے واقعات جنم لیتے ہیں۔حال ہی میں دنیائے مغرب کے سرتاج،امریکا میں ایک اسکینڈل نے ہر باشعور شہری کو ہلا کر رکھ دیا۔

یہ زبردست انکشاف ہوا کہ دنیا کی بڑی جینرک ادویہ ساز کمپنیاں آپس میں ایکا اور گٹھ جوڑ کر کے کئی برس تک امریکی عوام کو لوٹتی رہیں۔انھوں نے اپنی ''دو سو سے زائد''ادویہ کی قیمتیں ''ایک ہزار گنا''تک بڑھا دیں اور یوں بے خبر امریکی عوام کی جیبوں سے اربوں ڈالر لوٹ لینے میں کامیاب رہیں۔ظاہر ہے ،سرعام انجام پائے اس ڈاکے میں امریکی حکومت کے کچھ اعلی افسر بھی جینرک ادویہ ساز کمپنیوں سے ملے ہوئے تھے،تبھی وہ لالچ وہوس پہ مبنی اپنا گھناؤنا کھیل کئی سال تک کھیلتی رہیں۔بظاہر ایک ترقی یافتہ اور قانون پسند ملک میں اگر یہ شاطرانہ کھیل کھیلا جا سکتا ہے تو ذرا سوچیے، غریب ملکوں میں لالچی کمپنیاں کیا گُل کھلاتی ہوں گی جہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے اور کرپشن کا چلن روک نہیں پاتی۔امریکا کے سخت قوانین اور مستعد وزارتیں بھی ڈاکہ زنی کرنے والی کمپنیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔

ایک باعزت پیشہ

انسان زمانہ قدیم سے ڈاکٹروں اور ادویہ بنانے والوں کو عزت واحترام سے دیکھتا چلا آرہا ہے ۔وجہ یہی کہ یہ لوگ بیمار اور مصیبت زدہ انسانوں کو تندرستی کا لازوال تحفہ دے کر دکھوں سے نجات دلاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ اچھی صحت دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے۔اور یہ بات سو فیصدی سچ ہے۔لیکن مادہ پرستی کے جدید زمانے میں بعض ڈاکٹر اور ادویہ ساز ادارے بھی زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے چکر میں اپنے پیشے کی اعلی اخلاقی اقدار فراموش کر چکے۔

یقیناً آج بھی شعبہ طب میں ہمدرد اور رحم دل لوگ موجود ہیں جو انسانیت کو پیسے پر ترجیح دیتے ہیں۔مثال کے طور پہ پہلی کوویڈ ویکسین بنانے والے مسلمان ترک نژاد جرمن جوڑے نے اعلان کیا کہ وہ اپنی ایجاد سے کوئی منافع کمانا نہیں چاہتے۔اسی لیے ان کی بنائی ویکسین کی قیمت 19.50 ڈالر رکھی گئی حالانکہ وہ سب سے موثر ویکسین ثابت ہو چکی۔اسی قسم کی ویکسین امریکی کمپنی،موڈرینا نے بھی بنائی ہے۔اس کی قیمت چالیس ڈالر ہے۔اس کے باوجود شعبہ طب میں ایسے لوگ بھی داخل ہو چکے جن کا مقصد حیات انسانیت کی خدمت کرنا اور اسے فائدہ پہنچانا نہیں زیادہ پیسہ کمانا ہے۔

مثال کے طور پر سننے میں آتا ہے کہ ادویہ ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو کمیشن دیتی، سیاحتی دورے کراتی اور دیگر نوازشات کی بارش کرتی ہیں،صرف اس لیے کہ وہ اپنے نسخوں میں ان کی ادویہ تجویز کر سکیں۔یہ شکایت بھی عام ہے کہ ڈاکٹر ایسے ٹیسٹ کراتے ہیں جن کی ضرورت نہیں ہوتی۔مقصد صرف مالی مفاد پورا کرنا ہے۔مریض کو گھیرنے اور اس سے زیادہ رقم نکلوانے کی مختلف نوعیت کی داستانیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ظاہر ہے،مسیحاؤں کی بابت ایسی باتیں سن کر انسان کو دھچکا لگتا ہے۔تب ہر باشعور آدمی سوچتا ہے کہ پیسہ کمانے کی خاطر آخر انسان کس حد تک گر سکتا ہے؟

حقیقی شیطانی اصلیت

یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکی عوام کو اربوں ڈالر کا ٹیکا لگانے والی جینرک ادویہ ساز کمپنیوں میں بیشتر اسرائیلی اور بھارتی ہیں۔امریکا 1948ء سے اسرائیل کا سرپرست بنا بیٹھا ہے جو فلسطینی عوام کا قاتل اور عالمی دہشت گرد ہے۔پچھلے پندرہ سال سے امریکی حکمران بھارت کے بھی کٹر حمایتی بن چکے۔بھارت کشمیری عوام کا قاتل اور دہشت گرد مملکت ہے۔دونوں ممالک کے حکمران طبقوں کے جرائم کسی سے پوشیدہ نہیں،مگر امریکی حکومت جمہوریت اور انسانی حقوق کی چیمپین ہونے کا دعوی کرتے ہوئے بھی ان ملکوں کے کرتوت پس پشت ڈال دیتی اور کھلی حمایت کرتی ہے۔اب انہی ممالک کی جینرک ادویہ ساز کمپنیوں نے امریکی عوام کو زبردست مالی رگڑا دے کر اپنی حقیقی شیطانی اصلیت دکھا دی۔

یہ اسرائیلی اور بھارتی ادویہ ساز کمپنیاں امریکی ویورپی کمپنیوں کے تعاون و اشتراک سے کئی سال امریکی عوام کو ٹھگتی رہیں۔ممکن تھا کہ ان کا طریق واردات مستور رہتا اور وہ لاکھوں امریکیوں کی جیبوں سے مذید اربوں ڈالر نکلوا کر اپنے وارے نیارے کر لیتیں۔یہ تو بھلا ہو کسی ''وسل بلوئر''کا جس نے جینرک ادویہ ساز کمپنیوں کے گٹھ جوڑ اور کارٹل سازی کی خبر امریکی سرکاری وکلا تک پہنچا دی۔ان وکلا میں انصاف پسند ،قانون نواز اور محب وطن لوگ بھی موجود تھے۔انھوں نے فوراً جینرک ادویہ ساز کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

امریکا میں مصروف کار ان ادویہ ساز کمپنیوں کے اسرائیلی و بھارتی مالکان اثرورسوخ والے تھے۔انھوں نے اپنی حکومتوں کی وساطت سے بھرپور کوششیں کیں کہ امریکی سرکاری وکلا اپنی چھان بین روک دیں مگر انھیں ناکامی ہوئی۔تاہم وہ امریکی میڈیا کو خریدنے میں کامیاب رہے۔یہی وجہ ہے،بہت کم امریکی ویورپی اخبارات اور ویب سائٹس نے جینرک ادویہ ساز کمپنیوں کے مہا اسکینڈل کی بابت خبریں اور مضامین شائع کیے۔اس مہم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ عام امریکیوں میں امریکا کے اتحادیوں،اسرائیل اور بھارت کے خلاف نفرت جنم نہ لے۔مگر کمپنیوں کے خلاف تحقیقات جاری رہیں۔وجہ یہ کہ اسیکنڈل اتنا بڑا تھا کہ اسے مکمل طور پہ پوشیدہ رکھنا امریکی حکمران طبقے کے بس کی بات نہ رہی۔

قانون حرکت میں

تفتیش کا آغاز امریکی ریاست کنیکٹیکٹ (Connecticut)سے ہوا کیونکہ اسی کے ریاستی اٹارنی جنرل کے دفتر میں جینرک ادویہ ساز کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کے بارے میں شکایات موصول ہوئی تھیں۔یہی کہ انھوں نے سازباز کر کے ادویہ کی قیمتیں بڑھا دیں۔ازروئے قانون ایسا عمل غیرقانونی تھا،اسی لیے قانون حرکت میں آ گیا۔تفتیش پھر رفتہ رفتہ دیگر امریکی ریاستوں تک پھیل گئی کیونکہ جینرک دوائیں خریدنے والے شہری پورے امریکا میں بستے ہیں۔ہر سال امریکی عوام کروڑوں جینرک ادویہ خریدتے ہیں کہ یہ برینڈڈ ادویہ سے سستی ہوتی ہیں۔

