رجحان ساز ڈرامہ نگار حسینہ معین اور پی ٹی وی کی پہلی نیوز کاسٹر کنول نصیر بھی رخصت ہوئیں
موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے کسی بھی صورت جھٹلایا نہیں جا سکتا
موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے کسی بھی صورت جھٹلایا نہیں جا سکتا، اس دنیا میں جو بھی آیا،اس نے آخرکار اس بھرے میلے کو چھوڑ کر جانا ہی ہے، لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا جانا لاکھوں لوگوں کو اداس کر جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے تین مایہ ناز فنکار بھی اوپر تلے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ ان میں دو خواتین کا تذکرہ اس مضمون کے ذریعے کیا جا رہا ہے جبکہ گلوکار شوکت علی پر الگ آرٹیکل شامل ہے۔
ان دو باصلاحیت خواتین نے اپنے اپنے شعبے میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان میں سے ایک پاکستان ٹیلی ویڑن کی پہلی براڈ کاسٹر کنول نصیر اور دوسری معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین ہیں ، اب یہ دونوں خواتین ہم میں نہیں رہیں۔25 مارچ کی شام خبر ملی کہ کنول نصیر 73 برس کی عمر میں اسلام آباد میں مختصر علالت کے بعد وفات پا گئی ہیں او ر اگلے روز کی خبر آئی یہ کراچی میں مقیم ڈرامہ نگار حسینہ معین بھی چل بسی ہیں۔ابھی تو پرستار معروف کمپیئر اور صداکار طارق عزیز اور اطہر شاہ خان جیدی کے صدمے سے ہی باہر نہیں آئے تھے کہ کنول نصیر اور حسین معین کے انتقال کی خبرآ گئی۔ حسینہ معین دل کے عارضے میں مبتلا تھیں اور ان کا 80 برس کی عمر میں انتقال ہوا، اہلخانہ کے مطابق حسینہ معین طویل عرصے سے کینسر اور دل کے عارضے میں مبتلا تھیں۔
ان کی نماز جنازہ بعد نماز عصر مسجد فاروق اعظم نارتھ ناظم آباد میں ادا کی گئی اور بعدازاں انہیں سخی حسن قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا، حسینہ معین کی نماز جنازہ میں شہرقائد کی معروف علمی و ادبی شخصیات ، سماجی کارکنان اور آرٹس کونسل کے ممبران سمیت کثیر تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔پاکستان کی بین الاقوامی شہرت کی حامل، مصنفہ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار حسینہ معین نے فلم،ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کے لئے جو بھی لکھا خوب لکھا ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کو پوری دنیا خاص طور پر پڑوسی ملک میں بے پناہ پذیرائی ملی۔
یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں حسینہ معین نے ''پل ِ صراط کا سفر'' نامی ناول بھی تحریر کیا تھا جو کافی مقبول ہوا۔ حسینہ معین کو لکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا جس کے باعث وہ بچوں کے ماہانہ رسالے''بھائی جان'' کے لئے کالم بھی لکھتی تھیں۔حسینہ معین ریڈیو پاکستان سے نشر کئے جانے والے ہفتہ وار پروگرام ''سٹوڈیو نمبر نو'' کے لئے خاکے بھی لکھتی تھیں۔ ان کے قلم کی شہرت سے متاثر ہوکر شومین آف بالی ووڈ راج کپور نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی فلم ''حنا''کے مکالمے لکھیں۔
