مفت اور لازمی تعلیم
ہمارے نزدیک تعلیم اس وقت تک ایک پروپیگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی جب تک ہمارے ملک میں رائج دہرا نظامِ تعلیم مسلط ہے
QUETTA:
ہم کام میں مصروف تھے کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ کال ریسیو کی تو دوسری طرف سے بتایا گیا کہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) اور ''الف اعلان '' کے تعاون سے پاکستان میں تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے اور ملک میں تعلیمی بحران کے خاتمے کے لیے مذہبی رسائل وجرائد کے مدیران ، کالم نگار اور اسکالرز کے ساتھ ایک روزہ علمی اور فکری نشست بعنوان '' تعلیم کا بنیادی حق: مذہب اور آئین کے تناظر میں'' کا اسلام آباد میں انعقادکیا جا رہا ہے۔ سن کر بے حد خوشی ہوئی کہ تعلیم جیسے انتہائی اہم اور بنیادی موضوع پر ملکی پیمانے پر غوروفکر کیا جا رہا ہے، جس پر کسی بھی قوم کی روحانی و مادی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔
حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، گو یہ فرضیت احکام شریعت کے جاننے سے متعلق ہے کہ ہر مسلمان کو 24 گھنٹوں میں ہر موقع اور ہر حال میں اﷲ کا وہ حکم معلوم ہوجائے جو اس خاص موقع پر اس کی طرف متوجہ ہے، دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کے مطابق دنیاوی تعلیم بھی بطور مسلمان ایک نہایت اہم ضرورت ہے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق علم کے دونوں شعبے علم الہدایہ (دین و شریعت کا علم) اور علم الاشیاء (طب، فزکس، کیمیا اور حساب وغیرہ) دونوں ہی خلیفۃ الارض یعنی انسان کے لیے ضروری تھے۔ خود خالق کائنات نے حضرت آدم علیہ السلام کو اشیاء کے نام سکھاکر اسی بنا پر ان کی فضیلت فرشتوں سے زیادہ رکھی۔ گویا علم ہیحضرت انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے۔ اسی کے ذریعے انسان ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتا ہے، بیگانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت، درس و تدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہے۔ کلام پاک کے تقریباً اٹھہتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم جل شانہ نے رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا، وہ اِقرَا ہے، یعنی پڑھ۔
سیمینار کا آغاز محمد عامر رانا نے اپنے گراں قدر خیالات پیش کرتے ہوئے کیا، انھوں نے اور ان کے بعد مشرف زیدی نے بھی یہ کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم کو ہمارے سیاسی نظام کا حصہ بنادیا جائے۔ پروگرام کا مرکزی خیال یہ تھا کہ تعلیم کے حوالے سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 25-A کے بارے میں عوام و خواص میں ضروری آگہی اور شعور پیدا کیا جائے، جس کے تحت حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ5 سال سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کومفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ پروگرام میں تعلیم کے مختلف پہلوؤں کو دو مرکزی موضوعات کے تحت زیر بحث لایا گیا۔ پہلی نشست جس کا موضوع تھا ''تعلیم کا فروغ: آئینی تقاضے اور ہماری ذمے داریاں'' سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نور احمد شاہتاز نے کہا کہ لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے اور اس بات کو اجاگر کیا جائے کہ تعلیم کا مسئلہ، بہت اہم مسئلہ ہے اور جو مفت تعلیم کی بات ہو رہی ہے اس کے لیے مستقل بنیاد پر آواز اٹھائی جائے۔ دینی صحافت کے فورم سے اور دینی حلقوں کی جانب سے، میڈیا کے ذریعے اور بالخصوص سیاستدان بھی اگر اس آواز میں شامل ہوجائیں تو بہت جلد ممکن ہے کہ ملک میں تعلیمی اصلاحات نافذ ہوجائیں۔ مقررین نے اس نشست میں گفتگو کرتے ہوئے تعلیمی پالیسی کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کے کردار کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور مثال کے طور پر صرف ایک صوبہ پنجاب کے اسکولوں کا نقشہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت بھی صوبہ میں 80,000 سے زائد اسکول بغیر اساتذہ کے چل رہے ہیں۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ میٹرک کی سطح تک تعلیمی نظام یکساں ہونا چاہیے۔ طارق محمود نے کہا کہ ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے، انگریزی ذریعہ تعلیم کو ختم کرکے اردو ذریعہ تعلیم اپنایا جائے، قومی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا تعلیمی کمیشن بنایا جائے اور تعلیمی نظام سے وابستہ افراد پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔
تقریب کی دوسری نشست کا عنوان ''تعلیم کی اہمیت اور استاد کا مقام وکردار: دینی تعلیمات کی روشنی میں'' تھا۔ مقررین نے مذہبی تعلیمات کی روشنی میںتعلیم کی اہمیت و ضرورت اور استاد کے مقام و کردار پر اظہار خیال کیا کہ ایک استاد کو طلبا کی اس نہج پر تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ یہ جان سکیں کہ اپنی تعلیم کے ذریعے وہ معاشرے کی کیسے خدمت کر سکتے ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ اسلامک ذرایع ابلاغ اور مذہبی حلقوں کی طرف سے ایک تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے جو معاشرے میں انفرادی سطح پر تعلیم کے حصول کا شعور دلائے۔ تعلیم کے اہم مقاصد کے لیے اجتماعی مباحث اور مکالمے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ سیمینار کی آخری نشست میں مذکورہ نشستوں کے حوالے سے اور مجموعی تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے تجاویز و سفارشات بھی مرتب کی گئیں۔
یہ سیمینار تو ہوگیا، لیکن اﷲ کرے یہ صرف نشستند، گفتند، برخاستند تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کچھ اس پر عملی کام بھی ہو سکے۔ یاد رہے کہ آئین پاکستان کے اسی آرٹیکل 25-A کے تحت ہی نومبر2012 میں قومی اسمبلی سے ایک متفقہ بل منظور کیا گیا تھا جو گویا آرٹیکل کی یک سطری تحریر کی تفصیلی اور عملی شکل تھی۔ اس قانون کی رو سے بچوں کو اسکول نہ بھجوانے والے والدین کو پچیس ہزار جرمانہ اور تین ماہ قید بھی ہوسکتی ہے، اسی طرح بچوں کو ملازم رکھنے والے کو پچاس ہزار جرمانہ اور چھ ماہ تک قید کی سزا ہو سکتی ہے ، مگر آج سال سے زیادہ ہوگیا، اس قانون کا عملی طور پر کہیں اجراسننے میں نہیں آیا۔ ٹی وی پروگراموں میں گندے گھی اور مضر صحت کیچپ بنانے والوں کا تو پیچھا کیا جا رہا ہے اور روز ٹی وی پر عدالت سجائی جاتی ہے لیکن ان تمام جرائم کی بنیاد یعنی جاہلیت کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ پروگرام منعقد نہیں کیا جاتا، شاید اس لیے کہ ایسے سنجیدہ نوعیت کے پروگرامز ہمارے میڈیا کے ایجنڈے میں ہی شامل نہیں۔
ہمارے نزدیک بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم اس وقت تک ایک پروپیگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی جب تک ہمارے ملک میں رائج دہرا نظامِ تعلیم مسلط ہے۔ اس وقت تعلیمی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا کثیر رخی ہونا ہے۔ مدرسہ، اردو میڈیم،انگلش میڈیم، برطانوی سسٹم، امریکن سسٹم... اور نتیجہ صفر۔ 9 نومبر 2009 کو اعلان کردہ تعلیمی پالیسی میں بھی یہ طے کیا گیا تھا کہ ملک میں نہ صرف یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا بلکہ تعلیمی شعبے پر جی ڈی پی کا 7 فیصد خرچ کیا جائے گا مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی شعبہ زوال کی ایک ایسی افسوسناک کہانی بن کر رہ گیا ہے جس میں سرکاری تعلیمی ادارے سیاسی تقرریوں اور بدعنوانیوں کے باعث اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ اس کالم کے ذریعے ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس کثیر رخی نظامِ تعلیم کو ختم کرکے سارے ملک میں ایک ایسے نظام تعلیم کا نفاذ قائم کریں، جو مفت بھی ہو، لازمی بھی اور جو تمام طلبا کو بلاامتیاز O اور A لیول تک جانے اور اعلیٰ ترین ڈگریوں تک پہنچنے کی سہولت فراہم کرے۔
