بُک شیلف
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر عرفان نے نائول کے ترجمے کا حق ادا کردیا ہے
اورخان الغازی
مصنف: قمراجنالوی، قیمت :900 روپے
ناشر: مکتبۃ القریش ، اردو بازار لاہور ، رابطہ نمبر: 042-37652546
یہ داستان شجاعت سلطنت عثمانیہ کے معمار اول کی ہے جو جذبہ جہاد سے بھرپور اور ایمان افروز ہے۔یہ ایک تاریخ بھی ہے اور ایک ناول بھی جو دوحصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ ' تاریخ و حکایہ ' ہے جو عثمانی ترکوں کے خروج و عروج کی مختصر اور مرحلہ وار تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ میں آپ کو ایک ناول کی سی دلچسپی محسوس ہوگی۔ دوسرا حصہ باقاعدہ ایک ناول ہے۔
' تاریخ و حکایہ ' کے ضمن میں قیصروں کے شہر، قسطنطنیہ کا ایک تاریخی خاکہ اور اس شہر پر مسلمانوں کے عہد بہ عہد حملوں کی روداد بھی شامل کی گئی ہے۔اس سے جہاد قسطنطنیہ کا مطلب و مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ آغاز اسلام ہی سے یہ شہر اہل صلیب کا مرکز اور مسلمانوں کے خلاف مہمات کا سب سے بڑا معسکر رہا ہے لیکن اس کی قسمت میں دولت عثمانیہ کا پایہ تخت اور اسلامی دارالخلافت ہونا لکھا تھا، بعدازاں اس نے ' اسلام بول ' یا ' استنبول ' کے نئے نام سے شہرت دوام پائی۔
آج کل پاکستان سمیت دنیا کے کئی ایک معاشروں میں ' ارطغرل غازی ' کے نام سے ٹی وی سیریل دکھائی جارہی ہے۔ اس تناظر میں زیرنظرتصنیف کا مطالعہ عجب لطف اور سرشاری عطا کرتا ہے، اس میں عثمانی ترکوں کی ابتدائی تاریخ، تہذیب ، معاشرت ، زبان اور اسلام سے ان کی گہری وابستگی کے بارے میں بیش بہا معلومات فراہم کی گئی ہیں۔قمر اجنالوی کا نام ان چند ایک تاریخی ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھیں یہاں نسل در نسل مطالعہ کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے ناولوں میں بے مثل سسپنس ہوتا ہے۔ پڑھتے ہوئے قاری سانس لینا بھول جاتا ہے اور پھر سانس میں سانس تب آتی ہے جب کہانی ختم ہوتی ہے ۔ خوبصورت ٹائٹل، مضبوط جلد، عمدہ طباعت... مکتبہ القریش نے قابل قدر خدمت سرانجام دی ہے۔
بابا گرونانک
مصنف : پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی، قیمت : 999 روپے
ناشر: بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
بابا گرونانک کہتے تھے کہ خدا ایک ہی ہے۔ سکھ اسی خدا کو '' سچا نام '' کہتے ہیں۔ نانک جی نے یہ بھی تعلیم دی کہ '' سچا نام '' پوری کائنات کا خالق ہے اور یہ کہ بنی نوع انسان خدا کی سب سے اعلیٰ تخلیق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف خدائے واحد و حی و قیوم و رحیم کی یاد ہر وقت رکھو اور ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھو ۔ انھوں نے ' واہگرو' کا لفظ مسلمانوں اور ہندوئوں کی زبانوں سے حاصل کیا یعنی اس وقت کے مسلمانوں کی زبان فارسی سے ' واہ ' کا لفظ لیا اور ہندئووں کی سنسکرت زبان سے ' گرو' لیا۔ ' واہگرو' سے مراد ' اللہ تعالیٰ ' ہے۔ انھوں نے دونوں اقوام کو اپنا مخاطب بنایا۔
گرونانک نے ہندوئوں اور مسلمانوں ، دونوں کی رواج پرستی اور فضول رسومات کی مذمت کرتے ہوئے نہایت آسان اور سادہ تعلیمات بیان کیں۔ ان کی تعلیمات کا ایک اہم حصہ امن پسندی تھی، اپنے پیروکاروں کو اسی نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کی۔ ان کی تعلیمات دیکھ کر بعض محققین کا خیال ہے کہ بابا گرونانک نے اسلام قبول کرلیا تھا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی تعلیمات پر اسلام کی چھاپ تھی، اور یہ کہ وہ ہندو ہی تھے البتہ انھوں نے ہندئووں میں اصلاحی تحریک چلائی جسے ' سکھ مت ' کا نام دیاگیا۔ حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہی کتاب ہے جس میں بابا گرونانک کی حیات و تعلیمات کی تفصیل دی گئی ہے۔ 'جنم ساکھیاں اور حیات گرونانک جی' ، ' پیدائش '، 'جوانی'، 'نانکی کی شادی اور سلطان پور کا سفر' ، 'شہرت کا آغاز ' ، ' بابا گرونانک کے اسفار'، ' تیسرا اور چوتھا سفر' ،' ہندو دھرم کے عقائد اور گرونانک جی'، 'عقائد اسلام اور گرونانک جی' ،' ارکان اسلام اور گرونانک جی'، 'تخلیقات بابا گرونانک'، 'منتخب کلام گرونانک' ،' جپ جی' ،' گرونانک جی کی قدیم تصاویر'۔
ان عنوانات سے کتاب کی اہمیت اور اس کی تفصیل کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ فاضل مصنف نے سکھ مت کی تحریک کے بانی کے حالات ، کارنامے اور سکھ مت تحریک کے فلسفہ و عقائد کو بغیر رنگ آمیزی کے بلاکم و کاست بیان کیا ہے تاکہ کسی کی دل آزادی نہ ہو۔ اردوخواں طبقہ بابا گرو نانک کو سمجھنا چاہے تو اس سے بہتر کتاب شاید ہی ملے ۔
اسے پرواز کر نے دو
مصنف: ضیاء الدین یوسفزئی
2001ء کا سال پاکستان کے علاقے سوات میں طالبان کے عروج کا دور تھا۔ سوات اور وسیع و عریض ملحقہ علاقوں پر حکومت پاکستان کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ جنوری 2009 کو طالبان نے مینگورہ میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھا کہ 15 جنوری کے بعد کوئی لڑکی اسکول نہیں جائے گی۔
جن لوگوں کے وسائل اجازت دیتے تھے، اپنے خاندانوں کے ساتھ ملک کے پُر امن علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ طالبان اپنے اس اعلان سے قبل لڑکیوں کے سو سے زائد اسکولوں کو بارود سے اُڑا چکے تھے لیکن ایسے ہولناک ماحول میں ایک تنہا لڑکی ملالہ یوسفزئی اپنے الفاظ کے ساتھ ان غیر انسانی کارروائیوں کے خلاف جہاد کرتی رہی حتیٰ کہ اس پُرامن مزاحمت کے نتیجے میں وہ علم دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر قریب قریب موت کے مُنہ میں جاچکی تھی لیکن رب تعالیٰ نے اس کی زندگی بچالی۔ یہ لڑکی آج ایک عالمی سطح کی شخصیت بن چکی ہے۔
پاکستان میں ابتدائی آپریشن کے بعد ملالہ کو برطانیہ منتقل کردیا گیا جہاں وہ کوئن الزبتھ ہاسپٹل برمنگھم میں زیر علاج رہیں اور مکمل صحت یاب ہوگئیں۔ ملالہ کو بجا طور پر اُس وقت دنیا کی مقبول ترین ٹین ایجر قرار دیا گیا۔ 2014 میں ملالہ کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ 2012 میں اُن کی کتاب I am Malala سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں شمار ہوئی۔ جس کی یہ شریک مصنفہ تھیں۔ سوات میں طالبان کی یورش کے عرصہ میں بی بی سی اُردو ویب سائٹ پر ملالہ کے لکھے بلاگ بدترین جبر کے خلاف جدوجہد کا توانا اظہار بن گئے تھے۔
زیر نظر کتاب ''مجھے پرواز کرنے دو،، دراصل ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسفزئی کی کتاب Let Her Fly کا اُردو ترجمہ ہے جو انہوں نے لوئس کارپینٹر کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔ اس کتاب کو اُردو زبان میں منتقل کرنے کا اہم کام فضل ربی راہی نے بخوبی انجام دیا ہے۔ اس کتاب کا دنیا کی دیگر اہم زبانوں میں ترجمہ پہلے ہی کیا جاچکا تھا حالانکہ اُردو ترجمہ سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا۔ خیر اب یہ دلچسپ کتاب اُردو سمجھنے والے لوگوں کی دسترس میں ہے۔ ممتاز لوگوںں کی زندگی کی کہانیاں ہمیشہ دلچسپ ہوتی ہیں اور ان میں لوگوں کے لئے بڑی کشش ہوتی ہے۔
یہ کتاب اُس خاندان کی کہانی ہے ملالہ یوسفزئی جس کا حصہ ہے، جو یقینا پاکستان کے لوگوں کے لئے دلچسپی کا سامنا رکھتی ہے۔ کتاب میں رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ پیشکش کا معیار بہت اچھا ہے جسے شعیب سنز پبلشرز اینڈ بُک سیلرز نے شائع کیا ہے جبکہ اس کے ڈسٹری بیوٹر ٹی اینڈ ٹی پبلشرز بنک کالونی سمن آباد لاہور 03004191687 ہیںاور المیزان پبلشرزالکرم مارکیٹ اردو بازار لاہور، رابطہ: 042-37122981۔ قیمت 500/- روپے ہے۔
سمندر بیتی
مصنف: ظہیر قریشی
کہتے ہیں، سیاحت محض مختلف مقامات کو دیکھنے کا نام نہیں بلکہ یہ تو ایک مسلسل تبدیلی کا سفر ہے، جو انسان کے طرز زندگی کو بہت گہرائی سے اور مستقل بنیادوں پر ایک نیا رخ دے دیتا ہے۔ سفرنامے دنیا کی دلچسپ ترین کتابیں ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اچھا سفرنامہ تجسس پیدا کرتا ہے اور تجسس کی تشفی بھی کرتا ہے۔
