حکمران مسلم لیگ کہاں ہے
لیگی قیادت کی خاموشی حیران کن ہے جس نے سندھ کو پیپلز پارٹی کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے
پاکستان مسلم لیگ بلاشبہ ملک عزیز پاکستان کی خالق تھی اور رہے گی، خواہ اس کے مختلف گروپ بنتے رہیں یا یہ فوجی آمروں کی ضرورت رہے۔ حضرت قائداعظم بابائے قوم ہیں تو مسلم لیگ بھی پاکستان کی وہ ماں کہلاتی ہے جس کو خود مسلم لیگیوں نے ٹکڑے ٹکڑے کیا جب کہ ایک آمر فوجی جنرل ضیا الحق کو بھی اس اعزاز سے محروم نہیں رکھا جاسکتا جنھوں نے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں منتشر مسلم لیگ کو اکٹھا کرکے ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ بنوائی تھی اور ایک کٹر اور اچھی شہرت کے حامل مسلم لیگی محمد خان جونیجو کو پاکستان مسلم لیگ کا صدر اور وزیراعظم بنوایا تھا۔
1988 میں اپنی ہی قائم کردہ مسلم لیگ کی حکومت کو برطرف بھی جنرل ضیا ہی نے کیا تھا اور میاں نواز شریف کو پنجاب کا نگراں وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا جس کے بعد پھر مسلم لیگ کی تقسیم ہوئی اور مسلم لیگ جونیجو اور نواز شریف میں تقسیم ہوئی، جو بعد میں ایک بھی ہوئی اور نواز شریف اس کے سربراہ بنے اور 1999 تک میاں صاحب مسلم لیگ کے بڑے گروپ کے سربراہ رہے اور حامد ناصر چٹھہ نے اپنا گروہ جونیجو گروپ کے نام سے برقرار رکھا، جس نے پہلی بار پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر پنجاب پر حکومت بھی کی۔ پیر پگاڑا مرحوم نے بھی اپنی مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے بعد میں بحال کرلی تھی۔
جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے 2002 کے عام انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ قائداعظم بنوائی تھی جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی بڑی تعداد نے شرکت اختیار کرلی تھی۔ میاں اظہر کو سرکاری مسلم لیگ کا سربراہ بنایا گیا تھا جن کی شکست کے بعد چوہدری برادران مسلم لیگ (ق) کے سربراہ بن گئے جو اپنے اقتدار تک مضبوط رہی۔ 2007ء میں اگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نہ ہوتیں تو 2007 میں عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) نے ہی صدر پرویز مشرف کی صدارت میں ہر حال میں کامیاب ہونا تھا۔ مسلم لیگ (ق) سے مایوس ہوکر جنرل پرویز نے محترمہ بے نظیر کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ وہ 2007 کے عام انتخابات میں صدر پرویز مشرف کی صدارت میں وزیراعظم محترمہ نے ہی بننا تھا لیکن جن کی شہادت نے 2008 میں ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت مسلم لیگ (ن) کے اشتراک سے قائم کروا دی اور آصف علی زرداری صدر مملکت (ن) لیگ کے جلد الگ ہوجانے کے بعد بھاری اکثریت سے منتخب ہوگئے تھے۔
صدر پرویز مشرف کے استعفیٰ کے بعد مسلم لیگ (ق) کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوا اور 2013 کے انتخابات میں چوہدری صاحبان سیاسی طور پر کافی پیچھے رہ گئے۔
مئی 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو 13 سال بعد کامیابی حاصل ہوئی اور میاں نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم تو بن گئے مگر مسلم لیگ (ن) پنجاب میں تو اپنے دفاتر کے باعث نظر آتی ہے مگر عملی طور پر ملک بھر میں کمزور ہے اور مرکزی رہنما بھی اپنی مسلم لیگ (ن) پر توجہ نہیں دے رہے ہیں، البتہ مسلم لیگ کے سبز پرچم حکمرانوں کے سرکاری طور پر ہونے والے جلسوں میں ضرور نظر آرہے ہیں۔ 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) صرف پنجاب تک ہی محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ (ن) لیگ سندھ اور بلوچستان میں کامیابی حاصل نہ کرسکی البتہ صوبہ سرحد میں ضرور کچھ کامیابی حاصل کرسکی تھی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے اس وقت تک چمٹی رہی جب تک اسے (ن) لیگ نے علیحدہ نہ کردیا اور (ن) لیگ نے (ق) لیگ سے ٹوٹ کر فارورڈ بلاک بنانے والوں کی مدد سے 5 سال مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
2013 میں میاں صاحبان نے پنجاب پر بھرپور توجہ دی اور میاں شہباز شریف کی بہترین کارکردگی کے باعث مسلم لیگ (ن) غیر متوقع طور پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور توجہ نہ دیے جانے کے باوجود کے پی کے، بلوچستان اور کراچی سے (ن) لیگ کو اسمبلیوں میں نمایندگی تو حاصل ہوگئی مگر تین صوبوں کے برعکس (ن) لیگ صرف پنجاب ہی میں کچھ نظر آرہی ہے۔
مسلم لیگ کے رہنماؤں کی سرکاری مصروفیات نے مسلم لیگ (ن) کو ملک میں غیر فعال کرکے رکھا ہوا ہے اور لگتا ہے کہ فی الحال انھیں خود اپنی (ن) لیگ کی ضرورت نہیں ہے اسی لیے (ن) لیگ کے تنظیمی معاملات پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے اورکوئی ایک فرد بھی (ن) لیگ پر توجہ نہیں دے رہا۔
سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا پیر پگاڑا کی فنکشنل لیگ سے اتحاد تو ہے مگر سندھ میں یہ حال ہے کہ دونوں مسلم لیگیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ سید غوث علی شاہ کے استعفیٰ کے بعد گزشتہ کئی ماہ سے مسلم لیگ سندھ کے پاس قائم مقام صدر تک نہیں ہے اور لوگ (ن) لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں اور سندھ کے جو اہم لوگ (ن) لیگ میں ہیں انھیں خود مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت بھی نہیں پوچھ رہی۔ صرف کراچی میں کہیں کہیں (ن) لیگ نظر آتی ہے جب کہ اندرون سندھ میں موجودہ پیرپگاڑا کی عدم دلچسپی سے فنکشنل لیگ کا بھی صفایا ہورہا ہے جو چند اضلاع تک محدود ہے۔ فنکشنل لیگ گزشتہ ضمنی الیکشن میں خود اپنی آبائی نشستیں بھی نہ بچا سکی اور فنکشنل لیگ چھوڑ کر پی پی میں شامل ہونے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ امتیاز احمد شیخ کے سوا فنکشنل لیگ کی قیادت بھی کہیں سوئی ہوئی ہے اور پیر صاحب پگاڑا بھی فنکشنل لیگ کو سندھ میں پی پی کا متبادل بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) میں عام انتخابات سے قبل سندھ کے دو سابق وزرائے اعلیٰ ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی شامل ہوئے تھے۔ ممتاز بھٹو نے اپنا فرنٹ اور ارباب غلام رحیم نے اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) میں ضم کردی تھی مگر یہ تینوں سابق وزرائے اعلیٰ بھی سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوئے جب کہ مسلم لیگی قیادت نے اپنے ناراض سینئر رہنما غوث علی شاہ کو بھی منانے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے غوث علی شاہ اور ان کے ساتھی بھی خاموش ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔
بلوچستان اور کے پی کے میں بھی (ن) لیگ صرف ایوانوں تک ہی محدود نظر آتی ہے جب کہ ہزارہ ڈویژن بھی (ن) لیگ کو پہلے والی پوزیشن حاصل نہیں رہی ہے۔
اس سلسلے میں (ن) لیگی قیادت کی خاموشی حیران کن ہے جس نے سندھ کو پیپلز پارٹی کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے لوگ سندھ سے بڑی تعداد میں (ن) اور (ق) لیگ اور فنکشنل لیگ کے بجائے پیپلز پارٹی کو اہمیت دے رہے ہیں۔ لگتا ہے مسلم لیگی رہنماؤں کو حکومت مل گئی ہے اور اب وہ (ن) لیگ پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے جس کی وجہ سے ملک میں تحریک انصاف اور پی پی پروان چڑھ رہی ہیں۔