’تشدد‘ اور صنفی امتیاز

ذرائع اِبلاغ اس تفریق کو ختم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ذرائع اِبلاغ اس تفریق کو ختم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔فوٹو : فائل

'تشدد' طاقت کے غلط استعمال کو کہتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے، اغوا زیادتی، زدوکوب کرنا بھی تشدد کی مختلف شکلیں ہیں، جب کہ گھریلو تشدد زیادہ تر خواتین، بچوں، گھریلو ملازمین، بوڑھے ماں باپ پر، بہن کو جائیداد سے محروم کرنے پر، بہو کو جہیز نہ لانے پر، میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا میں ہوتا ہے۔

صنفی امتیاز کا مطلب کسی شخص کی جنس یا صنف کی بنیاد پر تعصب یا امتیاز برتنا ہے۔ اس میں ایک صنف کو فطری یا پیدائشی طور پر دوسری صنف سے بہتر سمجھا جائے۔ یہی صنفی امتیاز جنسی ہراسمنٹ کا موجب بھی بنتا ہے اور جنسی تشدد کا باعث بھی۔

صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے عورت کو ایک انسان کے طور پر پرورش کرنا ضروری ہے نہ کہ بطور ایک 'جنس' اور شے۔ اسلام سے پہلے صنفی امتیاز اور تفریق کا یہ عالم تھا کہ بیٹی کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے عورتوں کو حقوق دیے، لیکن لوگوں نے اسلامی تعلیمات کو بھلا کر پدر سری معاشرے کو فروغ دیا اور عورت کو برابر کا انسان بھی نہیں سمجھا گیا۔ عورت جسمانی اختلاف کے سوا ہمت۔، طاقت، علم و دانش اور فراست میں مرد اور عورت میں زیادہ فرق نہیں۔ عورت اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہر وہ کام کر سکتی جو مرد کرتا ہے۔

دستورِ پاکستان ان تمام شہریوں کی برابری و مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور صنفی بنیادوں پر امتیاز کی نفی کرتا ہے۔ عورت پر تشدد کی لعنت کی روک تھام کے لیے قوانین بنائے، انتظامی و معاشرتی سطح پر متعدد اقدام کیے، لیکن ان قوانین کے نفاذ اور عمل درآمد میں کمزوری کی وجہ سے عورت کو اس کا جائز حق بھی نہیں مل سکا، جب تک آبادی کے اس نصف کو چار دیواری اور گھر سے باہر تحفظ، تعلیم وصحت، سفری سہولتیں، فوری اور بلا معاوضہ قانونی مدد مساوی تنخواہ اور کام کا معقول معاوضہ نہیں دیا جائے گا، تب تک صنفی امتیاز برقرار رہے گا۔

اس رجعت پسند سوچ کو بدلنے کے لیے معاشرے میں بہت سے ذرائع ہیں۔ سب سے اہم پرنٹ میڈیا یعنی اخبار، انٹرٹینمنٹ میڈیا جس میں فلم، ٹی وی ڈراما، اشتہارات شامل ہیں۔ ان سب کا مثبت استعمال صنفی امتیاز اور تشدد کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اخبارات کو چاہیئے کہ وہ خبروں کو مرچ مسالا لگا کر نہ پیش کریں، بلکہ جو متاثرہ خاتون یا لڑکی ہے اسے خبروں کی زینت نہ بنائیں، جیسا کہ پچھلے دنوں ایک اچھی مثال دیکھنے کو ملی کہ موٹر وے ریپ کیس میں متاثرہ خاتون کا نام نہیں بتایا گیا۔


معاشرے میں جو خواتین مثبت کام کررہی ہیں انھیں نمایاں کریں، ان کی کہانیاں عام قاری تک پہنچائیں، جس سے عوام میں آگاہی پیدا ہو۔ مثلاً لیاری کراچی کی سمیرا نامساعد حالات کے باوجود سائیکلنگ کر رہی ہیں اور نیشنل چیمپیئن شپ میں دوسرے نمبر پر رہیں اسی لیاری کی جو تشدد اور منشیات سے شدید متاثر تھا۔ اسی علاقے کی ایک لڑکی عظمٰی بلوچ خداداد صلاحیتوں کی مالک ہیں، رنگوں کو کینوس پر بکھیرتی ہیں اور ْسروں سے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں، ان پر مضامین ان کی ترقی میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔

'کورونا' کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے باعث زندگی میں مشکلات آئیں۔ کئی لوگ روزگار سے محروم ہوگئے، وہیں اس لڑکی خورشید کرن نے اپنے گھر کو چلانے کے لیے 'آن لائن' آرڈر پر کھانا سپلائی کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اس نے سوچا کام مردانہ اور زنانہ نہیں ہوتا، عام حالات میں شاید لوگ ان کا مذاق اڑاتے، لیکن وبا کے دنوں میں لوگ مدد گار بن گئے، یہی وہ روشنی کی کرن ہے، جو صنفی امتیاز کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ اخبارات میں اس قسم کی خواتین کے بارے میں لکھ کر معاشرے کو آگاہی دی جاسکتی ہے۔ ان پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

ٹی وی ڈراما ایسا ذریعہ ہے، جو صنفی امتیاز کے خلاف آگاہی بخوبی دے سکتا ہے۔ اب ٹی وی ڈرامے کو گھسے پٹے موضوعات سے ہٹ کر ایسے ڈرامے دکھانے چاہئیں، جن مین جنسی زیادتی کے خلاف موضوع ہو، خواجہ سراؤں کے مسائل، غیرت کے نام پر قتل جیسے حساس موضوعات ہوں، جو سیدھا ناظرین کے دل میں اتر جائیں اور اس پدر سری معاشرے کے سدھار کا باعث بنیں۔

ایک اور اہم شعبہ اشتہارات کا ہے۔۔۔ اس پر بھی کچھ توجہ دینے کی ضرورت ہے، کچھ عرصے پہلے تک ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اشتہارات میں عورت کا ہونا لازمی تھا، جو چیزیں خالص مردوں کے استعمال کی ہوتی ہیں، ان میں بھی عورتوں کو ترغیبی انداز میں دکھایا جاتا ہے۔ بہت سے اشتہارات میں صنفی امتیاز جان بوجھ کر دکھایا جاتا ہے، تیزی سے فروغ پاتی اس صنعت کے مالکان اشتہار سازی میں کسی ضابطۂ اخلاق کی پیروی نہیں کرتے، جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری طرف میاں بیوی کو گاڑی کے دوپہیے کہا جاتا ہے تو اب اشتہارات میں یہ بھی دکھایا جانے لگا ہے کہ بیوی ہی نہیں شوہر بھی بیوی کا چائے پر انتظار کر سکتا ہے۔ یہ ایک مثبت سوچ ہے، لیکن بہت آہستہ ہے اب بھی تمام ذرایع کے صنفی امتیاز اور تشدد کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہوگا، تاکہ معاشرہ عورت کو بھی مرد کے برابر انسان سمجھنے لگے یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔
Load Next Story