بات ہے اخلاقی قدروں کی
میانمارکے نقشے پر نظر ڈالیے تو یہ آپ کو بھارت ، بنگلہ دیش ، لائوس اور تھائی لینڈ کے درمیان گھرا نظر آئے گا
میانمارکے نقشے پر نظر ڈالیے تو یہ آپ کو بھارت ، بنگلہ دیش ، لائوس اور تھائی لینڈ کے درمیان گھرا نظر آئے گا ، جس کے ایک جانب بحرہندکا وسیع نیلگوں پانی قدرت کے اس خوبصورت اور تاریخی حوالے سے کچھ شکستگی کی کہانی سناتا نظر آئے گا۔ یہاں ٹیک کے درخت کے وسیع جنگلات ہیں ، ٹیک کی لکڑی بہت پائیدار اور موسم کے بدلتے تغیرات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
حالیہ میانمار اور ماضی کا برما مسلمانوں کے حوالے سے ہمیشہ تنگ دل رہا ، 60 کے عشرے میں بہت سے برمی مسلمان خاندانوں نے پاکستان ہجرت کی تھی وہ جن مسائل و مصائب کا شکار تھے ، ان حالات میں انھیں اپنا مستقبل مخدوش نظر آ رہا تھا ،کچھ معاشی طور پر ذرا مستحکم بھی تھے ، لہٰذا اسی بنیاد پر ہجرت کی اور آج بھی بڑے سکون سے زندگی گزار رہے ہیں ، وہیں بہت سے ایسے لوگ اب بھی انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جنھوں نے 1947 اور 1970 کے زمانے میں برصغیر سے برما کی جانب ہجرت کی تھی، اس زمانے میں برما کے حالات معاشی اعتبار سے مخدوش تھے اور ہجرت کرنیوالوں کے ذہنوں میں وہی پرانی تصاویر محفوظ تھیں جب انگریز سرکارکے دور میں برمی سر جھکا کر نہایت خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے ، ویسے بھی ایک طویل جنگ نے برمی قوم کو شکستہ کر رکھا تھا لیکن گزرتے وقت نے انھیں آزادی کے ساتھ طاقت کے غلط استعمال کا سبق پڑھا دیا یوں فوج نے میانمار کو ایسے سنبھالا کہ ایک عام انسان اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے بھی محروم ہوگیا۔
ایسے ہی حالات میں آنگ سان سوچی بظاہر ایک کمزور سی خاتون نے احتجاج کے لیے آواز بلند کی تو ان کے پیچھے قطار بنتی چلی گئی ، سمجھا یہ گیا تھا کہ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں یہ خاتون رہنما سچائی کا علم لے کر آگے بڑھتی ہی چلی جائے گی اور ایسا ہی ہوا بھی جب انھیں امن کے نوبل ایوارڈ سے نوازا گیا ، جمہوریت کے لیے لڑنیوالی آنگ سان سوچی نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ جیل کی نظر نہ آنے والی آہنی سلاخوں کے پیچھے گزارا تھا جب 2010 میں کھلی فضا میں نکلیں تو میانمارکے باسیوں کو امیدکی واضح کرن نظر آئی لیکن جلد ہی یہ کرن تعصب کے طوفان میں کہیں کھو گئی۔
روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ سوال نہیں ہے کیونکہ آج تک اس حوالے سے بہت کچھ دکھایا اور لکھا جا چکا ہے، ان لاکھوں بے گناہوں کے خون کا حساب دینا کیا کسی کے لیے بھی اس قدر آسان تھا ، ہرگز نہیں اور ایسا ہی ہوا ، جب آنگ سان سوچی کو عالمی عدالت میں جانا ہی پڑا ، ان کے خلاف گواہوں کے ایسے ثبوت اور شواہد تھے جنھیں جھٹلانا ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا ، سات لاکھ چالیس ہزار انسان اگر مسلمان تھے تو کیا ہوا ، لیکن زمین پر قبضہ اور غرور انسان کو کسی بھی حد سے گرا سکتا ہے ایسا آنگ سان سوچی کے ساتھ ہوا۔