10مئی 2019کو ریاست کنیکٹیکٹکی وفاقی عدالت(فیڈرل کورٹ) میں تینتالیس امریکی ریاستوں کے اٹارنی جنرلوں نے مشترکہ طور پہ ''چھبیس ''جینرک ادویہ ساز کمپنیوں اور ان سے وابستہ ''نو''اعلی شخصیات کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔مقدمے میں مشہور جینرک کمپنیاں بھی ملوث تھیں مثلاً مائلن،ٹیوا اور بظاہر غیر معروف بھی جن میں سے بیشتر بھارت سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کمپنیوں اور شخصیات پر الزام تھا کہ انھوں نے کارٹل بنا کر دوسو ادویہ کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھا دیں تاکہ اپنے منافع میں اضافہ کر لیں۔یہ عمل سراسر غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا۔اس طرح دوا ساز کمپنیوں کو تو اربوں ڈالر کا مالی فائدہ ہوا مگر امریکی عوام گھاٹے میں رہے۔انھیں سستی ادویہ مہنگے داموں خریدنا پڑیں۔یوں جینرک ادویہ ساز کمپنیوں نے بڑے منظم اور سائینٹفک طریقے سے امریکی عوام کو دھوکا دیا اور ان کی جیبوں سے زائد اربوں ڈالر نکلوا اپنی تجوریاں بھر لیں۔امریکا میں یہ شعبہ طب کا سب سے بڑا مالی اسکینڈل ثابت ہوا۔

ادویہ سازی کی صنعت

آگے بڑھنے سے قبل ادویہ سازی کی مختصر تاریخ جان لیجیے۔زمانہ قدیم میں پہلے پہل جڑی بوٹیوں سے ادویہ بنائی گئیں۔چین،مصر،ہندوستان اور یونان کے حکما نے اس فن کو ترقی دی۔مسلم اطبا نے بھی تحقیق و تجربات سے نئی ادویہ تیار کیں۔سائنس وٹیکنالوجی کی بڑھوتری سے گولی(ٹیبلٹ)،سیرپ اور انجکشن ایجاد ہوئے۔انیسویں صدی میں یورپ وامریکا میں ادویہ سازی کی صنعت نے جنم لیا اور فیکٹریوں میں وسیع پیمانے پر قدرتی و مصنوعی (انسان ساختہ)کیمیائی اشیا سے دوائیں بننے لگیں۔

ادویہ ساز ادارے پھر تحقیق و تجربات کی مدد سے نئی دوائیں ایجاد کرنے لگے۔جو بھی نئی ''برینڈڈ''دوا وجود میں آتی،اسے پیٹنٹ کرا لیا جاتا۔مقصد یہ تھا کہ بنانے والی کمپنی کو یہ حق مل جائے کہ صرف وہی نئی دوا بنا کر مارکیٹ میں فروخت کرے گی۔یہ پیٹنٹ بیس تا پچیس سال برقرار رہتا ہے۔اس دوران کوئی دوسری کمپنی یہ دوا بنانے کی کوشش کرے تو پہلی اسے عدالت میں گھسیٹ سکتی ہے۔یہی وجہ ہے،بیسویں صدی کے اولیّں عشروں میں ادویہ ساز کمپنیوں کے مابین مختلف نئی دواؤں کے سلسلے میں مقدمے بازیاں جاری رہیں۔

اس زمانے میں چلن یہ تھا کہ کوئی دوا ساز ادارہ نئی ادویہ بناتا تو انھیں فورا مارکیٹ میں لے آتا۔اگر دوا کے ضمنی اثرات(سائیڈ ایفکٹس)سامنے نہ آتے تو اس کی فروخت جاری رہتی۔اگر منفی اثرات زیادہ رونما ہوتے تو دوا مارکیٹ سے اٹھا لی جاتی۔یہ طریق کار ظاہر ہے، نامناسب بلکہ انسان دشمن تھا۔اس کی خوفناکی جنگ عظیم دوم کے بعد سامنے آئی۔

نئے قوانین کا نفاذ

1959ء میں جرمنی کی دوا ساز کمپنی،گرونتھل نے ''کونٹرجن''(Contergan)کے نام سے ایک دوا متعارف کرائی جسے بے خوابی، کھانسی اور بخار دور کرنے والی ''کرشماتی دوا'' قرار دیا گیا۔مگر1961ء میں انکشاف ہوا کہ یہ دوا حاملہ خواتین کے بچوں میں پیدائشی نقائص جنم دیتی ہے۔دنیا بھر میں اس دوا سے دس ہزار بچے متاثر ہوئے۔ان میں سے چار ہزار پیدائشی نقائص کے سبب اللہ کو پیارے ہو گئے۔