یہ بات بھی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ انسانی تہذیب کے ارتقاء میں سب سے کلیدی کردار نئی دنیاوں کی کھوج کرنے کی غرض سے اختیار کئے جانے والے سمندری سفروں نے کیا۔ وہ برصغیر ہو یا پھر دنیا سے الگ تھلگ امریکہ کی سر زمین کی رونمائی، نئی زمینیں دریافت کرنے کی دُھن میں مگن جہاز رانوں کی جدوجہد کا ثمر ہے، زیر نظر کتاب ''سمندر بیتی،، بھی ایک جہاز راں کی سمندروں کے ساتھ رفاقت کی کہانی ہے۔ کتاب کے مصنف ظہیر قریشی نے زندگی پر طاری جمود سے جان چھڑانے کے لئے اپنے پیشے میں تبدیلی کا مشکل فیصلہ کیا اور انتہائی صبر آزما جدوجہد کے بعد مال بردار بحری جہازوں پر ریڈیو آفیسر کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
سمندری سیاحت کا بیان ایک مشکل اور نایاب موضوع ہے، بالخصوص پاکستان اور خطے کے ممالک میں بہت کم لوگوں کو سمندر سے واسطہ پڑتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہمارے ادب میں ایسی تحریریں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں جن کا تعلق سمندری سفر کے ساتھ ہو۔ زیر نظر کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی ایک سمندری سفر کی روداد نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے روزنامچے کے اوراق ہیں جس کا اُوڑھنا بچھونا ہی سمندر ہے۔
وہ مسلسل سمندر کے سینے پر محو سفر ہے اور جہاں کہیں مختصر پڑائو ہوتا ہے وہاں کے نادر ،نایاب تجربات اور اپنے احساسات کا اظہار خوبصورت انداز میں کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات بہت کم سفرناموں میں محسوس ہوتی ہے کہ مصنف اپنے قاری کو اُن احساسات سے روشناس کرا دے جن کا تجربہ اُسے خود حاصل ہوا ہو، ظہیر قریشی بجا طور پر اپنی اس کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ کتاب میں ان سفری تجربات کی جھلک دکھانے والی رنگین تصاویر بھی شامل ہیں اس مجلد کتاب کی پیشکش کا معیار شاندار ہے۔ سیر و سیاحت اور دنیا کی معلومات کے بارے میں دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات کے لئے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔ اس کتاب کو فیروز سنز لاہور نے شائع کیا ہے جبکہ اس کے ڈسٹری بیوٹر ٹی اینڈ ٹی پبلشرز بنک کالونی سمن آباد لاہور03004191687 ہیں۔ قیمت500 روپے ہے۔
ایک سوال ( ناول)
مصنفہ : امرتا پریتم ، قیمت : 400 روپے
ناشر... بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
زیرنظر ناول کے ہیرو جگدیپ کی کہانی اور امرتا پریتم کی کہانی ایک جیسی ہے۔ امرتا پریتم بتاتی ہیں:'' پورے گیارہ سال کی نہیں تھی جب ماں فوت ہوئی۔ ماں کی زندگی کا آخری دن چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کے ساتھ میری یاد میں محفوظ ہے۔ ' ایک سوال ' ناول میں ناول کا ہیرو جگدیپ مر رہی ماں کے بستر کے پاس جس طرح کھڑا ہے، اسی طرح میں اپنی مر رہی ماں کے بستر کے پاس کھڑی تھی اور میں نے جگدیپ کی مانند دل اور ذہن کی یکسوئی کے ساتھ خدا سے کہا تھا :
'' میری ماں کو نہ مارنا '' اور مجھے بھی اس کی طرح یقین ہوگیا تھا کہ اب میری ماں نہیں مرے گی کیونکہ خدا بچوں کا کہنا نہیں ٹالتا ، لیکن ماں مرگئی تھی اور میرا بھی جگدیپ کی طرح خدا پر سے اعتقاد اٹھ گیا تھا اور جس طرح جگدیپ اس ناول میں ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی اور ایک طاق پر رکھی ہوئی دو سوکھی روٹیوں کو اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیتا ہے، ان روٹیوں کو تھوڑا تھوڑا کرکے کئی دن کھائوں گا ، اسی طرح میں نے ان سوکھی روٹیوں کو پیس کر ایک شیشی میں ڈال لیا تھا۔'' کیا کمال محبت ہے ماں سے اور ماں کی ممتا تو ہوتی ہی کمال پر ہے، اس کا نظارہ بھی دیکھیں گے آپ اس ناول میں ۔
