تیسری لہر انتہائی خطرناک ترجیحات اور رویے بدلنا ہونگے

کرونا دراصل تیسری عالمی جنگ ہے جس سے اب تک 35 لاکھ اموات ہوچکی ہیں


، آئندہ برسوں میں بھی بیکٹیریا اور وائرس سے لاکھوں اموات ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا اب ممالک، اداروں اور بزنس چیمبرز کو اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا، انہیں ہتھیار بنانے کے بجائے شعبہ صحت پر زیادہ خرچ کرنا ہوگا: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

کرونا وائرس کی تیسری لہر مہلک اور پہلے سے زیادہ خطرناک ہے جس کے پیش نظر حکومت نے مختلف پابندیاں لگا دی ہیں ،50 برس سے زائد عمر کے افراد کو کرونا ویکیسن لگائی جارہی ہے جبکہ تمام شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب بھی دی جارہی ہے۔

''کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہر صحت اور بزنس کمیونٹی کے نمائندہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔فورم میں حکومتی موقف کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کے خصوصی مشیر برائے صحت محمد حنیف خان پتافی نے شرکت کی یقین دہانی کرائی مگر وعدے کے باوجود تشریف نہیں لائے۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور)
کرونا دراصل تیسری عالمی جنگ ہے کیونکہ اس سے اب تک 35 لاکھ اموات ہوچکی ہیں جو کسی عالمی جنگ میں نہیں ہوئی، آئندہ برسوں میں بھی بیکٹیریا اور وائرس سے لاکھوں اموات ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا اب ممالک، اداروں اور بزنس چیمبرز کو اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا اور ہتھیار بنانے کے بجائے شعبہ صحت پر زیادہ خرچ کرنا ہوگا۔ لوگوں کی جانیں بچانے کیلئے شعبہ صحت میں انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کیلئے میڈیکل سٹی قائم کی جائے، نئے میڈیکل کالجز، نرسنگ کالجز، ہسپتال، لیبارٹریاں و دیگر ادارے بنائے جائیں ۔

افسوس ہے کہ 1947 ء سے لے کر اب تک ملک میں ایک بھی بائیو ٹیکنالوجی پلانٹ نہیں لگایا جاسکا جبکہ چین میں 2100 اور بھارت میں 350 پلانٹس ہیں۔بھارت میں کرونا کی ویکسین تیار ہورہی ہے، ہمارے سمیت دنیا کے دیگر ممالک اس سے ویکسین لے رہے ہیں، بھارت کی ایک فیکٹری کرونا ویکسین کی35 لاکھ ڈوز روزانہ تیار کر رہی ہے۔

بدقسمتی سے بائیو ٹیکنالوجی پلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا انحصار درآمد پرہے۔ اس وقت ملک میں373 فارما کمپنیاں ہیں جو یہاں کچھ بھی تیار نہیں کر رہی بلکہ صرف پیکیجنگ انڈسٹری کے طور پر کام کر رہی ہیں لیکن اگر پاکستان میں بائیوٹیکنالوجی پلانٹ لگایا جائے تو یہاں کرونا ویکسین سمیت دیگر ادویات کی تیاری ممکن ہے جس سے نہ صرف عوام بلکہ ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔ میرے نزدیک انڈسٹری، اکیڈمیا روابط بہت ضروری ہیں۔ یونیورسٹیز کے پاس قابل لوگ ہیں، محقق ہیں جو نئی تحقیق کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس علم ہے، انڈسٹری کے پاس سکلز۔ ہم لیبارٹری میں کامیاب تجربے کرتے ہیں مگر اس سے فائدہ اٹھانا اور اسے بڑے پیمانے تک لے جانا انڈسٹری کا کام ہے۔

کرونا وائرس نے ہمیں یہ بھی سبق دیا ہے کہ اکیلے کچھ نہیں کیا جاسکتا، ہمیں مل کر اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کرکے مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ انڈسٹری کے پاس وسائل ہیں اور ہمارے پاس تحقیق لہٰذا دونوں مل کر کام کریں تو ملک کا فائدہ ہوگا۔ اس وقت یونیورسٹی آف لاہور کے پاس یو ایس ایف ڈی اے سے منظور شدہ 29 پیٹنٹ ہیں جو انڈسٹری کو مفت دینے کیلئے تیار ہیں، یہ کمرشل بنیادوں پر تیار کرکے لوگوں کو فراہم کریں، ہم کوئی رائلٹی نہیں لیں گے۔ ہمارے ہاں یہ روش ہے کہ جو کام کوئی ایک کرتا ہے سب اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اس وقت ہمیں یہ نہیں دیکھنا کہ بزنس کمیونٹی کیا کام کر رہی ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ کیا نہیں کر رہی؟ سب ایک دوسرے کے مقابلے میں چل رہے ہیں، اداروں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام نہیں کر رہا، سرکاری سطح پر بھی اداروں میں رابطے کا فقدان ہے۔ ہمیں ایک ساتھ ملکر کام کرنا ہوگا ، روابط بہتر کرنا ہونگے اور جو کام رہ گیا ہے یا نہیں ہو رہا، وہ کرنا ہوگا۔ کرونا وائرس اپنے پہلے دن سے لے کر اب تک کسی بھی ملک سے مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ اس میں کمی ضرور آئی لیکن یہ موجود رہا اور پھیلتا رہا لہٰذا میرے نزدیک کرونا کی تیسری لہر والی بات غلط ہے۔ ایسا کہنے سے لوگوں کو یہ تاثر ملتا ہے جیسے کرونا مرحلہ وار آتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کرونا مستقل طور پر موجود ہے جو پہلے سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ کرونا کے بڑھنے کی 2 سائنسی وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ اس نے میوٹیشن پراسس سے اپنی ساکھ کو تیزی سے بدلا ہے اور یہ یورپ، یوکے سے ہوتا ہوا پاکستان آیا ہے جو پہلے زیادہ خطرناک ہوچکا ہے۔ دوسری یہ کہ اس وائرس پر موجود کانٹوں میں بھی تبدیلی آئی ہے، ان سپائیکس کی وجہ سے یہ انسانی جسم سے جڑتے ہیں، اب تبدیلی کے بعد جڑنے کی شرح 75 فیصد بڑھ گئی ہے، اب یہ بچوں پر بھی تیزی سے اثر انداز ہو رہا ہے اور اس کی شرح اموات میں بھی اضافہ ہوا ہے جو تشویشناک ہے۔

موجودہ کرونا وائرس کی پھیپھڑوں پر اثر انداز ہونے کی شرح بڑھ گئی ہے، یہ 50 فیصد مریضوں کے پھیپھڑے متاثر کر رہا ہے جس سے اموات بھی زیادہ ہورہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس مرض سے اکتا گئے ہیں اور ایس او پیز کو اختیار کرنے میں غفلت برت رہے ہیں۔ یہ مرض کم از کم 5 برس رہنے والا ہے۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس سے ہم مر سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنی خواہشات کی قربانی دینا ہوگی، رویے بدلنا ہوں گے اور احتیاط کرنا ہوگی۔ ایک دوسرے سے 6 فٹ کا فاصلہ رکھیں، ماسک و دیگر احتیاتی تدابیر اپنائیں۔ ہمارے ہاں شادی و دیگر تقاریب اپنی خوشی سے زیادہ دکھاوے کیلئے ہوتی ہیں، دکھاوا ختم کر دیں اور رسول اللہؐ کی تعلیمات کو اپنائیں اور سادگی سے زندگی گزاریں۔ شادیوں سے کرونا زیادہ پھیل رہا ہے لہٰذا کم لوگوں کو دعوت دیں، ایس او پیز کا خیال رکھیں اور بفے سسٹم کے بجائے 'ٹیک اوے'کا طریقہ اپنا لیں ۔ ہم اب نیو نارمل میں آچکے ہیں جس میں انسانی جانوں کو بچانا اہم ہے۔

یہ ہماری دینی تعلیمات ہیں کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی لہٰذا ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔کرونا ایک تاریک سرنگ ہے جس میں ہر قدم پر ایک لاش پڑی ہے اور آخر میں ویکسین کی صورت میں امید کی ایک کرن ہے لہٰذا جب تک ساڑھے 15 کروڑ پاکستانیوں کو ویکسین نہیں لگا دی جاتی تب تک اس کے پھیلنے کا خطرہ رہے گا اور ہرڈ امیونٹی پیدا نہیں ہوگی۔ہم نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں کرونا کی مختلف ویکسین کے کامیاب ٹرائل کیے ہیں، اب بھی ایک چینی ویکسین کا ٹرائل جاری ہے۔

اس وقت ہمارے پاس 110 چینی ماہرین و سٹاف مقیم ہے، یہ کمپنی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ساتھ مل کر پاکستان میں انڈسٹری لانے کیلئے تیار ہے جو بہت بڑی پیش رفت ہوگی اور اس سے یقینا بہتری آئے گی۔ حکومت ویکسین امپورٹ کرکے فرنٹ لائن ورکرز اور 50برس سے زائد عمر کے لوگوں کو لگا رہی ہے مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے تمام لوگوں کو ویکسین لگانا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا، اس کے لیے نجی شعبے اور سماجی خدمت گاروں کو آگے آنا ہوگا۔ کرونا ویکسین کی کمرشل بنیادوں پر امپورٹ کے حوالے سے بھی معاملات چل رہے ہیں، میرے نزدیک حکومت ویکسین کا کنٹرول اپنے پاس رکھے، اسے خود امپورٹ کرے اور اس کے بعد یہ ویکسین آگے سے دی جائے۔

عمر اشرف مغل
(صدر گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
گزشتہ برس جب کورونا کی وجہ سے لاک ڈائون ہوا تو بزنس انڈسٹری پریشان ہوگئی۔ اس سے بے شمار کاروبار متاثر ہوئے، بیشتر بند ہوگئے، ملک کو معاشی طور پر نقصان ہوا مگر اس سارے بحران میں بہت ساری انڈسٹری کو فائدہ بھی ہوا۔ دنیا بھر میں خصوصاََ ہمارے ہمسایہ ممالک میں انڈسٹری مکمل بند ہوگئی مگر ہمارے ہاں سمارٹ لاک ڈائون کی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے انڈسٹری چلتی رہی جس کی وجہ سے دنیا کا رجحان ہماری طرف ہوا۔ اس کے نتیجے میں آرڈرز زیادہ ملے، برآمدات میں اضافہ ہوا جبکہ درآمد بند بند ہونے کی وجہ سے مقامی انڈسٹری کو بھی فروغ ملا اور بے شمار اشیاء یہاں ہی تیار کر لی گئی۔

یہاں نئی انڈسٹری بھی وجود میں آئی جس نے خلاء کو پورا کیا ۔ آئی ٹی سیکٹر کو فروغ ملا، اب لوگ سمارٹ ورکنگ ماڈل اور ریموٹ ورکنگ ماڈل پر آگئے ہیں جس سے وسائل کی بچت ہوئی اور آئی ٹی انڈسٹری کو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا مختلف ادویات کے عالمی پیٹنٹ حاصل کرنا قابل تحسین ہے لہٰذا جب تک ان ادویات کی کمرشل بنیادوں پر تیاری کی طرف نہیں جائیں گے تک تب فائدہ نہیں ہوگا، اس کیلئے انڈسٹری، اکیڈمیا اشتراک انتہائی ضروری ہے۔ میرے نزدیک انڈسٹری کو آگے آنا چاہیے اور یونیورسٹی کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، میں اس حوالے سے یقین دہانی کراتا ہوں کہ ہم اس عمل کو فروغ دیں گے اور تعلیمی اداروں کو بزنس کمیونٹی سے لنک کریں گے۔

ہمیں تنقید سے نکل کر تعمیر کی طرف جانا چاہیے، اس کے لیے آپس میں مل کر کام کرنا ہوگا۔ دنیا میں سب سے زیادہ مالی فائدہ دینے والا شعبہ ہیلتھ انڈسٹری ہے مگر یہاں قابل لوگوں کی کمی ہے جس کی بڑی وجہ تعلیمی معیار میں گراوٹ ہے، ہمیں مل کر ہیلتھ سیکٹر کے فروغ کیلئے کام کرنا ہوگا۔ سرکاری ہسپتالوں میں کرونا مریضوں کے لیے بہترین سہولیات ہیں،ہمارے فرنٹ لائن ورکرز، ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکل سٹاف نے اس وباء کے مشکل ترین دور میں بہترین کام کیا جو خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ہم ایک بہترین قوم ہیں اور ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہمارے لوگ قابل اور ذہین ہیں، یہاں ماسک، سینی ٹائزرز، پی پی ای کٹس، وینٹی لیٹرز بنائے گئے، مقامی سطح پر ایسے ایڈاپٹر بنا لیے گئے جن سے ایک ہی وینٹی لیٹر سے4 مریضوں کو سہولت دی گئی۔

کرونا وائرس کے حوالے سے احتیاط انتہائی اہم ہے، لوگوں کو احتیاطی تدابیر اپنانا ہونگی۔ کرونا خطرناک ہے، کاروباری طبقے کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے، انہیں سمجھنا چاہیے کہ زندہ رہیں گے تو ہی کمائیں گے لہٰذا ایس او پیز کا مکمل خیال رکھیں، ہم اپنے علاقے کے تاجروں کو آگاہی دے رہے ہیں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ بھی مکمل رابطے میں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |