دو بیانیے دوسرا اور آخری حصہ

مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب دین سے دُوری ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اصل اسلام کی طرف سختی سے رجوع کرنا چاہیے


امتیاز عالم January 10, 2014

مذہبی و روایت پسند بیانیہ

7۔ برصغیر کے مسلمان یا مسلم ممالک سے باہر پھیلے ہوئے مسلمانوں کا اس دھرتی، وطن، ثقافتی و تاریخی اقدار جہاں وہ بستے ہیں سے کوئی تعلق نہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے'پھر مغل، افغان، عرب و دیگر ہندوستان پر حملہ آور ہوئے، وہ یہاں دینِ اسلام پھیلانے آئے تھے اور آج بھی مسلمانوں کا یہی مقصد ہے۔ یہ کہ مسلمانوں کا ماویٰ اسلام کی جنم بھومی ہے نہ کہ برصغیر ہندوستان کی ملیچھ دھرتی۔ لہٰذا برصغیر یا مغربی دُنیا میں رہنے والے ہر مسلمان کے لیے وہ تمام علاقے جہاں وہ رہتے ہیں، اجنبی ہیں یا پھر دارالحرب۔ مقامی و قومی ثقافتوں، زبانوں اور طور طریقوں کو اپنانا کفر ہے اور عربی ثقافت کو اختیار کرنا کارِ درست۔ غرض یہ کہ یہ دُنیا ایک سراب ہے، ترکِ دُنیا کرو اور آخرت کی تیاری!

جمہوری و روشن خیال بیانیہ
7۔ ہر انسان ایک خاص وقت اور مقام پر کسی معاشرے و ثقافتی ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ ایک خاندان، قبیلہ، طبقہ، قوم اور مملکت کا فرد ہے، جس کی اپنی منفرد ثقافت، زبان، رہن سہن، رسم و رواج اور تاریخی حیثیت ہے۔ ہر معاشرے میں ہر طرح کے خیالات، نظریات اور مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ برصغیر ہندوپاک کی اپنی تاریخ ہے جو ہماری اپنی تاریخ و ثقافت ہے۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب ہی ہمارا ورثہ ہے نہ کہ کوئی ترک، افغان یا عرب ثقافت۔ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح مسلمان بھی برصغیر، جہاں وہ رہتے ہیں اِسی خطے کی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں، جس سے اجنبیت مسلمانوں کے لیے شرطِ ایمان نہیں۔ بلکہ اپنی ثقافت و تاریخ سے اجنبیت سے مسلمانوں میں بیگانگی پیدا ہوتی ہے جو اُنہیں اِن معاشروں سے دُور کرتی ہے جن کے بطن سے اُن کی سماجی شخصیت پیدا ہوئی ہے۔ برصغیر کی ہندپاک ثقافت سے نفرت، کٹر مُلّائیت پسندی کی مظہر ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ان معاشروں کے لیے تباہ کُن ہے۔ صوفیائے کرام نے یہاں کے بسنے والوں کی زبان و ثقافت کے ذریعہ ہی سے لوگوں میں اپنا مقام بنایا۔

