وینزویلا میں سوشلسٹ جیت گئے
کارپوریٹ میڈیا نے انتخابات کے نتائج پرمجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی اورانقلاب کی فتح کو مبہم کرنے کی کوشش کی گئی
سرمایہ داروں کی تمام تر کوششوں اور سازشوں کے باوجود وینزویلا میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سوشلسٹ کامیاب ہوگئے۔ یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے 196 جب کہ دائیں بازو کی حزب اختلاف نے 53 بلدیاتی نشستیں حاصل کیں۔ پچھلے چند مہینوں میں انقلاب کے حامیوں کی دائیں بازو پر انتخابی سبقت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں 1.49 فیصد ووٹوں کی برتری کے مقابلے میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سوشلسٹوں کو 6.52 فیصد زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی اور اتحادیوں کے 234 جب کہ حزب اختلاف کے 67 ناظمین منتخب ہوئے ہیں۔ ووٹ ڈالنے کی شرح 58.92 فیصد رہی جوکہ اس طرح کے انتخابات میں یورپ کے کئی ممالک سے زیادہ ہے۔
کارپوریٹ میڈیا نے انتخابات کے نتائج پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی اور انقلاب کی فتح کو ہر ممکن حد تک مبہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ انتخابات کے نتائج نے انقلابی حکومت کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے والے سامراجی دانشوروں کے منہ بند کردیے ہیں۔ اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ''یہ انتخابات دراصل بائیں بازو کے رہنما ہوگوشاویز کے جانشیں مادورو کے لیے ریفرنڈم کا درجہ رکھتے تھے جس میں ان کی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ سوشلسٹ ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہیں''۔ انتخابات کے بعد پرجوش حامیوں نے خطاب کرتے ہوئے نکولس مادورو نے کہا کہ ''وینزویلا کے لوگوں نے دنیا کے لوگوں کو بتادیا ہے کہ شاویز کا بولیوارین انقلاب آج زیادہ قوت سے آگے بڑھ رہا ہے''۔ اس موقع پر انھوں نے بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی، سٹہ بازوں، طفیلی سرمایہ داروں اور انقلاب کے راستے میں معاشی رکاوٹیں کھڑی کرنے والے دوسرے عناصر کے خلاف جنگ تیز کرنے کا عزم بھی دہرایا۔ اس انتخابی فتح کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ سوشلزم کے خلاف تمام تر جھوٹ، بہتان زنی اور ''تاریخ کے خاتمے'' کے سامراجی اعلان کے باوجود یہ ثابت ہوا ہے کہ ہوگوشاویز کی جانب سے لگائے جانے والے اکیسویں صدی کے سوشلزم کے نعرے کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وینزویلا میں ابھی تک سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ نہیں ہوا ہے وہاں کے عوام نے ''سوشلزم تو ناکام ہوگیا'' جیسی باتوں کو یکسر رد کردیا ہے۔
اس وقت جب وینزویلا میں افراط زر کی شرح ریکارڈ 54 فیصد تک پہنچ چکی ہے، انتخابات کے نتائج پر تجزیہ کرتے ہوئے لوئس وینسٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ''یہ ایک عجیب تضاد ہے۔ معاشی بحران کا فائدہ مادورو کو ہورہا ہے''۔ مادورو حکومت کی مقبولیت کو فی الوقت افراط زر اور ضروریات زندگی کی قلت جیسے عوامل سے خطرہ لاحق ہے۔ وینزویلا کے حکمران طبقات کی جانب سے شعوری طور پر معاشی سبوتاژ کی مہم چلائی جارہی ہے۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو چلی میں سلواڈورا باندے کی حکومت کے خلاف استعمال کی گئی تھی۔ اس وقت امریکی صدر نکسن نے کسنجر کو حکم دیا تھا کہ ''چلی کی معیشت کو برباد کردو''۔ وینزویلا میں انقلابی حکومت کی جانب سے پچھلے دس سال میں کیے گئے اقدامات نے ثابت کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت کو ''ٹھیک'' نہیں کیا جاسکتا۔