اس ناول میں آپ کو رشتوں کے درمیان وہی پرانی ، اصلی ، خالص محبت نظر آئے گی ۔ آپ اس محبت کو پڑھیں گے تو سرشار ہو جائیں گے ۔ محبت تو ہوتی ہی خوبصورت ہے لیکن اس ناول میں محبت اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔ جب ناول کا ہیرو اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی بھرپور جوان سوتیلی ماں کی اپنے ہاتھ سے اس کی من چاہی شادی کر لیتا اور پرُشباب لڑکی تھالی میں روٹی پروس کر کہتی '' آئو ماں بیٹا مل کر کھائیں ۔''
تو وہ روٹی کا پہلا لقمہ توڑتے ہوئے کہتا ہے:
'' پہلے یہ بتائو کہ تم میری ماں لگتی ہو یا بہن لگتی ہو یا میری بیٹی لگتی ہو؟
کیا عجب مکالمہ ہے، جو امرتا پریتم ہی کو سوجھ سکتا ہے۔ یہ ناول ایسے شاندار مکالموں سے بھرا پڑا ہے۔
ہیرو جگدیپ رشتوں سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ ان سے محروم ہونا برداشت نہیں کر پاتا ۔ اس تناظر میں خدا سے بھی ناراض ہوتا ہے۔ ماں کے بعد ' ریکھا ' سے محروم ہوتا ہے تو وہ خدا سے مزید ناراض ہو جاتا ہے۔ آپ کو اس پورے ناول میں رشتوں کے ساتھ بھرپور اخلاص نظر آئے گا، یہی اخلاص معاشرے کو خوبصورتی سے بھر دیتا ہے۔ آپ یہ خوبصورتی دیکھنا چاہیں، اس سے لطف اندوز ہونا چاہیں تو ' ایک سوال ' پڑھنا نہ بھولیے گا۔ ( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)
ٹرین ٹو پاکستان
خشونت سنگھ کا شمار بھارت میں چند سب سے زیادہ پڑھے جانے والے لکھاریوں میں ہوتا ہے یہ ایک غیر معمولی بات رہی ہے کہ جس قدر پذیرائی ان کی ادبی تخلیقات کو حاصل ہوئی اسی قدر ہر دلعزیزی ان کے کالم نگاری کو بھی حاصل رہی۔ بھارت کے ایک سے زیادہ اخبارات ان کے کالموں کو اپنے صفحات پر جگہ دیتے رہے۔
خشونت سنگھ نے مصنف، سفارتکار، صحافی اور سیاست دان کی حیثتوں میں نیک نامی کمائی۔وہ پاکستان کے ضلع خوشاب کے گائوں ہڈالی میں پیدا ہوئے اور آخری سانسوں تک اپنی جنم بھونی کے عشق میں گرفتار رہے۔ 1986 میں پاکستان آئے اور اپنے گائوں کا دورہ کیا۔ ا پنی زندگی میں اُن کی 40 سے زائد کتب شائع ہوئیں جن میں سے 1956 میں شائع ہونے والے ناول ٹرین ٹو پاکستان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی جو برصغیر کی تقسیم کے دوران ہونے والی مارا ماری کے پس منظر میں لکھا گیا۔
زیر تبصرہ کتاب دراصل خشونت سنگھ کے اسی نائول کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ کسی تحریر کو دوسری زبان میں منتقل کرنا تخلیق سے کم تر درجے کا کام نہیں ہوتا لیکن اگر ترجمہ کسی ادب پارے کا کیا جانا ہو تو معاملہ کہیں زیادہ نازک اور حساس ہوجاتا ہے۔ رپورٹوں اور معلومات کا ترجمہ سہل ہوتا ہے لیکن جب انسانی جذبات و احساسات کو ایک مخصوص سماجی اور ثقافتی پس منظر کے ساتھ پڑھنے والوں تک منتقل کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہتی۔ اس نائول کے ترجمہ کا بار گراں ڈاکٹر عرفان احمد خان نے اٹھایا ہے اور اسے انتہائی خوبی سے تکمیل تک پہنچایا ہے۔ ڈاکٹر عرفان مضبوط ادبی تعارف رکھتے ہیں اور خود 22 کتب تصنیف کرچکے ہیں جن میں ان کے اپنے ناول، طنز و مزاح، تراجم، خاکے/ مضامین غرض سبھی کچھ شامل ہے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر عرفان نے نائول کے ترجمے کا حق ادا کردیا ہے خوشونت سنگھ کا تقریبا تمام کام انگریزی میں ہے لیکن اپنے پنجابی پس منظر کی وجہ سے ضروری ہے کہ ان کے کام کے مقامی زبانوں میں تراجم سامنے لائے جائیں اس حوالے سے ڈاکٹر عرفان کی یہ کاوش قابل ستائش ہے۔ قبل ازیں خوشونت سنگھ کے ناول دلی کو اُردو میں منتقل کرنے کا کام انجام دے چکے ہیں۔ جو 1998ء میں شائع ہوا تھا۔ ٹرین ٹو پاکستان کا پہلا ایڈیشن 2005 میں چھپا تھا جبکہ اس برس اس نائول میں تقسیم کے دور کی نادر تصاویر بھی شامل کردی گئی ہیں۔ نائول کی پیشکش کا معیار شاندار ہے۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات اس نائول کو ضرور پڑھنا چاہیں گے۔
اسے ٹی اینڈ ٹی پبلشرز بنک کالونی سمن آباد لاہور سے حاصل کیا جا سکتا ہے ، رابطہ: 0332-4822090 042-37352332, ، قیمت 800 روپے ہے۔