''حنا'' میں پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور ان کے مقابل آنجہانی رشی کپور ہیرو تھے یہ فلم راج کپور کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔ ان کی لکھی ہوئی پاکستانی فلموں میں پہلی فلم ''یہاں سے وہاں تک''تھی، جس میں وحید مراد نے مرکزی کردار نبھایا تھا۔اس کے بعد عثمان پیرزادہ کے لئے لکھی گئی فلم ''نزدیکیاں''اور جاوید شیخ کی فلم ''کہیں پیار نہ ہوجائے''شامل تھیں۔ ان تمام فلموں کی کہانیاں اپنی اپنی جگہ دلچسپ اور تخلیق سے بھرپور تھیں۔
حسینہ معین کا فنّی کیرئیر کامیابیوں کی طویل داستان ہے۔ حسینہ معین کے ٹیلی ویڑن کیریئر کا آغاز 1969 میں ہوا جب انہوں نے افتخار عارف کے کہنے پر ''عید کا جوڑا'' کے نام سے ڈرامہ تحریر کیاتھا۔پاکستان ٹیلی ویڑن سے پیش کئے جانے والے اس ڈرامے کو ناظرین نے بے حد پسند کیا تھا۔ حسینہ معین نے ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کے لئے پاکستان اور بیرون پاکستان بہت سے یادگار ڈرامے لکھے ڈراموں میں انکل عرفی'، 'ان کہی'، 'تنہائیاں'، 'کہر'، 'آئینہ'، 'کرن کہانی'، 'زیر زبر پیش'، 'دھوپ کنارے'، 'بندش'، 'دھند'، 'کسک'، 'تان سین'، 'میرے درد کو جو زبان ملے'،'تم سے مل کر'اور دیگر شامل ہیں۔
حسینہ معین کی ڈرامہ سیریل 'دھوپ کنارے' کو بھارت میں بے پناہ پذیرائی ملی تھی اور اس ڈرامہ سیریل کوبھارتی مصنف کملیش پانڈے نے حسینہ معین کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی غرض سے نئے سرے سے تحریر کیا اور اسے''کچھ تو لوگ کہیں گے'' آن ایئر کیا گیا۔''کچھ تو لوگ کہیں گے'' 2011سے 2013تک چلا اور عوام میں بہت پسند کیا گیا۔چھاتی کے کینسر کی آگاہی کے حوالے سے ان کی تحریر کردہ ویب سیریز ''ابھی نہیں''اگلے ماہ آن ایئر ہوگی۔انتقال سے قبل بھی وہ کام کے سلسلے میں لاہورآنے کی تیاری کررہی تھیں کہ انہیں دل کا دورہ پڑاجو جان لیوا ثابت ہوا۔ حسینہ معین نے بہت سے ممالک کا دورہ کیا اور متعدد ایوارڈز جیتے، 1987 میں انہیں پرفارمنگ آرٹ کی خدمت کے صلے میں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازاگیا جبکہ 1970 میں ٹوکیو میں گلوبل ٹی وی پلیز فیسٹیول میں انھیں''وومن آف دی ائیر'' کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔حسینہ معین نے پاکستانی سیاسی جماعت پی ٹی آئی بھی جوائن کر رکھی تھی۔
2013 میں حسینہ معین نے الیکشن کے دوران تحریکِ انصاف کا ساتھ بھی دیاتھا۔ فنکاروں ثمینہ پیرزادہ، ہمایوں سعید، عدنان صدیقی، بشری انصاری، ساجد حسن، شاہدہ منی، میگھا و دیگرنے ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ سینئراداکارہ ثمینہ پیرزادہ نے معروف ڈرامہ نگارحسینہ معین کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یقین نہیں آرہا کہ وہ اب حسینہ معین کی آوازنہیں سن سکیں گی۔ ثمینہ پیرزادہ کا کہنا ہے کہ حسینہ معین میری زندگی کی ایک ایسی شخصیت تھیں جن کا میں نے ہمیشہ احترام کیا، تعریف کی اوران کو پسند کیا۔
حسینہ معین 20 نومبر 1941 بھارت کے شہر کان پور میں پیدا ہوئی تھیں، انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد ان کا گھرانہ راولپنڈی میں آباد ہوا مگر جلد ہی لاہور منتقل ہوگیا۔وہ 50 کی دہائی میں کراچی منتقل ہوئیں۔ انہوںنے بچپن میں بچوں کے اخبار میں لکھنے سے آغاز کیا لیکن باقاعدہ طور پر لکھنا کالج جا کر شروع کیا۔