کونٹروجن دوا نے جو تباہی پھیلائی،اسے دیکھ کر یورپ وامریکا کی حکومتوں نے شعبہ دوا سازی کو منظم کرنے کی خاطر نئے قوانین لاگو کر دئیے۔ ان قوانین کے ذریعے ادویہ ساز کمپنیوں پر لازم ہو گیا کہ وہ کوئی بھی نئی دوا مارکیٹ میں لانے سے قبل حکومتی اداروں کو یہ ثبوت پیش کریں کہ وہ کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔اور یہ کہ اس کے ضمنی اثرات اتنے زیادہ نہیں ہوں گے کہ وہ انسانی صحت کے لیے خطرہ بن جائیں۔

ان نئے قوانین کے بعد ہی ادویہ سازکمپنیاں اپنی نئی دوا کو تجربات کے تین چار مراحل سے گزارنے لگیں۔ان مراحل کے دوران دوا مختلف مردوزن پر آزمائی جاتی ہے۔اگر تجربات کے اختتام پر دوا کے مضر صحت اثرات سامنے نہ آئے تو اسے مارکیٹ میں لانا ممکن ہوتا ہے۔ان تجربات کا حکومتی اداروں سے منسلک سائنس داں اور ڈاکٹر عمیق جائزہ لیتے ہیں۔اگر ذرا سی بھی واضح خرابی جنم لے تو دوا کو مارکیٹ میں آنے سے روک دیا جاتا ہے۔

برینڈڈ دوا بنانے کا عمل

نئی دوا جو ''برینڈڈ''کہلاتی ہے،اسے بنانے کا عمل بڑا طویل اور مہنگا ہے۔پہلے لیبارٹریوں میں تحقیق کا عمل انجام پاتا ہے۔اس کے بعد تجربات کے مراحل شروع ہوتے ہیں۔اس پورے عمل پر آج کل ایک تا دو ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔اسی لیے کوئی کمپنی نئی دوا تیار کر لے تو اسے لازماً پیٹنٹ کراتی ہے ۔مقصد یہی کہ صرف اسی کو دوا مارکیٹ میں بیچنے کی اجازت مل جائے۔وہ اس کو بیچ کر معقول منافع کماتی ہے۔دوا کی تحقیق و تجربات پہ جو رقم لگتی ہے،وہ قیمت میں شامل کی جاتی ہے۔اسی لیے نئی دوا کی قیمت کافی زیادہ ہوتی ہے۔

جب برینڈڈ دوا کا پیٹنٹ ختم ہو جائے تو دیگر ادویہ ساز کمپنیاں بھی قوانین کے مطابق وہ دوا تیار کر سکتی ہیں۔ان کی بنائی دوا ''جینرک''کہلاتی ہے۔جینرک دوا برینڈڈ سے سستی ہوتی ہے۔وجہ یہی کہ انھیں بنانے والی کمپنیاں تحقیق وتجربات پر کوئی رقم خرچ نہیں کرتیں۔اسی لیے وہ اخراجات قیمت میں شامل نہیں کیے جاتے۔

نیا امریکی قانون

امریکا میں مگر 1983ء تک جینرک ادویہ بنانے والی کمپنیوں کو بھی حکومتی اداروں کے پاس تحقیق وتجربات کرنے کے ثبوت جمع کرانے ہوتے تھے،یہ کہ ان کی بنائی دوا محفوظ ہے اور مضر صحت اثرات نہیں رکھتی۔اسی باعث امریکا میں جینرک ادویہ کا چلن نہ ہونے کے برابر تھا۔تاہم 1983ء میں امریکی حکومت نے ایک قانون(ہیچ۔ویکسمین ایکٹ)متعارف کرا دیا۔اب کمپنی کو صرف یہ ثبوت دینا ہوتا ہے کہ اس کی جینرک دوا بھی برینڈڈ دوا جیسے اجزا و اثرات رکھتی ہے اور ان کی مقدار بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔یعنی جینرک دوا ہر لحاظ سے برینڈڈ دوا سے ممالثت رکھتی ہے۔فرق بس یہی کہ جینرک دوا تحقیق و تجربات کے طویل مرحلے سے نہیں گذرتی۔اسے برینڈڈ دوا کا نسخہ سامنے رکھ کر ہی تیار کیا جاتا ہے۔

نیا امریکی قانون منظور ہونے کے بعد یورپ، آسٹریلیا، جنوبی امریکا،ایشیا اور افریقا میں بھی کئی ممالک نے اسی قسم کے قوانین نافذ کر دئیے۔اس طرح جینرک ادویہ نے دنیا بھر میں بہت فروغ پایا اور انھیں بنانے والی مزید کمپنیاں سامنے آ گئیں۔آج پوری دنیا میں ہر سال ''387ارب ڈالر''کی جینرک ادویہ فروخت ہوتی ہیں۔یہ شعبہ تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔خیال ہے کہ 2030ء تک اس مارکیٹ کی قدروقیمت ''650ارب ڈالر''تک پہنچ جائے گی۔جینرک ادویہکی مقبولیت کا راز یہی ہے کہ یہ سستی ہوتی ہیں۔حقیتاً جینرک ادویہ بنانے والی کمپنیاں انھیں بنا کر کم آمدنی والے کروڑوں لوگوں کو یہ موقع دیتی ہیں کہ وہ بھی عمدہ علاج سے مستفید ہو سکیں۔ان کا مشن بہت بلند ومحترم ہے۔افسوس مگر یہی کہ اس شعبے میں بھی لالچی افراد جنم لے چکے جنھوں نے اسے بدنام کر دیا۔جینرک ادویہ بنانے والی دس بڑی کمپنیوں کے نام یہ ہیں:

(1)مائلن فاماسوٹیکل کمپنی Mylan(2)ٹیوا فارماسوٹیکلز Teva (3)نوا آرٹس انٹرنیشنل۔(4)سن فارماسوٹیکل انڈسٹریز لمٹیڈ۔(5)فائزر۔(6)فریسی نیوس میڈیکل کئیر۔Fresenius Medical Care(7)اربندو فارما۔Aurobindo Pharma(8)لیوپن۔Lupin(9)اسپین فارما Aspen Pharma اور (10) امنیل فارماسوٹیکلز۔Amneal Pharmaceuticals۔ان میں سے دوسری بڑی اسرائیلی ہے۔جبکہ چوتھی،ساتویں،آٹھویںاور دسویں بھارتی کمپنیاں ہیں۔پہلے نمبروالی کمپنی،مائلن میں بھی بہت سے بھارتی کام کرتے ہیں۔مائلن بھارت میں کئی جینرک کمپنیوں کی مالک ہے۔دیگر بڑی بڑی جینرک کمپنیوں میں تارو انٹرنیشنل(بھارتی)،گلین مارک(بھارتی)اور ڈاکٹر ریڈیز لیبارٹریز (بھارتی)شامل ہیں۔

منافع میں سے حصہّ

امریکی اٹارنی جنرل جینرک کمپنیوں کی ''پرائس فکسنگ''کے معاملے پر چار سال تک تحقیق و تفتیش کرتے رہے۔ان کی تحقیقات سے یہ حقائق طشت از بام ہوئے کہ پچھلے بیس برس سے امریکا میں جینرک ادویہ ساز کمپنیاں کارٹل بنا کر کاروبار کر رہی ہیں۔انھوں نے خفیہ طور پر آپس میں یہ طے کر لیا کہ کون سی کمپنی کتنی ادویہ مارکیٹ میں لائے گی اور ان کی قیمتیں کیا رکھی جائیں۔اس گٹھ جوڑ کا مقصد یہ تھا کہ ہر کمپنی کو کُل منافع میں سے ''معقول حصہ''(Fair share)مل سکے۔

