پی پی پی اور نون لیگ
آنے والے وقتوں میں ہم دیکھیں گے کہ پیپلز پارٹی اپنے اِن جانے والوں کو پھر سے خوشی خوشی اپنی صفوں میں شامل بھی کرلے گی
پی ڈی ایم کے حوالے سے جو خدشات شروع دن سے جنم لے رہے تھے وہ بالآخر درست ثابت ہوئے۔ خواجہ آصف نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پیپلزپارٹی کے بارے میں مجھے شکوک وشبہات ہیں کہ وہ کسی وقت بھی دھوکا دے سکتی ہے۔
اسی طرح خود دونوں پارٹیوں کے اندر بھی بہت سے ارکان کے خیالات ایک دوسرے کے بارے میں ایسے ہی تھے اور ایسے ہی ہیں۔ یہ دونوں پارٹیاں بنی ہی ایک دوسرے کی مخالفت میں تو پھر بھلا دونوں اگر مل جائیں تو سیاست کس کے خلاف کی جائے گی۔ عمران فیکٹر توکوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے۔ آنے والے انتخابات میں دونوں پارٹیاں ساری الیکشن مہم ہی ایک دوسرے کے خلاف کرنا چاہیں گی۔
پی ٹی آئی تو اپنی کارکردگی کی وجہ سے شاید کوئی مشکل حریف ثابت نہیں ہوگی ، جو مقابلہ ہونا ہے وہ اِن دونوں پارٹیوں میں ہی ہوگا۔ پیپلز پارٹی سے ٹوٹ کر جو ارکان پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے وہ اب ایک بار پھر پیپلز پارٹی ہی میں اپنی جگہ بنانا چاہیں گے اور جس طرح نبیل گبول کو پیپلز پارٹی نے واپس لے لیا تھا ، آنے والے وقتوں میں ہم دیکھیں گے کہ پیپلز پارٹی اپنے اِن جانے والوں کو پھر سے خوشی خوشی اپنی صفوں میں شامل بھی کر لے گی۔
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں کس نے دوسرے فریق کو دھوکا دیا۔ یہ الزام اور بہتان توکبھی واضح طور پر ثابت نہیں ہوگا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے شکایت ہے اور دونوں ہی خود کو درست اور صحیح کہتے ہیں، اب اگر اگلے الیکشن میں مسلم لیگ دوبارہ برسر اقتدار آجاتی ہے تو قوم پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ایک ساتھ اپوزیشن بینچوں میں بیٹھا دیکھے گی اور دونوں مل کر اُسی طرح مسلم لیگ نون کی مخالفت میں یک جان اور یک قلب ہوچکے ہونگے جس طرح اب تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ہوتے رہے ہیں۔
لاڑکانہ میں گزشتہ برس محترمہ بے نظیر بھٹوکی برسی کے موقعہ پر مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان سیاسی ہم آہنگی دیکھ کر ہماری آنکھیں اِس پائیداری پر یقین کرنے کو تیار نہ تھیں اورہوا بھی یہی۔ یہ دونوں حالات اور وقت کی مجبوری کے تحت ایک ساتھ بیٹھ تو سکتے ہیں لیکن دلوں میں دوریاں کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ اِسی طرح اگلے انتخابات میں اگر پیپلز پارٹی کو حق حکمرانی سے نوازا گیا تو پھر ہوسکتا ہے ہم مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کو ایک دوسرے سے گلے ملتا دیکھ رہے ہونگے اور پھر دونوں کی ساری سیاست کا محور اور ٹارگٹ صرف پیپلز پارٹی ہی ہوگی۔
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی سیاست کا اگرغیر جانبدارانہ موازنہ کیا جائے تو مفاد پرست سیاست کرنے میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے اور اقتدار کے دنوں میںکارکردگی کے حوالے سے بھی وہ مسلم لیگ نون سے بہت پیچھے ہی دکھائی دیتی ہے۔ اِس میںشک نہیں مشرف دورکے بعد دونوں کو جب اسلام آباد میں حکومت کرنے کا موقعہ ملا تو ملک کے اندر امن و امان کی حالت انتہائی خراب اور دگرگوں تھی۔ سارا ملک مشرف حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے غیروں کی لڑائی میں شامل ہونے کا خمیازہ بھگت رہا تھا۔کوئی شہر اورگاؤں بھی محفوظ نہیں تھا۔
ہرروز بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی گونج گرج سنائی دیتی تھی۔کراچی شہر اپنوں ہی کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہا تھا ، مگر سوال یہ ہے کہ کیا زرداری صاحب کی حکومت نے اِس سے نمٹنے میں کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام دیا۔ انھیں تو عمران خان کی طرف سے بھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں تھا اور مسلم لیگ نون بھی اُن کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھا رہی تھی۔
وہ چاہتے تو ایم کیو ایم کی کارروائیوں کو تو کم ازکم روک سکتے تھے جب کہ وہ اُن کی حکومت اور کابینہ کا حصہ بھی بنی ہوئی تھی ، مگر انھوں نے مفاہمت اور دوستی کی سیاست کے پرچار میں اُن کے ہر غیر قانونی مطالبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
ملکی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے بھی اُن کے نامہ اعمال میں کوئی بڑا کارنامہ درج نہیں ہو پایا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور قدرتی گیس کے کمی کے مسئلہ کو بھی وہ احسن طریقہ سے نمٹ نہ سکے ، مگر جب 2013 ء انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کو ایک بار پھر برسراقتدار آنے کا موقعہ ملا تو انھوں نے پہلے دن سے ملک کی ترقی کے اپنے وژن پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ ملک بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا اورکراچی شہر میں بھی امن کا بول بالاکیا۔ بجلی کے بحران پر تندہی سے کام کیا اور اپنا دور مکمل ہونے سے پہلے ہی ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ کا بہت حد تک خاتمہ کر ڈالا۔
سی این جی اسٹیشنوں سے گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاروں کو بھی اپنے اِسی وژن کے تحت ختم کیا ، حالانکہ اقتدار کے ایک سال بعد ہی پی ٹی آئی نے اُن کے لیے مشکلات کھڑی کردی تھیں اور126 دنوں تک دارالحکومت کو محصور اور مفلوج کر ڈالا تھا۔ دھرنے کے خاتمے کے بعد میاں صاحب ایک بار پھر اپنے مشن پر لگ گئے اور سڑکوں اور شاہراہوں سمیت سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر کام شروع کر ڈالا۔ مختصر سے عرصے میں پنجاب کے تین شہروں میں میٹرو بس پروجیکٹ مکمل کیے اورلاہور شہر میں اورنج لائن بنا کے اُس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے۔
زرداری صاحب یا پیپلز پارٹی کو صوبہ سندھ میں متواتر 2008 سے حکومت ملتی آئی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ سندھ کے کسی ایک شہر کو بھی لاہورکی طرح نہیں بنا سکی۔ اِس کے دارالحکومت کراچی کی حالت پر تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا سارا بجٹ کہاں چلا جاتا ہے۔ وہ اِس شہر سے ملنے والے ریونیو میں سے اگر تھوڑا بہت بھی اِس شہر پرخرچ کردیتے تو یہ شہر لاہور سے بہت آگے نکل چکا ہوتا اور تو اور میاں صاحب کی دی ہوئی میٹرو بس سروس کا اسٹرکچر چار سال گزر جانے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوسکا۔ کراچی کے باسی پچیس سال پرانی منی بسوں میں جانوروں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ کراچی تو کراچی سندھ کے اندرونی شہروں کی حالت بھی انتہائی ابتر اور خراب ہے۔
یہاں کے حالات بیس پچیس سال پہلے جیسے تھے آج بھی ویسے ہی ہیں نہ کوئی بڑا اسپتال بن سکا اور نہ کوئی اسکول اورکالج۔ سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر کو ترجیح نہ دینے والوں نے تعلیم اورصحت کی سہولتوں میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا۔ رہ گیا سوال کرپشن کا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں سے کون زیادہ کرپٹ اور بد عنوان ہے تو ہمارے لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس پر کسی کو خیال آرائی یا تبصرہ نگاری کی چنداں ضرور ت نہیں۔ پہلے یہ الزام صرف اِن دونوں پارٹیوں پر لگا کرتا تھا مگر اب اِس میں پی ٹی آئی بھی شامل ہوگئی ہے۔
آنے والے دنوں میں جب پی ٹی آئی اقتدار سے باہر ہوچکی ہوگی تو پھر اُس کی سچائی اور ایمانداری کے تمام راز منکشف ہونگے اِس لیے اگر یہ کہا جائے کہ یہاںجس کا جتنا موقعہ لگا اُس نے اپنا کام کر دکھایا تو یہ کہنا ہرگز بے جا اور غلط نہ ہوگا۔ حالیہ دنوں کے چینی ، آٹے اور دوائیوں کے اسکینڈل بھی سابقہ پیپلزپارٹی دور کے حج اسکینڈل سے کسی لحاظ سے بھی کم نہیں ہیں۔
اسی طرح خود دونوں پارٹیوں کے اندر بھی بہت سے ارکان کے خیالات ایک دوسرے کے بارے میں ایسے ہی تھے اور ایسے ہی ہیں۔ یہ دونوں پارٹیاں بنی ہی ایک دوسرے کی مخالفت میں تو پھر بھلا دونوں اگر مل جائیں تو سیاست کس کے خلاف کی جائے گی۔ عمران فیکٹر توکوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے۔ آنے والے انتخابات میں دونوں پارٹیاں ساری الیکشن مہم ہی ایک دوسرے کے خلاف کرنا چاہیں گی۔
پی ٹی آئی تو اپنی کارکردگی کی وجہ سے شاید کوئی مشکل حریف ثابت نہیں ہوگی ، جو مقابلہ ہونا ہے وہ اِن دونوں پارٹیوں میں ہی ہوگا۔ پیپلز پارٹی سے ٹوٹ کر جو ارکان پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے وہ اب ایک بار پھر پیپلز پارٹی ہی میں اپنی جگہ بنانا چاہیں گے اور جس طرح نبیل گبول کو پیپلز پارٹی نے واپس لے لیا تھا ، آنے والے وقتوں میں ہم دیکھیں گے کہ پیپلز پارٹی اپنے اِن جانے والوں کو پھر سے خوشی خوشی اپنی صفوں میں شامل بھی کر لے گی۔
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں کس نے دوسرے فریق کو دھوکا دیا۔ یہ الزام اور بہتان توکبھی واضح طور پر ثابت نہیں ہوگا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے شکایت ہے اور دونوں ہی خود کو درست اور صحیح کہتے ہیں، اب اگر اگلے الیکشن میں مسلم لیگ دوبارہ برسر اقتدار آجاتی ہے تو قوم پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ایک ساتھ اپوزیشن بینچوں میں بیٹھا دیکھے گی اور دونوں مل کر اُسی طرح مسلم لیگ نون کی مخالفت میں یک جان اور یک قلب ہوچکے ہونگے جس طرح اب تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ہوتے رہے ہیں۔
لاڑکانہ میں گزشتہ برس محترمہ بے نظیر بھٹوکی برسی کے موقعہ پر مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان سیاسی ہم آہنگی دیکھ کر ہماری آنکھیں اِس پائیداری پر یقین کرنے کو تیار نہ تھیں اورہوا بھی یہی۔ یہ دونوں حالات اور وقت کی مجبوری کے تحت ایک ساتھ بیٹھ تو سکتے ہیں لیکن دلوں میں دوریاں کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ اِسی طرح اگلے انتخابات میں اگر پیپلز پارٹی کو حق حکمرانی سے نوازا گیا تو پھر ہوسکتا ہے ہم مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کو ایک دوسرے سے گلے ملتا دیکھ رہے ہونگے اور پھر دونوں کی ساری سیاست کا محور اور ٹارگٹ صرف پیپلز پارٹی ہی ہوگی۔
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی سیاست کا اگرغیر جانبدارانہ موازنہ کیا جائے تو مفاد پرست سیاست کرنے میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے اور اقتدار کے دنوں میںکارکردگی کے حوالے سے بھی وہ مسلم لیگ نون سے بہت پیچھے ہی دکھائی دیتی ہے۔ اِس میںشک نہیں مشرف دورکے بعد دونوں کو جب اسلام آباد میں حکومت کرنے کا موقعہ ملا تو ملک کے اندر امن و امان کی حالت انتہائی خراب اور دگرگوں تھی۔ سارا ملک مشرف حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے غیروں کی لڑائی میں شامل ہونے کا خمیازہ بھگت رہا تھا۔کوئی شہر اورگاؤں بھی محفوظ نہیں تھا۔
ہرروز بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی گونج گرج سنائی دیتی تھی۔کراچی شہر اپنوں ہی کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہا تھا ، مگر سوال یہ ہے کہ کیا زرداری صاحب کی حکومت نے اِس سے نمٹنے میں کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام دیا۔ انھیں تو عمران خان کی طرف سے بھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں تھا اور مسلم لیگ نون بھی اُن کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھا رہی تھی۔
وہ چاہتے تو ایم کیو ایم کی کارروائیوں کو تو کم ازکم روک سکتے تھے جب کہ وہ اُن کی حکومت اور کابینہ کا حصہ بھی بنی ہوئی تھی ، مگر انھوں نے مفاہمت اور دوستی کی سیاست کے پرچار میں اُن کے ہر غیر قانونی مطالبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
ملکی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے بھی اُن کے نامہ اعمال میں کوئی بڑا کارنامہ درج نہیں ہو پایا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور قدرتی گیس کے کمی کے مسئلہ کو بھی وہ احسن طریقہ سے نمٹ نہ سکے ، مگر جب 2013 ء انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کو ایک بار پھر برسراقتدار آنے کا موقعہ ملا تو انھوں نے پہلے دن سے ملک کی ترقی کے اپنے وژن پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ ملک بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا اورکراچی شہر میں بھی امن کا بول بالاکیا۔ بجلی کے بحران پر تندہی سے کام کیا اور اپنا دور مکمل ہونے سے پہلے ہی ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ کا بہت حد تک خاتمہ کر ڈالا۔
سی این جی اسٹیشنوں سے گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاروں کو بھی اپنے اِسی وژن کے تحت ختم کیا ، حالانکہ اقتدار کے ایک سال بعد ہی پی ٹی آئی نے اُن کے لیے مشکلات کھڑی کردی تھیں اور126 دنوں تک دارالحکومت کو محصور اور مفلوج کر ڈالا تھا۔ دھرنے کے خاتمے کے بعد میاں صاحب ایک بار پھر اپنے مشن پر لگ گئے اور سڑکوں اور شاہراہوں سمیت سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر کام شروع کر ڈالا۔ مختصر سے عرصے میں پنجاب کے تین شہروں میں میٹرو بس پروجیکٹ مکمل کیے اورلاہور شہر میں اورنج لائن بنا کے اُس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے۔
زرداری صاحب یا پیپلز پارٹی کو صوبہ سندھ میں متواتر 2008 سے حکومت ملتی آئی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ سندھ کے کسی ایک شہر کو بھی لاہورکی طرح نہیں بنا سکی۔ اِس کے دارالحکومت کراچی کی حالت پر تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا سارا بجٹ کہاں چلا جاتا ہے۔ وہ اِس شہر سے ملنے والے ریونیو میں سے اگر تھوڑا بہت بھی اِس شہر پرخرچ کردیتے تو یہ شہر لاہور سے بہت آگے نکل چکا ہوتا اور تو اور میاں صاحب کی دی ہوئی میٹرو بس سروس کا اسٹرکچر چار سال گزر جانے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوسکا۔ کراچی کے باسی پچیس سال پرانی منی بسوں میں جانوروں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ کراچی تو کراچی سندھ کے اندرونی شہروں کی حالت بھی انتہائی ابتر اور خراب ہے۔
یہاں کے حالات بیس پچیس سال پہلے جیسے تھے آج بھی ویسے ہی ہیں نہ کوئی بڑا اسپتال بن سکا اور نہ کوئی اسکول اورکالج۔ سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر کو ترجیح نہ دینے والوں نے تعلیم اورصحت کی سہولتوں میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا۔ رہ گیا سوال کرپشن کا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں سے کون زیادہ کرپٹ اور بد عنوان ہے تو ہمارے لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس پر کسی کو خیال آرائی یا تبصرہ نگاری کی چنداں ضرور ت نہیں۔ پہلے یہ الزام صرف اِن دونوں پارٹیوں پر لگا کرتا تھا مگر اب اِس میں پی ٹی آئی بھی شامل ہوگئی ہے۔
آنے والے دنوں میں جب پی ٹی آئی اقتدار سے باہر ہوچکی ہوگی تو پھر اُس کی سچائی اور ایمانداری کے تمام راز منکشف ہونگے اِس لیے اگر یہ کہا جائے کہ یہاںجس کا جتنا موقعہ لگا اُس نے اپنا کام کر دکھایا تو یہ کہنا ہرگز بے جا اور غلط نہ ہوگا۔ حالیہ دنوں کے چینی ، آٹے اور دوائیوں کے اسکینڈل بھی سابقہ پیپلزپارٹی دور کے حج اسکینڈل سے کسی لحاظ سے بھی کم نہیں ہیں۔