تصویرکے دوسرے رخ کو نظر انداز نہ کریں

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں اکثر لوگ کسی بھی معاملے کے حوالے سے تصویرکا ایک ہی رخ دیکھتے ہیں

jabbar01@gmail.com

1956میں امریکا میں ایک تیل بردار بحری جہاز اپنی منزل پر رواں دواں تھا کہ اچانک روٹ سے ہٹا اور سمندر میں موجود ایک چٹان سے ٹکرا گیا اور پاش پاش ہوگیا ، حادثے کے بعد جہاز کے کپتان کو گرفتارکر لیا گیا اور اس سے حادثے کی وجہ پوچھی گئی ،کپتان نے بتایا کہ جہاز ڈیک پرکھڑا تھا ، آسمان بالکل صاف تھا کہ اچانک آسمان سے آبشارکی طرح پانی گرا اور ساتھ ہی ایک موٹی تازی بھینس بھی آ گری ، بھینس کے گرنے سے جہاز کا توازن بگڑا اور جہاز چٹان سے ٹکرا گیا۔

کپتان کے اس بیان پر کوئی بھی نارمل شخص یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا ، تیل کی اس کمپنی نے اسے جھوٹا ، پولیس نے اسے مجرم اور ماہر نفسیات نے اسے پاگل قرار دے دیا ، اسے پاگل خانے بھیج دیا گیا ، جہاں وہ 25 سال قید رہا اور حقیقتاً پاگل ہو کر انتقال کر گیا ، اب آپ دوسرا واقعہ پڑھیے۔

اس واقعے کے 25 سال بعد ایئر فورس کے ایک افسر نے اپنی یاد داشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی، اس کتاب میں اس نے انکشاف کیا کہ 1956 میں ایک پہاڑی جنگل میں آگ لگ گئی اور اسے آگ بجھانے کی ذمے داری سونپی گئی ، اس نے ایک جہاز کے ساتھ ایک بڑا پانی کا ٹینک باندھا وہ اس ٹینک کو جھیل میں ڈبوکر بھرتا اور جنگل کے اوپر جاتا اور پانی اس پر گرا دیتا ، ایک بار وہ ٹینک لے کر جا رہا تھا کہ اچانک ٹینک کے اندر کسی زندہ چیزکی اچھل کود محسوس ہوئی ، اسے محسوس ہوا کہ ٹینک کے اندر کوئی زندہ چیز چلی گئی ہے، اسے خیال آیا کہ اگر اس نے ٹینک کو نیچے نہیں گرایا تو اس کا جہاز گرجائے گا۔

اس نے ٹینک کھول دیا ، ٹینک سے پانی آبشار کی طرح گرا اور ساتھ ہی ایک موٹی تازی بھینس نیچے بحری جہاز کے ڈیک پر گرگئی۔ یہ واقعہ میں نے فیس بک پر پڑھا ، مجھے نہیں معلوم کہ یہ واقعہ حقیقت پر مبنی ہے یا محض ایک افسانہ ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں اکثر لوگ کسی بھی معاملے کے حوالے سے تصویرکا ایک ہی رخ دیکھتے ہیں، وہ تصویر کے دوسرے رخ کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اکثر تجربات ، تصورات اور خیالات غلط ثابت ہوتے ہیں۔

ایک شخص اپنے حالات سے سخت پریشان تھا ، اسے اس سے نجات کا ایک ہی طریقہ سمجھ میں آیا وہ تھا ''خودکشی'' اس نے اس بات کا اظہار اپنے ایک دوست سے کیا ، اس کے دوست نے اسے ماہر نفسیات سے ملنے کا مشورہ دیا ، وہ شخص ماہر نفسیات کے پاس پہنچا اور ماہر نفسیات سے کہا کہ '' میں خودکشی کرنا چاہتا ہوں'' ماہر نفسیات نے جواب دیا ، کر لو خودکشی ، کس نے روکا ہے؟ اس شخص نے کہا کہ ''میں سوچتا ہوں کہ میرے خودکشی کرنے کے نتیجے میں میرے بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا؟'' ڈاکٹر نے جواب دیا کہ '' جب تمہارے پاس زندگی کا واضح مقصد ہے ، یعنی بچوں کا بہتر مستقبل تو پھر تمہیں اس نصب العین کو اپنا کر اپنی زندگی کی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے'' مجھے نہیں معلوم کہ اس شخص نے ڈاکٹر کی بات پر عمل کیا یا نہیں، تاہم مجھے یقین ہے کہ اگر اس نے ڈاکٹرکی بات پر عمل کیا ہوگا تو یقیناً وہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہوگا۔

اب ایک واقعہ پڑھیے۔گاؤں کے ایک وڈیرے کے گھر سے بھینس چوری ہوگئی ، وڈیرے نے پورے گاؤں والوں کو اپنے ڈیرے پر طلب کر لیا اورکہا جس نے بھی میری بھینس چوری کی ہے وہ میرے سامنے آئے،کوئی سامنے نہیں آیا ، تو اس نے کہا کہ ہر شخص حلف اٹھائے کہ اگر اس نے بھینس چوری کی ہے تو اس کے بچے مر جائیں۔ ہر شخص نے حلف اٹھایا یہاں تک کہ چور نے بھی حلف اٹھا لیا اور کہا کہ اگر میں نے بھینس چوری کی ہے تو میرے بچے مر جائیں۔ اس کا دوست یہ بات جانتا تھا اس نے کہا یار ! تُو نے جھوٹی قسم کھا لی، تو چور نے اپنے دوست کو جواب دیا کہ یار ! میرے بچے بھوک سے مر رہے تھے ، اب کم ازکم دودھ پی کر تو مریں گے۔ اب دوسرا واقعہ پڑھیے۔