کیا واقعی ایک عورت اس قدر ظالم اور خود مختار ہوسکتی ہے جو کھلے عام قتل ، ریپ اور آگ میں انسانی جانوں کو جھونکنے جیسے قبیح جرم کی اجازت دے سکتی ہے؟ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کا سب سے بڑا کیمپ کوکس بازار جہاں انسانوں کے ساتھ اذیتوں کی کہانی کا سفر شروع ہوا تو مجبوراً میانمارکا رخ کیا کہ پانی کے اس پار یہی نزدیک تھا ، جسے جو میسر آیا سفر کے لیے اختیار کیا ، لٹے پٹے ، بھوکے پیاسے، گرتے پڑتے پہنچے بھی تو اس سرزمین پر جو پہلے سے ہی بندوقیں سنبھالے بیٹھے تھے اور پھر ان کے دکھوں اور آہوں کی آوازیں دور دور تک سنائی دیں اور یوں آنگ سان سوچی کے امن کا پردہ فاش ہو گیا ، ان سے امن کا نوبل انعام بھی واپس لے لیا گیا۔2015 میں سوچی اور اس کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے باقاعدہ انتخابات میں حصہ لیا اور ان کی حکومت منتخب بھی ہوئی۔
لیکن پھر پہلی فروری 2021 کو سنا گیا کہ میانمار میں فوجی اقتدار آچکا ہے، کہا جا رہا ہے کہ آنگ سان سوچی پر لاکھوں ڈالرزکی کرپشن کا الزام ہے ، میانمار میں اب بھی حالات کشیدگی کا شکار ہیں ، عوام پریشان ہے لیکن اس دوران ان ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کا کیا ہوا جو ان حالات میں پہلے ہی پس رہے تھے۔ روہنگیا کے مسلمان اب بھی دشواری اور تکلیفوں کا شکار ہیں ، میانمار کے بودھ پرستوں کے قتل عام سے بچ کر اپنی جانیں بچا کر بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں پناہ لے رہے ہیں جہاں پولیس ان کو پکڑ لیتی ہے بہت سے لوگ جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں جب کہ بہت سے زمینداروں کے بڑے بڑے احاطوں میں کرائے پر رہنے پر مجبور ہیں ، ان کے خاندان اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بے چین ہیں۔
آنگ سان سوچی کو عالمی شہرت ملی اور اسی قدر روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے بدنامی بھی نصیب ہوئی پھر بھی وہاں سوچی کو پسند کیا جا رہا تھا۔ یہ ایک عجیب سی صورتحال تھی کہ ایک بد نام زمانہ خاتون جن کے دامن پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کے خون کے دھبے ہیں، آیندہ پانچ سالوں کے لیے دوبارہ اقتدار کی جنگ میں جیتنے جا رہی تھی کہ اسے روک دیا گیا ، لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وہاں کی آرمی کی سوچی سمجھی اسکیم ہے کہ اس طرح سوچی کو اقتدار سے دور رکھا جائے وہ آرمی کے تمام الزامات کو مسترد کرتے احتجاج کے لیے کھڑے ہوچکے ہیں۔
میانمار میں اب بھی جنگ جاری ہے۔ بھارت میں نریندر مودی 90 کے عشرے سے ہی تعصب اور شدت پسندی کے رجحان میں ملوث پائے گئے تھے لیکن اس کے باوجود انھیں اقتدارکی کرسی ایک بار نہیں بلکہ دو بار ملی۔ سوچی اور نریندر مودی اپنی ذہنیت اور عصبیت پسندی میں اگر انیس بیس ہیں تو ان کی قسمت بھی ان کے لیے انیس بیس ہی کی طرح ہے سوچی اپنے تمام تر کالے کرتوتوں کے ساتھ اقتدار کی مدت پوری کرکے دوسری اننگ کھیلنے کی تیاری کر رہی تھیں کہ انھیں فی الحال دوسری اننگ کے لیے حکم نہیں ملا جب کہ مودی دوسری بار بھی بیس کی بازی کے ساتھ آگے رہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عوامی طاقت اتنی بدنامی اور خون کی کہانیوں سے بنے باب پڑھنے کے باوجود ایسے ظالم حکمرانوں کا ساتھ دینے پر تلی ہے۔
سچ کیا ہے وہ جاننا اور سننا نہیں چاہتے کیونکہ وہ بہت کچھ جاننے کے باوجود بھی گونگے بہرے بنے بظاہر جمہوری میناروں کا ساتھ دے رہے ہیں، ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیا جمہوری رویوں کی آڑ میں وہ اخلاقی پستیوں میں گرتے جا رہے ہیں، یہ تشدد ، تعصب اور دہرے رویے قوموں کو کس دھارے پر لے کر جا رہے ہیں یہ تو آنے والا کل ہی بتا سکتا ہے لیکن بے گناہ اور مظلوم کی آہ اور فریاد تو آسمان کا بھی دل چیر دیتی ہے مسلمان تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں لیکن اخلاقی تقاضے ہر قوم پر حاوی ہونے چاہئیں یہی ماڈرن دورکا امن کہلاتا ہے۔