مذہبی و روایت پسند بیانیہ
8۔ مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب دین سے دُوری ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اصل اسلام کی طرف سختی سے رجوع کرنا چاہیے۔ اسلام کے نام پر ایسے نظریات پیش کیے جا رہے ہیں جو مسلمانوں کی بہت بھاری اکثریت کو ہی کافر قرار دیتے ہیں۔ تکفیری نظریات کی بالادستی کے لیے، جہاد و قتال کی ایسی خوفناک تشریحات کی جا رہی ہیں کہ جید علما بھی حیرت زدہ ہیں۔ القائدہ نے جو راستہ اپنایا ہے، اُسے طالبان و دیگر فرقہ پرست تیزی سے قبول کر چکے ہیں۔ ایمن الظواہری پاکستان کے آئین کو باطل قرار دے چکے ہیں۔ طالبان پاکستان، افغانستان کے آئین و قوانین، بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت، پارلیمنٹ، عدلیہ، تہذیب و ثقافت اور جدید اداروں بشمول میڈیا اور سائنسی علوم و فنون کو غیراسلامی قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک روایتی جبریت اور قبائلی غیرت کو مذہب سے ہم آہنگ کر کے اپنی پسند کی شریعت نافذ کرنے کے دعویدار ہیں، ان کے نظریات میں عوامی مقامات پر خودکش بمباری بھی جائز ہے۔ یہ حضرات ایک عالمی اسلامی، جہادی و تکفیری مکتب کے فروغ کے لیے قومی ریاستوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پوری دُنیا میں کوشاں ہیں اور اُن سے اختلاف کرنا قابلِ گردن زدنی ہے۔ پاکستان میں تکفیری اور اس کی ہم خیال نظریات' قوم پرستی اور قبائلی خلوت پسندی کے ساتھ مل کر ریاست و معاشرے سے برسر ِپیکار ہے اور جس کے سامنے جید علماء نہ صرف کھڑے ہونے کو تیار نہیں، بلکہ اُن کے لیے معذرت خواہانہ توضیحات پیش کرتے نہیں تھکتے۔ دینی جماعتیں ایک طرح سے 73ء کے آئین کے عمرانی معاہدے اور دائیں و بائیں بازو کے نظریاتی سمجھوتے اور اس کے باریک توازن کو ختم کر کے، طالبان کے نظام کے لیے راہ ہموار کرنے پر مائل نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر حقِ اظہار، ثقافتی سرگرمیوں، فنونِ لطیفہ اور آزادی کا ماحول اُن کے نشانے پر ہے۔ وہ کلچرل سرگرمیوں اور اظہار کے ذرایع پر بندش لگانے کے لیے کوشاں ہیں کہ ان سے بے حیائی پھیلتی ہے۔

جمہوری و روشن خیال بیانیہ
8۔ دُنیا میں غالباً دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں مسلمان اپنے دین پر زیادہ سے زیادہ عمل پیرا ہیں۔ اسلام کے حوالے سے جس اعتدال، توازن، میانہ روی، تحمل و برداشت، رواداری اور امن و سلامتی کی قدروں کی بات کی جاتی ہے، اُن سب کو مذہبی انتہاپسند، شدت پسندی سے ردّ کرتے ہیں۔ فکری طور پر مسلم دُنیا تاریک دور (Dark Ages) میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اور عقلیت کا زمانہ (Age of Reason) مسلم دُنیا سے کوسوں دُور ہے۔ مسلمانوں کی خوفناک حالتِ زار اور مسلم دُنیا کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ ماضی پرستی اور مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔

بدقسمتی سے فکری طور پر اسلامی نظریات منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ اصلاح کی تحریک ہے نہ اجتہاد کی گنجائش۔ مسلم ممالک کی پسماندگی، غربت، جہالت، سائنسی و سماجی علوم سے لاعلمی اور جدید زمانے کے تقاضوں سے بیزاری کے خود مسلم ممالک اور معاشرے ذمے دار ہیں۔ کٹرپن، تنگ نظر، فرقہ پرستی اور قتل و غارت گری، اشتعال انگیزی اور متشدد پن سے مسلم دُنیا اور پیچھے رہ جائے گی اور اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کی ذمے دار ہے۔ اوّل تو اُن کے خلاف سازش کی کسی کو کیا پڑی، جب یہ خود ہی خودکشی کی راہ پر گامزن ہیں، اور سازش بھی تبھی کامیاب ہوتی ہے جب آپ خود احمق ہوں اور اگر کسی چیز کی کمی نہیں تو وہ حماقت اور جہالت ہے۔ علمی، سائنسی، معاشی، سیاسی اور تہذیبی میدانوں میں آگے بڑھ کر ہی مسلمان اور مسلم ممالک آج کی دُنیا میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔ تنگ نظر کٹر نکتہ نظر سے مسلمان ترقی کرنے سے رہے۔ جو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ خون ریزی آج ہر سو پھیلی ہوئی ہے، اُس کے خود مسلمان اور اُن کی فرقہ وارانہ جماعتیں ذمے دار ہیں۔ پاکستان میں بعد کی ترامیم سے آمروں کی لائی ہوئی کچھ غیرجمہوری ترامیم تو ختم ہوئیں لیکن ضیاء الحق کی روح کو آئین سے نہ نکالا جا سکا اور اس میں غیر مذہبی جماعتوں کی موقع پرستی بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے کی نشو و نما میں کلچرل سرگرمیوں، فنونِ لطیفہ کے فروغ اور ثقافتی کثرت اور تعلیمِ عامہ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اسی طرح اقلیتوں اور خواتین کے حقوق پر بھی مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ لبرل جماعتیں بھی سمجھوتہ کرتی رہی ہیں۔ سائنسی علوم اور خاص طور پر عمرانیات کو مذہبی رنگ میں ڈھال کر فکری نشوونما کے تمام سوتے بند کر دیے گئے ہیں۔
مذہبی و روایت پسند بیانیہ
9۔ نظریۂ پاکستان کے نام پر پاکستان میں مُلّائیت، مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت اور جہادی کلچر کا فروغ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں انجام دیا گیا اور اس مکتبِ فکر کے لوگوں کو قوم کی قلب ماہیت، قومی تشخص، نظامِ تعلیم اور سلامتی کے امور میں فکری بالادستی فراہم کی گئی۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کے وقت سے سلامتی کے ادارے اس میں کود پڑے اور جہاد کو خارجہ و سلامتی کے اہداف کے حصول کے لیے ایک بڑا حربہ سمجھ کر فروغ دیا گیا۔ دہشت گردوں کو سرکاری سطح پر اسٹرٹیجک اثاثے قرار دیا گیا اور خود ریاستی ادارے اس نظریہ کا شکار ہوگئے۔ تاآنکہ یہ اثاثے اپنے خالقوں پہ پل پڑے۔

جمہوری و روشن خیال بیانیہ
9۔ پاکستان کے قیام سے ہی یہ نظریاتی جنگ ہو رہی ہے کہ پاکستان کیا ہو؟ کیا یہ مُلّائی یا اسلامی ریاست ہو؟ یا پھر ایک جمہوری و سیکولر اور وفاقی ریپبلک ہو؟ اس میں حقوق و آزادیاں کیا ہوں؟ اقلیتوں کے کیا حقوق ہوں؟ ریاست و مذہب کتنا باہم جڑا ہو اور کتنا علیحدہ علیحدہ ہو؟ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو مُلّائیت والی ریاست بنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ مذہبی آزادی کو مانتے ہوئے وہ مذہب کو ریاست کے معاملات سے علیحدہ رکھنا چاہتے تھے۔ یہ نظریاتی جدوجہد آج تک جاری ہے۔ اس نظریہ کے حامی پاکستان میں بلاامتیاز رنگ و نسل، عقیدہ و جنس تمام شہریوں کے مساوی حقوق چاہتے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری، عوام کا اقتدارِ اعلیٰ، جمہوریت، وفاقیت اور فکری کشادگی و رواداری کا فروغ، ان کا مطمع نظر ہے۔ خاص طور پر عورتوں اور اقلیتوں کے مساوی حقوق اور حقِ اظہار پر ان کا اصرار یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک آزاد، جمہوری اور کثرتی معاشرے کے قیام کے حامی ہیں۔ جب کہ ہر مذہب و مسلک کے پیروکاروں کی آزادیٔ کا احترام کرتے ہوئے ریاست اور تعلیم و تدریس کو مذہبی منافرت سے پاک کرنا چاہتے ہیں کہ انسانیت دوستی کی بنیاد پر ایک منصفانہ، ترقی یافتہ اور آزاد معاشرہ تشکیل پا سکے۔ یہ لااکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دین کے قائل ہیں۔

(یہ مقالہ سیفما کی چھٹی قومی کانفرنس میں پڑھا گیا۔ اس میں بیان کیے گئے نقطہ نظر کے حوالے سے قارئین اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔قارئین کی رائے کو انھی صفحات پر شایع کیا جا سکتا ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں