جو اختیار میں ہو اسے تو ممکن کیجیے
کامیابی کےلیے بنیادی شرط ہے کہ آپ دوسروں کی مخالفت کی باوجود مستقل مزاجی سے اپنے کام کو جاری رکھیں
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں کے کنویں میں دس سال کا بچہ گرگیا۔ یہ خبر گاؤں بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ بچے، بزرگ اور خواتین سبھی اپنی اپنی جگہ پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا؟ بچے کی ماں بھی بے تاب ایک جانب کھڑی تھی کہ اچانک ایک طرف سے وہی دس سال کا بچہ ایک اور پانچ سال کے بچے کے ساتھ آیا اور اس نے وہاں سب کو بتایا کہ اس پانچ سال کے بچے نے میری جان بچائی ہے۔
ظاہر ہے کہ میری طرح ان سب گاؤں کے رہائشیوں نے اس بات پر یقین نہ کیا۔ لیکن گاؤں کے ایک معمر فرد نے یہ معمہ بھی سلجھا دیا کہ یہ بچہ ٹھیک کہہ رہا ہے کہ اس کی جان اس چھوٹے بچے نے بچائی ہے، کیونکہ جب یہ بچہ ایک ویرانے میں خود سے بڑے بچے کی جان بچا رہا تھا تو اس وقت وہاں کوئی اس کی حوصلہ شکنی کرنے والا نہیں تھا اور کوئی اسے یہ کہنے والا نہیں تھا کہ تم یہ کام نہیں کرسکتے۔
سو بس اب موضوع یہی ہے کہ کس طرح بہت سے لوگ ناممکن کو بھی ممکن بنادیتے ہیں۔ اس میں کوشش اور لگن کا ہاتھ تو ہے لیکن وہ صرف ایک حد تک ہے۔ اس میں کامیابی کےلیے جو بنیادی شرط ہے وہ محض یہ ہے کہ آپ دوسروں کی مخالفت کی باوجود مستقل مزاجی سے اپنے کام کو جاری رکھیں۔ آپ کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ اگر آپ درست سمت چل رہے ہیں اور آپ کا ضمیر مطمئن ہے تو کوئی آپ کا راستہ نہیں روک سکتا اور اللہ تعالیٰ بھی آپ کا حامی و ناصر ہے۔
ہمارے اردگرد ہمیں روزانہ ایسے بہت سے افراد ملیں گے جو بجائے ہماری حوصلہ افزائی کرنے کے ہمارا دل توڑ دیں گے۔ یہ صورتحال نہ صرف گھر میں ہوگی بلکہ ہمارے دفتر میں بھی پیش آئے گی۔ بہت مرتبہ ہمارے کولیگ پیٹھ پیچھے بات کرکے دفتری سیاست کو ہوا دیں گے۔ ہمیں کئی ناکردہ کاموں کے سسلسلے میں جوابدہ ہونا ہوگا۔ کبھی کبھی ہم بہت محنت کریں گے اور ہمارا باس تمام تعریف سمیٹ لے گا۔ اکثر اوقات یہ سننے کو بھی ملے گا کہ تم میں تو کوئی قائدانہ صلاحیت نہیں ہے، تمھاری جگہ کسی اور کو رکھ لیں گے۔ ملازمت چلی جانے کے خوف سے ہم بہت سی غلط باتوں کو بھی درست تسلیم کرنے میں کوئی تامل محسوس نہیں کرتے۔
اسی طرح گھر میں بھی چاہے کھانا پکانے کی بات ہو، مہمانوں سے سلوک ہو یا رشتے داروں سے برتاؤ، کہیں نہ کہیں بہن بھائیوں میں بھی حسد اور رقابت کا ایک جذبہ موجود رہتا ہے اور پھر بڑا ہونے پر یہ جذبہ اور پختہ ہونے لگتا ہے۔ انسان کی غلطی صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں پر دل چھوٹا کرکے ہار تسلیم کرلیتا ہے، مصیبتوں پر رونا شروع کردیتا ہے اور اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے لگتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ رائٹ برادران کو بھی کتنے لوگوں نے اپنے تمسخر کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ جہاز نہیں اڑا سکتے۔ لیکن انھوں نے ناممکن کو ممکن کرکے دکھایا۔ اسی طرح قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان بنانے کی کوشش کو کئی لوگ دیوانے کا خواب کہتے تھے۔ لیکن قائداعظم نے بھی کبھی اپنے مقصد کے حصول کےلیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور تمام مسلمانوں اور اقلتیوں کو ساتھ لے کر چلے۔
اس طرح زندگی میں ایسے بہت سے لوگوں کی مثالیں ہیں جنہوں نے انتھک محنت اور کوشش سے اپنے مشن کو مکمل کیا۔ لیکن اس سب عمل میں ایک پہلو ہے نظر انداز کرنے کا، جو کہ ہمیں کامیابی کےلیے سیکھنا ہے۔ ایسی تمام منفی باتوں کو اپنے قریب مت آنے دیجئے جس سے آپ کا دماغی سکون برباد ہو اور ایسے تمام افراد سے ذہنی دوری بھی ضروری ہے، جو آپ کا مورال ڈاؤن کرتے اور آپ سے متعلق منفی باتیں کرتے ہیں۔
یہاں کسی حد تک پہلو تنقید کا بھی آتا ہے۔ اگر کوئی واقعی آپ کا ہمدرد ہے تو وہ آپ کو بتادے گا کہ پیراشوٹ کے بغیر چھلانگ لگانا باعث ہلاکت ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ پیراشوٹ کے استعمال کے باوجود بھی آپ نہیں بچ سکتے، کیونکہ آپ میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ ان دو لوگوں میں فرق کرنا بس آپ پر منحصر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ظاہر ہے کہ میری طرح ان سب گاؤں کے رہائشیوں نے اس بات پر یقین نہ کیا۔ لیکن گاؤں کے ایک معمر فرد نے یہ معمہ بھی سلجھا دیا کہ یہ بچہ ٹھیک کہہ رہا ہے کہ اس کی جان اس چھوٹے بچے نے بچائی ہے، کیونکہ جب یہ بچہ ایک ویرانے میں خود سے بڑے بچے کی جان بچا رہا تھا تو اس وقت وہاں کوئی اس کی حوصلہ شکنی کرنے والا نہیں تھا اور کوئی اسے یہ کہنے والا نہیں تھا کہ تم یہ کام نہیں کرسکتے۔
سو بس اب موضوع یہی ہے کہ کس طرح بہت سے لوگ ناممکن کو بھی ممکن بنادیتے ہیں۔ اس میں کوشش اور لگن کا ہاتھ تو ہے لیکن وہ صرف ایک حد تک ہے۔ اس میں کامیابی کےلیے جو بنیادی شرط ہے وہ محض یہ ہے کہ آپ دوسروں کی مخالفت کی باوجود مستقل مزاجی سے اپنے کام کو جاری رکھیں۔ آپ کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ اگر آپ درست سمت چل رہے ہیں اور آپ کا ضمیر مطمئن ہے تو کوئی آپ کا راستہ نہیں روک سکتا اور اللہ تعالیٰ بھی آپ کا حامی و ناصر ہے۔
ہمارے اردگرد ہمیں روزانہ ایسے بہت سے افراد ملیں گے جو بجائے ہماری حوصلہ افزائی کرنے کے ہمارا دل توڑ دیں گے۔ یہ صورتحال نہ صرف گھر میں ہوگی بلکہ ہمارے دفتر میں بھی پیش آئے گی۔ بہت مرتبہ ہمارے کولیگ پیٹھ پیچھے بات کرکے دفتری سیاست کو ہوا دیں گے۔ ہمیں کئی ناکردہ کاموں کے سسلسلے میں جوابدہ ہونا ہوگا۔ کبھی کبھی ہم بہت محنت کریں گے اور ہمارا باس تمام تعریف سمیٹ لے گا۔ اکثر اوقات یہ سننے کو بھی ملے گا کہ تم میں تو کوئی قائدانہ صلاحیت نہیں ہے، تمھاری جگہ کسی اور کو رکھ لیں گے۔ ملازمت چلی جانے کے خوف سے ہم بہت سی غلط باتوں کو بھی درست تسلیم کرنے میں کوئی تامل محسوس نہیں کرتے۔
اسی طرح گھر میں بھی چاہے کھانا پکانے کی بات ہو، مہمانوں سے سلوک ہو یا رشتے داروں سے برتاؤ، کہیں نہ کہیں بہن بھائیوں میں بھی حسد اور رقابت کا ایک جذبہ موجود رہتا ہے اور پھر بڑا ہونے پر یہ جذبہ اور پختہ ہونے لگتا ہے۔ انسان کی غلطی صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں پر دل چھوٹا کرکے ہار تسلیم کرلیتا ہے، مصیبتوں پر رونا شروع کردیتا ہے اور اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے لگتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ رائٹ برادران کو بھی کتنے لوگوں نے اپنے تمسخر کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ جہاز نہیں اڑا سکتے۔ لیکن انھوں نے ناممکن کو ممکن کرکے دکھایا۔ اسی طرح قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان بنانے کی کوشش کو کئی لوگ دیوانے کا خواب کہتے تھے۔ لیکن قائداعظم نے بھی کبھی اپنے مقصد کے حصول کےلیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور تمام مسلمانوں اور اقلتیوں کو ساتھ لے کر چلے۔
اس طرح زندگی میں ایسے بہت سے لوگوں کی مثالیں ہیں جنہوں نے انتھک محنت اور کوشش سے اپنے مشن کو مکمل کیا۔ لیکن اس سب عمل میں ایک پہلو ہے نظر انداز کرنے کا، جو کہ ہمیں کامیابی کےلیے سیکھنا ہے۔ ایسی تمام منفی باتوں کو اپنے قریب مت آنے دیجئے جس سے آپ کا دماغی سکون برباد ہو اور ایسے تمام افراد سے ذہنی دوری بھی ضروری ہے، جو آپ کا مورال ڈاؤن کرتے اور آپ سے متعلق منفی باتیں کرتے ہیں۔
یہاں کسی حد تک پہلو تنقید کا بھی آتا ہے۔ اگر کوئی واقعی آپ کا ہمدرد ہے تو وہ آپ کو بتادے گا کہ پیراشوٹ کے بغیر چھلانگ لگانا باعث ہلاکت ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ پیراشوٹ کے استعمال کے باوجود بھی آپ نہیں بچ سکتے، کیونکہ آپ میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ ان دو لوگوں میں فرق کرنا بس آپ پر منحصر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