منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے 

اب آسیبوں کی نئی پود روشنی سے نہیں بھاگتی بلکہ اندھیرے کو ہی روشنی ثابت کردینے کے علم اور تکنیک سے مسلح ہو چکی ہے۔

یونہی تو کوئی اچانک دوسرے پر ایویں ہی مہربان ہونے کی اداکاری نہیں کرتا

آسیب سے وابستہ پراسراریت نے ہمیشہ مجھے اپنی جانب کھینچا۔ایک تو یہ دکھائی نہیں دیتے مگر کام پورا پورا کرتے ہیں۔انھیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ کسی انسان پر قبضہ کر کے اپنی کارروائی ڈالتے ہیں۔گویا ایک خاص عرصے کے لیے آپ کو ہیک کر کے معمول بنا لیتے ہیں اور پھر ایک دن معمول کو بے یار و مددگار چھوڑ کے چمپت ہو جاتے ہیں اور کسی اور جسم میں حلول کر جاتے ہیں۔

کچھ آسیب جسم کے بجائے ویران جگہوں اور خالی عمارات پر قبضہ کرنا پسند کرتے ہیں۔یہ البتہ تحقیق طلب ہے کہ آسیب یہ کام انفرادی طور پر کرتے ہیں یا پھر انھیں کوئی یہ کام تفویض کرتا ہے۔

بچپن سے اب تک اس بابت دادی ماں سے لے کر عامل بھیشم بنگالی تک جس جس سے بھی آسیب کی کہانی سنی اس نے یہی بتایا کہ ایک بار اگر کوئی احاطہ یا عمارت ان کے قبضے میں آ جائے تو پھر وہاں کا کوئی مکین چین سے نہیں رہ سکتا۔جو دلیر قسم کے بے وقوف ایسی مہم جوئی کرتے بھی ہیں وہ یا تو کچھ عرصے میں دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں ، یا نیند میں چلتے ہوئے خود کو بلندی سے نیچے گرا لیتے ہیں یا پھر کسی دن گردن کٹی لاش میں بدل جاتے ہیں۔

اگر آسیب کسی عمارت یا احاطے کا بوجوہ قبضہ چھوڑ بھی دیں تب بھی یہ تصدیق بہت مشکل ہے کہ وہ واقعی چلے گئے ہیں اور پلٹ کر نہیں آئیں گے۔ایک بار عمارت بھلے آسیب سے پاک ہو بھی جائے تب بھی نسل در نسل اس کی کہانیاں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور یہ جگہ وہم کے لمبے سائے میں لپٹی رہتی ہے۔

بہت سال پہلے مکران کے علاقے دشت میں سفر کے دوران ملنے والے واجا علی اکبر نے مجھے بتایا تھا کہ یہ علاقہ دور دراز ، لق و دق اور روشنی سے محروم ہونے کے سبب آسیب کی مملکت ہے۔کیونکہ ان میں اور روشنی میں اینٹ کتے کا ویر ہے۔ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔

مگر گزشتہ کچھ عرصے سے میں اپنے اردگرد جو کچھ ہوتا دیکھ رہا ہوں اس کے بعد واجا علی اکبر کا نظریہِ آسیب مجھے فرسودہ لگنے لگا ہے۔میں رفتہ رفتہ اس نتیجے پر پہنچ رہا ہوں کہ جس طرح وائرس اور انسان بدلے ہوئے حالات میں زندہ رہنے کے لیے اپنے عادات و اطوار و خوِ ہلاکت خیزی کو ایک نئے داخلی و خارجی سانچے میں ڈھالنے پر قادر ہے اسی طرح آسیب نے بھی خود کو رفتہ رفتہ نئے بقائی تقاضوں میں ڈھال لیا ہے۔

اب آسیبوں کی نئی پود روشنی سے نہیں بھاگتی بلکہ اندھیرے کو ہی روشنی ثابت کردینے کے علم اور تکنیک سے مسلح ہو چکی ہے۔اب آسیب فرداً فرداً کسی کے جسم اور روح کو ہائی جیک نہیں کرتا بلکہ ڈیرے دار کے جسم کو ہیک کر لیتا ہے۔یوں ڈیرے دار کے حالی موالی بھی بلاواسطہ انداز میں آسیبی سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ بھلے یہ حالی موالی سیکڑوں میں ہوں، ہزاروں میں یا لاکھوں میں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

فی زمانہ جدید آسیب کا ہر مقام اور جسم پر قبضے کے لیے خود مشقت کرنا بھی ضروری نہیں۔اب وہ سنڈیکیٹ کی شکل میں کام کرتے ہیں ، اپنا کام نئے معمولوں کو سب لیٹ کر سکتے ہیں، اپنی انفرادی کمپنی کھول کر کمیشن پر دیگر آسیبوں کا کام پکڑ سکتے ہیں۔

آج کل تو ویسے بھی کسی کے جسم پر قبضے کی ضرورت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔یہی کام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور موبائل فون پر آسیبی قبضے کے نتیجے میں نہایت صفائی اور تیز رفتاری سے انجام پا سکتا ہے۔ اسی لیے فون کالز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس ٹریس کرنا روز بروز مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔قرائن بتاتے ہیں کہ آج کی دنیا میں کم از کم آدھی سمیں اور آدھے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ویب سائٹس آسیبی قبضے میں ہیں۔


ہر موڑ پے وا ہیں میری آنکھوں کے دریچے

اب دیکھنا یہ ہے کہ تو جاتا ہے کہاں سے ( جاوید صبا )

اتنی لائنیں پڑھنے کے بعد آپ کا یہ سوچنا برحق ہے کہ یا تو آج مجھے کوئی ڈھنگ کا موضوع نہیں ملا یا پھر میں ذہنی تھکن کے سبب مکھی پر مکھی مار رہا ہوں۔ چلیے کچھ تازہ مثالیں بھی پیش کر دیتا ہوں۔

کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ میں اب آر ٹی ایس بیٹھ جانے یا پارلیمان میں اکثریتی ووٹ کو اقلیتی ووٹ میں بدلے جانے کی متعدد مثالوں کو بھی اپنے تھیسس سے جوڑوں گا؟ ہرگز نہیں۔

میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ ہفتے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا جس میں چار ارب روپے کے صرفے سے قائم ڈھائی برس پرانے جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کو لپیٹنے کا عندیہ دیا گیا۔ بقول وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی حکومت اب کھوج لگا رہی ہے کہ یہ شرارت کس نے کی۔میں نے(شاہ محمود) وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار اور گورنر محمد سرور سے رابطہ کر کے اس نوٹیفکیشن کا ماجرا جاننے کی کوشش کی۔دونوں میں سے کسی کو علم نہیں تھا کہ یہ نوٹیفکیشن کہاں سے آیا اور کب کس کے حکم پر جاری ہوا۔چنانچہ اب اسے منسوخ کر کے جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کو مزید با اختیار بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جب نئے وزیرِ خزانہ حماد اظہر نے قلمدان سنبھالنے کے پہلے ہی دن اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کردہ وزارت تجارت کی سفارشاتی سمری کی روشنی میں بھارت سے چینی ، کپاس اور سوتی دھاگے کی درآمد کا دھماکا خیز اعلان کیا تو کیا وزیرِ اعظم ، کیا وزیرِ خارجہ اور کیا وزیرِ داخلہ سب ہی ششدر رہ گئے کہ یہ کب ہوا اور کیسے ہوا۔اور پھر اس فیصلے کو محض تجویز قرار دے کر فی الحال ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔

بقول مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف یہ ٹھیک ہے کہ ایک سمری وزارتِ تجارت کی جانب سے قومی اقتصادی کمیٹی میں بھیجی گئی۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ ان دنوں اس وزارت کے نگراں خود وزیرِ اعظم ہیں۔لیکن جب آپ وزیرِ تجارت کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو آپ محض اقتصادی و تجارتی فوائد کے نقطہ نظر سے فیصلہ کرتے ہیں اور جب آپ وزیرِ اعظم کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو پھر وسیع قومی مفاد کے دائرے میں اسی فیصلے پر نظرِ ثانی بھی کر سکتے ہیں۔خانصاحب نے بعینہہ یہی کیا۔

جب ضیا الحق نے پہلی اہلِ قلم کانفرنس منعقد کی تو سرکاری خبرنامے میں اس کے افتتاحی اجلاس کی نشر ہونے والی فوٹیج میں حضرتِ رئیس امروہوی بھی بیٹھے نظر آئے۔بھائی رئیس کے مداحوں کو یہ منظر دیکھ کر سخت دھچکا لگا۔جب بھائی رئیس کراچی واپس تشریف لائے تو مداحوں نے بہت ادب سے پوچھا ایسی کیا مجبوری تھی کہ آپ کو بھی اہلِ قلم کانفرنس میں جانا پڑ گیا۔تس پر بھائی رئیس نے کہا '' قسم مولا عباس کی ہم ہرگز ہرگز نہیں گئے۔البتہ وہ لے گئے ہوں گے ...''

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story