( تبصرہ نگار: غلام محی الدین)
مصنف: قمراجنالوی، قیمت :900 روپے
ناشر: مکتبۃ القریش ، اردو بازار لاہور ، رابطہ نمبر: 042-37652546
یہ داستان شجاعت سلطنت عثمانیہ کے معمار اول کی ہے جو جذبہ جہاد سے بھرپور اور ایمان افروز ہے۔یہ ایک تاریخ بھی ہے اور ایک ناول بھی جو دوحصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ ' تاریخ و حکایہ ' ہے جو عثمانی ترکوں کے خروج و عروج کی مختصر اور مرحلہ وار تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ میں آپ کو ایک ناول کی سی دلچسپی محسوس ہوگی۔ دوسرا حصہ باقاعدہ ایک ناول ہے۔
' تاریخ و حکایہ ' کے ضمن میں قیصروں کے شہر، قسطنطنیہ کا ایک تاریخی خاکہ اور اس شہر پر مسلمانوں کے عہد بہ عہد حملوں کی روداد بھی شامل کی گئی ہے۔اس سے جہاد قسطنطنیہ کا مطلب و مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ آغاز اسلام ہی سے یہ شہر اہل صلیب کا مرکز اور مسلمانوں کے خلاف مہمات کا سب سے بڑا معسکر رہا ہے لیکن اس کی قسمت میں دولت عثمانیہ کا پایہ تخت اور اسلامی دارالخلافت ہونا لکھا تھا، بعدازاں اس نے ' اسلام بول ' یا ' استنبول ' کے نئے نام سے شہرت دوام پائی۔
آج کل پاکستان سمیت دنیا کے کئی ایک معاشروں میں ' ارطغرل غازی ' کے نام سے ٹی وی سیریل دکھائی جارہی ہے۔ اس تناظر میں زیرنظرتصنیف کا مطالعہ عجب لطف اور سرشاری عطا کرتا ہے، اس میں عثمانی ترکوں کی ابتدائی تاریخ، تہذیب ، معاشرت ، زبان اور اسلام سے ان کی گہری وابستگی کے بارے میں بیش بہا معلومات فراہم کی گئی ہیں۔قمر اجنالوی کا نام ان چند ایک تاریخی ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھیں یہاں نسل در نسل مطالعہ کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے ناولوں میں بے مثل سسپنس ہوتا ہے۔ پڑھتے ہوئے قاری سانس لینا بھول جاتا ہے اور پھر سانس میں سانس تب آتی ہے جب کہانی ختم ہوتی ہے ۔ خوبصورت ٹائٹل، مضبوط جلد، عمدہ طباعت... مکتبہ القریش نے قابل قدر خدمت سرانجام دی ہے۔
بابا گرونانک
مصنف : پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی، قیمت : 999 روپے
ناشر: بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
بابا گرونانک کہتے تھے کہ خدا ایک ہی ہے۔ سکھ اسی خدا کو '' سچا نام '' کہتے ہیں۔ نانک جی نے یہ بھی تعلیم دی کہ '' سچا نام '' پوری کائنات کا خالق ہے اور یہ کہ بنی نوع انسان خدا کی سب سے اعلیٰ تخلیق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف خدائے واحد و حی و قیوم و رحیم کی یاد ہر وقت رکھو اور ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھو ۔ انھوں نے ' واہگرو' کا لفظ مسلمانوں اور ہندوئوں کی زبانوں سے حاصل کیا یعنی اس وقت کے مسلمانوں کی زبان فارسی سے ' واہ ' کا لفظ لیا اور ہندئووں کی سنسکرت زبان سے ' گرو' لیا۔ ' واہگرو' سے مراد ' اللہ تعالیٰ ' ہے۔ انھوں نے دونوں اقوام کو اپنا مخاطب بنایا۔
گرونانک نے ہندوئوں اور مسلمانوں ، دونوں کی رواج پرستی اور فضول رسومات کی مذمت کرتے ہوئے نہایت آسان اور سادہ تعلیمات بیان کیں۔ ان کی تعلیمات کا ایک اہم حصہ امن پسندی تھی، اپنے پیروکاروں کو اسی نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کی۔ ان کی تعلیمات دیکھ کر بعض محققین کا خیال ہے کہ بابا گرونانک نے اسلام قبول کرلیا تھا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی تعلیمات پر اسلام کی چھاپ تھی، اور یہ کہ وہ ہندو ہی تھے البتہ انھوں نے ہندئووں میں اصلاحی تحریک چلائی جسے ' سکھ مت ' کا نام دیاگیا۔ حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہی کتاب ہے جس میں بابا گرونانک کی حیات و تعلیمات کی تفصیل دی گئی ہے۔ 'جنم ساکھیاں اور حیات گرونانک جی' ، ' پیدائش '، 'جوانی'، 'نانکی کی شادی اور سلطان پور کا سفر' ، 'شہرت کا آغاز ' ، ' بابا گرونانک کے اسفار'، ' تیسرا اور چوتھا سفر' ،' ہندو دھرم کے عقائد اور گرونانک جی'، 'عقائد اسلام اور گرونانک جی' ،' ارکان اسلام اور گرونانک جی'، 'تخلیقات بابا گرونانک'، 'منتخب کلام گرونانک' ،' جپ جی' ،' گرونانک جی کی قدیم تصاویر'۔
ان عنوانات سے کتاب کی اہمیت اور اس کی تفصیل کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ فاضل مصنف نے سکھ مت کی تحریک کے بانی کے حالات ، کارنامے اور سکھ مت تحریک کے فلسفہ و عقائد کو بغیر رنگ آمیزی کے بلاکم و کاست بیان کیا ہے تاکہ کسی کی دل آزادی نہ ہو۔ اردوخواں طبقہ بابا گرو نانک کو سمجھنا چاہے تو اس سے بہتر کتاب شاید ہی ملے ۔
اسے پرواز کر نے دو
مصنف: ضیاء الدین یوسفزئی
2001ء کا سال پاکستان کے علاقے سوات میں طالبان کے عروج کا دور تھا۔ سوات اور وسیع و عریض ملحقہ علاقوں پر حکومت پاکستان کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ جنوری 2009 کو طالبان نے مینگورہ میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھا کہ 15 جنوری کے بعد کوئی لڑکی اسکول نہیں جائے گی۔
جن لوگوں کے وسائل اجازت دیتے تھے، اپنے خاندانوں کے ساتھ ملک کے پُر امن علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ طالبان اپنے اس اعلان سے قبل لڑکیوں کے سو سے زائد اسکولوں کو بارود سے اُڑا چکے تھے لیکن ایسے ہولناک ماحول میں ایک تنہا لڑکی ملالہ یوسفزئی اپنے الفاظ کے ساتھ ان غیر انسانی کارروائیوں کے خلاف جہاد کرتی رہی حتیٰ کہ اس پُرامن مزاحمت کے نتیجے میں وہ علم دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر قریب قریب موت کے مُنہ میں جاچکی تھی لیکن رب تعالیٰ نے اس کی زندگی بچالی۔ یہ لڑکی آج ایک عالمی سطح کی شخصیت بن چکی ہے۔
پاکستان میں ابتدائی آپریشن کے بعد ملالہ کو برطانیہ منتقل کردیا گیا جہاں وہ کوئن الزبتھ ہاسپٹل برمنگھم میں زیر علاج رہیں اور مکمل صحت یاب ہوگئیں۔ ملالہ کو بجا طور پر اُس وقت دنیا کی مقبول ترین ٹین ایجر قرار دیا گیا۔ 2014 میں ملالہ کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ 2012 میں اُن کی کتاب I am Malala سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں شمار ہوئی۔ جس کی یہ شریک مصنفہ تھیں۔ سوات میں طالبان کی یورش کے عرصہ میں بی بی سی اُردو ویب سائٹ پر ملالہ کے لکھے بلاگ بدترین جبر کے خلاف جدوجہد کا توانا اظہار بن گئے تھے۔
زیر نظر کتاب ''مجھے پرواز کرنے دو،، دراصل ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسفزئی کی کتاب Let Her Fly کا اُردو ترجمہ ہے جو انہوں نے لوئس کارپینٹر کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔ اس کتاب کو اُردو زبان میں منتقل کرنے کا اہم کام فضل ربی راہی نے بخوبی انجام دیا ہے۔ اس کتاب کا دنیا کی دیگر اہم زبانوں میں ترجمہ پہلے ہی کیا جاچکا تھا حالانکہ اُردو ترجمہ سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا۔ خیر اب یہ دلچسپ کتاب اُردو سمجھنے والے لوگوں کی دسترس میں ہے۔ ممتاز لوگوںں کی زندگی کی کہانیاں ہمیشہ دلچسپ ہوتی ہیں اور ان میں لوگوں کے لئے بڑی کشش ہوتی ہے۔
یہ کتاب اُس خاندان کی کہانی ہے ملالہ یوسفزئی جس کا حصہ ہے، جو یقینا پاکستان کے لوگوں کے لئے دلچسپی کا سامنا رکھتی ہے۔ کتاب میں رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ پیشکش کا معیار بہت اچھا ہے جسے شعیب سنز پبلشرز اینڈ بُک سیلرز نے شائع کیا ہے جبکہ اس کے ڈسٹری بیوٹر ٹی اینڈ ٹی پبلشرز بنک کالونی سمن آباد لاہور 03004191687 ہیںاور المیزان پبلشرزالکرم مارکیٹ اردو بازار لاہور، رابطہ: 042-37122981۔ قیمت 500/- روپے ہے۔
سمندر بیتی
مصنف: ظہیر قریشی
کہتے ہیں، سیاحت محض مختلف مقامات کو دیکھنے کا نام نہیں بلکہ یہ تو ایک مسلسل تبدیلی کا سفر ہے، جو انسان کے طرز زندگی کو بہت گہرائی سے اور مستقل بنیادوں پر ایک نیا رخ دے دیتا ہے۔ سفرنامے دنیا کی دلچسپ ترین کتابیں ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اچھا سفرنامہ تجسس پیدا کرتا ہے اور تجسس کی تشفی بھی کرتا ہے۔
