مہنگائی اور پی ٹی آئی
عوام کی زندگیوں میں اگرکوئی تبدیلی آئی ہے تو اسے ’’ تبدیلی معکوس‘‘ کے سوائے بھلا اورکیا کہا جاسکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات سے قبل عوام کے ساتھ بڑے بلند وبانگ دعوے کیے تھے لیکن افسوس صد افسوس تاحال ان میں سے کوئی ایک وعدہ بھی پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ '' تبدیلی'' کا جو نعرہ بڑے زور و شور سے لگایا گیا تھا اس کی گونج کب کی ماند پڑچکی ہے۔
عوام کی زندگیوں میں اگرکوئی تبدیلی آئی ہے تو اسے '' تبدیلی معکوس'' کے سوائے بھلا اورکیا کہا جاسکتا ہے۔ عام آدمی کے حالات زندگی بہتر ہونے کے بجائے بد سے بد تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بے روزگاری تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ بے لگام ہوتا چلا جا رہا ہے اور جرائم کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
لوٹ مار اور ڈکیتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور عوام خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ معیشت کا پہیہ ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے جس کے باعث عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کیا کرے۔ دو وقت کی روٹی میسر آنا محال ہے اور جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔
جب سے پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے لے کر آج تک اس کا سارا زور اس واویلے پر ہے کہ سابقہ حکومت لوٹ مار کرکے ملک کو قلاش کرگئی ہے اور یہ کہ اس سے یہ لوٹی ہوئی رقم ضرور واپس لائی جائے گی۔ سچ پوچھیے تو اسی بات کو تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا تھا۔ اس کے بعد برسر اقتدار آنے کے روز اول سے آج تک کیونکہ اسی کو بنیادی ایشو بنایا جا رہا ہے۔ گویا سانپ گزر چکا اور اب لکیر کو پیٹا جا رہا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی نے اقتدار کے حصول سے پہلے شاید کوئی ہوم ورک کیا ہی نہیں تھا۔ ہمیں نہ تو حکمران جماعت سے قائد کی نیک نیتی پر شبہ ہے اور نہ ہی ان کے اچھے عزائم پر کوئی شک ہے۔ بلاشبہ ان کے عزائم بلند ہیں اور وہ وطن عزیز میں مثبت تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بھی ان کے ارادے نہایت نیک اور مخلصانہ ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومت عوام کی حالت میں کوئی مثبت تبدیلی لانے سے میلوں کوسوں دور ہے اور عوام بے چارے مایوسی کے مارے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
روز بہ روز تیزی سے بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی کو روٹی کے لالے پڑگئے ہیں۔ دوسری جانب دواؤں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی تو کجا ایک متوسط طبقے کے فرد کو بھی بیماری کا علاج کرنا دشوار ہو گیا ہے اور عالم یہ ہے کہ:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
ابتدا میں وزارت خزانہ کا قلم دان وزیر اعظم عمران خان نے اپنے انتہائی معتمد اسد عمر کے حوالے کیا تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان سے یہ قلم دان واپس لے لیا گیا اس کے بعد عبدالحفیظ شیخ کو باہر سے بلوا کر یہ ذمے داری سونپی گئی۔ موصوف کافی عرصے تک وزارت خزانہ کے سربراہ رہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی انتہائی قربت اور شفقت انھیں اس حد تک حاصل رہی کہ انھیں سینیٹ کے انتخاب میں بطور امیدوار کھڑا کرکے مستقل وزیر بنانے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی پھر اچانک ان سے یہ قلم دان واپس لے کر انھیں فارغ کر دیا گیا اور وہ افراط زر میں اضافے کا نشانہ بن گئے۔ یہ افراط زر بھی بڑی بری بلا ہے۔ یہ وہ جن ہے کہ جو اگر بوتل سے باہر آجائے تو اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنا ناممکن نہ سہی تو بھی انتہائی دشوار ضرور ہے۔ افراط زر کا عالم یہ ہے کہ بقول شاعر:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
بے چارے شیخ صاحب شاید تذبذب کے عالم میں یہ سوچ رہے ہوں گے کہ:
''مجھے کیوں نکالا گیا''
وزیر اعظم عمران خان نے وزارت خزانہ کا اضافی چارج حماد اظہر کو سونپ دیا ہے جو ان کے خاص معتمد ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی اضافی ذمے داری سے کس حد تک عہدہ برآ ہوتے ہیں گویا تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں۔
حکومت جمہوری ہو یا غیر جمہوری اصل بات اس کی کامیابی پر منحصر ہے۔ عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ حکمران کون ہے۔ انھیں تو بس اس سے غرض ہے کہ ان کی زندگی میں خوشحالی آئے اور روزمرہ استعمال کی اشیا سستی سے سستی ہوں تاکہ ہر ایک کی پہنچ کے اندر ہوں۔ اس حوالے سے نامی گرامی انگریزی زبان کے شاعر اور دانشور الیگزانڈر پوپ کا یہ قول انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ:
For Forms of Government let fools contest; whatever is best administered is best.
ترجمہ: نظام حکومت کی بحث میں الجھنا احمقوں کا کام ہے۔ عمدہ نظام ہی مطلوبہ نظام ہے۔
وطن عزیز آج کل جس معاشی بے ابتری کا شکار ہے سابقہ حکومتیں اس کی اصل ذمے دار ہیں۔ ان کے کیے دھرے کا خمیازہ آج پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے ، لیکن اس چیلنج سے نمٹنا موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے جس سے وہ اپنی جان نہیں چھڑا سکتی۔
سچ پوچھیے تو موجودہ حکومت کی کارکردگی کا اصل امتحان بھی یہی ہے۔ سخت محنت اور اچھی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہتر حکمرانی بھی اشد ضروری ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکی۔ ہرکوئی منہ مانگے دام وصول کرنے کی کوشش میں ہے اور یوں لگتا ہے جیسے کوئی لگام دینے والا موجود ہی نہیں بس اندھیر نگری چوپٹ راج کا سماں ہے۔ عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے حکومت اپوزیشن کے ساتھ بحث و تکرار میں مصروف ہے اور عالم یہ ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے حسب اقتدار اور حسب اختلاف دونوں ہی عوام کی پریشانیوں سے قطعی بے نیاز ہیں۔
حکومت کو تو چھوڑیے تاجر حضرات اور عام دکاندار بھی منافع خوری میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں مصروف ہیں حالانکہ ناجائز منافع خوری اسلام کی رو سے حرام ہے۔ ہمارے کاروباری حضرات کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ماہ صیام کے قریب آنے سے پہلے ہی چیزوں کے دام بڑھانے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ ان بے حسوں کونہ انسانوں پر رحم آتا ہے اور نہ ہی انھیں کوئی خوفِ خدا ہے۔ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے:
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
دوسری جانب حکومتی اداروں نے بھی لوٹ مار مچا رکھی ہے۔ مثال کے طور پر بجلی کے محکمے کو ہی لے لیجیے جس کا بل موصول کرتے ہی صارف کو 440 وولٹ کرنٹ کا جھٹکا لگ جاتا ہے۔ کم و بیش یہی حال دیگر سرکاری محکموں کا بھی ہے۔ حکومت نت نئے ٹیکس عائد کررہی ہے جن کا بوجھ بالآخر عوام کے ناتواں کندھوں پر ہی آن پڑتا ہے۔
عوام کی زندگیوں میں اگرکوئی تبدیلی آئی ہے تو اسے '' تبدیلی معکوس'' کے سوائے بھلا اورکیا کہا جاسکتا ہے۔ عام آدمی کے حالات زندگی بہتر ہونے کے بجائے بد سے بد تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بے روزگاری تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ بے لگام ہوتا چلا جا رہا ہے اور جرائم کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
لوٹ مار اور ڈکیتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور عوام خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ معیشت کا پہیہ ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے جس کے باعث عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کیا کرے۔ دو وقت کی روٹی میسر آنا محال ہے اور جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔
جب سے پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے لے کر آج تک اس کا سارا زور اس واویلے پر ہے کہ سابقہ حکومت لوٹ مار کرکے ملک کو قلاش کرگئی ہے اور یہ کہ اس سے یہ لوٹی ہوئی رقم ضرور واپس لائی جائے گی۔ سچ پوچھیے تو اسی بات کو تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا تھا۔ اس کے بعد برسر اقتدار آنے کے روز اول سے آج تک کیونکہ اسی کو بنیادی ایشو بنایا جا رہا ہے۔ گویا سانپ گزر چکا اور اب لکیر کو پیٹا جا رہا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی نے اقتدار کے حصول سے پہلے شاید کوئی ہوم ورک کیا ہی نہیں تھا۔ ہمیں نہ تو حکمران جماعت سے قائد کی نیک نیتی پر شبہ ہے اور نہ ہی ان کے اچھے عزائم پر کوئی شک ہے۔ بلاشبہ ان کے عزائم بلند ہیں اور وہ وطن عزیز میں مثبت تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بھی ان کے ارادے نہایت نیک اور مخلصانہ ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومت عوام کی حالت میں کوئی مثبت تبدیلی لانے سے میلوں کوسوں دور ہے اور عوام بے چارے مایوسی کے مارے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
روز بہ روز تیزی سے بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی کو روٹی کے لالے پڑگئے ہیں۔ دوسری جانب دواؤں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی تو کجا ایک متوسط طبقے کے فرد کو بھی بیماری کا علاج کرنا دشوار ہو گیا ہے اور عالم یہ ہے کہ:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
ابتدا میں وزارت خزانہ کا قلم دان وزیر اعظم عمران خان نے اپنے انتہائی معتمد اسد عمر کے حوالے کیا تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان سے یہ قلم دان واپس لے لیا گیا اس کے بعد عبدالحفیظ شیخ کو باہر سے بلوا کر یہ ذمے داری سونپی گئی۔ موصوف کافی عرصے تک وزارت خزانہ کے سربراہ رہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی انتہائی قربت اور شفقت انھیں اس حد تک حاصل رہی کہ انھیں سینیٹ کے انتخاب میں بطور امیدوار کھڑا کرکے مستقل وزیر بنانے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی پھر اچانک ان سے یہ قلم دان واپس لے کر انھیں فارغ کر دیا گیا اور وہ افراط زر میں اضافے کا نشانہ بن گئے۔ یہ افراط زر بھی بڑی بری بلا ہے۔ یہ وہ جن ہے کہ جو اگر بوتل سے باہر آجائے تو اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنا ناممکن نہ سہی تو بھی انتہائی دشوار ضرور ہے۔ افراط زر کا عالم یہ ہے کہ بقول شاعر:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
بے چارے شیخ صاحب شاید تذبذب کے عالم میں یہ سوچ رہے ہوں گے کہ:
''مجھے کیوں نکالا گیا''
وزیر اعظم عمران خان نے وزارت خزانہ کا اضافی چارج حماد اظہر کو سونپ دیا ہے جو ان کے خاص معتمد ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی اضافی ذمے داری سے کس حد تک عہدہ برآ ہوتے ہیں گویا تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں۔
حکومت جمہوری ہو یا غیر جمہوری اصل بات اس کی کامیابی پر منحصر ہے۔ عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ حکمران کون ہے۔ انھیں تو بس اس سے غرض ہے کہ ان کی زندگی میں خوشحالی آئے اور روزمرہ استعمال کی اشیا سستی سے سستی ہوں تاکہ ہر ایک کی پہنچ کے اندر ہوں۔ اس حوالے سے نامی گرامی انگریزی زبان کے شاعر اور دانشور الیگزانڈر پوپ کا یہ قول انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ:
For Forms of Government let fools contest; whatever is best administered is best.
ترجمہ: نظام حکومت کی بحث میں الجھنا احمقوں کا کام ہے۔ عمدہ نظام ہی مطلوبہ نظام ہے۔
وطن عزیز آج کل جس معاشی بے ابتری کا شکار ہے سابقہ حکومتیں اس کی اصل ذمے دار ہیں۔ ان کے کیے دھرے کا خمیازہ آج پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے ، لیکن اس چیلنج سے نمٹنا موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے جس سے وہ اپنی جان نہیں چھڑا سکتی۔
سچ پوچھیے تو موجودہ حکومت کی کارکردگی کا اصل امتحان بھی یہی ہے۔ سخت محنت اور اچھی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہتر حکمرانی بھی اشد ضروری ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکی۔ ہرکوئی منہ مانگے دام وصول کرنے کی کوشش میں ہے اور یوں لگتا ہے جیسے کوئی لگام دینے والا موجود ہی نہیں بس اندھیر نگری چوپٹ راج کا سماں ہے۔ عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے حکومت اپوزیشن کے ساتھ بحث و تکرار میں مصروف ہے اور عالم یہ ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے حسب اقتدار اور حسب اختلاف دونوں ہی عوام کی پریشانیوں سے قطعی بے نیاز ہیں۔
حکومت کو تو چھوڑیے تاجر حضرات اور عام دکاندار بھی منافع خوری میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں مصروف ہیں حالانکہ ناجائز منافع خوری اسلام کی رو سے حرام ہے۔ ہمارے کاروباری حضرات کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ماہ صیام کے قریب آنے سے پہلے ہی چیزوں کے دام بڑھانے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ ان بے حسوں کونہ انسانوں پر رحم آتا ہے اور نہ ہی انھیں کوئی خوفِ خدا ہے۔ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے:
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
دوسری جانب حکومتی اداروں نے بھی لوٹ مار مچا رکھی ہے۔ مثال کے طور پر بجلی کے محکمے کو ہی لے لیجیے جس کا بل موصول کرتے ہی صارف کو 440 وولٹ کرنٹ کا جھٹکا لگ جاتا ہے۔ کم و بیش یہی حال دیگر سرکاری محکموں کا بھی ہے۔ حکومت نت نئے ٹیکس عائد کررہی ہے جن کا بوجھ بالآخر عوام کے ناتواں کندھوں پر ہی آن پڑتا ہے۔