حالیہ میانمار اور ماضی کا برما مسلمانوں کے حوالے سے ہمیشہ تنگ دل رہا ، 60 کے عشرے میں بہت سے برمی مسلمان خاندانوں نے پاکستان ہجرت کی تھی وہ جن مسائل و مصائب کا شکار تھے ، ان حالات میں انھیں اپنا مستقبل مخدوش نظر آ رہا تھا ،کچھ معاشی طور پر ذرا مستحکم بھی تھے ، لہٰذا اسی بنیاد پر ہجرت کی اور آج بھی بڑے سکون سے زندگی گزار رہے ہیں ، وہیں بہت سے ایسے لوگ اب بھی انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جنھوں نے 1947 اور 1970 کے زمانے میں برصغیر سے برما کی جانب ہجرت کی تھی، اس زمانے میں برما کے حالات معاشی اعتبار سے مخدوش تھے اور ہجرت کرنیوالوں کے ذہنوں میں وہی پرانی تصاویر محفوظ تھیں جب انگریز سرکارکے دور میں برمی سر جھکا کر نہایت خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے ، ویسے بھی ایک طویل جنگ نے برمی قوم کو شکستہ کر رکھا تھا لیکن گزرتے وقت نے انھیں آزادی کے ساتھ طاقت کے غلط استعمال کا سبق پڑھا دیا یوں فوج نے میانمار کو ایسے سنبھالا کہ ایک عام انسان اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے بھی محروم ہوگیا۔
ایسے ہی حالات میں آنگ سان سوچی بظاہر ایک کمزور سی خاتون نے احتجاج کے لیے آواز بلند کی تو ان کے پیچھے قطار بنتی چلی گئی ، سمجھا یہ گیا تھا کہ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں یہ خاتون رہنما سچائی کا علم لے کر آگے بڑھتی ہی چلی جائے گی اور ایسا ہی ہوا بھی جب انھیں امن کے نوبل ایوارڈ سے نوازا گیا ، جمہوریت کے لیے لڑنیوالی آنگ سان سوچی نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ جیل کی نظر نہ آنے والی آہنی سلاخوں کے پیچھے گزارا تھا جب 2010 میں کھلی فضا میں نکلیں تو میانمارکے باسیوں کو امیدکی واضح کرن نظر آئی لیکن جلد ہی یہ کرن تعصب کے طوفان میں کہیں کھو گئی۔
روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ سوال نہیں ہے کیونکہ آج تک اس حوالے سے بہت کچھ دکھایا اور لکھا جا چکا ہے، ان لاکھوں بے گناہوں کے خون کا حساب دینا کیا کسی کے لیے بھی اس قدر آسان تھا ، ہرگز نہیں اور ایسا ہی ہوا ، جب آنگ سان سوچی کو عالمی عدالت میں جانا ہی پڑا ، ان کے خلاف گواہوں کے ایسے ثبوت اور شواہد تھے جنھیں جھٹلانا ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا ، سات لاکھ چالیس ہزار انسان اگر مسلمان تھے تو کیا ہوا ، لیکن زمین پر قبضہ اور غرور انسان کو کسی بھی حد سے گرا سکتا ہے ایسا آنگ سان سوچی کے ساتھ ہوا۔
کیا واقعی ایک عورت اس قدر ظالم اور خود مختار ہوسکتی ہے جو کھلے عام قتل ، ریپ اور آگ میں انسانی جانوں کو جھونکنے جیسے قبیح جرم کی اجازت دے سکتی ہے؟ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کا سب سے بڑا کیمپ کوکس بازار جہاں انسانوں کے ساتھ اذیتوں کی کہانی کا سفر شروع ہوا تو مجبوراً میانمارکا رخ کیا کہ پانی کے اس پار یہی نزدیک تھا ، جسے جو میسر آیا سفر کے لیے اختیار کیا ، لٹے پٹے ، بھوکے پیاسے، گرتے پڑتے پہنچے بھی تو اس سرزمین پر جو پہلے سے ہی بندوقیں سنبھالے بیٹھے تھے اور پھر ان کے دکھوں اور آہوں کی آوازیں دور دور تک سنائی دیں اور یوں آنگ سان سوچی کے امن کا پردہ فاش ہو گیا ، ان سے امن کا نوبل انعام بھی واپس لے لیا گیا۔2015 میں سوچی اور اس کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے باقاعدہ انتخابات میں حصہ لیا اور ان کی حکومت منتخب بھی ہوئی۔