ذرایع پیداوار کی نجی ملکیت کو قائم رکھتے ہوئے قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی روکنے جیسے اقدامات ناکافی بلکہ بعض صورتوں میں مضر ثابت ہو رہے ہیں۔ ذرایع پیداوار چونکہ ریاستی ملکیت میں نہیں ہیں لہٰذا ریاستی سرمایہ کاری کے مطابق پیداوار نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہورہا ہے۔ سرمایہ داروں کے پاس حکومتی پابندیوں سے بچنے کے کئی قانونی اور غیر قانونی طریقے موجود ہیں جنھیں وہ استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم برسر اقتدار آنے کے بعد سے سوشلسٹ پارٹی نے عوامی فلاح و بہبود کے کئی بڑے منصوبے مکمل کیے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ریلوے کا جدید نظام، سڑکیں، پل، پبلک ٹرانسپورٹ، اسکول، یونیورسٹیاں، سستے رہائشی منصوبے اور اسپتال تعمیر کیے گئے ہیں۔ ماضی میں حکمران طبقات کی تجوریوں میں جانے والا تیل کا پیسہ اب عوام پر خرچ کیا جارہا ہے۔ سامراج اور مقامی سرمایہ دار اپنی لوٹ مار پر لگنے والی کاری ضربوں سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔
انقلاب نے محنت کشوں کو نیا اعتماد دیا ہے۔ بہت سی فیکٹریوں پر مزدوروں نے قبضے کر لیے ہیں اور یہ فیکٹریاں کئی سال سے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلی آرہی ہیں۔ عوام کے شدید دباؤ کی وجہ سے حکومت کو اس عمل کی حمایت کرنا پڑی ہے۔ سرمایہ دار اس تمام صورت حال سے خوفزدہ ہیں اور سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔ وینزویلا کے حکمران طبقات کو امریکی اور ہسپانوی سامراج کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ معیشت کو غیر مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کررہے ہیں۔ انقلاب کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں 2001 میں ہی شروع ہوگئی تھیں۔ اپریل 2002 میں امریکی سامراج نے فوجی بغاوت کے ذریعے شاویز کو معزول کرکے کٹھ پتلی حکومت قائم کردی تھی لیکن لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ اس کے بعد سے سامراجی آقا اور وینزویلا کی نوکر شاہی میڈیا پراپیگنڈہ، سفارتی دباؤ، مزدور رہنماؤں پر قاتلانہ حملوں اور معاشی انتشار جیسے طریقے استعمال کرکے انقلابی اقدامات کے راستے میں بند باندھ رہے ہیں۔ وینزویلا کی نوکر شاہی، سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے مفادات سوشلسٹ انقلاب سے متضاد ہیں۔ سرمایہ دارانہ استحصال کو جاری رکھنے اور بے لگام منافع کمانے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر ریاستی طاقت پر قبضہ کیا جائے اور انقلاب کو کچل دیا جائے۔
ستمبر تک مادورو حکومت معاشی جکڑبندیوں کے خلاف تھی۔ تاہم نومبر کے آغاز میں حکومت کو سرمایہ داروں کے خلاف سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ غیرملکی تجارت کو آزاد کرنے کا منصوبہ رد کردیا گیا۔ حکام نے اجناس سے بھرے ہوئے ذخیروں پر چھاپے مارے اور ذخیرہ اندوزوں کو جائز قیمت پر اشیا بیچنے پر مجبور کیا گیا۔ اس دوران درجنوں سرمایہ داروں اور کاروباری حضرات کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ان حکومتی اقدامات کو بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی ملی۔ عوام کو مصنوعی قلت سے چھٹکارہ ملا اور اشیائے خور و نوش میسر آئیں۔ اس کے علاوہ عام شہریوں کے انقلابی جذبات کو نئی قوت ملی۔ بلدیاتی انتخابات میں سوشلسٹ پارٹی کی فتح طفیلی سرمایہ داروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کیے جانے والے حالیہ حکومتی اقدامات کا ہی نتیجہ ہے۔