چوری چھپے یہ اشتراک اسی لیے انجام پایا کہ جینرک کمپنیاں مارکیٹ میں ایک دوسرے سے مقابلے میں نہ آ سکیں۔اس مقابلے سے عموماً کمپنیوں کو مالی نقصان ہوتا ہے کہ انھیں اپنی ادویہ کی قیمتیں کم کرنا پڑتی ہیں تاکہ مارکیٹ میں اپنی بقا قائم رکھ سکیں۔مگر مقابلے بازی سے صارفین فائدے میں رہتے ہیں کہ انھیں ادویہ سستے داموں میسّر آتی ہیں۔ادویہ ہی نہیں سبھی عام استعمال کی اشیا بھی مقابلے بازی کے اسی ماحول میں فروخت ہوتی ہیں۔امریکا میں مگر جینرک ادویہ ساز کمپنیوں نے خفیہ گٹھ جوڑ سے آپس میں مقابلہ ہی ختم کر دالا اور کل منافع میں سے ہر کمپنی بقدر جثّہ اپنا حصہ وصول کرنے لگی۔

لالچی اسرائیلی اور بھارتی مالکان

امریکی اٹارنی جنرلوں کی چھان بین کے مطابق اسرائیلی اور بھارتی جینرک فارماسوٹیکل کمپنیوں کو یہ بندوبست پسند نہیں آیا۔ان کمپنیوں کے مالکان اپنا منافع بڑھانا چاہتے تھے۔انھوں نے پھر دیگر مغربی کمپنیوں کے مالکان کو یہ پٹی پڑھائی کہ انھیں ساز باز سے اپنی ادویہ کی قیمتیں بڑھا دینی چاہیں۔اس طرح خودبخود کمپنیوں کے منافع میں اضافہ ہو جاتا۔یہ مشورہ دیگر کمپنیوں کے مالکان اور اعلی قیادت نے قبول کر لیا۔چناں 2010ء کے بعد کمپنیاں اپنی ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ کرنے لگیں۔

جینرک ادویہ ساز کمپنیوں کے اس غیرقانونی اور ناجائز عمل میں اسرائیلی کمپنی،ٹیوا فارماسوٹیکلز اور بھارت کی کمپنی،سن فارماسوٹیکل سرفہرست تھیں۔صد افسوس کہ ان کی زیرقیادت جینرک ادویہ ساز کمپنیوں نے صارفین کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اپنا منافع سراسر غیرقانونی طریقے سے بڑھانے کو ترجیع دی۔گویا ان کمپنیوں کے کرتا دھرتا لالچ و ہوس میں آ کر ہمدردی،رحم،سادگی اور قناعت جیسی اعلی انسانی صفات فراموش کر بیٹھے۔

ٹیوا انٹرنیشنل کی بنیاد جرمنی سے مقبوضہ فلسطین آئے ایک یہودی مہاجر،گنتھر فرائیڈ لینڈز نے 1935ء میں رکھی۔آج یہ کمپنی شمالی امریکا،یورپ،آسٹریلیا اور جنوبی امریکا میں بڑے پیمانے پر جینرک و برینڈڈ ادویہ فروخت کرتی ہے۔ہیڈکوارٹر اسرائیل میں ہے۔یہ کمپنی تقریباً ڈیرھ سو جینرک ادویہ بناتی ہے۔اس کا شمار دنیا کی پندرہ بڑی ادویہ ساز کمپنیوں میں ہوتا ہے۔اس میں 41 ہزار افراد ملازم ہیں۔

سن فارماسوٹیکل انڈسٹریز کی بنیاد ایک گجراتی کاروباری،دلیپ شانگھوی نے 1983ء میں رکھی۔ آج اس کمپنی کے کارخانے بھارت، اسرائیل، امریکا، برازیل،میکسیکو اور دیگر ممالک میں کام کر رہے ہیں۔یہ دنیا بھر میں دو سو سے زائد جینرک ادویہ فروخت کرتی ہے۔کمپنی میں 36 ہزار مردوزن کام کرتے ہیں۔امریکا میں تارو فارماسوٹیکل کمپنی کی بھی یہی مالک ہے۔تارو پہلے اسرائیلی تھی پھر دلیپ شانگھوی نے اس کے حصص خرید لیے۔

امریکی اٹارنی جنرلوں نے وفاقی عدالت میں اپنی جو رپورٹ پیش کی،اس کے مطابق پرائس فکسنگ اسکینڈل میں اپنا کردار ادا کرتے اور امریکی عوام کو لوٹتے ہوئے 2010ء تا 2015ء ٹیوا انٹرنیشنل نے اپنی ''107''ادویہ کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کیا۔دیگر کمپنیوں کی صورت حال یہ رہی:مائلن(36 ادویہ)،نواآرٹس(31)،تارو انٹرنیشنل(17)،گلین مارک(10)،ڈاکٹر ریڈیز لیبارٹریز(5)اور لینٹ(2)۔

