ملک میں بلدیاتی اداروں کی بحالی
بلدیاتی ادارے توڑے جانے کے خلاف دو سال قبل لارڈ میئر لاہور ہائیکورٹ گئے تھے۔
آئین کے آرٹیکل A-140 کی خلاف ورزیاں تو ملک میں برسوں سے جاری تھیں ، جن کی طرف اعلیٰ عدلیہ متعدد بار حکومتوں کی توجہ مبذول کراتی رہی مگر مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی کے بعد تبدیلی کی دعویدار اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے والی پی ٹی آئی کی تبدیلی حکومت نے بھی توجہ نہ دی۔
ملک میں آئین پر عمل ہر سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے باہر ہوتے ہوئے ہی یاد آتا ہے اور خود حکومت میں آنے کے بعد ہر سیاسی جماعت نے ہی آئین کی خلاف ورزی کو معمول بنا لینا ہوتا ہے جس کی نشاندہی تو سپریم کورٹ کرتی رہی ۔ اگر آئین کی اس سنگین خلاف ورزی پر کبھی کسی ایک صوبائی حکومت کے خلاف ہی کارروائی ہو جاتی تو یہ نوبت نہ آتی اور ہر سیاسی حکومت آئین کی خلاف ورزی سے باز رہتی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے گزشتہ ماہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی فوری بحالی کا فیصلہ سنایا تھا مگر پنجاب کی پی ٹی آئی حکومت نے اس فیصلے پر اس لیے عمل نہیں کیا کہ پنجاب میں منتخب بلدیاتی اداروں کی واضح اکثریت مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں اور کونسلروں کی ہے۔ عمران خان کے آبائی حلقے میانوالی ضلع میں بھی پی ٹی آئی اپنا چیئرمین منتخب نہ کرا سکی تھی۔
پی ٹی آئی نے اقتدار میں آکر دو سال پہلے انتقامی کارروائی کے طور پر پنجاب کے تمام بلدیاتی ادارے توڑ کر مسلم لیگ (ن) کو بلدیاتی اداروں سے فارغ کردیا تھا اور کے پی میں بلدیاتی اداروں کو برقرار رکھا تھا کیونکہ 2015 میں سپریم کورٹ کے حکم پر جب ملک میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اس وقت کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔
اپنی حکومت کے باوجود کے پی حکومت صوبے میں اتنی بڑی تعداد میں بلدیاتی عہدیدار منتخب نہیں کرا سکی تھی جتنی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بہت بڑی تعداد میں منتخب کرا لیے تھے اس کی وجہ شہباز شریف کی پنجاب حکومت کی بہترین کارکردگی تھی۔ سندھ میں دیہی علاقوں میں پی پی کی سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور کراچی ضلع کونسل اور دو ڈی ایم سیز کی چیئرمین شپ بھی پیپلز پارٹی کو حاصل ہوئی تھی اس لیے سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کو مدت مکمل کرنے کا موقعہ دیا تھا۔
بلوچستان اس سلسلے میں کبھی قابل ذکر نہیں رہا حالانکہ موجودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان خود لسبیلہ ضلع کے منتخب چیئرمین تھے مگر اقتدار میں آکر انھوں نے بھی صوبے کے بلدیاتی اداروں کو قبل ازوقت توڑ دیا تھا جس پر میئر کوئٹہ ہائی کورٹ گئے تھے اور اب تک فیصلے کے منتظر ہیں اور بلوچستان حکومت بلدیاتی انتخابات نہ کرا کر آئین کی سنگین خلاف ورزی کر رہی ہے اور منتخب بلدیاتی ادارے بے اختیار ہو کر اپنی بحالی نہیں کرا سکے تھے۔
سندھ میں بے اختیار بلدیاتی اداروں نے بھی اپنی مدت مکمل کی یہ الگ بات ہے کہ میئر کراچی اور جماعت اسلامی کی بلدیاتی اختیارات دلانے کی درخواستوں پر تین سال سے کوئی عدالتی فیصلہ نہیں آیا اور میئر بھی سبکدوش ہوگئے۔
بلدیاتی ادارے توڑے جانے کے خلاف دو سال قبل لارڈ میئر لاہور ہائیکورٹ گئے تھے،ابھی فیصلہ نہیں ہوا اور سپریم کورٹ میں چند ماہ قبل کسی اور کیس میں پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی معطلی کا معاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ کے زیر غور آیا۔
معاملے کی اہمیت محسوس کرکے انھوں نے چیف جسٹس سے بینچ بنانے کی استدعا کی تو چیف جسٹس گلزار حمد نے عوام کے حقوق سلب کیے جانے پر اپنی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنایا تھا جس نے گزشتہ ماہ فیصلہ سنا کر پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم دیا تھا اور پنجاب حکومت کو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا تھا جس پر ملک بھر میں اور خصوصاً پنجاب میں اظہار مسرت کیا گیا تھا مگر وزیر اعظم اور پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا اور مختلف بہانوں سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کیا جا رہا جس پر مایوس ہو کر عوام کے منتخب نمایندوں نے 6 اپریل کو بلدیہ عظمیٰ لاہور کے دفتر میں جانا چاہا تو ان پر ٹاؤن ہال کے دروازے بند کرا دیے گئے تو انھیں لان میں اجلاس منعقد کرکے سپریم کورٹ سے اپیل کرنا پڑی کہ وہ فیصلے پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر فیصلہ آتے ہی نواز شریف کا اقتدار ختم ہو گیا تھا مگر عوام حیران ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی پر جشن منانے والی پی ٹی آئی اب خود اقتدار میں ہے تو دوسرا ماہ شروع ہو جانے پر حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں کرا رہی اور آئین کی مسلسل خلاف ورزی کے بعد عدالتی حکم کی انحرافی کیوں کی جا رہی ہے؟ اور ملک بھر میں آئین کے آرٹیکل پر عمل کیوں نہیں ہو رہا؟