جب کہ ہمارے ہاں سرمایہ داروں اور ذخیرہ اندوزوں کو کھلی چھوٹ اور تمام تر مشکلات عوام پر تھوپ دیے گئے ہیں۔ پشاور سے ایک سرکاری ملازم سید بادشاہ جس کا ایک دردناک خط موصول ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ''اپریل 2013 میں ایک نجی بینک نے بینک کے باہر بینر لگائے تھے جس پر لکھا تھا کہ ہر سرکاری ملازمین کے لیے خوشخبری، ہر سرکاری ملازم کو 50 تنخواہیں ایڈوانس ملیں گی، اس کے ایک رشتے دار نے بینک سے ایڈوانس تنخواہیں لینے کی تجویز پیش کی اور وہ بھی اس پرکشش جھانسے میں آگیا۔ اس نے بینک سے قرضے کا فارم لیا، اس میں 18.2 فیصد سود کا ذکر کہیں بھی درج نہ تھا۔ پھر اس نے قرضے کا وہ فارم اپنے مجاز اتھارٹی اور دو شخصی ضمانت اکاؤنٹ ہولڈرز 5 عدد اسٹامپ پیپر اپنے خاندان کے افراد کے نام کی تصدیق شدہ فارم بینک میں جمع کیے۔ 3 ماہ بعد مکمل چھان بین کے بعد اس کا قرضہ منظور ہوا۔ بینک نے پھر اسے 3 لاکھ روپے ایڈوانس تنخواہ دی۔ بینک ہر ماہ اس کی تنخواہ سے 9 ہزار روپے کٹوتی بمعہ سود کرتا ہے۔
اب اس کا بینک کا قرضہ تقریباً 2 لاکھ 80 ہزار روپے بمعہ سود بقایا ہیں۔ اس شخص نے بینک سے قرضہ عیش و عشرت کے لیے نہیں بلکہ اپنی بیوی کے علاج اور بیٹیوں کی شادی کے لیے لیا تھا۔ سید بادشاہ کا اپنا گھر بھی نہیں، کرایے پر رہتا ہے۔ 2013 سے سود کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ دن و رات اس پریشانی میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ اگر ایم این اے یا کوئی صاحب جائیداد طبقے کا ہوتا تو اپنے ذمے یہ قرضہ این آر او کے تحت معاف کروا لیتا مگر وہ تو ایک غریب سرکاری ملازم ہے۔ سنا ہے کہ سابق حکومت نے 51 ارب روپے کے قرضے این آر او کے تحت معاف کیے۔ ہزاروں دولت مندوں نے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کروا لیے مگر سید بادشاہ وہیں لٹکتا رہا۔ کیا اس کا کوئی مداوا ہے؟ اس سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اربوں روپے لے کر ہڑپ کرنے والے شرفا کہلاتے ہیں اور 2/3 لاکھ روپے لینے والے مصیبتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان سارے مسائل کا حل ایک غیر طبقاتی اور امداد باہمی کے معاشرے میں مضمر ہے۔ سرمایہ داری صرف بھوک، ذلت اور اذیت دے سکتی ہے۔
کارپوریٹ میڈیا نے انتخابات کے نتائج پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی اور انقلاب کی فتح کو ہر ممکن حد تک مبہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ انتخابات کے نتائج نے انقلابی حکومت کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے والے سامراجی دانشوروں کے منہ بند کردیے ہیں۔ اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ''یہ انتخابات دراصل بائیں بازو کے رہنما ہوگوشاویز کے جانشیں مادورو کے لیے ریفرنڈم کا درجہ رکھتے تھے جس میں ان کی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ سوشلسٹ ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہیں''۔ انتخابات کے بعد پرجوش حامیوں نے خطاب کرتے ہوئے نکولس مادورو نے کہا کہ ''وینزویلا کے لوگوں نے دنیا کے لوگوں کو بتادیا ہے کہ شاویز کا بولیوارین انقلاب آج زیادہ قوت سے آگے بڑھ رہا ہے''۔ اس موقع پر انھوں نے بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی، سٹہ بازوں، طفیلی سرمایہ داروں اور انقلاب کے راستے میں معاشی رکاوٹیں کھڑی کرنے والے دوسرے عناصر کے خلاف جنگ تیز کرنے کا عزم بھی دہرایا۔ اس انتخابی فتح کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ سوشلزم کے خلاف تمام تر جھوٹ، بہتان زنی اور ''تاریخ کے خاتمے'' کے سامراجی اعلان کے باوجود یہ ثابت ہوا ہے کہ ہوگوشاویز کی جانب سے لگائے جانے والے اکیسویں صدی کے سوشلزم کے نعرے کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وینزویلا میں ابھی تک سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ نہیں ہوا ہے وہاں کے عوام نے ''سوشلزم تو ناکام ہوگیا'' جیسی باتوں کو یکسر رد کردیا ہے۔