ہم کام میں مصروف تھے کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ کال ریسیو کی تو دوسری طرف سے بتایا گیا کہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) اور ''الف اعلان '' کے تعاون سے پاکستان میں تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے اور ملک میں تعلیمی بحران کے خاتمے کے لیے مذہبی رسائل وجرائد کے مدیران ، کالم نگار اور اسکالرز کے ساتھ ایک روزہ علمی اور فکری نشست بعنوان '' تعلیم کا بنیادی حق: مذہب اور آئین کے تناظر میں'' کا اسلام آباد میں انعقادکیا جا رہا ہے۔ سن کر بے حد خوشی ہوئی کہ تعلیم جیسے انتہائی اہم اور بنیادی موضوع پر ملکی پیمانے پر غوروفکر کیا جا رہا ہے، جس پر کسی بھی قوم کی روحانی و مادی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔
حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، گو یہ فرضیت احکام شریعت کے جاننے سے متعلق ہے کہ ہر مسلمان کو 24 گھنٹوں میں ہر موقع اور ہر حال میں اﷲ کا وہ حکم معلوم ہوجائے جو اس خاص موقع پر اس کی طرف متوجہ ہے، دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کے مطابق دنیاوی تعلیم بھی بطور مسلمان ایک نہایت اہم ضرورت ہے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق علم کے دونوں شعبے علم الہدایہ (دین و شریعت کا علم) اور علم الاشیاء (طب، فزکس، کیمیا اور حساب وغیرہ) دونوں ہی خلیفۃ الارض یعنی انسان کے لیے ضروری تھے۔ خود خالق کائنات نے حضرت آدم علیہ السلام کو اشیاء کے نام سکھاکر اسی بنا پر ان کی فضیلت فرشتوں سے زیادہ رکھی۔ گویا علم ہیحضرت انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے۔ اسی کے ذریعے انسان ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتا ہے، بیگانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت، درس و تدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہے۔ کلام پاک کے تقریباً اٹھہتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم جل شانہ نے رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا، وہ اِقرَا ہے، یعنی پڑھ۔
سیمینار کا آغاز محمد عامر رانا نے اپنے گراں قدر خیالات پیش کرتے ہوئے کیا، انھوں نے اور ان کے بعد مشرف زیدی نے بھی یہ کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم کو ہمارے سیاسی نظام کا حصہ بنادیا جائے۔ پروگرام کا مرکزی خیال یہ تھا کہ تعلیم کے حوالے سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 25-A کے بارے میں عوام و خواص میں ضروری آگہی اور شعور پیدا کیا جائے، جس کے تحت حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ5 سال سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کومفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ پروگرام میں تعلیم کے مختلف پہلوؤں کو دو مرکزی موضوعات کے تحت زیر بحث لایا گیا۔ پہلی نشست جس کا موضوع تھا ''تعلیم کا فروغ: آئینی تقاضے اور ہماری ذمے داریاں'' سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نور احمد شاہتاز نے کہا کہ لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے اور اس بات کو اجاگر کیا جائے کہ تعلیم کا مسئلہ، بہت اہم مسئلہ ہے اور جو مفت تعلیم کی بات ہو رہی ہے اس کے لیے مستقل بنیاد پر آواز اٹھائی جائے۔ دینی صحافت کے فورم سے اور دینی حلقوں کی جانب سے، میڈیا کے ذریعے اور بالخصوص سیاستدان بھی اگر اس آواز میں شامل ہوجائیں تو بہت جلد ممکن ہے کہ ملک میں تعلیمی اصلاحات نافذ ہوجائیں۔ مقررین نے اس نشست میں گفتگو کرتے ہوئے تعلیمی پالیسی کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کے کردار کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور مثال کے طور پر صرف ایک صوبہ پنجاب کے اسکولوں کا نقشہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت بھی صوبہ میں 80,000 سے زائد اسکول بغیر اساتذہ کے چل رہے ہیں۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ میٹرک کی سطح تک تعلیمی نظام یکساں ہونا چاہیے۔ طارق محمود نے کہا کہ ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے، انگریزی ذریعہ تعلیم کو ختم کرکے اردو ذریعہ تعلیم اپنایا جائے، قومی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا تعلیمی کمیشن بنایا جائے اور تعلیمی نظام سے وابستہ افراد پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔
تقریب کی دوسری نشست کا عنوان ''تعلیم کی اہمیت اور استاد کا مقام وکردار: دینی تعلیمات کی روشنی میں'' تھا۔ مقررین نے مذہبی تعلیمات کی روشنی میںتعلیم کی اہمیت و ضرورت اور استاد کے مقام و کردار پر اظہار خیال کیا کہ ایک استاد کو طلبا کی اس نہج پر تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ یہ جان سکیں کہ اپنی تعلیم کے ذریعے وہ معاشرے کی کیسے خدمت کر سکتے ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ اسلامک ذرایع ابلاغ اور مذہبی حلقوں کی طرف سے ایک تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے جو معاشرے میں انفرادی سطح پر تعلیم کے حصول کا شعور دلائے۔ تعلیم کے اہم مقاصد کے لیے اجتماعی مباحث اور مکالمے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ سیمینار کی آخری نشست میں مذکورہ نشستوں کے حوالے سے اور مجموعی تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے تجاویز و سفارشات بھی مرتب کی گئیں۔
یہ سیمینار تو ہوگیا، لیکن اﷲ کرے یہ صرف نشستند، گفتند، برخاستند تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کچھ اس پر عملی کام بھی ہو سکے۔ یاد رہے کہ آئین پاکستان کے اسی آرٹیکل 25-A کے تحت ہی نومبر2012 میں قومی اسمبلی سے ایک متفقہ بل منظور کیا گیا تھا جو گویا آرٹیکل کی یک سطری تحریر کی تفصیلی اور عملی شکل تھی۔ اس قانون کی رو سے بچوں کو اسکول نہ بھجوانے والے والدین کو پچیس ہزار جرمانہ اور تین ماہ قید بھی ہوسکتی ہے، اسی طرح بچوں کو ملازم رکھنے والے کو پچاس ہزار جرمانہ اور چھ ماہ تک قید کی سزا ہو سکتی ہے ، مگر آج سال سے زیادہ ہوگیا، اس قانون کا عملی طور پر کہیں اجراسننے میں نہیں آیا۔ ٹی وی پروگراموں میں گندے گھی اور مضر صحت کیچپ بنانے والوں کا تو پیچھا کیا جا رہا ہے اور روز ٹی وی پر عدالت سجائی جاتی ہے لیکن ان تمام جرائم کی بنیاد یعنی جاہلیت کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ پروگرام منعقد نہیں کیا جاتا، شاید اس لیے کہ ایسے سنجیدہ نوعیت کے پروگرامز ہمارے میڈیا کے ایجنڈے میں ہی شامل نہیں۔
ہمارے نزدیک بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم اس وقت تک ایک پروپیگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی جب تک ہمارے ملک میں رائج دہرا نظامِ تعلیم مسلط ہے۔ اس وقت تعلیمی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا کثیر رخی ہونا ہے۔ مدرسہ، اردو میڈیم،انگلش میڈیم، برطانوی سسٹم، امریکن سسٹم... اور نتیجہ صفر۔ 9 نومبر 2009 کو اعلان کردہ تعلیمی پالیسی میں بھی یہ طے کیا گیا تھا کہ ملک میں نہ صرف یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا بلکہ تعلیمی شعبے پر جی ڈی پی کا 7 فیصد خرچ کیا جائے گا مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی شعبہ زوال کی ایک ایسی افسوسناک کہانی بن کر رہ گیا ہے جس میں سرکاری تعلیمی ادارے سیاسی تقرریوں اور بدعنوانیوں کے باعث اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ اس کالم کے ذریعے ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس کثیر رخی نظامِ تعلیم کو ختم کرکے سارے ملک میں ایک ایسے نظام تعلیم کا نفاذ قائم کریں، جو مفت بھی ہو، لازمی بھی اور جو تمام طلبا کو بلاامتیاز O اور A لیول تک جانے اور اعلیٰ ترین ڈگریوں تک پہنچنے کی سہولت فراہم کرے۔