جرم کا کاغذی ثبوت نہیں

جن ادویہ ساز کمپنیوں نے ناجائز طور پہ کمائی کرنے کی خاطر کارٹل بنایا،وہ امراض قلب،ذیابیطس،فالج،کینسر،ہائپرٹینشن،سر درد،بخار اور دیگر روزمرہ بیماریوں کی جینرک دوائیں بناتی ہیں۔ان میں سے بیشتر ادویہ کمپنیوں نے اپنے گٹھ جوڑ کی بدولت کئی گنا مہنگی کر دیں۔امریکی اٹارنی جنرلوں نے بڑی محنت اور جستجو سے تیار کردہ اپنی رپورٹ میں لکھا:

''جینرک کمپنیوں کی اعلی قیادت کو علم تھا کہ وہ غیرقانونی کام کر رہی ہیں۔اسی لیے انھوں نے اپنے خفیہ منصوبے کے بارے میں ایک کاغذ تک تیار نہیں کیا۔بلکہ وہ ٹیلی فون کالز،ٹیکسٹ میسجز،ای میل اور ہوٹلوں میں دی گئی شاہانہ دعوتوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں رہے۔ادویہ کی من مانی قیمتیں مقرر کر کے صحت مند مسابقت سے اجتناب کرتے رہے۔انھوں نے ہر قانون سے بچنے کے لیے ہر ممکن راہ اپنائی۔''

مئی2019ء کے بعد تین امریکی ریاستوں کی وفاقی عدالتوں میں بھی جینرک ادویہ ساز کمپنیوں پہ مقدمے کھڑے کر دئیے گئے۔ان تینوں مقدمات میں بھی کمپنیوں پر الزام ہے کہ انھوں نے بڑے عیارانہ طریقے سے جینرک دواؤں کی قیمتیں بڑھا دیں اور یوں عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ان مقدموں کے بعد نواآرٹس اور بعض دیگر کمپنیوں نے جرمانہ ادا کر کے اپنا جرم قبول کر لیا۔مگر ٹیوااور بھارتی جینرک ادویہ ساز کمپنیوں کا دعوی ہے کہ انھوں نے کوئی کارٹل نہیں بنایا ۔ان سب پر امریکی وفاقی عدالتوں میں مقدمے چل رہے ہیں۔

پیسا نہیں انسانی زندگی اہم

پاکستان میں بھی کچھ کمپنیوں کے کارٹل بنتے اور ٹوٹتے رہے ہیں۔حتی کہ بعض لالچی کمپنیاں ادویہ کی قیمتیں چیک کرنے والے سرکاری ادارے کے اعلی افسروں کی ملی بھگت سے اپنی دواؤں کی قیمتیں بڑھاتی رہیں۔مثلاً نومبر 2016ء میں نیب نے ڈی آر اے پی(ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان)کے ایڈیشنل سیکرٹری،ارشد فاروق کو گرفتار کر لیا تھا۔ان پر الزام تھا کہ انھوں نے آٹھ پاکستانی کمپنیوں سے بھاری رشوت لے کر ناجائز طور پہ دواؤں کی قیمت بڑھانے کی اجازت دے دی۔

یوں کمپنیوں نے سوا ارب روپے کا منافع کما لیا۔یہ رقم مہنگی دوائیں بیچ کرکمائی گئی۔تازہ خبروں کی رو سے کوویڈ 19وبا پھیلنے کے بعد پچھلے ایک برس میں پاکستان میں فارماسوٹیکل کمپنیاں ادویہ کی قیمتوں میں ''15فیصد''اضافہ کر چکیں۔حکومت پاکستان کو تحقیق کرنی چاہیے کہ اس اضافے میں کوئی ناجائز عمل تو نہیں اپنایا گیا؟دعا ہے کہ رب کائنات سبھی کمپنیوں کی اعلی قیادت کو راہ ِمستقیم پر چلنے کی ہدایت دیں اور یہ سوچ وفکر بھی عطا کریں کہ دنیا میں پیسا نہیں ایک انسانی زندگی کو محفوظ رکھنا بنیادی امر ہے۔
Load Next Story