ایک خاتون ڈاکٹرکے پاس آئیں اورکہا کہ اسے بہت زیادہ سردی محسوس ہورہی ہے۔ ڈاکٹر نے اسے دوا دی، وہ خاتون دوا لے کر چلی گئی۔ ڈاکٹر کے ساتھ ایک مریض یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ، اس نے ڈاکٹر سے کہا کہ یہ خاتون دسمبرکی سخت سردی میں صرف ساڑھی پہن کر باہر نکلی ہیں تو ظاہر ہے ان کو سردی تو لگے گی۔ آپ نے انھیں دوا دینے کے بجائے جرسی پہننے کا مشورہ کیوں نہیں دیا؟ ڈاکٹر نے کہا کہ '' اگر میری گرم ملبوسات فروخت کرنے کی دکان ہوتی، میں لازمی ان خاتون کو جرسی خریدنے کا مشورہ دیتا۔'' یہ دونوں واقعات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ مفادات ہمارے رویے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، ہمیں تصویر کے اس رخ پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔

1965 کی جنگ کے دوران ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں کو ملاقات کے لیے بلایا کیونکہ معاملہ قوم کی بقا کا تھا ، اس لیے ایوب خان کے جماعت اسلامی کے ساتھ سخت گیر رویے اور سیاسی اختلاف رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کے قائد مولانا مودودی بھی ایوان صدر تشریف لے گئے۔

جب ایوب خان سے مولانا مودودی کا آمنا سامنا ہوا تو ایوب خان نے دوران گفتگو مولانا مودودی سے سوال کیا کہ مولانا صاحب! یہ دین کا سیاست سے کیا تعلق ہے، میری آج تک سمجھ میں نہیں آیا؟ جواب میں مولانا مودودی نے فرمایا دین اور سیاست کا تعلق تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آیا، مگر فوج اور سیاست کا تعلق کروڑوں پاکستانیوں میں ایک کی بھی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ مولانا کا یہ جواب سن کر ایوب خان خاموش ہوگئے اور وہاں موجود رفقا کے قہقہوں نے ان کی لاج رکھ لی۔ یہ تھا تصویر کا دوسرا رخ جس کو سامنے لانے کے لیے غیر جذباتی انداز فکر اور زمینی حقائق کا علم ہونا ضروری ہے۔

دراصل ہم میں ہر شخص نے اپنے دماغ میں ایک مائنڈ سیٹ بنایا ہوا ہے ، یہ مائنڈ سیٹ کیا ہے اسے سمجھیے۔ ترکی میں مرد حضرات کے مابین ہاکی کی دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہو رہا تھا جس میں ریفری کے فرائض ایک خاتون انجام دے رہی تھیں، کھیل کے دوران عبداللہ نامی ایک کھلاڑی نے غلط اسٹروک کھیلا تو ریفری خاتون نے اسے کارڈ دکھا کر اس کو کھیل کے میدان سے نکل جانے کا حکم دیا۔ عبداللہ نے ناگوار انداز میں اس خاتون سے کہا کہ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ تمہیں تو کچن میں ہونا چاہیے۔ خاتون ریفری کو عبداللہ کی بات پر غصہ آگیا اور اس نے احتجاج کرتے ہوئے کھیل کو روک دیا۔

اس کا کہنا تھا کہ اس کھلاڑی نے اس کی تذلیل کی ہے، اس کھلاڑی کو سزا دی جائے۔ خاتون ریفری کے مطالبے پر میچ کے ختم ہونے کے بعد کھلاڑی کو سزا دینے کے لیے بورڈ تشکیل دیا گیا، کھلاڑی پر ایک مخصوص مدت تک کھیلنے پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کے ساتھ یہ سزا رکھی گئی کہ کھلاڑی اس مخصوص مدت تک خواتین کے کھیل میں بطور ریفری خدمات انجام دے گا، چند ہفتوں بعد خواتین کے مابین ہاکی کے ایک میچ کا انعقاد ہوا۔ عبداللہ ریفری کے فرائض انجام دے رہا تھا، اس نے میچ کے دوران نصف درجن سے زائد خواتین کو غلط اسٹروک کھیلنے پر کارڈ دکھا کر ان کو کھیل کے میدان سے نکل جانے کا حکم دیا اور ان سے کہا کہ '' تم یہاں کیا کر رہی ہو، تمہیں تو کچن میں ہونا چاہیے''۔

یہ مائنڈ سیٹ ہوتا ہے جو ہمارے تجربات ، مشاہدات اور تصورات سے تشکیل پاتا ہے، اس کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں جسے کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کے عمل کو اپنانے سے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ ہمارے یہاں یہ عام تاثر ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے سے موقف کمزور ہو جاتا ہے، میرے نزدیک اس سے موقف کمزور نہیں بلکہ زیادہ قابل قبول ہو جاتا ہے اس لیے اسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
Load Next Story