اس وقت جب وینزویلا میں افراط زر کی شرح ریکارڈ 54 فیصد تک پہنچ چکی ہے، انتخابات کے نتائج پر تجزیہ کرتے ہوئے لوئس وینسٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ''یہ ایک عجیب تضاد ہے۔ معاشی بحران کا فائدہ مادورو کو ہورہا ہے''۔ مادورو حکومت کی مقبولیت کو فی الوقت افراط زر اور ضروریات زندگی کی قلت جیسے عوامل سے خطرہ لاحق ہے۔ وینزویلا کے حکمران طبقات کی جانب سے شعوری طور پر معاشی سبوتاژ کی مہم چلائی جارہی ہے۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو چلی میں سلواڈورا باندے کی حکومت کے خلاف استعمال کی گئی تھی۔ اس وقت امریکی صدر نکسن نے کسنجر کو حکم دیا تھا کہ ''چلی کی معیشت کو برباد کردو''۔ وینزویلا میں انقلابی حکومت کی جانب سے پچھلے دس سال میں کیے گئے اقدامات نے ثابت کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت کو ''ٹھیک'' نہیں کیا جاسکتا۔
ذرایع پیداوار کی نجی ملکیت کو قائم رکھتے ہوئے قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی روکنے جیسے اقدامات ناکافی بلکہ بعض صورتوں میں مضر ثابت ہو رہے ہیں۔ ذرایع پیداوار چونکہ ریاستی ملکیت میں نہیں ہیں لہٰذا ریاستی سرمایہ کاری کے مطابق پیداوار نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہورہا ہے۔ سرمایہ داروں کے پاس حکومتی پابندیوں سے بچنے کے کئی قانونی اور غیر قانونی طریقے موجود ہیں جنھیں وہ استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم برسر اقتدار آنے کے بعد سے سوشلسٹ پارٹی نے عوامی فلاح و بہبود کے کئی بڑے منصوبے مکمل کیے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ریلوے کا جدید نظام، سڑکیں، پل، پبلک ٹرانسپورٹ، اسکول، یونیورسٹیاں، سستے رہائشی منصوبے اور اسپتال تعمیر کیے گئے ہیں۔ ماضی میں حکمران طبقات کی تجوریوں میں جانے والا تیل کا پیسہ اب عوام پر خرچ کیا جارہا ہے۔ سامراج اور مقامی سرمایہ دار اپنی لوٹ مار پر لگنے والی کاری ضربوں سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔
انقلاب نے محنت کشوں کو نیا اعتماد دیا ہے۔ بہت سی فیکٹریوں پر مزدوروں نے قبضے کر لیے ہیں اور یہ فیکٹریاں کئی سال سے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلی آرہی ہیں۔ عوام کے شدید دباؤ کی وجہ سے حکومت کو اس عمل کی حمایت کرنا پڑی ہے۔ سرمایہ دار اس تمام صورت حال سے خوفزدہ ہیں اور سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔ وینزویلا کے حکمران طبقات کو امریکی اور ہسپانوی سامراج کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ معیشت کو غیر مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کررہے ہیں۔ انقلاب کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں 2001 میں ہی شروع ہوگئی تھیں۔ اپریل 2002 میں امریکی سامراج نے فوجی بغاوت کے ذریعے شاویز کو معزول کرکے کٹھ پتلی حکومت قائم کردی تھی لیکن لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ اس کے بعد سے سامراجی آقا اور وینزویلا کی نوکر شاہی میڈیا پراپیگنڈہ، سفارتی دباؤ، مزدور رہنماؤں پر قاتلانہ حملوں اور معاشی انتشار جیسے طریقے استعمال کرکے انقلابی اقدامات کے راستے میں بند باندھ رہے ہیں۔ وینزویلا کی نوکر شاہی، سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے مفادات سوشلسٹ انقلاب سے متضاد ہیں۔ سرمایہ دارانہ استحصال کو جاری رکھنے اور بے لگام منافع کمانے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر ریاستی طاقت پر قبضہ کیا جائے اور انقلاب کو کچل دیا جائے۔
