قاضی حسین احمد ۔۔۔ یادیں اور باتیں

قاضی حسین احمد کے والد نے ان کا یہ نام مولانا حسین احمد مدنی کی مناسبت سے ہی رکھا تھا۔


قاضی صاحب اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوتے ہوئے جماعت اسلامی میں آئے اور چھا گئے۔ فوٹو: فائل

QUETTA: یہ غالباً 1987ء کی بات ہے جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات صفدر چودھری نے لاہور کے صحافیوں کو منصورہ میں اکٹھا کیا جہاں امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد نے اعلان کیا کہ وہ اگلی مدت کے لیے امارت کے امیدوار نہیں ہوں گے اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کو اس سے آگاہ کر دیا ہے۔

ان سوالوں کے جواب میں کہ شوریٰ نے اس پر کیا فیصلہ کیا ہے۔ میاں طفیل محمد نے بات کو ٹال دیا۔ چنددنوں بعد ہی امیر جماعت کے انتخاب کا مرحلہ شروع ہو گیا۔ شوریٰ نے جن تین افراد کو امارت کے لیے موزوں جانا ان میں ایک نام قاضی حسین احمد کا بھی تھا۔ یہ تینوں نام شوریٰ نے ارکان کی آسانی کے لیے پیش کر دیئے تھے تاہم ارکان ان کے علاوہ بھی کسی رکن جماعت کو ووٹ دینے میں آزاد تھے۔ مجھے اس زمانے میں جماعت اسلامی کے امور کو سمجھنے اور جاننے کا بلاوجہ کا زعم تھا چنانچہ میں نے اپنے اخبار کے سیاسی ایڈیشن میں ایک مضمون لکھ دیا کہ روایت کے مطابق ارکان جماعت امارت کی ذمہ داری کسی نائب امیر کو منتقل کرتے ہیں اس لیے چودھری رحمت الٰہی یا پروفیسر خورشید احمد میں سے کوئی امیر جماعت اسلامی منتخب ہو گا، چونکہ مولانا مودودی کے ساتھ طویل عرصہ تک سیکرٹری جنرل رہنے والے چودھری رحمت الٰہی بھی مولانا مودودی کے بعد امیر جماعت منتخب نہیں ہو سکے تھے اس لیے قاضی حسین احمد کے امیر جماعت منتخب ہونے کا امکان نہیں ہے جب کہ میرے ایڈیٹر کا خیال تھا کہ قاضی صاحب بآسانی امیر جماعت منتخب ہو جائیں گے۔

چنانچہ اس نقطہ نظر کے تحت انہوں نے اسی روز مجھے قاضی صاحب کا انٹرویو کرنے کے لیے منصورہ بھیج دیا جس روز میرا مضمون شائع ہوا تھا۔ میں منصورہ پہنچا نماز عصر کے بعد جامع مسجد منصورہ میں قاضی صاحب سے ملاقات ہوئی وہ گرمجوشی سے ملے۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو یہ گرمجوشی یک لخت تھوڑی کم ہو گئی قاضی صاحب نے مجھ سے پوچھا آپ نے آج جو کچھ لکھا ہے کیا اس کا کوئی اثر بھی ہوتا ہے۔ میں نے جوانی اور صحافت کے زعم میں جواب دیا کہ پہلے میرا خیال تھا کہ ہمارے لکھے کا ارکان جماعت پر کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن اب میری رائے ہے کہ شاید کچھ اثر ہوتا ہے۔ میرے اس ترش جواب کو قاضی صاحب پی گئے۔ ہاتھ پکڑ کر اپنے دو کمرے کے فلیٹ پر لے گئے۔ مجھے تفصیل سے انٹرویو دیا۔ چائے اور موسمی پھلوں کے ساتھ تواضع کی اور گلے لگا کر رخصت کیا یہ قاضی حسین احمد سے میرا پہلا باضابطہ اور تفصیلی رابطہ تھا۔

قاضی صاحب جمعیت العلمائے اسلام کے راستے جماعت اسلامی میں آئے ان کے والد جمعیت العلمائے ہند کے اکابرین میں شامل تھے انہوں نے قاضی صاحب کا نام مولانا حسین احمد مدنی کی مناسبت سے ہی حسین احمد رکھا تھا۔ قاضی حسین احمد نے تین چار سال کی عمر تک بولنا شروع نہیں کیا تھا جو والدین کے لیے باعث تشویش تھا مولانا حسین احمد مدنی صوبہ سرحد کے دورے پر آئے تو قاضی صاحب کے والد نے ان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا جس پر مولانا حسین احمد مدنی نے اپنا لعاب دہن قاضی صاحب کی زبان پر رکھا جس کے بعد قاضی صاحب نے ایسا بولنا شروع کیا کہ بڑے بڑے لوگوں کی زبانیں ان کے سامنے گنگ ہو گئیں۔ شاید مولانا حسین احمد مدنی کے لعاب دہن ہی کا اثر تھا کہ قاضی حسین احمد آخری دم تک جمعیت العلمائے اسلام کا دفاع کرتے رہے۔

موت سے چند ماہ قبل وہ لاہور پریس کلب تشریف لائے تو پریس کانفرنس کے بعد چائے پر چند صحافیوں کے ساتھ انہوں نے بے تکلفانہ گفتگو کی۔ ایک صحافی نے مولانا فضل الرحمان پر بعض سنگین الزامات لگائے تو قاضی صاحب نے ان کا بھر پور دفاع کیا اور شاید یہ بھی مولانا مدنی کے لعاب دہن ہی کا اثر تھا کہ قاضی صاحب کا آخری دم تک علماء خصوصاً علمائے دیوبند کے ساتھ محبت و اپنائیت کا رشتہ قائم رہا۔ تمام مکاتب فکر کے علماء اور دینی حلقے بھی انہیں یکساں احترام دیتے تھے۔ ملی یک جہتی کونسل کے ذریعے انہوں نے مختلف فرقوں کے درمیان نفرتوں کے خاتمے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کا آغاز کیا اور متحدہ مجلس عمل کے ذریعے دینی سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے ایک موثر قوت بنا دیا۔ چنانچہ جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد بھی انہیں ایک بار پھر ملی یک جہتی کونسل کا سربراہ بنا لیا گیا۔

قاضی صاحب اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوتے ہوئے جماعت اسلامی میں آئے اور چھا گئے۔ انہیں پہلی بار ملک گیر شہرت اس وقت ملی جب وہ امیر جماعت اسلامی صوبہ سرحد ہوتے ہوئے پشاور چیمبر آف کامرس کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ وہ جغرافیہ میں ایم ایس سی کرنے کے بعد کچھ عرصہ لیکچرر رہے اور پھر اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ وہ آخری دم تک اپنا کاروبار کرتے رہے اور کبھی جماعت کے کل وقتی کارکن نہ ہوئے وہ بے حد متحرک اور عوامی آدمی تھے ایک بار ایک ترقی پسند نے کہا تھا کہ قاضی صاحب کے داڑھی نہ ہوتی تو وہ بھٹو کی طرح کے عوامی لیڈر ہوتے جس پر قاضی صاحب کے ایک قریبی ساتھی نے بڑا خوبصورت جواب دیا تھا کہ قاضی صاحب کی ساری عوامیت، جرأت و بے باکی اور کارکنوں اور غریب عوام سے بے لوث محبت صرف اور صرف اسلام اور داڑھی کی برکات ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کے جماعت اسلامی کو ایک عوامی جماعت بنانے کی کوشش جماعت کی اساسی روح کے منافی تھی یا عصری حالات کا تقاضا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قاضی صاحب کی امارت کے دور میں جماعت نہ صرف عوامی سطح پر زیادہ مقبول ہوئی بلکہ ملکی سیاست اور قومی پریس میں اس کی اہمیت میں بھی ایک اضافہ ہوا۔ مولانا مودودی کی علمی وجاہت اور شخصی وقار کے باعث لوگ ان کے ساتھ بے تکلف ہونے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ میاں طفیل محمد کسی کو بے تکلف ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن قاضی صاحب آگے بڑھ کر لوگوں سے بے تکلفی پیدا کرنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ وہ اپنے واقف کاروں کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر مصافحہ کرتے۔ نیم واقفوں سے آگے بڑھ کر گلے ملتے اور ناواقفوں کو مسکراتے اور ہاتھ لہراتے ہوئے اس طرح خوش آمدید کہتے کہ لیڈر اور کارکن کے درمیان کے سارے فاصلے مٹ جاتے۔

1993ء میں قاضی حسین احمد نے بعض جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ مل کر پاکستان اسلامک فرنٹ بنایا اور وہ نعرہ دیا جسے آج عمران خان لیے پھر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں عوام کے مسائل حل کرنے میں مخلص نہیں انہوں نے اقتدار کی باریاں لگا رکھی ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے قاضی صاحب نے ملک بھر کے طوفانی دورے کئے اور اپنا پیغام لے کر ملک کے کونے کونے میں پہنچے۔ ان ہی دنوں ''ظالمو قاضی آرہا ہے'' کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔ قاضی صاحب مختلف علاقوں میں ہونے والے مظالم کے خلاف خود میدان میں اترے۔

جماعت اسلامی کی امارت سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ تو منظر سے دور رہے لیکن چونکہ وہ نچلے بیٹھنے والے نہیں تھے اس لیے ضعیف العمری اور دل کے عارصہ کے باوجود پھر متحرک ہو گئے ایک جانب انہوں نے ملی یک جہتی کونسل کو پھر فعال کر دیا کہ دینی جماعتوں کا اتحاد ان کا دیرینہ خواب تھا اور دوسری جانب ادارہ فکر و عمل کے نام سے مختلف الخیال رہنماؤں اور دانشوروں کا ایک تھنک ٹینک قائم کر دیا۔ وہ اس پلیٹ فارم سے بہت فکر انگیز نشستوں کا اہتمام کرتے۔ ان تقریبات میں وہ چھڑی کے سہارے چل کر آتے لیکن تمام زندگی اللہ کے سہارے پر چلنے والے اس مرد درویش کو چھڑی کا سہارا پسند نہیں تھا۔ چنانچہ 6 جنوری 2013ء کی رات انہوں نے اس عارضی سہارے کو بھی چھوڑ دیا اور اس خالق کی جانب روانہ ہو گئے جس کی کبریائی کا جھنڈا گاڑھنے کے لیے وہ زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے تھے۔ ان کی موت کے بعد سیاسی و عوامی رہنماؤں اور دانشوروں نے انہیں جس انداز میں خراج عقیدت پیش کیا وہ اللہ کے حضور ایک گواہی ہے جو یقینا روز قیامت ان کے توشۂ آخرت میں ایک چھوٹا سا اضافہ ثابت ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں