الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
یاد رہے کہ ڈسکہ میں ضمنی انتخابات میں الیکشن عملے کی دھند میں گمشدگی کے بعد الیکشن کمیشن نے ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کا حکم جاری کیا تھا۔ تاہم تحریک انصاف کو اس فیصلے پر شدید اعتراض تھا۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد حکومتی وزراء نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ لیکن اب تو سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔
اب حکومتی جماعت کا کیا موقف ہے۔ حکومتی جماعت کے پاس شرمندگی سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومتی وزراء الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ واپس لے لیں اور اپنی اس پریس کانفرنس پر معذرت کر لیں۔ بہرحال حکومتی وزرا نے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر چپ سادھ لی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق پاکستان میں جمہوریت کے لیے خوش آیندہے۔ ایک مضبوط الیکشن کمیشن ہی پاکستان میں مضبوط جمہوریت کا ضامن ہے۔ کمزور الیکشن کمیشن کمزور جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ماضی میں اگر پاکستان میں جمہوریت کمزور رہی ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی کمزور الیکشن کمیشن ہی رہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کو کمزور رکھنے کی کوشش میں ہم نے شعوری طور پر الیکشن کمیشن کو کمزور رکھا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مضبوط الیکشن کمیشن ہی صرف مضبوط جمہوریت دے سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ سے ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کے فیصلے کی توثیق کے بعد الیکشن کمیشن کو ڈسکہ میں دھاندلی کے مرتکب ذمے داران کے خلاف مثالی کارروائی کرنی چاہیے۔ کسی کو معافی نہیں دینی چاہیے۔ غائب ہونے والے عملے کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرانے چاہیے۔ ڈسکہ میں تعینات سول افسران کی ٹرانسفر کوئی سزا نہیں ہے۔ بلکہ ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔ کسی کو معافی نہیں دینی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دھاندلی کی مرتکب انتظامیہ کو بچانے کے لیے حکومتی وزراء نے الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ کھولا تھا۔ حکومت سپریم کورٹ گئی تھی۔ لیکن اب جب سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کی توثیق کر دی ہے تو الیکشن کمیشن کو اپنی کارروائی کا دوبارہ آغاز کرنا چاہیے۔
اصولی طور پر عام انتخابات کا انعقاد سول انتظامیہ کا کام ہے اور اسے ہی کرنا چاہیے۔ جب سول افسران کو یہ معلوم ہوگا کہ انتخابی عمل میں غفلت سے ان کی نوکری چلی جائے گی، ان پر سخت ایکشن ہوگا تو وہ منصفانہ انتخابات کو ہر صورت یقینی بنائیں گے۔ پھر کسی بھی حکومت میں انتخابات پر اثر انداز ہونے کی ہمت نہیں رہے گی۔ افسران صاف کہہ دیں گے الیکشن کمیشن سے کون بچائے گا، اس لیے الیکشن کمیشن کواس معاملے میں نرمی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کو پاکستان میں منصفانہ انتخابات کی راہ متعین کرنے کے لیے روڈ میپ کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ الیکشن کرانا سول انتظامیہ کاکام ہے اور ان سے ہی اس کام کو لینا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو الیکشن کمیشن کے کام میں کم سے کم مداخلت کرنی چاہیے۔ خود مختار الیکشن کمیشن ہی خود مختار جمہوریت کا ضامن ہے۔ یہ درست ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ کو اپیل سننے کا اختیار ہے اور یہ اختیار آئین پاکستان نے دیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسی آئین نے الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ کے برابر جیوڈیشل اختیارات دیے ہیں۔ جس طرح ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سنی جاتی ہے، ایسے ہی الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف اپیل سنی جانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو ایک فریق کی طرح کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جانا چاہیے۔الیکشن کمیشن کا احترام یقینی بنانا چاہیے، اسی میں پاکستان کا مفاد ہے۔
میری رائے میں الیکشن کمیشن کو کمزور فیصلوں سے توبہ کرنی چاہیے۔ ماضی میں الیکشن کمیشن کے کمزور فیصلوں نے پاکستان اور جمہوریت دونوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔بالخصوص ضمنی انتخاب کے دوران حکومتی وزراء الیکشن قواعد کا مذاق اڑاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن انھیں رسمی شوکاز بھی جاری کرتا ہے۔ لیکن ان شو کاز کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔ کیونکہ الیکشن کمیشن نے اپنے ان شوکاز پر کبھی کوئی سخت ایکشن نہیں لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شوکاز پر سخت ایکشن لیا جائے۔ جو بھی الیکشن کمیشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرے، اسے موقعے پر فوری سخت سزا دی جانی چاہیے۔ اسی طرح اپوزیشن کا کوئی رکن بھی اگر الیکشن کمیشن کے کسی بھی قسم کے احکامات کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف بھی سخت ایکشن ہونا چاہیے۔
الیکش کمیشن کو توہین عدالت کے اختیارات کا استعمال بھی کرنا چاہیے اور اپنی توہین کسی صورت برداشت نہیں کرنی چاہیے، اس کی توہین پاکستان میں جمہوریت کی توہین ہے۔ وہ پاکستان میں جمہوریت کا پہرہ دار ہے اور ضامن ہے۔ اس لیے اس کی توہین جمہوریت کی توہین ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت قائم کرانا بھی الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کے اندر آمریت بھی الیکشن کمیشن کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی۔
سیاسی جماعتوں کے اندر ٹکٹوں کی تقسیم کا نظام شفاف بنانا بھی الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ ابھی ٹکٹوں کی تقسیم کا نظام شفاف نہیں ہے۔ سیاسی کارکنوں کو سیاسی جماعتوں نے بے اختیار کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر فیصلہ ساز ادارے بھی ربڑ اسٹیمپ بنا دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کواس ضمن میں سختی کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے لیے الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہے۔ جس حلقے کا ٹکٹ ہو وہاں کے سیاسی کارکنوں کی مرضی سے ٹکٹ جاری ہونے چاہیے، سینیٹ کے ٹکٹ بھی ارکان اسمبلی کی مرضی سے جاری ہونے چاہیے۔ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر ٹکٹ جاری کرنے کا نظام ختم کرنا بھی الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
پہلی دفعہ ملک میں الیکشن کمیشن کے حوالے سے امید پیدا ہوئی ہے۔ لوگوں کو سمجھ آئی ہے کہ الیکشن کمیشن بھی ایک ادارہ ہے۔ اس کے پاس بھی اختیارات ہیں۔ اس امید کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کے کیس کا بھی جلد فیصلہ کرے گا۔ اور یہ فیصلہ ایسا ہوگا جو عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرے گا۔ اگرسب جماعتوں نے فارن فنڈنگ لی ہے تو سب کو سزا ہونی چاہیے۔ کسی سے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