2025 تک برآمدات 100 ارب ڈالر پر پہنچا دینگے احسن اقبال
انسداد غربت، توانائی بحران کاحل، اچھی حکمرانی، بیمارصنعتوں کی بحالی سمیت 7 نکاتی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں
وفاقی وزیر برائے پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمز پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہا ملک کے پاور سیکٹر میں 15ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی کو سنبھالنے کی سکت نہیں، نجی شعبے کی شراکت سے 2025 تک ملکی برآمدات 100ارب ڈالر تک پہنچائی جاسکتی ہیں۔
گزشتہ روز وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان (ایف پی سی سی آئی ) میں تاجروں اور صنعتکاروں سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ حکومت 7نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور اس ایجنڈے میں توانائی کے بحران کا حل، اچھی حکمرانی، بیمار صنعتوں کی بحالی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کی تنصیب، صاف پانی کی فراہمی، غربت کا خاتمہ اور ٹریفک کے مسائل کاحل تلاش کرنا ہے، حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے کام کرہی ہے اوریہ چاہتی ہے کہ اس نوعیت کی سرگرمیاں مستقبل میں بھی جاری رہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان میں سب سے کم ٹیکس دینے والے ہیں لیکن اگر ملک کا نظم ونسق چلانا ہے تو ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانا ہوگی، پرائیویٹ سیکٹر ملکی گروتھ کا انجن ہے، ہم 2025 تک پاکستان کی برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک لاسکتے ہیں اور نجی شعبے کے ساتھ پارٹنرشپ کرکے ترقی کا سفر طے کرسکتے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت پر آئی ایم ایف نے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور جلد کراچی میں جاپانی کمپنی کے ساتھ مل کر سرکلر ٹرین چلائیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں توانائی بحران حل کرنے کے لیے موجودہ حکومت بھرپور کام کر رہی ہے، اس سلسلے میں حکومت بجلی کی تقسیم کے نظام کو بہتر اور موثر بنانے کے لیے سسٹم کو بھی اپ گریڈ کر رہی ہے کیونکہ اب بجلی کی تقسیم کا نظام پرانا ہو چکا ہے، سسٹم میں جیسے ہی زائد بجلی کا اضافہ کیا جاتا ہے تو لائن ٹرپ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے دیامر بھاشا ڈیم سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی تیار کی جاسکے گی، اس سال کے آخر تک تھرکول میں عملاً کام شروع ہو جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ توانائی کا بحران حل کرنے کے لیے گڈانی میں پاور پلانٹ لگایا جا رہا ہے، 2 ڈیم اور پن بجلی کے ذریعے بھی بجلی حاصل کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں سماجی شعبے کو نظر انداز کیا گیا حالانکہ ملک مین انسانوں سے ہی ترقی ممکن ہے، مارشل لا حکومتوں نے تعلیم اور صحت کا بجٹ دفاع کے لیے استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہترین کھجور پیدا ہوتی اور اس میں سے نصف ضائع ہوجاتی ہیں لیکن اگر کھجور اور پیکیجنگ کو ملا دیا جائے تو وسیع زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے، ہمیں ہر شعبے میں ویلیو پروڈکٹس تیار کرنا ہونگی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بزنس مین ریسرچ کے بجائے جیسے تیسے مال تیار کرکے معمولی منافع ملنے پر فروخت کر دیتے ہیں لیکن انڈسٹری اور زرعی شعبے میں ویلیو ایڈیشن کرنا ہوگی۔
گزشتہ روز وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان (ایف پی سی سی آئی ) میں تاجروں اور صنعتکاروں سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ حکومت 7نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور اس ایجنڈے میں توانائی کے بحران کا حل، اچھی حکمرانی، بیمار صنعتوں کی بحالی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کی تنصیب، صاف پانی کی فراہمی، غربت کا خاتمہ اور ٹریفک کے مسائل کاحل تلاش کرنا ہے، حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے کام کرہی ہے اوریہ چاہتی ہے کہ اس نوعیت کی سرگرمیاں مستقبل میں بھی جاری رہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان میں سب سے کم ٹیکس دینے والے ہیں لیکن اگر ملک کا نظم ونسق چلانا ہے تو ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانا ہوگی، پرائیویٹ سیکٹر ملکی گروتھ کا انجن ہے، ہم 2025 تک پاکستان کی برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک لاسکتے ہیں اور نجی شعبے کے ساتھ پارٹنرشپ کرکے ترقی کا سفر طے کرسکتے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت پر آئی ایم ایف نے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور جلد کراچی میں جاپانی کمپنی کے ساتھ مل کر سرکلر ٹرین چلائیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں توانائی بحران حل کرنے کے لیے موجودہ حکومت بھرپور کام کر رہی ہے، اس سلسلے میں حکومت بجلی کی تقسیم کے نظام کو بہتر اور موثر بنانے کے لیے سسٹم کو بھی اپ گریڈ کر رہی ہے کیونکہ اب بجلی کی تقسیم کا نظام پرانا ہو چکا ہے، سسٹم میں جیسے ہی زائد بجلی کا اضافہ کیا جاتا ہے تو لائن ٹرپ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے دیامر بھاشا ڈیم سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی تیار کی جاسکے گی، اس سال کے آخر تک تھرکول میں عملاً کام شروع ہو جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ توانائی کا بحران حل کرنے کے لیے گڈانی میں پاور پلانٹ لگایا جا رہا ہے، 2 ڈیم اور پن بجلی کے ذریعے بھی بجلی حاصل کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں سماجی شعبے کو نظر انداز کیا گیا حالانکہ ملک مین انسانوں سے ہی ترقی ممکن ہے، مارشل لا حکومتوں نے تعلیم اور صحت کا بجٹ دفاع کے لیے استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہترین کھجور پیدا ہوتی اور اس میں سے نصف ضائع ہوجاتی ہیں لیکن اگر کھجور اور پیکیجنگ کو ملا دیا جائے تو وسیع زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے، ہمیں ہر شعبے میں ویلیو پروڈکٹس تیار کرنا ہونگی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بزنس مین ریسرچ کے بجائے جیسے تیسے مال تیار کرکے معمولی منافع ملنے پر فروخت کر دیتے ہیں لیکن انڈسٹری اور زرعی شعبے میں ویلیو ایڈیشن کرنا ہوگی۔