انھوں نے کئی برس کینسر سے لڑتے گزارے اور بالآخر کامیاب ہوئی تاہم لکھنے کا سلسلہ پھر اس طرح جڑ نہ سکا لیکن سماجی تقریبات اور ادب سے متعلق فیسٹیولز میں وہ ہمیشہ اپنے سنجیدہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دکھائی دیتی تھیں۔
حسینہ معین نے ڈرامہ نگاری میں صف اول میں اپنا نام پیدا کیا انہوں نے جہاں عورت کے مسائل کو اجاگر کیا وہیں معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کو بھی ڈرامہ لکھ کر سکرین تک لوگوں کی اصلاح کے لئے دیا ایسا کونسا ڈائریکٹر تھا جو ان کے لکھے ڈرامے کو ڈائرکٹ نا کرنا چاہتا ہو ایسا کونسا اداکار تھا جو حسینہ معین کے لکھے ڈرامے میں کام کرنے کا خواہشمند نا ہو، حسینہ معین نے جب بھی قلم اٹھایا انہوں نے معاشرے کی اصلاح اور تعمیری سوچ کو اجاگر کیا اور انسانی دماغ کو جھنجھوڑ دینے والے موضوعات پر لکھا اور عام فہم زبان اور مکالمے بازی کے ذریعے عام دیکھنے اور سننے والے کو سوچ بچار پر مجبور کر دیا ہم کسی صورت حسینہ معین کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔
اپنے ایک انٹرویو میں حسینہ معین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز نے انھیں لکھنے لکھانے سے منع کیا تھا لیکن دور حاضر کے ڈراموں پر انھوں نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا کہ جب وہ چار سال بعد سو کر اٹھیں تو سمجھو سب بدل چکا تھا۔انھوں نے کہا کہ 'ہم نے 40 سال کے کام میں ایک مضبوط اور خود مختار عورت کو پروان چڑھایا تھا لیکن اب ڈراموں میں عورت کو روتا دھوتا ہی دکھایا جاتا ہے۔
مرینہ خان، شہناز شیخ، شہلا احمد سمیت کئی ایسی اداکارائیں ہیں جنھیں حسینہ معین نے اپنے ڈراموں کے مرکزی کردار دیے۔حسینہ معین نے کے مطابق میں کریڈٹ دیتی ہوں اپنے دور کے ہدایت کاروں کو جنھوں نے مجھے تسلیم کیا اور بلایا،جب میں سیکنڈ ایئر میں تھی تو ایک مقابلے کے لیے دو ڈھائی دن میں ڈرامہ لکھا۔ تین چار مہینے کے بعد نتیجہ آیا اور ہمارے کالج کو ایوارڈ ملا۔ بعد میں آغا ناصر نے اسے پروڈیوس کیا اور کہا کہ تم نے تو میری نوکری کو خطرے میں ڈال دیا لوگوں نے کہا کہ یہ کوئی لڑکی نہیں لکھ سکتی۔
بلاشبہ حسینہ معین کے جانے سے پاکستان ٹیلی ویڑن کا سنہری دور اختتام کو پہنچا۔ ان کی بغاوت ایک مقصد کے لیے تھی اور انھوں نے اپنے ڈراموں میں خواتین کرداروں کو مضبوطی دی۔ ان کی عقل و سمجھ بوجھ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہی تھیں جنھوں نے پاکستانی ڈراموں کو ملک سے باہر بھی مقبول بنایا۔ کسی اور نے ان کی طرح شہری خواتین کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا حسینہ کے ڈراموں نے کیا۔حسینہ معین ایک ہر دل عزیز شخصیت تھیں ان کی وفات ادبی دنیا کے لئے ایک عظیم سانحہ ہے ،جس پر پوری قوم افسردہ ہے ان کی رحلت سے ڈرامہ نگاری کا ایک عہد تمام ہو گیا ہے۔
ایک ہی ہفتے میں دوسری بڑی خبرپاکستان کی پہلی نیوز کاسٹر کنول نصیرکے انتقال کی تھی، وہ معروف براڈ کاسٹر موہنی حمید (آپا شمیم) کی بیٹی تھیں اور انھیں پانچ دہائیوں تک پاکستان ٹیلی ویڑن اور ریڈیو کے لیے بطور براڈکاسٹر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ڈراموں میں بھی کام کیا۔کنول نصیر نے 26 نومبر 1964 کو پی ٹی وی کے قیام کے وقت پہلی اناؤنسمنٹ کی تھی۔ انھوں نے 17 سال کی عمر سے ٹی وی میں کام کرنا شروع کیا، ٹی وی ڈرامے کی پہلی ہیروئن بھی کنول نصیر تھیں۔ٹی وی سکرین پر پہلی بار 'میرا نام کنول حمید ہے۔
آج پاکستان میں ٹیلی ویڑن آ گیا ہے۔ آپ کو مبارک ہو' کے الفاظ بھی ادا کیے۔انھوں نے دیگر زبانوں میں بھی کام کیا جن میں9 برس تک انگریزی کا پروگرام اور اس کے علاوہ پوٹھوہاری زبان میں سانجھا نامی پروگرام کیا۔ انھیں لاتعداد ایوارڈ بھی ملے۔خواتین کے پروگرامز ہوں یا قومی و بین الاقوامی ایونٹس، کنول نصیر میزبانی کے فرائض سرانجام دیتی تھیں۔ کنول نصیرالفاظ کی ادائیگی پروگرام کی نوعیت دیکھ کر کرتی ہیں۔دنیا سے جاتے وقت بھی وہ ریڈیو سے اپنا رابطہ برقراررکھے ہوئے تھیں۔
بلاشبہ کنول نصیرکے اردو لہجے کا کوئی ثانی نہیں تھا، وہ حیرت انگیز، باوقار اور بہت سوں کے لیے اپنے منفرد انداز میں بہت مہربان رہنما تھیں۔چیئرپرسن الحمراء منیزہ ہاشمی نے کنول نصیرکے انتقال پر گہرے دْکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریڈیو،ٹیلی ویڑن کے لئے کنول نصیر کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔کنول نصیر زبان میں شگفتہ،متین لب و لہجہ والی،دلوں کو موہ لینے اور دماغوں کو متاثر کرنے والا انداز رکھتی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معروف صداکارکنول نصیر کی فکری و سماجی بصریت'جونوان نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔یہ سچ ہے کہ کنول نصیر اور حسینہ معین معین کا کام انہیں ہمیشہ زندہ و جاوید رکھے گا ، دونوں خواتین ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے علم و ادب کے کارنامے پرستاروں کو لمبے عرصے تک یاد رہیں گے۔
ان دو باصلاحیت خواتین نے اپنے اپنے شعبے میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان میں سے ایک پاکستان ٹیلی ویڑن کی پہلی براڈ کاسٹر کنول نصیر اور دوسری معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین ہیں ، اب یہ دونوں خواتین ہم میں نہیں رہیں۔25 مارچ کی شام خبر ملی کہ کنول نصیر 73 برس کی عمر میں اسلام آباد میں مختصر علالت کے بعد وفات پا گئی ہیں او ر اگلے روز کی خبر آئی یہ کراچی میں مقیم ڈرامہ نگار حسینہ معین بھی چل بسی ہیں۔ابھی تو پرستار معروف کمپیئر اور صداکار طارق عزیز اور اطہر شاہ خان جیدی کے صدمے سے ہی باہر نہیں آئے تھے کہ کنول نصیر اور حسین معین کے انتقال کی خبرآ گئی۔ حسینہ معین دل کے عارضے میں مبتلا تھیں اور ان کا 80 برس کی عمر میں انتقال ہوا، اہلخانہ کے مطابق حسینہ معین طویل عرصے سے کینسر اور دل کے عارضے میں مبتلا تھیں۔
ان کی نماز جنازہ بعد نماز عصر مسجد فاروق اعظم نارتھ ناظم آباد میں ادا کی گئی اور بعدازاں انہیں سخی حسن قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا، حسینہ معین کی نماز جنازہ میں شہرقائد کی معروف علمی و ادبی شخصیات ، سماجی کارکنان اور آرٹس کونسل کے ممبران سمیت کثیر تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔پاکستان کی بین الاقوامی شہرت کی حامل، مصنفہ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار حسینہ معین نے فلم،ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کے لئے جو بھی لکھا خوب لکھا ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کو پوری دنیا خاص طور پر پڑوسی ملک میں بے پناہ پذیرائی ملی۔
یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں حسینہ معین نے ''پل ِ صراط کا سفر'' نامی ناول بھی تحریر کیا تھا جو کافی مقبول ہوا۔ حسینہ معین کو لکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا جس کے باعث وہ بچوں کے ماہانہ رسالے''بھائی جان'' کے لئے کالم بھی لکھتی تھیں۔حسینہ معین ریڈیو پاکستان سے نشر کئے جانے والے ہفتہ وار پروگرام ''سٹوڈیو نمبر نو'' کے لئے خاکے بھی لکھتی تھیں۔ ان کے قلم کی شہرت سے متاثر ہوکر شومین آف بالی ووڈ راج کپور نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی فلم ''حنا''کے مکالمے لکھیں۔
''حنا'' میں پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور ان کے مقابل آنجہانی رشی کپور ہیرو تھے یہ فلم راج کپور کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔ ان کی لکھی ہوئی پاکستانی فلموں میں پہلی فلم ''یہاں سے وہاں تک''تھی، جس میں وحید مراد نے مرکزی کردار نبھایا تھا۔اس کے بعد عثمان پیرزادہ کے لئے لکھی گئی فلم ''نزدیکیاں''اور جاوید شیخ کی فلم ''کہیں پیار نہ ہوجائے''شامل تھیں۔ ان تمام فلموں کی کہانیاں اپنی اپنی جگہ دلچسپ اور تخلیق سے بھرپور تھیں۔
حسینہ معین کا فنّی کیرئیر کامیابیوں کی طویل داستان ہے۔ حسینہ معین کے ٹیلی ویڑن کیریئر کا آغاز 1969 میں ہوا جب انہوں نے افتخار عارف کے کہنے پر ''عید کا جوڑا'' کے نام سے ڈرامہ تحریر کیاتھا۔پاکستان ٹیلی ویڑن سے پیش کئے جانے والے اس ڈرامے کو ناظرین نے بے حد پسند کیا تھا۔ حسینہ معین نے ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کے لئے پاکستان اور بیرون پاکستان بہت سے یادگار ڈرامے لکھے ڈراموں میں انکل عرفی'، 'ان کہی'، 'تنہائیاں'، 'کہر'، 'آئینہ'، 'کرن کہانی'، 'زیر زبر پیش'، 'دھوپ کنارے'، 'بندش'، 'دھند'، 'کسک'، 'تان سین'، 'میرے درد کو جو زبان ملے'،'تم سے مل کر'اور دیگر شامل ہیں۔
حسینہ معین کی ڈرامہ سیریل 'دھوپ کنارے' کو بھارت میں بے پناہ پذیرائی ملی تھی اور اس ڈرامہ سیریل کوبھارتی مصنف کملیش پانڈے نے حسینہ معین کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی غرض سے نئے سرے سے تحریر کیا اور اسے''کچھ تو لوگ کہیں گے'' آن ایئر کیا گیا۔''کچھ تو لوگ کہیں گے'' 2011سے 2013تک چلا اور عوام میں بہت پسند کیا گیا۔چھاتی کے کینسر کی آگاہی کے حوالے سے ان کی تحریر کردہ ویب سیریز ''ابھی نہیں''اگلے ماہ آن ایئر ہوگی۔انتقال سے قبل بھی وہ کام کے سلسلے میں لاہورآنے کی تیاری کررہی تھیں کہ انہیں دل کا دورہ پڑاجو جان لیوا ثابت ہوا۔ حسینہ معین نے بہت سے ممالک کا دورہ کیا اور متعدد ایوارڈز جیتے، 1987 میں انہیں پرفارمنگ آرٹ کی خدمت کے صلے میں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازاگیا جبکہ 1970 میں ٹوکیو میں گلوبل ٹی وی پلیز فیسٹیول میں انھیں''وومن آف دی ائیر'' کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔حسینہ معین نے پاکستانی سیاسی جماعت پی ٹی آئی بھی جوائن کر رکھی تھی۔