لیکن پھر پہلی فروری 2021 کو سنا گیا کہ میانمار میں فوجی اقتدار آچکا ہے، کہا جا رہا ہے کہ آنگ سان سوچی پر لاکھوں ڈالرزکی کرپشن کا الزام ہے ، میانمار میں اب بھی حالات کشیدگی کا شکار ہیں ، عوام پریشان ہے لیکن اس دوران ان ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کا کیا ہوا جو ان حالات میں پہلے ہی پس رہے تھے۔ روہنگیا کے مسلمان اب بھی دشواری اور تکلیفوں کا شکار ہیں ، میانمار کے بودھ پرستوں کے قتل عام سے بچ کر اپنی جانیں بچا کر بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں پناہ لے رہے ہیں جہاں پولیس ان کو پکڑ لیتی ہے بہت سے لوگ جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں جب کہ بہت سے زمینداروں کے بڑے بڑے احاطوں میں کرائے پر رہنے پر مجبور ہیں ، ان کے خاندان اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بے چین ہیں۔
آنگ سان سوچی کو عالمی شہرت ملی اور اسی قدر روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے بدنامی بھی نصیب ہوئی پھر بھی وہاں سوچی کو پسند کیا جا رہا تھا۔ یہ ایک عجیب سی صورتحال تھی کہ ایک بد نام زمانہ خاتون جن کے دامن پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کے خون کے دھبے ہیں، آیندہ پانچ سالوں کے لیے دوبارہ اقتدار کی جنگ میں جیتنے جا رہی تھی کہ اسے روک دیا گیا ، لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وہاں کی آرمی کی سوچی سمجھی اسکیم ہے کہ اس طرح سوچی کو اقتدار سے دور رکھا جائے وہ آرمی کے تمام الزامات کو مسترد کرتے احتجاج کے لیے کھڑے ہوچکے ہیں۔
میانمار میں اب بھی جنگ جاری ہے۔ بھارت میں نریندر مودی 90 کے عشرے سے ہی تعصب اور شدت پسندی کے رجحان میں ملوث پائے گئے تھے لیکن اس کے باوجود انھیں اقتدارکی کرسی ایک بار نہیں بلکہ دو بار ملی۔ سوچی اور نریندر مودی اپنی ذہنیت اور عصبیت پسندی میں اگر انیس بیس ہیں تو ان کی قسمت بھی ان کے لیے انیس بیس ہی کی طرح ہے سوچی اپنے تمام تر کالے کرتوتوں کے ساتھ اقتدار کی مدت پوری کرکے دوسری اننگ کھیلنے کی تیاری کر رہی تھیں کہ انھیں فی الحال دوسری اننگ کے لیے حکم نہیں ملا جب کہ مودی دوسری بار بھی بیس کی بازی کے ساتھ آگے رہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عوامی طاقت اتنی بدنامی اور خون کی کہانیوں سے بنے باب پڑھنے کے باوجود ایسے ظالم حکمرانوں کا ساتھ دینے پر تلی ہے۔
سچ کیا ہے وہ جاننا اور سننا نہیں چاہتے کیونکہ وہ بہت کچھ جاننے کے باوجود بھی گونگے بہرے بنے بظاہر جمہوری میناروں کا ساتھ دے رہے ہیں، ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیا جمہوری رویوں کی آڑ میں وہ اخلاقی پستیوں میں گرتے جا رہے ہیں، یہ تشدد ، تعصب اور دہرے رویے قوموں کو کس دھارے پر لے کر جا رہے ہیں یہ تو آنے والا کل ہی بتا سکتا ہے لیکن بے گناہ اور مظلوم کی آہ اور فریاد تو آسمان کا بھی دل چیر دیتی ہے مسلمان تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں لیکن اخلاقی تقاضے ہر قوم پر حاوی ہونے چاہئیں یہی ماڈرن دورکا امن کہلاتا ہے۔