سیاسی کرپشن ۔ ایک لاعلاج مرض
اپوزیشن اتحاد ایک دوسرے کو شوکازنوٹس جاری کر رہا ہے اور حکومت کے ایوانوں میں خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔
بلاشبہ اس وقت ایک مضبوط اور طاقت ور حکومت موجود ہے جسے ہٹانا آسان کام نہیں ہے۔ جلسے جلوس حکومت کو پریشان تو کر سکتے ہیں مگر اسے ہٹا نہیں سکتے۔
کورونا وباء نے دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اور ہم پاکستانی بھی اپنی غربت کے ساتھ اس وباء کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت مکمل لاک ڈاؤن نہیں کر سکتی کہ اس سے غریب کا ٹمٹماتا چولہا مکمل بجھ جائے گا، اس لیے حکومت ٹونے ٹوٹکوں سے ہی کام چلانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بیرونی حالات بھی حکمرانوں کے حق میں ہیں۔
بھارت کشمیر کے مسئلے پرموجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے، دوسری جانب یوں لگتا ہے کہ امریکا کی سمجھ میں نہیں آتا، اسے پاکستان کے حکمرانوں کی ضرورت کہاں ختم ہوتی ہے اور کہاں مطلوب رہتی ہے۔ اسی گومگو کی کیفیت نے ہماری قومی سیاست کو بہت کمزور کر دیا ہے ۔
سیاست کو نشو نما پانے اور سیاسی کارکنوں کو پیدا ہونے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ۔ آج ایک سیاسی پارٹی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرتی ہے تو دوسری پارٹی کہتی ہے کہ ہم الیکشن سے باہر نہیں رہیں گے اور ایوان میں بیٹھ کر جمہوریت کی لڑائی لڑیں گے یعنی پاکستانی نظریاتی سیاست بہت کمزور پڑ چکی ہے اور سیاست دان کسی نظریے کے زیر سایہ رہنے کے بجائے کسی حکومت کے زیرسایہ رہنے میں آسائش محسوس کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر دیوانوں اور جانبازوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی سرکاری عافیت کی پروا نہ کریں۔
ہماری کیا سیاسی بدقسمتی ہے کہ بڑے سے بڑا لیڈر بھی اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں اور اسے ہمیشہ سیاسی دنیا سے باہر کی مدد درکار رہتی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہمارے ہاں کوئی جینوئن سیاسی لیڈر ہی نہیں ہے۔جو موجود ہے، اس کی سیاست بھی ہمیں بے وقوف بنانا ہے ۔
ایک دن ایک بات کرتا ہے تو دوسرے دن اس سے منحرف ہو جاتا ہے، اس طرز سیاست کو سیاسی کرپشن کہا جاتا ہے جو ہمارے ہاں عام دیکھنے میں آتی ہے۔ روپے پیسے کی خرد برد اورکرپشن کا تو کوئی علاج بھی ہے اور یہ کمی کسی صورت میں پوری کی جا سکتی ہے لیکن جب لیڈروں کے دل اور ذہن دیوالیہ ہو جاتے ہیں اور بددیانتی ان کا معمول بن جاتی ہے تو اس کرپشن کا کوئی علاج نہیں ہوتا، ہم ایسی ہی کرپشن کا شکار ہیں۔
پاکستانی عوام اپنے لیڈروں کو خوب جانتے ہیں، وہ ان کے درمیان ہی پلے بڑھے ہیں اور تقدیر نے عوام کے سامنے ان کو اقتدار میں لانے کا تماشا دکھایا ہے ۔ لیڈروں کے اعمال ایسے رہے کہ کوئی بھی حکومت عوام کے اعتماد پر پورا نہ اتر سکی چونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور نیتوں کا فتورہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ماضی میں اپنے سیاستدانوں کو لاہور کے داتا دربار پر قرآن پاک پر دستخط کرتے بھی دیکھا اور مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے سامنے بیٹھ کر دستاویزات پر بھی دستخط ہوئے مگر نیتیں چونکہ درست نہ تھیں اس لیے یہ دستاویزات افسوسناک بن گئیں۔
سیاسی رہنماؤں نے قوم کو ایک بار پھر ایسی ہی دستاویزات کے سہارے سہانے خواب دکھائے اور بلند وبانگ دعوے بھی کیے ۔ اپوزیشن کی بڑی سیاسی پارٹیوں جن کے درمیان کسی سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھااور عوام بھی حیرت زدہ تھے کہ بھلا آسمان اور زمین کیسے اور کہاں مل سکتے ہیں مگر یہ انہونی بھی عوام نے دیکھی کہ محترمہ مریم نواز گڑھی خدابخش میں پیپلز پارٹی کے ترانوں پر تالیاں بجاتی رہیں اور بلاول بھٹو جاتی عمرہ میں پرتکلف ضیافتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے چونکہ پاکستانی عوام کی یہ خواہش تھی بلکہ آرزو تھی کہ ان کی روز بروز مشکل ہوتی زندگی میں شاید یہ پرانے جگادری کوئی کرشمہ دکھا سکیں لیکن اس موقعے پر بھی عوام کی بدقسمتی آڑے آئی اورکئی دوسری سیاسی خوشیوں کی طرح یہ خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی ۔ بے اصولی اور لوٹا بازی کی اس سیاسی دنیا میں کوئی بھی توایسا نہیں جو اپنے اصولوں کی پاسداری کرتا ہے ۔ نتیجہ وہی نکلا کہ اب ایک بار پھر جوتیوں میں دال بٹنا شروع ہو چکی ہے ۔
لیڈروں نے جس جوش وجذبے کے ساتھ موجودہ حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کی مہم شروع کی تھی، اس کو پہلے تو عوام میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کی اپوزیشن توقع کر رہی تھی اس پر مستزاد یہ کہ اپوزیشن باہمی اختلافات کا شکار ہو گئی اور اس غیر فطری اتحاد کے مستقبل کے متعلق جو خدشات پائے جا رہے تھے وہ درست ثابت ہو گئے۔
سردست صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد ایک دوسرے کو شوکازنوٹس جاری کر رہا ہے اور حکومت کے ایوانوں میں خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔عوام حیرت زدہ ہو کر اپنی قسمت کو رو رہے ہیں کیونکہ اس سیاسی کرپشن کے ہولناک نتائج کا ان کے پاس کوئی علاج نہیں ہے عوام کی نظر میں یہ ایک لاعلاج مرض ہے جو ان کے لیڈروں کوایک مدت سے لاحق ہے۔