2013 میں حسینہ معین نے الیکشن کے دوران تحریکِ انصاف کا ساتھ بھی دیاتھا۔ فنکاروں ثمینہ پیرزادہ، ہمایوں سعید، عدنان صدیقی، بشری انصاری، ساجد حسن، شاہدہ منی، میگھا و دیگرنے ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ سینئراداکارہ ثمینہ پیرزادہ نے معروف ڈرامہ نگارحسینہ معین کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یقین نہیں آرہا کہ وہ اب حسینہ معین کی آوازنہیں سن سکیں گی۔ ثمینہ پیرزادہ کا کہنا ہے کہ حسینہ معین میری زندگی کی ایک ایسی شخصیت تھیں جن کا میں نے ہمیشہ احترام کیا، تعریف کی اوران کو پسند کیا۔
حسینہ معین 20 نومبر 1941 بھارت کے شہر کان پور میں پیدا ہوئی تھیں، انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد ان کا گھرانہ راولپنڈی میں آباد ہوا مگر جلد ہی لاہور منتقل ہوگیا۔وہ 50 کی دہائی میں کراچی منتقل ہوئیں۔ انہوںنے بچپن میں بچوں کے اخبار میں لکھنے سے آغاز کیا لیکن باقاعدہ طور پر لکھنا کالج جا کر شروع کیا۔
انھوں نے کئی برس کینسر سے لڑتے گزارے اور بالآخر کامیاب ہوئی تاہم لکھنے کا سلسلہ پھر اس طرح جڑ نہ سکا لیکن سماجی تقریبات اور ادب سے متعلق فیسٹیولز میں وہ ہمیشہ اپنے سنجیدہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دکھائی دیتی تھیں۔
حسینہ معین نے ڈرامہ نگاری میں صف اول میں اپنا نام پیدا کیا انہوں نے جہاں عورت کے مسائل کو اجاگر کیا وہیں معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کو بھی ڈرامہ لکھ کر سکرین تک لوگوں کی اصلاح کے لئے دیا ایسا کونسا ڈائریکٹر تھا جو ان کے لکھے ڈرامے کو ڈائرکٹ نا کرنا چاہتا ہو ایسا کونسا اداکار تھا جو حسینہ معین کے لکھے ڈرامے میں کام کرنے کا خواہشمند نا ہو، حسینہ معین نے جب بھی قلم اٹھایا انہوں نے معاشرے کی اصلاح اور تعمیری سوچ کو اجاگر کیا اور انسانی دماغ کو جھنجھوڑ دینے والے موضوعات پر لکھا اور عام فہم زبان اور مکالمے بازی کے ذریعے عام دیکھنے اور سننے والے کو سوچ بچار پر مجبور کر دیا ہم کسی صورت حسینہ معین کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔
اپنے ایک انٹرویو میں حسینہ معین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز نے انھیں لکھنے لکھانے سے منع کیا تھا لیکن دور حاضر کے ڈراموں پر انھوں نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا کہ جب وہ چار سال بعد سو کر اٹھیں تو سمجھو سب بدل چکا تھا۔انھوں نے کہا کہ 'ہم نے 40 سال کے کام میں ایک مضبوط اور خود مختار عورت کو پروان چڑھایا تھا لیکن اب ڈراموں میں عورت کو روتا دھوتا ہی دکھایا جاتا ہے۔
