رمضان پیکج کی کامیابی حکومتی کارگردگی کا امتحان
پولیس اور سول انتظامیہ کی سختی کی وجہ سے لوگوں کے چہروں پر ماسک دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اکثریت خطرناک لاپرواہی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ بازاروں میں دکانوں پر ''نو ماسک، نو سروس '' کا بورڈ لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
آئندہ چند روز میں رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہونے والا ہے، مہنگائی کے مارے عوام کو ریلیف دینے کیلئے پنجاب حکومت نے 7 ارب روپے سے زائد مالیت کے رمضان پیکج کاا علان کیا ہے ۔313 رمضان بازاروں میں17 اشیاء رعایتی نرخوں پر فروخت کی جائیں گی،ان میں سب سے اہم آٹا اور چینی ہیں کیونکہ ان کی طلب زیادہ ہوتی ہے۔
کورونا کی شدید ترین لہر کی موجودگی میں رمضان بازاروں میں وائرس سے بچاو کے اقدامات کو یقینی بنانا اور کامیابی سے عملدرآمد کروانا حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
بیوروکریسی کی جانب سے حکومت کو یہ تجویز دی گئی تھی کہ کورونا کی تیسری لہر جس قدر مہلک ثابت ہو رہی ہے ایسے میں رمضان بازار لگانے کے بجائے گزشتہ سال کے رمضان کی طرح مختلف حکومتی ریلیف پروگرامز میں رجسٹرڈ مستحق افراد کو مخصوص رقم فراہم کردی جائے لیکن حکومت پر شاید سیاسی مصلحت حاوی ہو گئی جس بناء پر بازار لگانے کا ایک ایسا فیصلہ کیا گیا ہے جو کل کو حکومت پر تنقید کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔
رمضان پیکج کے تحت10 کلو وزن والے ڈیڑھ کروڑ سے زائد آٹا تھیلے 375 روپے میں فروخت ہوں گے جن کی اس وقت اوپن مارکیٹ میں فی تھیلا قیمت 525 روپے سے زائد ہوگی ،اسی طرح سے اوپن مارکیٹ میں 105 تا110 روپے فی کلو قیمت پر فروخت ہونے والی چینی رمضان بازاروں میں 60 روپے فی کلو قیمت پر فروخت ہو گی۔
آٹا فراہمی کیلئے محکمہ خوراک نے ڈیڑھ لاکھ ٹن گندم مختص کی ہے جس میں بوقت ضرورت اضافہ کر کے حقیقی طلب کو پورا کیا جا سکتا ہے لیکن اس حوالے سے اہم ترین اقدام جس کی اشد ضرورت ہے وہ فلورملز سے مکمل تعداد و مقدار میں آٹے کی بازار تک سپلائی کو یقینی بنانا اور بازاروںمیں چھوٹے دوکانداروں کی جانب سے اپنے کمرشل استعمال کیلئے زیادہ تعداد میں تھیلوں کی خریداری کو روکنا ہے۔ پنجاب میں اس وقت ایک ہزار کے لگ بھگ فلورملز موجود ہیں۔
سینئر وزیر اور وزیر خوراک عبدالعلیم خان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان اور ڈائریکٹر فوڈ دانش افضال نے اپنی فیلڈ ٹیم کی مشاورت کے ساتھ اچھی کاروباری شہرت رکھنے والی 600 سے زائد فلورملز کو رمضان پیکج کیلئے منتخب کیا ہے جبکہ یہ واضح پالیسی بنائی گئی ہے کہ جن فلورملز کے خلاف سرکاری گندم چوری اور آٹا کم سپلائی کے حوالے سے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کے فیصلے موجود ہیں انہیں پیکج میں شامل نہیں کیا جائے گا ۔اس پالیسی کے بعد جعلسازی کر کے منافع کمانے کے لالچ کی منتظر کئی فلورملز نے محکمہ کے افسروں پر دباو ڈالتے ہوئے سفارشیں کروانا شروع کردی ہیں۔
پنجاب بھر کی ایسی تمام فلورملز کی نگاہیں لاہور کی دو ،چار ایسی معروف فلور ملز پر ٹکی ہوئی ہیں جن کے خلاف محکمہ خوراک نے بوگس بجلی یونٹس ظاہر کرنے، فرضی آٹا ڈیلرز اور آٹا سپلائی کے مصدقہ شواہد کی بنیاد پر کروڑوں روپے ریکوری کے احکامات دیئے ہوئے ہیں اور اب انہیں رمضان پیکج سے بے دخل کردیا گیا ہے،اگر محکمہ کسی سفارش یا دباو میں آکر ان ملز کو رمضان کوٹہ دیتا ہے تو پھر حکومت کے پاس انہی جیسی دوسری ملز کو پیکج سے نکالے رکھنے کا جواز ختم ہوجائے گا۔ غیر فعال فلورملز میں سے بہت سی عادی ''گندم چور'' ہیں، انہیں پیکج سے نکال کر محکمہ خوراک نے بہتر اقدام کیا ہے۔ حقیقی معنوں میں آٹا تیار کرنے والی ملز گندم چوری نہیں کرتیں۔
اس مرتبہ اوپن مارکیٹ میں گندم کی کم ازکم قیمت 1800 روپے فی من ہو گی جبکہ حکومت رمضان پیکج کے تحت فلورملز کو 1300 روپے فی من قیمت پر گندم فراہم کرے گی۔ فی بوری 1250 روپے کے غیر معمولی فرق کی وجہ سے کسی قسم کی خودربرد کو روکنے کیلئے کڑی نگرانی کرنا اشد ضروری ہے ۔
اس برس رمضان المبارک اور گندم خریداری ایک ساتھ شروع ہو رہے ہیں جس وجہ سے محکمہ خوراک پربوجھ بڑھ گیا ہے لیکن اس کے باوجود محکمہ خوراک نے جو طریقہ کار طے کیا ہے اس پر کامیابی کے ساتھ عملدرآمد ہو تو فلور مل گیٹ سے لیکر رمضان بازارمیں ضلعی انتظامیہ کے حوالے کئے جانے تک آٹا کی مقررہ مقدار کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ڈپٹی کمشنر اور ان کے اسٹاف نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ طویل قطاریں نہ بنیں، کورونا ایس اوپیز پر مکمل عملدرآمد ہو اور سب سے اہم یہ کہ گلی محلوں کے دوکاندار اپنے ساتھ بوگس خریدار لا کر سستے آٹا کی ذخیرہ اندوزی نہ کر سکیں۔ چینی کے حوالے سے صورتحال زیادہ پیچیدہ ہے، حکومت نے پنجاب بھر کے رمضان بازاروں کیلئے3 کروڑ کلو چینی مختص کی ہے۔ اگر بازار میں کسی ہیرا پھیری یا جعلسازی کے بغیر یہ مقدار پہنچ جائے اور فی فرد ایک کلو کے مطابق حقیقی خریدار کو فروخت کی جائے تو حکومت کی مختص کردہ مقدار وافر ہے۔
لیکن بازار سے فی کلو 50 روپے تک کے فرق کی وجہ سے سرکاری عملہ کی نیت میں بھی فتور آسکتا ہے اور فرضی گاہکوں کی بھرمار بھی ہو سکتی ہے۔اس تمام صورتحال میں ڈپٹی کمشنرزا ور ان کی ٹیم کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں ،رمضان پیکج کی کامیابی ان کی محنت سے مشروط ہے۔ حکومت نے رمضان بازاروں میں رعایتی نرخوں پر سبزیاں اور پھلوں کی فراہمی کا بھی انتظام کیا ہے۔ آلو، پیاز، ٹماٹر، بھنڈی، کدو، کیلا، سیب، امرود، کجھور،لیموں اور ادرک سستے داموں فروخت ہوں گے۔
رمضان کے دوران سکنجبین کا استعمال بڑھ جانے کے سبب لیموں کی غیر معمولی طلب ہوتی ہے جبکہ اس وقت مقامی لیموں کی پیداوار اتنی زیادہ نہیں ہے گزشتہ برس بھی انتظامیہ کو رمضان بازاروں میں فی خریدار ایک پاو لیموں کا فارمولا استعمال کر کے راشن بندی کرنا پڑی تھی اور اس مرتبہ بھی لیموں کی طلب پوری کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے تاہم وزیر زراعت پنجاب حسین جہانیاں گردیزی ، سیکرٹری زراعت اسد الرحمن گیلانی، سپیشل سیکرٹری زراعت وقار حسین اور ڈائریکٹر جنرل پامرا محسن عباس شاکر نے مارکیٹ کمیٹیوں کے ذریعے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ سبزیوں پھلوں کی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ عوام کو ہمہ وقت ریلیف کی فراہمی حکومت وقت کا اولین فریضہ ہوتا ہے لیکن بحیثیت اسلامی ریاست ،رمضان المبارک کے دوران اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
دنیا کے مہذب ممالک کی حکومتیں بھی رمضان کے دوران مسلمانوں کیلئے رعایتی نرخوں پر کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کا بندوبست کرتی ہیں ،بد قسمتی سے ہمارے ہاں رمضان کے مقدس مہینے کو ناجائز منافع اور ذخیرہ اندوزی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ہر شے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوجاتا ہے اور انتظامیہ ''درشنی پہلوان'' بنی رہ جاتی ہے۔
وزیر اعلی سردار عثمان بزدار اور سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے چیف سیکرٹری اور دیگر متعلقہ وزراء کے ساتھ ملکر گزشتہ کئی ہفتوں سے رمضان المبارک میں عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کیلئے نیک نیتی اور جذبے کے ساتھ محنت کی ہے ،اب انتظامی افسروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض میں غفلت نہ کریں جبکہ فلورملز ایسوسی ایشن کے قائد عاصم رضا، شوگر ملز ایسوسی ایشن کے قائد ذکاء اشرف، انجمن آڑھتیان سبزی و پھل پنجاب کے صدر میاں فیصل مجید اور جنرل سیکرٹری حاجی رمضان سمیت اشیائے خور و نوش سے وابستہ ہر صنعت کی قیادت پر یہ مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ملکر اس مقدس مہینے میں عوام کو سستے داموں اشیاء کی فروخت کو یقینی بنانے میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