ستمبر تک مادورو حکومت معاشی جکڑبندیوں کے خلاف تھی۔ تاہم نومبر کے آغاز میں حکومت کو سرمایہ داروں کے خلاف سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ غیرملکی تجارت کو آزاد کرنے کا منصوبہ رد کردیا گیا۔ حکام نے اجناس سے بھرے ہوئے ذخیروں پر چھاپے مارے اور ذخیرہ اندوزوں کو جائز قیمت پر اشیا بیچنے پر مجبور کیا گیا۔ اس دوران درجنوں سرمایہ داروں اور کاروباری حضرات کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ان حکومتی اقدامات کو بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی ملی۔ عوام کو مصنوعی قلت سے چھٹکارہ ملا اور اشیائے خور و نوش میسر آئیں۔ اس کے علاوہ عام شہریوں کے انقلابی جذبات کو نئی قوت ملی۔ بلدیاتی انتخابات میں سوشلسٹ پارٹی کی فتح طفیلی سرمایہ داروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کیے جانے والے حالیہ حکومتی اقدامات کا ہی نتیجہ ہے۔
جب کہ ہمارے ہاں سرمایہ داروں اور ذخیرہ اندوزوں کو کھلی چھوٹ اور تمام تر مشکلات عوام پر تھوپ دیے گئے ہیں۔ پشاور سے ایک سرکاری ملازم سید بادشاہ جس کا ایک دردناک خط موصول ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ''اپریل 2013 میں ایک نجی بینک نے بینک کے باہر بینر لگائے تھے جس پر لکھا تھا کہ ہر سرکاری ملازمین کے لیے خوشخبری، ہر سرکاری ملازم کو 50 تنخواہیں ایڈوانس ملیں گی، اس کے ایک رشتے دار نے بینک سے ایڈوانس تنخواہیں لینے کی تجویز پیش کی اور وہ بھی اس پرکشش جھانسے میں آگیا۔ اس نے بینک سے قرضے کا فارم لیا، اس میں 18.2 فیصد سود کا ذکر کہیں بھی درج نہ تھا۔ پھر اس نے قرضے کا وہ فارم اپنے مجاز اتھارٹی اور دو شخصی ضمانت اکاؤنٹ ہولڈرز 5 عدد اسٹامپ پیپر اپنے خاندان کے افراد کے نام کی تصدیق شدہ فارم بینک میں جمع کیے۔ 3 ماہ بعد مکمل چھان بین کے بعد اس کا قرضہ منظور ہوا۔ بینک نے پھر اسے 3 لاکھ روپے ایڈوانس تنخواہ دی۔ بینک ہر ماہ اس کی تنخواہ سے 9 ہزار روپے کٹوتی بمعہ سود کرتا ہے۔
اب اس کا بینک کا قرضہ تقریباً 2 لاکھ 80 ہزار روپے بمعہ سود بقایا ہیں۔ اس شخص نے بینک سے قرضہ عیش و عشرت کے لیے نہیں بلکہ اپنی بیوی کے علاج اور بیٹیوں کی شادی کے لیے لیا تھا۔ سید بادشاہ کا اپنا گھر بھی نہیں، کرایے پر رہتا ہے۔ 2013 سے سود کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ دن و رات اس پریشانی میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ اگر ایم این اے یا کوئی صاحب جائیداد طبقے کا ہوتا تو اپنے ذمے یہ قرضہ این آر او کے تحت معاف کروا لیتا مگر وہ تو ایک غریب سرکاری ملازم ہے۔ سنا ہے کہ سابق حکومت نے 51 ارب روپے کے قرضے این آر او کے تحت معاف کیے۔ ہزاروں دولت مندوں نے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کروا لیے مگر سید بادشاہ وہیں لٹکتا رہا۔ کیا اس کا کوئی مداوا ہے؟ اس سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اربوں روپے لے کر ہڑپ کرنے والے شرفا کہلاتے ہیں اور 2/3 لاکھ روپے لینے والے مصیبتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان سارے مسائل کا حل ایک غیر طبقاتی اور امداد باہمی کے معاشرے میں مضمر ہے۔ سرمایہ داری صرف بھوک، ذلت اور اذیت دے سکتی ہے۔