مرینہ خان، شہناز شیخ، شہلا احمد سمیت کئی ایسی اداکارائیں ہیں جنھیں حسینہ معین نے اپنے ڈراموں کے مرکزی کردار دیے۔حسینہ معین نے کے مطابق میں کریڈٹ دیتی ہوں اپنے دور کے ہدایت کاروں کو جنھوں نے مجھے تسلیم کیا اور بلایا،جب میں سیکنڈ ایئر میں تھی تو ایک مقابلے کے لیے دو ڈھائی دن میں ڈرامہ لکھا۔ تین چار مہینے کے بعد نتیجہ آیا اور ہمارے کالج کو ایوارڈ ملا۔ بعد میں آغا ناصر نے اسے پروڈیوس کیا اور کہا کہ تم نے تو میری نوکری کو خطرے میں ڈال دیا لوگوں نے کہا کہ یہ کوئی لڑکی نہیں لکھ سکتی۔
بلاشبہ حسینہ معین کے جانے سے پاکستان ٹیلی ویڑن کا سنہری دور اختتام کو پہنچا۔ ان کی بغاوت ایک مقصد کے لیے تھی اور انھوں نے اپنے ڈراموں میں خواتین کرداروں کو مضبوطی دی۔ ان کی عقل و سمجھ بوجھ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہی تھیں جنھوں نے پاکستانی ڈراموں کو ملک سے باہر بھی مقبول بنایا۔ کسی اور نے ان کی طرح شہری خواتین کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا حسینہ کے ڈراموں نے کیا۔حسینہ معین ایک ہر دل عزیز شخصیت تھیں ان کی وفات ادبی دنیا کے لئے ایک عظیم سانحہ ہے ،جس پر پوری قوم افسردہ ہے ان کی رحلت سے ڈرامہ نگاری کا ایک عہد تمام ہو گیا ہے۔
ایک ہی ہفتے میں دوسری بڑی خبرپاکستان کی پہلی نیوز کاسٹر کنول نصیرکے انتقال کی تھی، وہ معروف براڈ کاسٹر موہنی حمید (آپا شمیم) کی بیٹی تھیں اور انھیں پانچ دہائیوں تک پاکستان ٹیلی ویڑن اور ریڈیو کے لیے بطور براڈکاسٹر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ڈراموں میں بھی کام کیا۔کنول نصیر نے 26 نومبر 1964 کو پی ٹی وی کے قیام کے وقت پہلی اناؤنسمنٹ کی تھی۔ انھوں نے 17 سال کی عمر سے ٹی وی میں کام کرنا شروع کیا، ٹی وی ڈرامے کی پہلی ہیروئن بھی کنول نصیر تھیں۔ٹی وی سکرین پر پہلی بار 'میرا نام کنول حمید ہے۔
آج پاکستان میں ٹیلی ویڑن آ گیا ہے۔ آپ کو مبارک ہو' کے الفاظ بھی ادا کیے۔انھوں نے دیگر زبانوں میں بھی کام کیا جن میں9 برس تک انگریزی کا پروگرام اور اس کے علاوہ پوٹھوہاری زبان میں سانجھا نامی پروگرام کیا۔ انھیں لاتعداد ایوارڈ بھی ملے۔خواتین کے پروگرامز ہوں یا قومی و بین الاقوامی ایونٹس، کنول نصیر میزبانی کے فرائض سرانجام دیتی تھیں۔ کنول نصیرالفاظ کی ادائیگی پروگرام کی نوعیت دیکھ کر کرتی ہیں۔دنیا سے جاتے وقت بھی وہ ریڈیو سے اپنا رابطہ برقراررکھے ہوئے تھیں۔
بلاشبہ کنول نصیرکے اردو لہجے کا کوئی ثانی نہیں تھا، وہ حیرت انگیز، باوقار اور بہت سوں کے لیے اپنے منفرد انداز میں بہت مہربان رہنما تھیں۔چیئرپرسن الحمراء منیزہ ہاشمی نے کنول نصیرکے انتقال پر گہرے دْکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریڈیو،ٹیلی ویڑن کے لئے کنول نصیر کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔کنول نصیر زبان میں شگفتہ،متین لب و لہجہ والی،دلوں کو موہ لینے اور دماغوں کو متاثر کرنے والا انداز رکھتی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معروف صداکارکنول نصیر کی فکری و سماجی بصریت'جونوان نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔یہ سچ ہے کہ کنول نصیر اور حسینہ معین معین کا کام انہیں ہمیشہ زندہ و جاوید رکھے گا ، دونوں خواتین ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے علم و ادب کے کارنامے پرستاروں کو لمبے عرصے تک یاد رہیں گے۔