کوچۂ سخن

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے


Arif Aziz April 04, 2021
۔فوٹو : فائل

ISLAMABAD:

غزل
پہلے تو اک چراغ ہوا میں تھما دیا
پھر لا کے مجھ پہ چرخِ ستم کو گرا دیا
سنتے ہی ایک طعنہ کسی بے ضمیر کا
بازار میں فقیر نے کاسہ جلا دیا
درکار روشنی ہے اگر تجھ کو اور بھی
جو جل رہا ہے پہلے وہ جلدی بجھا دیا
پہلے سے بھی زیادہ چمک دار ہو گئیں
آنکھوں سے آج پورا ہی دریا بہا دیا
اک عمر تک تو رکھا گیا قید میں مجھے
آخر مجھے رہائی کا مژدہ سنا دیا
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)


۔۔۔
غزل
کرنے کو عشق، رہنے کو چھوٹا سا گھر دیا
غربت میں ذاتِ باری نے دستِ ہنر دیا
کم ظرف رہزنوں نے نیا روپ دھار کر
کاسہ اٹھا کے مفلسوں کے آگے کر دیا
روٹی کا اک سوال لیے آئی تھی غریب
بستی نے اس کا پیٹ گناہوں سے بھر دیا
مفلس ہے، دو نوالوں کو ترسا ہوا فقیر
جس پر فقیہِ شہر نے الزام دھر دیا
پیاسا ہے مدتوں کا مگر سایہ دار ہے
قدرت نے ریگ زار کو ایسا شجر دیا
عجلت کے فیصلے بھی سبھی ہو گئے غلط
اور صبر نے بھی قوم کو کڑوا ثمر دیا
(ناصر ملک ۔ چوک اعظم)


۔۔۔
غزل
تم نے دیکھا ہے کبھی غور سے کیا لگتا ہے
شام کے وقت دِیا شمس نما لگتا ہے
اُس سے نفرت بھی نہیں بعد میں کی جا سکتی
عشق کے عرصے میں جو شخص خدا لگتا ہے
کب تلک لوٹ کے آؤ گے بچھڑنے والو
خالی رستے پہ کھڑا شخص برا لگتا ہے
میں نہیں چاہتا چھوڑوں یہ اداسی تیری
دل مرا اب بھی کہیں تیرے سِوا لگتا ہے
نیند آتی ہے مجھے رات بڑی مشکل سے
پھر کوئی خواب مری آنکھ میں آ لگتا ہے
پڑھ کے وہ اِسم جو پھونکا ہے بدن پر طارقؔ
گرم جھونکا بھی مجھے سرد ہوا لگتا ہے
(محمد طارق عزیز سلطانی۔گڑھ موڑ)


۔۔۔
غزل
ہلے اثبات میں سر اور دل آہ و فغاں میں ہو
پتہ تو چل ہی جاتا ہے اگر انکار ہاں میں ہو
وہاں ملتی ہے دریاؤں کی خصلت چشم ِگریہ سے
کمی بیشی بہاؤکی جہاں آبِ رواں میں ہو
میں اک ہی وقت میں دو موسموں کی زد میں ہوں جیسے
شجر آدھا بہارِ نو میں اور آدھا خزاں میں ہو
کسی گوشے میں اکثر دھوپ بھی آتی ہے سستانے
ضروری تو نہیں ہے چھاؤں پورے سائباں میں ہو
روایت ہے یہ ماضی کے محبت کرنے والوں سے
کبوتر ضد کیا کرتے تھے خط اردو زباں میں ہو
نکلنا گھر سے باہر اہلِ کوچہ کا ضروری ہے
دبی انسان کی آواز جب شورِسگاں میں ہو
حسن ؔیہ لوگ تو خاموش بھی رہنے نہیں دیتے
نچا کر ہاتھ کہتے ہیں میاں تم کس جہاں میں ہو
(احتشام حسن ۔ بہاولپور)


۔۔۔
غزل
کناروں پر کھڑے دیکھے ہیں میں نے
ترے جیسے بڑے دیکھے ہیں میں نے
گلابوں کی حقیقت جانتا ہوں
کتابوں میں پڑے دیکھے ہیں میں نے
یقیناً لڑکیاں اب تھک چکی ہیں
کئی ٹوٹے گھڑے دیکھے ہیں میں نے
مجھے جن کے حوالے دے رہے ہو
سبھی چھوٹے بڑے دیکھے ہیں میں نے
ترے احباب کی اگلی صفوں میں
ترے قاتل کھڑے دیکھے ہیں میں نے
کوئی گزرے دنوں کو رو رہا ہے
کہیں آنسو پڑے دیکھے ہیں میں نے
صنوبر سوکھنے والے ہیں ساجدؔ
کئی پتے جھڑے دیکھے ہیں میں نے
(لطیف ساجد ۔ حافظ آباد)


۔۔۔
غزل
جو حیرتوں کے مظاہر کھلے تو در نکلے
زمین کھودی گئی تو ہزاروں گھر نکلے
بلا جواز میں گھر سے کبھی نہیں نکلا
نکل پڑوں گا مگر شرط ہے سفر نکلے
جنہیں میں اپنا بنانے کا سوچنے لگا تھا
وہ لوگ تو مری سوچوں سے تیز تر نکلے
وہ جس کی باتوں سے معصومیت ٹپکتی تھی
سنا ہے شہر میں جاتے ہی اس کے پر نکلے
میں وسوسوں میں گھرا زائچے بناتا ہوں
دعا کرو کہ بچھڑنے کا دل سے ڈر نکلے
وفورِ شو قِ تمنا بھی ہار جا تا ہے
بھنور گزار کے آگے جو پھر بھنور نکلے
(سلیم آکاش ۔فتح پور)