یہ بات بھی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ انسانی تہذیب کے ارتقاء میں سب سے کلیدی کردار نئی دنیاوں کی کھوج کرنے کی غرض سے اختیار کئے جانے والے سمندری سفروں نے کیا۔ وہ برصغیر ہو یا پھر دنیا سے الگ تھلگ امریکہ کی سر زمین کی رونمائی، نئی زمینیں دریافت کرنے کی دُھن میں مگن جہاز رانوں کی جدوجہد کا ثمر ہے، زیر نظر کتاب ''سمندر بیتی،، بھی ایک جہاز راں کی سمندروں کے ساتھ رفاقت کی کہانی ہے۔ کتاب کے مصنف ظہیر قریشی نے زندگی پر طاری جمود سے جان چھڑانے کے لئے اپنے پیشے میں تبدیلی کا مشکل فیصلہ کیا اور انتہائی صبر آزما جدوجہد کے بعد مال بردار بحری جہازوں پر ریڈیو آفیسر کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
سمندری سیاحت کا بیان ایک مشکل اور نایاب موضوع ہے، بالخصوص پاکستان اور خطے کے ممالک میں بہت کم لوگوں کو سمندر سے واسطہ پڑتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہمارے ادب میں ایسی تحریریں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں جن کا تعلق سمندری سفر کے ساتھ ہو۔ زیر نظر کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی ایک سمندری سفر کی روداد نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے روزنامچے کے اوراق ہیں جس کا اُوڑھنا بچھونا ہی سمندر ہے۔
وہ مسلسل سمندر کے سینے پر محو سفر ہے اور جہاں کہیں مختصر پڑائو ہوتا ہے وہاں کے نادر ،نایاب تجربات اور اپنے احساسات کا اظہار خوبصورت انداز میں کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات بہت کم سفرناموں میں محسوس ہوتی ہے کہ مصنف اپنے قاری کو اُن احساسات سے روشناس کرا دے جن کا تجربہ اُسے خود حاصل ہوا ہو، ظہیر قریشی بجا طور پر اپنی اس کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ کتاب میں ان سفری تجربات کی جھلک دکھانے والی رنگین تصاویر بھی شامل ہیں اس مجلد کتاب کی پیشکش کا معیار شاندار ہے۔ سیر و سیاحت اور دنیا کی معلومات کے بارے میں دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات کے لئے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔ اس کتاب کو فیروز سنز لاہور نے شائع کیا ہے جبکہ اس کے ڈسٹری بیوٹر ٹی اینڈ ٹی پبلشرز بنک کالونی سمن آباد لاہور03004191687 ہیں۔ قیمت500 روپے ہے۔
ایک سوال ( ناول)
مصنفہ : امرتا پریتم ، قیمت : 400 روپے
ناشر... بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
زیرنظر ناول کے ہیرو جگدیپ کی کہانی اور امرتا پریتم کی کہانی ایک جیسی ہے۔ امرتا پریتم بتاتی ہیں:'' پورے گیارہ سال کی نہیں تھی جب ماں فوت ہوئی۔ ماں کی زندگی کا آخری دن چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کے ساتھ میری یاد میں محفوظ ہے۔ ' ایک سوال ' ناول میں ناول کا ہیرو جگدیپ مر رہی ماں کے بستر کے پاس جس طرح کھڑا ہے، اسی طرح میں اپنی مر رہی ماں کے بستر کے پاس کھڑی تھی اور میں نے جگدیپ کی مانند دل اور ذہن کی یکسوئی کے ساتھ خدا سے کہا تھا :
'' میری ماں کو نہ مارنا '' اور مجھے بھی اس کی طرح یقین ہوگیا تھا کہ اب میری ماں نہیں مرے گی کیونکہ خدا بچوں کا کہنا نہیں ٹالتا ، لیکن ماں مرگئی تھی اور میرا بھی جگدیپ کی طرح خدا پر سے اعتقاد اٹھ گیا تھا اور جس طرح جگدیپ اس ناول میں ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی اور ایک طاق پر رکھی ہوئی دو سوکھی روٹیوں کو اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیتا ہے، ان روٹیوں کو تھوڑا تھوڑا کرکے کئی دن کھائوں گا ، اسی طرح میں نے ان سوکھی روٹیوں کو پیس کر ایک شیشی میں ڈال لیا تھا۔'' کیا کمال محبت ہے ماں سے اور ماں کی ممتا تو ہوتی ہی کمال پر ہے، اس کا نظارہ بھی دیکھیں گے آپ اس ناول میں ۔
اس ناول میں آپ کو رشتوں کے درمیان وہی پرانی ، اصلی ، خالص محبت نظر آئے گی ۔ آپ اس محبت کو پڑھیں گے تو سرشار ہو جائیں گے ۔ محبت تو ہوتی ہی خوبصورت ہے لیکن اس ناول میں محبت اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔ جب ناول کا ہیرو اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی بھرپور جوان سوتیلی ماں کی اپنے ہاتھ سے اس کی من چاہی شادی کر لیتا اور پرُشباب لڑکی تھالی میں روٹی پروس کر کہتی '' آئو ماں بیٹا مل کر کھائیں ۔''
تو وہ روٹی کا پہلا لقمہ توڑتے ہوئے کہتا ہے:
'' پہلے یہ بتائو کہ تم میری ماں لگتی ہو یا بہن لگتی ہو یا میری بیٹی لگتی ہو؟
کیا عجب مکالمہ ہے، جو امرتا پریتم ہی کو سوجھ سکتا ہے۔ یہ ناول ایسے شاندار مکالموں سے بھرا پڑا ہے۔
ہیرو جگدیپ رشتوں سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ ان سے محروم ہونا برداشت نہیں کر پاتا ۔ اس تناظر میں خدا سے بھی ناراض ہوتا ہے۔ ماں کے بعد ' ریکھا ' سے محروم ہوتا ہے تو وہ خدا سے مزید ناراض ہو جاتا ہے۔ آپ کو اس پورے ناول میں رشتوں کے ساتھ بھرپور اخلاص نظر آئے گا، یہی اخلاص معاشرے کو خوبصورتی سے بھر دیتا ہے۔ آپ یہ خوبصورتی دیکھنا چاہیں، اس سے لطف اندوز ہونا چاہیں تو ' ایک سوال ' پڑھنا نہ بھولیے گا۔ ( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)
ٹرین ٹو پاکستان
خشونت سنگھ کا شمار بھارت میں چند سب سے زیادہ پڑھے جانے والے لکھاریوں میں ہوتا ہے یہ ایک غیر معمولی بات رہی ہے کہ جس قدر پذیرائی ان کی ادبی تخلیقات کو حاصل ہوئی اسی قدر ہر دلعزیزی ان کے کالم نگاری کو بھی حاصل رہی۔ بھارت کے ایک سے زیادہ اخبارات ان کے کالموں کو اپنے صفحات پر جگہ دیتے رہے۔
خشونت سنگھ نے مصنف، سفارتکار، صحافی اور سیاست دان کی حیثتوں میں نیک نامی کمائی۔وہ پاکستان کے ضلع خوشاب کے گائوں ہڈالی میں پیدا ہوئے اور آخری سانسوں تک اپنی جنم بھونی کے عشق میں گرفتار رہے۔ 1986 میں پاکستان آئے اور اپنے گائوں کا دورہ کیا۔ ا پنی زندگی میں اُن کی 40 سے زائد کتب شائع ہوئیں جن میں سے 1956 میں شائع ہونے والے ناول ٹرین ٹو پاکستان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی جو برصغیر کی تقسیم کے دوران ہونے والی مارا ماری کے پس منظر میں لکھا گیا۔
زیر تبصرہ کتاب دراصل خشونت سنگھ کے اسی نائول کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ کسی تحریر کو دوسری زبان میں منتقل کرنا تخلیق سے کم تر درجے کا کام نہیں ہوتا لیکن اگر ترجمہ کسی ادب پارے کا کیا جانا ہو تو معاملہ کہیں زیادہ نازک اور حساس ہوجاتا ہے۔ رپورٹوں اور معلومات کا ترجمہ سہل ہوتا ہے لیکن جب انسانی جذبات و احساسات کو ایک مخصوص سماجی اور ثقافتی پس منظر کے ساتھ پڑھنے والوں تک منتقل کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہتی۔ اس نائول کے ترجمہ کا بار گراں ڈاکٹر عرفان احمد خان نے اٹھایا ہے اور اسے انتہائی خوبی سے تکمیل تک پہنچایا ہے۔ ڈاکٹر عرفان مضبوط ادبی تعارف رکھتے ہیں اور خود 22 کتب تصنیف کرچکے ہیں جن میں ان کے اپنے ناول، طنز و مزاح، تراجم، خاکے/ مضامین غرض سبھی کچھ شامل ہے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر عرفان نے نائول کے ترجمے کا حق ادا کردیا ہے خوشونت سنگھ کا تقریبا تمام کام انگریزی میں ہے لیکن اپنے پنجابی پس منظر کی وجہ سے ضروری ہے کہ ان کے کام کے مقامی زبانوں میں تراجم سامنے لائے جائیں اس حوالے سے ڈاکٹر عرفان کی یہ کاوش قابل ستائش ہے۔ قبل ازیں خوشونت سنگھ کے ناول دلی کو اُردو میں منتقل کرنے کا کام انجام دے چکے ہیں۔ جو 1998ء میں شائع ہوا تھا۔ ٹرین ٹو پاکستان کا پہلا ایڈیشن 2005 میں چھپا تھا جبکہ اس برس اس نائول میں تقسیم کے دور کی نادر تصاویر بھی شامل کردی گئی ہیں۔ نائول کی پیشکش کا معیار شاندار ہے۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات اس نائول کو ضرور پڑھنا چاہیں گے۔
اسے ٹی اینڈ ٹی پبلشرز بنک کالونی سمن آباد لاہور سے حاصل کیا جا سکتا ہے ، رابطہ: 0332-4822090 042-37352332, ، قیمت 800 روپے ہے۔
( تبصرہ نگار: غلام محی الدین)