۔۔۔
غزل
عشق نگر میں ،پیارکے گھر میں، دل زنجیر میں، میں اور تم
کتنے سندر لگنے لگے ہیں اک تصویر میں میں اور تم
مومن کا سا رنگ دکھے اور غم شوخی میں ڈھل جائے
بندھ جائیں گر کسی طرح سے، مصرع ِمیر میں میں اور تم
آؤ مل کر خواب ہم دیکھیں خواب بھی جگنو تتلی کا
آنکھ کے کھلتے ہی مل جائیں پھر تعبیر میں میں اور تم
خوابوں کے اس تاج محل میں ہم دونوں نے رہنا ہے
یار برابر خرچ ہوئے ہیں اس تعمیر میں،میں اور تم
ہر ایک پریم کہانی مجھ کو اپنا قصہ لگتی ہے
اب تو مجھ کو دکھنے لگے ہیں رانجھا ہیر میں میں اور تم
(ثروت مختار۔بھکر)


۔۔۔
غزل
خوشبو سی پھیل جاتی ہے سارے میں گفتگو
جس کنج بھی کریں ترے بارے میں گفتگو
یہ سوچ کر ہیں عمر کے اس موڑ پر خموش
اب فائدے میں ہے نہ خسارے میں گفتگو
وہ لب دکھا رہے تھے کسی خواب کی بہار
وہ آنکھ کر رہی تھی اشارے میں گفتگو
الفاظ اور معنی میں حائل ہے موج ِ رنگ
اٹکی ہوئی ہے ایک نظارے میں گفتگو
خوش لہجہ ہم کلام ہوا تھا کوئی شہابؔ
محفوظ ہے وہ دل کے شمارے میں گفتگو
(شہاب صفدر ۔ڈیرہ اسماعیل خان)


۔۔۔
غزل
منفرد بھی تو انہیں سب سے جدا مانتے ہیں
اپنی تنہائی کو جو لوگ خدا مانتے ہیں
اتنا اتراؤ نہیں ہجر عطا کرنے پر
ہم تو اس کرب کو بس کرب نما مانتے ہیں
زرد پتے کی طرح تنہا پڑا ہوں لیکن
تیری نسبت سے مجھے لوگ ہرا مانتے ہیں
ہوش میں کیسے کسی بات سے انکار کریں
ہم تو وحشت میں بھی بس تیرا کہا مانتے ہیں
کاش یہ دکھ بھی دکھائی نہ سنائی دیتا
اور سب لوگ یہاں دیکھا سنا مانتے ہیں
(وقاص اللہ وقاص ۔ خوشاب)


۔۔۔
غزل
میں عشق باز اگرچہ ہوں جاں سے جاتا ہوا
بدن کی قید سے نکلوں گا مسکراتا ہوا
میں تیرے شہر سے نکلا ہوں جشن غم لے کر
ترانے گاتا ہوا اور دل جلاتا ہوا
تمھارا دل جو ہماری طلب سے خالی ہو
اڑاؤں خود کو میں اِس کی راکھ اڑاتا ہوا
عجیب لذت ِ آزار ہے مری دنیا
بہت ہی چیخنے لگتا ہوں مسکراتا ہوا
مرا خیال گرفتہ ہے تیری آنکھوں سے
بھنور میں آ گیا بچتے ہوئے بچاتا ہوا
وہ آرزو ہے مری اور زندگی ہے مری
ڈرے نہ مجھ سے مرے خواب تک تو آتا ہوا
(عمران عالی ۔احمد پور سیال)


۔۔۔
غزل
ہر خواب ہر خیال میں ہر بات میں رہا
اک شہر بے مثال مری ذات میں رہا
عشاق کے دلوں میں تھا شعلہ بھڑک اٹھا
وہ حسن بے مثال حجابات میں رہا
چاروں طرف سے ٹوٹی سپاہوں کے درمیاں
میرا ہی دست خاص مری گھات میں رہا
دن کو جو آفتاب کے جیسا لگا مجھے
مہتاب بن کے دیر تلک رات میں رہا
عنبر عدو کے روپ میں آیا وہ سامنے
کیا کہیے کیا قرار مری مات میں رہا
(فرحانہ عنبر۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
فیصلہ جب بھی میرے یار کیا جائے گا
ساری بستی کو خبردار کیا جائے گا
نام لیتے ہوئے آئیں گے دوانے میرا
دشتِ وحشت کو اگر پار کیا جائے گا
ہم سے اندھوں کو تری شکل دکھائی دے گی
عام ایسے ترا دیدار کیا جائے گا
بس اسی آس پہ بیٹھے ہیں تری چوکھٹ پر
وقت آئے گا تو اظہار کیا جائے گا
تیرے عالم کی سبھی نظم بدل سکتی ہے
ہم فقیروں کو اگر خوار کیا جائے گا
آتش ہجر میں ہو جائیں گے جب سرخ بدن
تب کہیں آگ کو گلزار کیا جائے گا
(مستحسن جامی۔ خوشاب)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں